Sami-Ullah-Malik-3

تم لوگ منافق ہو

:Share

امریکاماضی میں کئی بار کہہ چکا ہے کہ انڈیا اس کا سٹریٹجک اتحادی ہے اورامریکی خارجہ پالیسی میں اس کی اپنی اہمیت ہے۔ ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں چین اورامریکااپنے اپنے تسلط کیلئے مگن ہیں۔اس لحاظ سے بھی انڈیاامریکاکیلئے بہت اہمیت کاحامل ہے۔ماہرین کایہ بھی مانناہے کہ ایشیاپیسفک خطے میں طاقت کے توازن کوبرقراررکھنے میں انڈیاکااہم کردارہے۔امریکااور چین کے درمیان کئی معاملات پرتناؤہے۔ان میں سب سے نمایاں تائیوان ہے ۔امریکانے واضح کیاہے کہ اگرچین نے مستقبل میں فوجی طاقت کااستعمال کرتے ہوئے تائیوان کواپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تووہ تائیوان کے ساتھ کھڑاہوگا۔

اس کے علاوہ اوربھی کئی وجوہات ہیں،جن کی وجہ سے ایرک گارسیٹی کی منظوری پھنسی ہوئی ہے۔سینیٹ میں تقسیم شدہ مینڈیٹ کے ساتھ بہت سارے کام ابھی زیرالتواہیں۔کسی بھی تجویزپراتفاق رائے نہیں ہے۔یہ بھی کہاجارہاہے کہ اس وقت امریکاکی ساری توجہ یوکرین میں روس پرحملے پرمرکوزہے۔جوبائیڈن انتظامیہ ایرک گارسیٹی کوسینیٹ سے منظورکروا سکتی ہے۔دسمبرمیں وائٹ ہاس کی پریس کانفرنس میں بھی کچھ ایسااس کے علاوہ یوکرین پرروسی حملے میں چین کے رویے پرامریکاناراض ہے۔امریکانے روس کے خلاف سخت پابندیاں عائدکر رکھی ہیں اورروس کوچین سے مدد مل رہی ہے ایسے میں امریکی پابندیاں زیادہ کارگرثابت نہیں ہورہی ہیں۔دوسری جانب انڈیاکو بھی سرحدپرچین کی جارحیت کاسامناہے۔اس سب کے باوجود کیاامریکی صدرجوبائیڈن انڈیاکونظرانداز کررہے ہیں؟جوبائیڈن کی نصف سے زائدمدت ختم ہوچکی ہے اورانڈیامیں ابھی تک کوئی امریکی سفیر نہیں ہے۔جنوری2021میں اس وقت کے امریکی سفیر کینتھ جسٹرنے استعفٰی کے بعداب تک بائیڈن انتظامیہ نے6/افرادکو عبوری چارج سونپالیکن کسی کومستقل سفیرمقررنہیں کیا۔700 سے زیادہ دن ہوچکے ہیں اورنئی دہلی میں امریکی سفارت خانہ بغیرسفیرکے چل رہاہے۔یہ دونوں ممالک کی سفارتی تاریخ کا طویل ترین وقت ہے۔

