چلواپنے رب کی طرف

:Share

جب کبھی ٹی وی آن کریں’کسی بھی چینل کانمبر دبائیں’یاکوئی اخباراٹھائیں توہرطرف سسکتی دم توڑتی انسانیت کے روح فرسامناظردکھائی دیتے اور پڑھنے کوملتے ہیں۔کہیں کسی خودکش حملے میں لاشوں کے انبارپڑے ہوئے ہیں’کہیں جنگوں میں بمباری سے ان گنت انسان موت کی آغوش میں دھکیل دیے جانے کی خبرسے دل دہل کررہ جاتاہے۔کہیں قحط سے لوگ مررہے ہیں اورکہیں سمندری یلغار یاسیلابی ریلے انسانوںکوبہاکرموت کی گمنام وادی میں اتاررہے ہیں۔رہی سہی کسر دنیامیں ظالم ومظلوم کی کشمکش پوری کررہی ہے۔فلسطین کوجہاں صفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے یہود کوشش کررہا ہے وہاں کشمیرکوہنودہضم کرکے باقی ماندہ پاکستان کوختم کرنے کے درپے ہے۔دنیاکاظالم تریں سرخ ریچھ روس جس کے دانت لاکھوں افغانوں کی شہادت نے کھٹے کئے وہاں اب مزیدظلم وستم ڈھانے کیلئے قصرسفیدکافرعون قبضہ جمائے بیٹھاہے۔وہاں کے باسی پچھلے تیس سالوں سے مسلسل آج بھی مختلف خیموں میںگرمی سردی ‘بھوک وافلاس برداشت کررہے ہیں۔ہزاروں میل دوربیٹھے فرعون کونجانے کیاسوجھی کہ عراق میں دنیاکی تباہی کے ہتھیاراس کونظر آگئے اوراس نے آن کی آن میں عراق کی بستیوں کوایساتاراج کردیا کہ اب اس کودوبارہ اصلی حالت میں لانے کیلئے اک عمردرکارہوگی۔
دنیاکے طول وعرض میں کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں خون کی ہولی نہ کھیلی جارہی ہو۔وہ اسلامی ممالک جوکہ دولت کے لحاظ سے دنیاکی غربت و افلاس ختم کرسکتے ہیں ان کے خزانوں کااستعمال بھی اغیارکے ہاتھوں میں ہے اوروہ اس دولت کوانسانی فلاح کی بجائے اسلحے کے بڑے بڑے کارخانوں میں کھپاکر انسانیت کی ہلاکت کاساماں تیار کررہے ہیں اوریہی ممالک جوکہ دنیاوی ترقی کی معراج پرہیںآج اپنی ہی تہذیب اورسوسائٹی سے اس قدرنالاں ہیں کہ ان کی سمجھ میں اصلاح کی کوئی تدبیرنہیں آرہی’آخریہ کیوں ہے؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کاجواب ہرکوئی چاہتا ہے۔ دنیاکی حیرت انگیزترقی ‘دولت کی ریل پیل ‘حیرت انگیزوسائل رکھنے کے باوجوددنیاکے دانشورآج بے بس اورمجبورکیوں نظرآرہے ہیں’آخر کیوں ؟
جب ہم اپنے اسلاف کی طرف دیکھتے ہیں تومعاملہ اس کے برعکس نظرآتاہے۔اس زمانے میں اگرتندوتیزہوایاآندھی چل پڑے تولوگ دیوانہ وارمساجدکی طرف دوڑتے تھے کہ مباداقیامت کانزول ہونے والا ہے ۔صحابہ کرام کی پوری جماعت اس عالم میں اللہ کے حضورگڑگڑاکر اپنی مغفرت کی دعائیں کرتی تھی اوراللہ کی رحمت کی طالب ہوتی تھی۔رحمت دوعالمۖکارخ انوربھی ان مواقع پرکبھی سفیداورکبھی پیلاہوجاتاتھالیکن آج زلزلوںکی تباہی’سمندروں کے طوفان’قحط کاعذاب اورخانہ جنگیوں کی تباہ کاریاں بھی ہمارے دلوںمیں ذراسی جنبش پیدانہیں کرتیں۔
