جس طرح متعصب ہندوؤں کواقلیتوں کے خلاف نریندرمودی کے دوراقتدارمیں طاقت میسر آئی ہے ،اس نے بھارتی سماج کو بدترین شکست و ریخت سے دوچارکردیاہے اور مودی سرکار نے دنیاکی سب سے بڑی جمہوری طاقت کے نام نہاددعوے کو خاک میں ملاکررکھ دیاہے۔آزادی کے بعدبھارت کے قومی رہنماؤں نے ملک کوانتشاروافتراق سے نجات دلانے کیلئے کثرت میں وحدت کانظریہ عام کیاتھا۔یہ ملک ہزاروں سال سے کئی تہذیبوں،کئی مذاہب اورکئی زبانوں کا گہوارہ رہاہے۔
یہ حقیقت پیش نظررکھتے ہوئے ایک تکثیری سماج پرایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جس سے یہ تاثرابھرتاہےکہ صدیوں پرانی تہذیب وتمدن کوہزارطاقت سے ہی سہی ملک کے عوام پرمسلط کرنے کی ساری تیاریاں کرلی گئی ہیں ۔تکثیری معاشرے کے خواب کی تعبیربھارتیوں کی نظروں سے دورہوتی جارہی ہے۔
۲۰۱۴ءکے انتخابی نتائج کے بعدجس پارٹی کوسنگھاسن پرقبضہ کرنے کاموقع ملا اس کے سرپرست اورحواری سینہ ٹھونک کریہ کہہ رہے ہیں کہ آٹھ سوسال کے بعدملک میں ہندوراج قائم ہواہے۔سوال یہ ہے کہ ۱۵/اگست۱۹۴۷ءکے بعد سے جو پارٹیاں برسراقتدارآتی رہیں کیاان کاتعلق کسی بیرونی ملک سے تھااورآیاانہوں نے ملک کے دستوراورقانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی مرضی کی حکومت چلائی؟؟بات دراصل یہ ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے ذات پات اورمذہب کاسہارالیاجاتاہے۔آج ہندتواکی گونج پھرسے زورشورکے ساتھ سنائی دے رہی ہے۔
گجرات اورہماچل پردیش اسمبلی الیکشن میں حکمران جماعت بی جے پی نے دھونس دھاندلی سے فتح حاصل کرلی ہے۔ بھارتی میڈیاکے مطابق بی جے پی نے گجرات کی۱۸۲رکنی اسمبلی میں۹۹نشستیں حاصل کیں جبکہ کانگرس نے۷۷ سیٹیں جیتی ہیں۔اس انتخاب میں الیکشن کمیشن سمیت پوری سرکاری مشینری ساتھ ہونے کے باوجودبی جے پی کوکانگرس نے سخت ٹائم دیاجس کے باعث مودی کوایک دن کئی کئی ریلیوں کی قیادت کرناپڑی۔ ہماچل پردیش کی۶۸رکنی اسمبلی میں بی جے پی۴۴سیٹیں بڑی مشکل سے جیت پائی لیکن اس کے ریاستی صدر ستپال سنگھ ستی الیکشن ہارگئے اوروزیر اعلیٰ کے عہدے کے امیدوارپریم کماردھومل بھی سوجان پورسے نشست کھوبیٹھے۔ان بڑی ناکامیوں کے بعدمودی اب شکست کے دہانے پرہیں جہاں مخالفین ان کی جماعت کے اقتدارکے راستے میں دیواربن کرسامنے آچکے ہیں۔
گجرات جوآرایس ایس کی لیبارٹری کی حیثیت سے مشہورہے،بھارتی وزیراعظم ۲۰۱۴ءکے الیکشن کے دوران گجرات ماڈل کی بہت باتیں کرتے تھے اوریہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ سارے ملک میں اب گجرات ماڈل پرعمل کیاجائے گالیکن اب گجرات میں بی جے پی کواندازہ ہوگیاکہ ان کے پیروں سے زمین تیزی سے کھسکتی جارہی ہے۔گجرات کاتاجر طبقہ کھوٹ بندی اورجی ایس ٹی کے نفاذسے پہلے ہی برسراقتدارپارٹی سے ناراض تھا، اب پائیدارتحریک کے لیڈرباروک پٹیل نے گجرات اسمبلی میں کانگرس کی حمائت کااعلان کرکے بی جے پی کیلئے زمین مزید تنگ کردی ہے۔اب گجرات ماڈل کی ترقی کی باتیں عوام کیلئے مضحکہ خیزبنتی جارہی ہیں۔گجرات کے وزیراعلیٰ وجے روپانی کوئی کرشماتی شخصیت نہیں ہیں لیکن مودی بھی گجراتی عوام کیلئے کوئی پرکشش شخصیت نہیں رہے۔ایک طویل عرصے تک گجرات کے چیف منسٹررہ کر بھی انہوں نے ریاست کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے بلکہ ۲۰۰۲ءکے بدترین مسلم کش فسادات کے ذمہ دارکی حیثیت سے ان کانام تاریخ میں سیاہ لفظوں میں لکھاجا چکا ہے۔آج
عدالتیں انہیں کتنی ہی کلین چٹ دیں لیکن کل کا مؤرخ گجرات کے ہولناک فسادات کیلئے انہیں معاف نہیں کرے گااوربحیثیت سربراہ ریاست ان
کاجورول رہاہے،ان فسادات کی لعنت کاطوق ان کے گلے کاہاراوراس بہیمانہ ظلم و ستم کی کالک ہمیشہ ان کے منہ پرسجی رہے گی۔
گجرات کی ترقی کی باتیں عوام اورکارکنوں کوخوش کرنے کیلئے بی جے پی کے ہرلیڈرنے کیں لیکن حقائق کی بنیادپر اعدادو شمارکی روشنی میں جب گجرات کی ترقی کے پیمانے کوجانچا گیا تویہ حقیقت سامنے آئی کہ ترقی کے معاملے میں گجرات ملک کی کئی ریاستوں سے پیچھے ہے۔بی جے پی کی ایک دستاویزمیں دعویٰ کیاگیاکہ گجرات صحت کے معاملے میں ملک میں سب سے آگے ہے ،یہاں سب سے زیادہ صحت مندبچے ہیں اورجملہ آبادی کے ۷۷.۳۸فیصدبچے تغذیہ کی کمی کاشکارہیں لیکن جب تحقیق کی گئی تومعلوم ہواکہ بہار،دہلی، آندھراپردیش،راجستھان اورہریانہ سے گجرات کی حالت بہترہے ،پھرکس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ سارے ملک میں گجرات صحت کے معاملے میں سرفہرست ہے ۔عوام کاکوئی طبقہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔پائیدارطبقے کے علاوہ پسماندہ طبقات اوردلت بی جے پی سے نہ صرف ناراض بلکہ نفرت کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے تعلق سے متعلق بی جے پی نے۲۰۱۴ءکے الیکشن کے موقع پریہ کہہ دیاتھاکہ انہیں مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ یوپی اوربہارمیں بھی بی جے پی لیڈر اپنے اس مؤقف پرقائم رہے۔انہوں نے کسی مسلم امیدوارکوٹکٹ نہیں دیالیکن گجرات الیکشن سے پہلے مسلمانوں کورجھانے کی کوشش کی جارہی ہے چنانچہ ایک ساش کے تحت مسلمانوں کورائے دہی سے دوررکھنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔اس کیلئے مبینہ طورپرگجرات کے مسلمانوں کو اجمیر کی مفت زیارت کی پیشکش کی تاکہ عام مسلمان الیکشن کے ہنگاموں سے دورہوکراجمیرکی زیارت کونکل جائیں اوربی جے پی ان کے ووٹوں کواپنے حق میں بھرپورطریقے سے استعمال کرسکے۔
بابری مسجدکے مسئلے کوبھی اس لئے تازہ کردیاگیا،آرٹ آف لیونگ کے سربراہ سری سری اوروسیم رضوی کوشایدیہی ذمہ داری دے دی گئی کہ وہ روزانہ اس معاملے پرلب کشائی کرتے رہیں۔بی جے پی کیلئے گجرات الیکشن سیمی فائنل کی حیثیت رکھتاہے اگروہاں وہ پھرسے اقتدارپرواپس آتی ہے تو۲۰۱۹ءکے الیکشن میں اس کیلئے کچھ ماحول سازگارہوسکتاہے کیونکہ ملک کی دیگرسیاسی جماعتیں گجرات کے اس الیکشن کوبغوردیکھ رہی ہیں جبکہ بی جے پی کی حلیف جماعتیں بھی اس کا ساتھ چھوڑتی جارہی ہیں۔یوں توبی جے پی نے اپنی تنظیموں سے سروے بھی کروالیاہے کہ اس مرتبہ پھران کیلئے گجرات کامیدان صاف ہے اورکانگرس اپنی تمامترکوششوں کے باوجودگجرات کا اقتدارحاصل کرنے میں ناکام رہے گی لیکن یہ بھی یادرہے کہ یہ تمام سروے خودبی جے پی کے اپنے قریبی دوستوں کے ہیںجومودی اورامیت شاہ کوخوش کرنے کیلئے تیار کروائے گئے ہیں لیکن جمہوریت میں عوام کے مزاج کوقبل ازوقت پڑھناہمیشہ سے مشکل رہاہے۔عوام کب اپنی رائے بدل دیں ،یہ نہیں کہاجاسکتا۔مسئلہ کسی ریاست میں کسی پارٹی کے برسراقتدارآنے یانہ آنے کانہیں ہے، بات یہ ہے کہ محض حصول اقتدارکیلئے ملک کوکتناکھوکھلاکیاجارہاہے،یہ صورت حال یقیناً خطرناک بھی ہے اورپریشان کن بھی۔
جب کوئی پارٹی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کومختلف مصائب میں مبتلاکرکے اپنے ایجنڈے کی تکمیل چاہتی ہے تویہ ملک کی ترقی کی علامت نہیں ہے۔پارٹی یاذاتی مفاد کی خاطرملک کے عظیم ترمفادات کوداؤپرلگادیناکسی بھی طور پرملک کی خدمت قرارنہیں دی جاسکتی۔ملک کی روایتی رواداری آج ختم ہوتی جارہی ہے ۔تنقیدبرداشت نہیں کی جارہی اورصحافت کے کیااصول ہوں اس کادرس حکومت کے ایوانوں میں دیاجا رہاہے۔۔ملکی سیاست کواس قدرآلودہ کردیاگیا ہے کہ اب مسلمان صرف مسلمان کواورہندوصرف ہندوکو ووٹ دینا چاہتا ہے اوراس کی تماترذمہ داری بی جے پی کے یکطرفہ اورمتعصبانہ روّیہ ہے۔ تاریخی مقامات کوبیرونی حملہ آوروں کی نشانیاں قراردیکرانہیں منہدم کرنے کا متعصبانہ بیانات جاری کرکے اپنے ہندوووٹرکوبیوقوف بنایاجارہاہے۔کیابی جے پی کی حکومت ”تاج محل”کوسیاحوں کیلئے بندکرکے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے انکارکرکے اپنے اخلاص کاثبوت دے سکتی ہے؟آئندہ کیلئے دہلی کے لال قلعے میں کسی بھی سرکاری تقریب کے انعقادسے انکارکااعلان کرنے سے انہیں بھلاکس نے روک رکھاہے؟سوال یہ ہے کہ آیا اب یہی مسائل رہ گئے ہیں جس پرعوام کی توجہ مرکوزکرکے انہیں حقیقی مسائل پرغورو فکرکرنے کابھی موقع نہیں دیا جارہا؟
نریندرمودی نے اپنے جلسوں میں پاکستان کے خلاف انتہائی بھونڈاالزام عائدکیا ہے۔اس سازش میں اپنی مخالف جماعت کانگرس اورپاکستان کے بعض ایسے زعماء پرالزامات کی بوچھاڑکی ہے جن پرخودبھارت میں معمولی فہم کامالک بھی انگلی نہیں اٹھاسکتا۔سابق پاکستانی وزیرخارجہ خورشید محمودقصوری بھارت کے بعض سنجیدہ فکررہنماؤں کی ایک ضیافت میں گئے تومودی نے الزام لگایاکہ اس ضیافت میں ان کی حکومت کے خلاف سازش کرکے انہیں گجرات کے الیکشن میں شکست سے دوچارکرنے کامنصوبہ بنایاگیاجبکہ قصوری صاحب نے اسے مستردکرتے ہوئے کہاکہ کیا ضیافت میں شریک من موہن سنگھ اور دیگرسیاسی رہنماء بھی اس سازش میں شریک ہیں؟مودی کے اس بیہودہ الزام کا پاکستانی وزارتِ خارجہ نے بھی نوٹس لیتے ہوئے جواب دیاکہ مودی سرکار اور اس کے ذمہ داروںکو اپنے معاملات میں پاکستانی سازش دیکھنے کی بجائے یہ معاملات خودحل کرنے پرتوجہ مبذول کریں اوربھارت میں بسنے والی اقلیتوں سے تعصبات کاروّیہ ترک کرکے جمہوری روّیے پرتوجہ دیں۔
بھارتی صوبہ گجرات کے انتخابات کی مہم کے بعدبھی بی جے پی کااقتدارسنگین خطرات سے دوچارہے اورتین گجراتی نوجوان بی جے پی کے ۲۲سالہ اقتدارکو زمین بوس کرتے نظرآرہے ہیں ۔ ان نوجوانوں میں ایک کم عمرباروک پٹیل ہے ۔پائیدارانامت اندولن سمتی(پی اے اے ایس….. (پاس)…..)کے کنوینرباروک پٹیل کوسیاست کے میدان سے الگ کرنے کیلئے بی جے پی بزرجمہروں نے اس کو جنسی سکینڈل میں ملوث کرنے کی سازش کی۔اس کی شبیہ کے حامل نوجوان کی تین غیراخلاقی سی ڈیزجای کیں اوراگلے روزبھڑوج کے ایک موضع میں لگ بھگ دس ہزارلوگ جمع ہوئے۔ لوگ دیکھناچاہتے تھے کہ۲۴سالہ نوجوان سی ڈیزکی تشہیرکے بعدکیاردّعمل ظاہرکرتاہے جیسے ہی باروک کی گاڑیوں کاقافلہ جلسہ گاہ پہنچا، پٹیل کمیونٹی کی۱۰لڑکیوں نے باروک کے ماتھے پرتلک لگاتے ہوئے اس کااستقبال کیاجواس بات کاواضح اشارہ تھاکہ بی جے پی کی یہ گھناؤنی سازش دم توڑگئی ہے اورباروک کااپنی کیمونٹی سے رشتہ انتہائی مضبوط ہے۔ باروک نے اپنی تقریرمیں بی جے پی کے کردار وعمل کی تفصیلات بتاتے ہوئے ایسی دھجیاں اڑائیں کہ سارمجمع اچھل پڑا،یہ چال الٹی پڑگئی اورباروک کی مقبولیت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگیااوریوں وہ اب اپنی کیمونٹی کا ہیروبن گیاہے۔
چندروزبعدباروک نے کانگرس کے ساتھ اتحادکااعلان کردیاکیونکہ کانگرس نے ان کے کلیدی مطالبات مان لئے مثلاً پٹیل کیمونٹی کیلئے ریزرویشن، احمدآبادمیں۲۵/اگست۲۰۱۵ء کی ریلی کے بعدسے پٹیل برادری پرمظالم کی تحقیقات کیلئے کمیشن کاقیام،بی جے پی کاسب سے بڑاانتخابی دردِ سربن
جانابلاشبہ گجرات الیکشن کی سب سے بڑی کہانی ہے لیکن معاملہ تنہاباروک پٹیل تک محدودنہیں ہے،دودیگر سیاسی چیلنجزنے بی جے پی کیلئے مزید مشکلات یقینی بنائے رکھیں۔دو دیگرگجرانی نوجوانوں(اپیش ٹھاکور،جنیش میواتی)دہشتگردمودی کیلئے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں۔چالیس سالہ اپیش ٹھاکور کمیونٹی لیڈر ہے،اس نے اکتوبر میں کانگرس میں شمولیت اختیارکی تھی۔وہ ضلع پٹن میں رادھن پورسیب الیکشن لڑا۔ ۲۶سالہ جنیش میواتی ایک دلت لیڈرہے،وہ اسمبلی کے حلقہ وڈکام سے آزاد امیدوارکی حیثیت سے انتخابی میدان میں اترا،اس کی حمائت میں کانگرس نے کوئی امیدوار کھڑانہیں کیا۔تینوں نوجوانوں کی تثلیث کانگرس کیلئے انتہائی بروقت سہارااوربی جے پی کیلئے سوہان روح بن چکی ہے۔
گزشتہ اسمبلی انتخابات منعقدہ ۲۰۱۲ء میں بی جے پی اورکانگرس کے درمیان حاصل شدہ ووٹوں کے تناسب کافرق دس فیصدتھا۔بی جے پی نے۴۸٪اورکانگرس نے۳۸٪ووٹ حاصل کیے تھے۔بی جے پی کی۱۱۵نشستوں والی کامیابی کئی حلقوں میں کانٹے دارمقابلے کے بعدریکارڈ ہوئی تھی جہاں اس نے محض پانچ ہزاریااس سے کم ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔بی جے پی کی کامیابی کیلئے ایک اورپریشانی یہ ہے کہ کانگرس پارلیمانی انتخابات میں متواترپانچ بار شکست سے دوچارہونے کے باوجودبیباک حریف کے طورپرڈٹی رہی۔ اس کے ووٹ کاتناسب بھی۳۴ ٪سے
کمترنہیں ہوا۔
مودی کے انتخابی جلسوں سے عوام کی بیزاری اورجلسہ گاہ میں خالی کرسیوں کے نظارے میڈیامیں ان کی تذلیل وتضحیک کاموضوع بنے ہوئے ہیں ۔ اگرچہ بی جے پی نے دھاندلی اوراداروں کی مددسے میدان مارلیاہے لیکن ایسی بھلاکامیابی بھی کس کام کی جہاں کامیاب ہونے کے بعدبھی شکست و ریخت کاساعالم رہے۔ مودی کوموجودہ جیت پرہزیمت کا سامناہے کہ اس کے ریاستی صدر ستیال سنگھ ستی اورپریم کماردھومل بھی ریت کی دیوارکی طرح بری طرح زمین بوس ہو گئے اورپھروہ وقت دورنہیں جب گجرات کے عوام بی جے پی سے متنفرہوکر مودی کو شکست سے نہ صرف ہمکنار کریں گے بلکہ گجرات کے بیگناہ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے اس قصاب کی سیاسی ارتھی خودان کے عوام کے ہاتھوں بڑی دھوم دھام سے اٹھےگی۔
Load/Hide Comments