سرد جنگ کے دور میں بھی ایسانہیں تھا۔اہم سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ انڈیا میں عارضی بنیادوں پر سفارت خانے کو چلانے کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت امریکا انڈیا کو نظر انداز کر رہا
ہے۔اگرچہ یہ مکمل طورپربائیڈن کی غلطی نہیں ہے۔واضح رہے کہ جو بائیڈن نے جولائی2021میں لاس اینجلس کے میئرایرک گارسیٹی کوانڈیامیں سفیرکے طورپرنامزد کیا تھا لیکن ایرک گارسیٹی کی منظوری سے متعلق ہونے والی ووٹنگ کاعمل روک دیاگیاتھا۔ ایک ریپبلکن سینیٹرنے الزام عائدکیاتھاکہ ایرک گارسیٹی کاان کے ساتھی کے جنسی استحصال میں نامناسب کردارتھا،تب سے ان کی تقرری رکی ہوئی ہے۔رواں برس جنوری میں ایرک گارسیٹی کوجوبائیڈن انتظامیہ نے دوبارہ انڈیامیں سفیرکے طورپرنامزد کیاتھا۔ تقریبادوسال سے نئی دہلی میں کوئی امریکی سفیرنہیں ہے۔جومسائل سفارتخانے کی سطح پرحل ہوسکتے تھے،وہ پریس کانفرنس میں”اے میٹرآف ٹرسٹ:اے ہسٹری آف انڈیا-یوایس ریلیشن فرانس میں وزرائے خارجہ کواٹھاناپڑے۔مثال کے طور پر گدشتہ برس27ستمبرکوجے شنکرنے امریکی وزیرخارجہ کے سامنے ایک پریس کانفرنس میں ویزاکا مسئلہ اٹھایاتھا۔

مٹرومین ٹوٹرمپ کی مصنفہ میناکشی احمدنے گذشتہ ماہ20دسمبرکو نیویارک ٹائمزمیں ایک مضمون لکھاکہ”یہ تصورکرنابھی مشکل ہے کہ امریکانے گذشتہ دوبرسوں سے انڈیامیں اپنے کسی سفیرکو نہیں رکھاہے۔بائیڈن کئی بارانڈیاکواہم شراکت دارکہہ چکے ہیں،تب بھی صورتحال یہی ہے۔امریکی سفیرنے دونوں ممالک کے تعلقات میں اہم کرداراداکیاہے۔ میناکشی کے مطابق”جب چین نے1962میں انڈیاپرحملہ کیاتوامریکی سفیرجان کینتھ گالبریتھ نئی دہلی میں امریکی سفیرتھے جوجان ایف کینیڈی کے قریب تھے۔ ان کے وزیراعظم جواہرلعل نہروکیساتھ بھی اچھے تعلقات تھے۔ جنگ کے دوران کینتھ نے امریکی ہتھیاروں کی کھیپ انڈیا بھیجنے میں اہم کرداراداکیاتھا۔ان کے مطابق پہلے نہروامریکاسے مدد مانگنے میں ہچکچاتے تھے بعد ازاں نہرواورکینیڈی کے درمیان کینتھ رابطے نے بداعتمادی کوختم کرنے اوردونوں ممالک کوقریب لانے میں اہم کرداراداکیا۔1962میں امریکااور انڈیاکے گرمجوش تعلقات میں کینتھ انڈیامیں بہت مقبول ہوچکے تھے۔2021میں انڈیامیں امریکی سرمایہ کاری45بلین ڈالرتھی۔عالمی سپلائی چین میں چین کے بڑھتے ہوئے کردارپرتشویش بڑھ رہی ہے۔امریکی کمپنیاں ”مینو فیکچرنگ ہب”کوچین سے کہیں اورمنتقل کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔جے پی مورگن2025تک انڈیاسے کام شروع کرسکتا ہے،ایپل انڈیامیں25فیصدآئی فون بناسکتا ہے۔

میناکشی کاکہناہے کہ ایسے اہم وقت میں امریکی سفارت خانے کواپنی کمپنیوں کی مدد کرنی چاہیے۔میناکشی احمدنے لکھاہے کہ ”عالمی سطح پرصحت،موسمیاتی تبدیلی اورٹیکنالوجی پالیسی میں انڈیا کا ایک اہم مقام ہے۔اوباماکے دورحکومت میں انڈیامیں امریکی سفیررچرڈورمانے کہاتھاکہ پیرس ماحولیاتی معاہدے میں انڈیاکااہم کردارہے۔رچرڈو رمانے انڈیاکوامریکا کے ساتھ لانے میں اہم کردار اداکیاتھا۔دونوں ممالک کے رہنماں کے درمیان اہم ملاقاتیں ہوئیں ۔سفیردونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں ایک کڑی کا کام کرتاہے ۔ ایک بارپھرانڈیااورامریکاکے درمیان روس سے متعلق بہت سے اختلافات سامنے آئے ہیں اورایسی صورتحال میں حالات کوسنبھالادینے والاکوئی نظرنہیں تا۔کہاجاتاہے کہ انڈیا سردجنگ کے بعدسے امریکاپر کھل کر اعتمادنہیں کرتا۔یہ عدم اعتمادایک اہم عالمی صورتحال میں دونوں ممالک کے تعلقات کیلئے اچھانہیں سمجھاجاتا۔جے شنکرکئی مواقع پرامریکا سمیت پورے مغرب کاکھلے عام محاصرہ کررہے ہیں۔کہاجارہاہے کہ اگردہلی میں امریکی سفیرہوتاتو معاملات جے شنکرکی سطح تک نہ پہنچتے۔

سردجنگ کے دورمیں بھی امریکانے انڈیامیں بہترین سفیرتعینات کیے۔یہ اس وقت کی بات ہے جب انڈیانان الائنمنٹ کاحصہ تھا۔جان کینتھ گالبریتھ اورچیسٹربالز1960کی دہائی میں نئی دہلی میں انڈیاکے سفیرتھے۔امریکاکے ان دونوں سفیروں کے تعلقات نہروکے ساتھ اچھے بتائے جاتے ہیں۔ روس سے تاریخی قربت کے باوجوددونوں سفیرانڈیاکو امریکاکے قریب لے جانے میں کامیاب رہے۔انڈیامیں سابق امریکی سفیر کینتھ جسٹرنے گذشتہ برس اکتوبرمیں دی پرنٹ کوبتایاکہ”روایت کے مطابق میں نے گارسیٹی سے بات کی۔وہ بہت ذہین،باشعوراور تواناہیں۔وہ انڈیامیں ایک بہترین سفیر ثابت ہوں گے۔میرامانناہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات اعلی سطح پرمضبوط سفیرکے بغیرممکن نہیں۔ان کے مطابق دونوں ملک وزارت خارجہ کی سطح پرہرمسئلہ حل نہیں کرسکتے۔سفیرکاہونابہت ضروری ہے۔

میناکشی احمدنے اپنے مضمون میں مزیدلکھاکہ اپریل1977میں اس وقت کے صدرجمی کارٹرنے پرنسٹن یونیورسٹی کے صدررابرٹ گوہین کوانڈیاکا سفیرمقررکیا۔رابرٹ گوہین انڈیا میں پیدا ہوئے۔اندراگاندھی نے جون1975سے مارچ1977تک انڈیامیں ایمرجنسی نافذکی۔آئین کے تمام حقوق واپس لے لیے گئے اوراپوزیشن رہنماؤں کوجیلوں میں ڈال دیاگیا۔میڈیابھی خاموش ہوگیا۔رابرٹ گوہین نے اندراگاندھی کے اس تجربے کواچھی طرح سمجھا۔ایک سفیراس ملک کی ملکی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں پربھی نظررکھتا ہے۔امریکی سفیرکی عدم موجودگی نئی دہلی حکومت کوبھی پسندآئی ہوگی۔نئی دہلی نے اپنی گھریلوسیاست میں بہت سی چیزوں سے لاتعلق رہناآسان سمجھاہوگا۔ہندوستان ٹائمزکی رپورٹ کے مطابق ایرک گارسیٹی کئی بارانڈیاآچکے ہیں اورانہوں نے ہندی اوراردوکامطالعہ بھی کیاہے۔انہوں نے ریپبلکن رکن پارلیمنٹ کی طرف سے لگائے گئے الزامات کوبھی مستردکردیاہے۔

روس کے وزیرخارجہ سرگئی لیوروف نے کہاہے کہ انڈیانہ صرف قدرتی طورپرکثیرالقطبی دنیا(ملٹی پولرورلڈ)کاایک اہم ملک بننے کی صلاحیت رکھتاہے بلکہ یہ کثیر القطبی دنیابنانے میں بھی مرکزی حیثیت رکھتاہے۔اس سے قبل لیوروف نے حال ہی میں یوکرین کے خلاف جنگ پرانڈیاکے مؤقف کو متوازن قراردیاتھااورانڈین خارجہ پالیسی کی تعریف کی تھی۔اب انہوں نے پریماکوف ریڈنگز انٹرنیشنل فورم میں انڈیاکی خارجہ پالیسی کی تعریف کی ہے اوراسے کثیرالقطبی عالمی دنیامیں ایک دعویدارقراردیاہے۔روسی وزیر خارجہ نے کہاکہ مغربی ممالک تسلط کے عالمی نظام کوترک نہیں کرناچاہتے۔وہ کثیرالقطبی نظام(ملٹی پولرورلڈآرڈر)کی حقیقت کو قبول نہیں کرناچاہتے۔

یہ واضح ہے کہ نئی قوتیں امریکاکی قیادت میں ورلڈآرڈرکوقبول کرنے کیلئے تیارنہیں ہیں لیکن مغربی ممالک زبردستی اس نظام کوبرقراررکھناچاہتے ہیں ۔وہ پانچ دہائیوں سے چلی آ رہی اس عادت کوچھوڑنے کوتیارنہیں۔لیوروف نے جرمنی اورجاپان کے مقابلے انڈیااوربرازیل کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کامستقل رکن بنانے پراصرارکیا۔سرگئی لیوروف نے کہاکہ دونوں ممالک کثیر القطبی عالمی نظام کیلئے کوشش کررہے ہیں۔پریماکوف ایک روسی سیاستدان اورسفارت کارتھا۔وہ1998سے1999تک روس کے وزیراعظم رہے۔ اس سے پہلے وہ روس کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔1996میں بطور وزیرخارجہ انہوں نے روسی حکومت کے سامنے روس،انڈیااورچین کے اتحادپر مبنی کثیر القطبی عالمی نظام کی وکالت کی تھی۔

اس نظام کودوسری عالمی جنگ کے بعدامریکاکی طرف سے مسلط کردہ سنگل پولرورلڈآرڈرکامتبادل قراردیاگیا۔انہوں نے کہاکہ روس کواپنی امریکاپر مرکوزخارجہ پالیسی کوتبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے روس کومشورہ دیاکہ وہ انڈیااورچین کے ساتھ اپنی دوستی اورتعلقات کومضبوط کرے کہ ملٹی پولرورلڈآرڈرمیں،روس،چین اورانڈیاکااتحادان ممالک کوکچھ حدتک تحفظ فراہم کرسکے گاجومغرب کی پیروی کرنے کی بجائے اپناخودمختار راستہ اپناناچاہتے ہیں۔اپنی تقریرمیں ملٹی پولرآرڈرکاذکرکرتے ہوئے،لیوروف نے ایک بارپھرروس،انڈیااورچین کے اس اتحادپرزوردیا۔انہوں نے کہاکہ ”پریماکوف کاروس،انڈیااورچین کے اتحادکاخیال بعدمیں برکس میں تبدیل ہوگیا۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آرآئی سی اب بھی چل رہا ہے۔ اس اتحادکی بنیادپرتینوں ممالک کے وزرائے خارجہ باقاعدگی سے ملاقات کرتے ہیں۔لیوروف بطورروسی وزیرخارجہ پریما کوف کے ملٹی پولر ورلڈ آرڈر کے نظریہ کواچھی طرح سمجھتے ہیں اوروہ اس وقت اس نظام میں انڈیاکااہم کرداردیکھ رہے ہیں، مگراس کی کیاوجہ ہے؟

وہ جرمنی اور جاپان کے بجائے انڈیااوربرازیل کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کامستقل رکن بنانے پرکیوں اصرارکر رہے ہیں؟وہ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ انڈیاایک بڑی معاشی طاقت بن رہا ہے اورمستقبل میں یہ دنیاکی سب سے بڑی معیشت بن سکتاہے؟کیوں وہ ہرقسم کے مسائل کے حل میں انڈیاکے وسیع سفارتی تجربیکاحوالہ دے رہے ہیں اورایشیامیں اس کے قائدانہ کردارکی طرف توجہ مبذول کروارہے ہیں؟ان تمام سوالوں کے جواب جاننے کیلئے جواہرلعل نہرویونیورسٹی میں روس اورسینٹرل ایشین سٹڈیزکے پروفیسر سنجے کمار کا کہناہے کہ تھاکہ”لیوروف کے اس بیان کےسیاق وسباق کوسمجھنے کیلئے ہمیں تھوڑاپیچھے جاناہوگا۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب روس نے انڈین خارجہ پالیسی کی تعریف کی ہو1955 -56ور1971کے معاہدوں کے بعدسے سوویت یونین انڈیا کو انتہائی اہم ممالک کی فہرست میں رکھتاہے۔ان کے مطابق”جب غیروابستہ ممالک کی پالیسی تشکیل دی گئی تھی تب بھی سوویت یونین نے اسے تسلیم کیاتھااوراس کاخیال تھا کہ ان غیروابستہ ممالک کی ایک آزادخارجہ پالیسی ہے اورسوویت یونین کوان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے چاہیے۔

پروفیسرسنجے کمارکہتے ہیں کہ”سوویت یونین(روس اس یونین کاحصہ تھا))غیروابستہ ممالک میں بھی انڈیاکے ساتھ تعلقات کوبہتر بنانے پرزور دیتارہا۔سوویت یونین نے لیونڈالیچ کے دورمیں انڈیاکیساتھ اہم معاہدے کیے تھے۔گوکہ90کی دہائی میں روس کامغربی ممالک کی طرف جھکاؤتھا لیکن1996میں پریماکوف نے روس،انڈیااورچین کے تین ملکی اتحادآرآئی سی کے بارے میں زورشور سے بات کی۔پریماکوف روس کی آزاداور خود مختارخارجہ پالیسی کے حق میں تھے۔ایسی خارجہ پالیسی جس کامحوریوریشیاہے۔ لیکن انڈیااور چین کیساتھ بھی خصوصی تعلقات استوارکرنے پرزوردیا گیاتھا۔اب ایک بارپھرروس انڈیااورچین کے اتحاداورملٹی پولر ورلڈ آرڈرکی بات کیوں کی جارہی ہے؟لیوروف انڈیاکواس نظام کامحورکیوں سمجھتے ہیں؟

سنجے کمارپانڈے کہتے ہیں کہ”جب روس نے2014میں پہلی بارکریمیا پرحملہ کیاتوانڈیانے نہ اس کی حمایت اورنہ ہی اس کی مذمت کی کیونکہ کریمیا میں روس کے کچھ جائز سکیورٹی خدشات اور مفادات ہوسکتے ہیں۔کریمیااوراب یوکرین کے حملے تک روس نے دیکھاکہ انڈیاکی پالیسی ہمیشہ مغربی ممالک سے مختلف رہی ہے۔ان کاکہناہے کہ” انڈیا نے روس کاساتھ نہیں دیالیکن مغربی ممالک کی زبان اوراس کی پابندیوں کودیکھتے ہوئے یہ بھی کہاکہ یہ معاملہ اس طرح حل نہیں ہوگا۔مودی نے روسی صدر کے ساتھ اپنی بات چیت میں واضح طورپرکہاکہ یہ جنگ کاوقت نہیں ہے لیکن انڈیانے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف مغربی ممالک کی مذمتی تجاویزکی بھی حمایت نہیں کی۔ پروفیسرسنجے کے مطابق”اس سے روس پرواضح ہوگیاکہ مغربی ممالک کے برعکس انڈیاان معاملات میں اپنی آزادخارجہ پالیسی پرعمل پیراہے”۔یہی وجہ ہے کہ روس انڈیاکوملٹی پولر ورلڈ آرڈرمیں محورکے طورپر دیکھ رہا ہے۔

کہاجارہاہے کہ2014سے انڈیاکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے اوروہ زیادہ آزادنظرآرہی ہے؟خارجہ اورسلامتی کے امورپر رپورٹنگ کرنے والی معروف انڈین صحافی نیانیماباسواس سوال کے جواب میں کہتی ہیں ک”انڈیانے شروع سے ہی ایک آزاد خارجہ پالیسی پرعمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے اس پالیسی کونان الائنمنٹ کہاجاتاتھااوراب یہ سٹریٹجک خودمختاری کی پالیسی میں تبدیل ہو گئی ہے جبکہ حالیہ دنوں میں اس میں معمولی تبدیلی آئی ہے ۔مودی حکومت کے دورمیں انڈیاکاامریکاکی جانب واضح جھکاؤدیکھاگیاہے تاہم،قوانین پرمبنی عالمی نظام کی وکالت کااس کامؤقف برقرارہے۔ سوال یہ ہے کہ کیاانڈیا2014سے ایک آزادبیرونی ملک کوپروان چڑھانے میں کامیاب رہاہے یااسے بڑھا چڑھاکرپیش کیاجارہاہے۔

سنجے کمارپانڈے کے مطابق پہلی حکومتوں نے بھی خارجہ پالیسی کوکافی حدتک آزادرکھنے کی کوشش کی تھی لیکن کریمیااور پھریوکرین کے بحران کودیکھتے ہوئے مودی حکومت نے اپنے ملک کی خارجہ پالیسی کومزیدواضح کیاہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہونے کے باوجودمودی کازرخریدغلام میڈیاشب و روزانڈیاکی آزادخارجہ پالیسی کوبڑھاچڑھاکراس لئے پیش کررہاہے کہ آئندہ انتخابات کیلئے راہ ہموار کی جا سکے۔یہ بھی چرچا کیا جا رہا ہے کہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے باوجود انڈیا نے اس کے ساتھ چابہار منصوبے پر تعاون جاری رکھا لیکن اس پراجیکٹ پر چین کو کیسے برتری حاصل ہو گئی؟

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انڈیا نے 2016-17کے دوران شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن یعنی ایس سی او کی رکنیت حاصل کی،جبکہ اسے چین سے متاثر ایک تنظیم سمجھاجاتاہے۔دوسری طرف کواڈ میں انڈیا کی شرکت کو مغربی ممالک کے ساتھ تعاون کی مثال کے طورپرپیش کرتے ہیں لیکن یہاں سوال بھی سراٹھاتاہے کہ اس تنظیم کی رکنیت حاصل کرنے بعدلداخ کے معاملے پر جو عالمی رسوائی انڈیاکے حصے میں آئی کہ خود انڈیا کا وزیر دفاع لوک سبھا میں دہائی دیتا دکھائی دیا کہ چین نے لداخ کے38 ہزار مربع میل پر قبضہ کرلیاہے اور وہاں پر اپنے پختہ بینکرز بھی تعمیر کر لئے ہیں۔دراصل انڈیا کی اس دہری اور منافقانہ پالیسی کو امریکا اور یورپی یونین خوب سمجھ چکے ہیں کہ انڈیا اپنے مفادات کیلئے گدھے کو باپ بنانے سے گریز نہیں کرتا۔

یقیناًلیوروف روس،انڈیااورچین کادنیاکے نئے ورلڈآرڈرمیں ایک بڑاکرداردیکھتے ہیں لیکن چین اورانڈیاکے کشیدہ تعلقات بہرحال اثر اندازتوضرور ہوں گے؟اس وقت ایک طرف چین،دوسری طرف پاکستان اورملحقہ دوسری چھوٹی ریاستیں سب ہی انڈیاکے رویے سے کیوں نالاں ہیں؟اس سوال پرجب ہم غورکرتے ہیں توانڈیاکے اس مصنوعی تاثر کے غبارے سے ہوانکل جاتی ہے۔اس وقت دنیاکاوہ ملک بن چکاہے جہاں اقلیتوں کے ساتھ سب سے براسلوک کیاجاتاہے جہاں اب ہندوانصاف پسندمیڈیابھی چیخ اٹھاہے ۔ اس کیلئے اس ہندوپنڈت خاتون جرنلسٹ کے دلسوزویڈیوکاسہارالیناپڑرہاہے جس نے بڑی صاف گوئی اوردلیری سے براہ راست مودی کومخاطب کرتے ہوئے آئینہ دکھایاہے۔

اس نے اپناپیغام ہی ان الفاظ سے شروع کیاہے کہ”میرایہ پیغام مودی کے نام ہے جو سیدھے دل سے،ایک بھارتی شہری،ایک ہندو،ایک برہمن،ایک عورت اورایک انسان کی طرف مودی سے پوچھناچاہتی ہوں ”کہ آٹھ سال قبل آپ نے نعرہ لگایاتھاکہ” سب کاساتھ،سب کااحترام اورتحفظ”کہاں چلاگیاجب ہندوؤں کے سب سے مقدس ہنومان مندرکے سامنے ایک مسلمان ٹھیلے والے کے تمام تربوزکوتہس نہس کردیتی ہے اورآپ کی پولیس ہاتھ پرہاتھ رکھے ٹھٹھہ مذاق میں مشغول رہتی ہے تواس وقت مودی کی زبان کیوں گنگ ہوجاتی ہے؟آپ کاوہ نعرہ کیاہواجس میں ہربھارتی شہری کے احترام اور تحفظ کانعرہ لگایاگیاتھا؟

آپ کویہ کیوں یادنہیں آتاجب یوپی کاایک غریب ومعصوم کانچ کی چوڑیاں بیچنے والاتسلیم اپنے گھرسے سینکڑوں میل دورآکر”اندور”میں ظالم ہندو درندوں کاشکارہوجاتاہے لیکن مودی کی پولیس اس کوان ظالم بھیڑیوں سے بچانے کی بجائے نہ صرف اس کی ساری پونجی اپنے قبضہ میں لیکرخودڈکار جاتی ہے بلکہ اسے گرفتارکرکے6مہینوں کیلئے جیل میں بھی پھینک دیاجاتاہے اورمودی اپنے کھلے تضادکی بناپرمنہ پرتالہ لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔کہاں ہے مودی کاوہ نعرہ”سب کااحترام اورتحفظ”جب ایک کامیڈین کوبغیرکسی جرم کے جیل میں پھینک دیاجاتاہے،وہ جواداس چہروں پرخوشیاں بکھیرتاتھا، آج وہ اور اس کے ساراخاندان پریشان اورغمزدہ ہے۔

کرناٹک میں ایک برقعہ پوش مسلمان بچی پرآپ کی جماعت کے بلوائیوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی،کیامودی جی،آپ نے کسی ایک کوبھی اس لئے گرفتارنہیں کیاکہ وہ سب آپ کی پارٹی کے ایک نیتاکے پالتوپلے تھے؟کہاں ہیں مودی جی ،جب آپ کے درجنوں جن سنگھی ہندوشدت پسندہرروز مسلمانوں کوانڈیاسے ختم کرنے کے بیانات دیتے ہیں؟مودی جی!آپ نے اپنی آنکھیں کیوں موندلی ہیں جب ہلدی رام کی دوکان میں گھس کرعربی اوراردوکی تمام کتب کونکال کرآگ لگادی جاتی ہے؟کہاں چلاجاتاہے مودی کاپرفتن نعرہ جب اس کی جماعت کے لیڈر”بلی داس اورسلی داس انٹرنیٹ پرکھلے عام عورتوں کی خریدوفروخت کی منڈی سجاتے نظرآتے ہیں؟

ایسے ہی بے شمارسوالات کی چارج شیٹ سناتی ہوئی یہ بہادرہندوبرہمن خاتون دکھی اندازمیں یہ بھی شکوہ کررہی ہے کہ میرے سوالات ابھی ختم نہیں ہوئے،ہرروزایسے مظالم دیکھ کرمجھ جیسے کئی افرادکاچین وسکون تباہ وبربادہوگیاہے اورمجھے جواہرلعل نہروکابیان یادآتاہے کہ”سب کوماردوگے توہندوستان میں کون بچے گا؟” ایسے ہی بے شمارسوالات کی چارج شیٹ سناتی ہوئی یہ بہادر ہندو برہمن خاتون دکھی انداز میں یہ بھی شکوہ کر رہی ہے کہ میرے سوالات ابھی ختم نہیں ہوئے،ہر روز ایسے مظالم دیکھ کر مجھ جیسے کئی افراد کا چین وسکون تباہ و برباد ہو گیاہے اور مجھے جواہر لعل نہرو کا بیان یاد آتا ہے کہ”سب کو مار دو گے تو ہندوستان میں کون بچے گا؟

ہم سب جانتے ہیں کہ مودی سرکارکے آتے ہی ایک منظم سازش کے تحت مسلم کشی کیلئے کام جاری ہے۔آئے دن کے مسلم کش فسادات کاجائزہ لیں تویہ تمام فسادات ان مقامات پرکروائے جارہے ہیں جہان مسلمانوں کی مالی ومعاشی حالت قدرے بہترہے۔ان فسادات کے نتیجے میں افراتفری پیداکرکے مسلمانوں کے کاروبارکوتباہ وبربادکردیاجاتاہے ۔ گلمرگ میں کپڑے کی تھوک تجارت مسلمانوں کے پاس تھی،فسادات کے بعدیہ تجارت مسلمانوں سے چھین لی گئی۔مرادآبادمیں برتنوں کی تجارت مسلمانوں کے پاس تھی،فسادات کے بعدوہ بھی مسلمانوں سے چھین لی گئی۔بنارس میں بنارسی ساڑھیوں کاکاروبارمسلمانوں کے پاس تھا،وہاں بھی منظم سازش کے تحت فسادکے ذریعے مسلمانوں کوبے دخل کردیا گیا ۔ بھوپال میں پتے، بیڑی کاکاروبارمسلمانوں کے پاس تھا،وہاں بھی فسادات کرواکے ان کے کاروبارکوتباہ وبربادکردیاگیااوراب اس کاروبارکوہندوچلارہے ہیں۔

اب مودی سرکارکی جماعت کے بلوائیوں نے بادل پور میں اس لئے فسادبرپاکیاہے کہ یہاں یوپی اوربہارمیں مالدارمسلمان تاجر رہتے ہیں اورساراریشم کاکاروباران کے ہاتھ میں تھا،اب وہاں بھی فسادات کے بعدیہ کاروبارختم کردیاگیااورمسلمان تاجرملک چھوڑکرچلے گئے یاہندوستان کے دوسرے شہروں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ایسی درجنوں مثالیں ایسی ہیں کہ جن کیلئے اب امریکا اوریورپی یونین نے بھی اپنی تشویش کااظہارکرناشروع کردیاہے اورمودی اوراس کی پارٹی نے اقتدارمیں رہنے کیلئے جواربوں روپے کی سرمایہ کاری کررکھی ہے،اس کاسنگھاسن بھی ڈولنے لگ گیاہے۔ دوقومی نظریے پربنائی گئی یہ ریاست پاکستان میں بسنے والوں کیلئے آج کس قدرنعمت ہے،کیاہمیں اس کی قدرہے؟
منسوب چراغوں سے،طرف دارہواکے
تم لوگ منافق ہو،منافق بھی بلاکے

اپنا تبصرہ بھیجیں