عملی زندگی میں جس طرح پولیس والے کی اچانک دستک ہمیں بدحواس کردیتی ہے’ناکردہ گناہوں کی صفائی میں کہے جانے والے الفاظ ہمارے ذہنوں سے سفرکرکے زبان کی نوک پرآجاتے ہیں’کیاان تمام ناگہانی آفتوں پرجویقیناً ہمارے اپنے ہی اعمال کی سزاہیں’ان کی صفائی میں کہے جانے والے الفاظ کانزول اپنے دل ودماغ پرہوتے ہوئے دیکھاہے؟اورپھراپنی زبان سے آئندہ اعتراف کرکے تائب ہونے کی کوشش کی ہے؟اگر ایمانداری سے اس کاجواب تلاش کیاجائے تویقیناًنفی میں ہوگاکیونکہ آج ہمارادل خوفِ خداسے خالی اوردنیاکے خوف کی آماجگاہ بناہواہے ۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں خوف ایک دل میں کبھی یکجا نہیں رہ سکتے۔ایک خوف اندرآتاہے تو دوسراخوف چپکے سے نکل جاتاہے۔مقامِ حیرت تویہ ہے کہ پہاڑ جیسافرق ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا لیکن دنیاوی دولت یاعزت وحشمت میں بال برابربھی فرق آن پڑے تواس کافوری نوٹس لیاجاتاہے اوراس کیلئے پوری توانائیاں صرف کردی جاتی ہیں۔ اس کابھرپورعلاج تلاش کرکے پھراس پرپوری ثابت قدمی سے عمل کیاجاتاہے لیکن صدحیف!!!
روزانہ ہم قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتے ہیں’احادیث اورتاریخی اسلامی کتب بھی زیرِمطالعہ رہتی ہیں لیکن اس کے باوجودجسم کے اندرچھوٹاسا لوتھڑا(دل)جوکہ پہاڑوں کوتسخیر کرنے کی قوت رکھتاہے اس پرقرآن واحادیث کاکوئی اثرنہیں ہوتا۔ہم میں سے بیشترحضرات نے رسول اکرمۖکااپنے جفاکش اوروفاکیش صحابہ سے یہ خطاب یقیناًپڑھاہوگاکہ:
“خدائے ذوالجلال جب قیامت کے دن اپنے تخت پربراجمان ہوں گے تو آدم علیہ السلام سے کہیں گے کہ ناری گروہ کوبھیجوتوآدم علیہ السلام کہیں گے کہ خداوندا….. ناری گروہ کون ہے؟ارشادہوگا’ہزارمیں سے نوسوننانوے(۹۹۹)جہنم میں جھونکے جائیں گے اورجنت میں صرف ایک!
اس خطاب کے بعداجتماع میں آنسوؤں اورہچکیوں کازلزلہ برپاہوگیاتھالیکن شائدہم ان کوکوئی دوسری نسل سمجھتے ہیں ۔وہ لوگ سب کچھ کرکے اس خوف سے روتے تھے کہ ہزارمیں سے ایک کابھی شرف حاصل ہوسکے گانہیں!ان کے دلوں کوقران کی ایک آیت تہہ وبالاکردیتی تھی’لیکن ہمارے دلوں کوپوراقرآن بھی ٹس سے مس نہیں کرتا’کتناہولناک فرق ہے جوآج اسلاف اوراخلاف کے دلوں میں پیداہوگیاہے۔ستم ظریفی تویہ ہے کہ ہزارسمجھانے کے بعد بھی اگریہ فرق ہماری سمجھ میں آبھی جاتا ہے تودل اس کوقبول کرنے کیلئے تیارنہیں ہوتا۔
شقیاالاصبحی جوکہ اسلاف کی ایک نشانی ہیں ‘مدینے میں انسانوں کاایک جم غفیر دیکھ کراس معاملہ کی تہہ کی جونہی کوشش کرتے ہیں توکیادیکھتے ہیں کہ لوگوں نے ایک عاشق رسولۖ کواپنے حصارمیں لیاہے اور حدیث سننے کی درخواست کررہے ہیں توجواب میں ان کے ہونٹوں اور جسم پرایک لرزہ طاری ہوجاتاہے اوردردناک چیخ مارکربے ہوش ہو جاتے ہیں۔تین بارکوشش کی لیکن زبان نے خوفِ خداکی وجہ سے ساتھ نہ دیا۔جب غشی کی حالت ختم ہوگئی توفرمایا:
ایک ایسی حدیث سناتاہوں جواسی گھرمیں رسول اکرمۖکے منہ سے سنی تھی۔”قیامت کے روزجب خدابندوں کے فیصلے کیلئے اترے گاتو سب سے پہلے تین اشخاص طلب کئے جائیں گے’ ایک قاری’دوسرا دولت مند اورتیسراشہید!خداقاری سے پوچھے گاکہ کیاہم نے تجھے قرآن نہیں سکھایا’ اس پرتونے کیاعمل کیا؟قاری جواب میں دن رات قرآن کی تلاوت کاذکرکرے گاتوخدااس سے فرمائے گاکہ توجھوٹ کہتاہے ‘تم نے یہ سب لوگوں کیلئے کیا تاکہ تم کوقاری کہیں۔اسی طرح دولت منداپنی سخاوت کااورشہیداپنی جان کی قربانی کاذکرکرے گاتوجواب میں رب ذوالجلال ان کوبھی جھوٹ سے تشبیہ دے کردنیاکے دکھلاوے کاعمل کہے گااوریہ کہہ کررسول اکرمۖنے میرے زانوپرہاتھ ماراکہ اللہ تعالیٰ حکم صادر کریں گے کہ ان کومنہ کے بل گھسیٹ کرجہنم میں دھکیل دو اورسب سے پہلے جہنم کی آگ ان پر ہی شعلہ زن ہوگی”۔
پھرجس طرح حدیث سنانے والے کی (حضرت ابوہریرہ)کی چیخیں لوگوں نے نکلتی ہوئی دیکھیں یہی عالم سارے مجمع کاہوا۔ہمارے اسلاف پیکر اخلاص تھے اورہم اس سے کوسوں دور!وہ ریاکاری کے خوف اوراس کے لرزہ خیزانجام سے لرزہ براندام تھے’ہم دنیاداری کودین وایمان سمجھ کر بڑے اطمینان سے بیٹھے ہیں ۔شائدیہی وجہ ہے کہ دنیاکے طول وعرض میں مختلف حادثات کوپڑھ کرہم محض اس لئے مطمئن ہیں کہ ہم اس کاشکار نہیں ہوئے حالانکہ دل کی اسی بے حسی اوربدلتی ہوئی کیفیت نے توثابت کردیاہے کہ ہم جوبرسوں سے انحطاط کاشکارہیں اس کی وجہ ہمارایہی عارضی قلبی اطمینان ہے۔مومن اورمسلمان کے دل میں توایک تڑپ رہتی ہے جواس کوہرپل بے چین رکھتی ہے۔دنیامیں خدااوررسول کے احکام کی روگردانی اس سے برداشت نہیں ہوتی۔اس ساری سوسائٹی و تہذیب کے دھارے کوتبدیل کرنے کی کوشش میں اپنی پوری زندگی کھپادیتاہے۔ لوگوں کے دلوںکواپنے رب سے جوڑتاہے۔رسول اکرمۖ کی تعلیمات کوشب وروزدہراتاہے۔صحابہ کی زندگیوں کو سامنے رکھ کرروزانہ کے اعمال کاہرروزسونے سے پہلے محاسبہ کرتاہے۔اگرہماری بھی یہ کیفیت ہوجائے تویقین کے ساتھ یہ امیدرکھی جاسکتی ہے کہ وہ سوال(جن کے جواب آج کل کے دانشوربھی)تلاش نہیں کرسکے ہمارے صالح اعمال کودیکھ کربے ساختہ پکاراٹھیں گے کہ ہروزناگہانی آفتوں کاجواب صرف اور صرف یہ ہے اوردم توڑتی ہوئی انسانیت کواگرزندگی ملک سکتی ہے توصرف اسی ایک راستے پرچل کر۔اس کیلئے ہم میں سے ہرشخص خداکے ہاں جوابدہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں اللہ کے احکام کواس دنیامیں نافذکرنے میں کتناجان ومال صرف کیا؟
آئیے آج ہم سب یہ عہدکریں کہ آپس کی گروہ بندیاں،تفرقے بازی اورفروعی اختلافات کوپس پشت ڈال کر اپنے دلوں کوخوفِ خداسے آراستہ کریں گے تاکہ عقبیٰ وآخرت کی نجات ہوسکے ۔ثم آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں