You Empower Whom You Will And Humiliate Whom You Will

وَتُعِزُّمَن تَشَاءُوَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ

:Share

ہاں بہت ہاتھ پاؤں مارتا ہے انسان بہت کوشش،بہت تگ ودوکس لیے؟اس لیے کہ وہ سکون سے رہے،آرام سے رہے،محفوظ رہے۔ ناموری کاخواہش مند ہوتاہے وہ واہ،واہ سنناچاہتاہے دادوتحسین کاطالب اورچہاردانگ عالم میں تشہیربس یہی ہے۔ سکون سے رہناچاہتاہے اوربے سکون ہوتارہتاہے۔ آرام فوم کے گدوں پرسونے سے ملتانہیں ہے، لاکھ توپ وتفنگ پاس ہو،اپنوں سے بھی ڈرتارہتاہے۔سائے سے بھی ڈرجانے والا۔ناموری کے شوق میں ایسی ایسی بے ہودہ حرکتیں سرزدہوجاتی ہیں اس سے کہ بس۔چہار جانب بچہ جمہورے واہ، واہ کرتے رہتے ہیں اورخلقِ خداتھوتھو۔دادوتحسین کیلئے نت نئے ڈرامے اوراداکاری لیکن ذلت لکھ دی جاتی ہے۔میں غلط کہہ گیاہوں،اپنی ذلت ورسوائی کا سامان ساتھ لیے پھرتاہے وہ۔اورپھردیکھتے ہی دیکھتے وقت کاگھوڑااسے اپنے سموں تلے روندتاہوانکل جاتاہے۔

سامان سوبرس کاہوتاہے اورپل کی خبرنہیں ہوتی۔اپنی اناکے بت پوجنے والاکب کسی کوخاطرمیں لاتاہے!بس ذراسااختلاف کیجیے تو چڑھ دوڑتاہے اپنے لشکرکولے کر،یہ جانتے بوجھتے بھی کہ لشکروں کوپرندوں کاجھنڈکنکریاں مارکرکھائے ہوئے بھس میں بدل دیتا ہے۔عبرت سرائے ہے یہ۔ لیکن نہیں مانتاوہ۔وہ نازکرتاہے اپنے لشکرپر۔اوردنیائے فانی میں کوئی سدانہیں جیتا۔اپنے سینے پرسجے تمغے دیکھ کرنہال ہوجانے والے بھی تنہااورلاچارہوجاتے ہیں اس لیے کہ زندگی پرموت کاپہراہے اورموت کسی سے خائف نہیں ہوتی۔ہاں وہ کسی چاردیواری،کسی پناہ گاہ،کسی قلعے،کسی نسب،کسی منصب وجلال،کسی لشکرکونہیں مانتی،دبوچ لیتی ہے اورپھرایسا کہ سامان سوبرس کاہوتاہے،جودھراکادھرارہ جاتاہے۔جسم کے پنجرے کوتوڑکرموت اچک لیتی ہے اس کی روح۔

موت توخیرآتی ہے،موت سے پہلے بھی کبھی موت آجاتی ہے۔وہ موت اوربھی بے حس ہوتی ہے۔ہاں اس وقت جب زندگی خودبھی گناہو ں کی سزا دینے لگتی ہے۔بے کلی،بے چینی ،اضطراب،وحشت،تنہائی کیایہ سزاکم ہوتی ہے!سب کوتہہ تیغ کرکے آگے بڑھ جانے والا سوچتارہ جاتاہے لیکن پھر وقت ہاتھ نہیں آتا۔انہیں بھی برداشت کرناپڑتاہے جنہیں کرپٹ کہتاہے،نہیں آنے کی دھمکیاں دیتاہے اس لیے کہ اپنے رب کاغلام نہیں ہوتاوہ۔ وہ تو طاقتِ عارضی کاادنیٰ غلام ہوتاہے،اورجب ارضی خدااسے کہہ دیں پھرکیامجال ہوتی ہے کہ انکارکردیاجائے!ہاں پھربرداشت کرناپڑتا ہے جناب۔

انکارکی لذت اسے محسوس ہوتی ہے جوربِ کعبہ کاغلام ہو۔ہاں وہ خائف نہیں ہوتاجسے رب کاقرب نصیب ہوجائے۔ایک سجدہ ہزار سجدوں سے بے نیاز کردیتاہے۔رب کے بندے توغلامی کاآغازہی انکارسے کرتے ہیں”لا”سے کرتے ہیں،نہیں مانتے وہ ارضی خداؤں کی وہ ہوتے ہیں اپنے رب کے بندے ۔ نفس کی بندگی سے انکاری،جعلی دنیاوی خداؤں کے منکر،بس اک نعرہ مستانہ”لا”ہرکسی کے مقدرمیں کہاں۔یہ ہے دنیاجناب!سب ساتھ چھوڑجاتے ہیں،زندگی خودبھی گناہوں کی سزادیتی ہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ انسان کرہی کیاسکتاہے جناب!جواپنے رب پربھروسہ کریں انہیں ملتاہے سکون ،انکار کی جرات اورخوف سے نجات۔بندہ بشرہے ہی کیا اپنے سائے سے بھی خوفزدہ۔

میرے رب نے حکم دیا ہے اور اس کے حکم میں ترمیم و اضافہ کون کرسکتا ہے!کوئی بھی نہیں۔ وہی مالک ومختارِ کل ہے۔ وہی بادشاہِ حقیقی ہے۔ کوئی روشن خیال ہو، ماڈریٹ ہو،مفتی ہو، فقیہ ہواس کے حکم کو رسول اور پیغمبر بھی نہیں ٹال سکتے۔ بس حکم ہوا اور سرتسلیم خم!میرے رب نے حکم دیاہے :مومنو خدا سے ڈرا کرو اور بات سیدھی کہا کرو ”اورہم کیاکرتے ہیں!انسان ہیں،خطاکاپتلہ اورکون ہے جو نہیں کرتا؟کون ہے انسانِ کامل؟لیکن جودعویدارہوں،خودکووارثِ انبیاکہتے ہوں،محراب ومنبرکے نگہباں ہوں،وہ جورب کاپیغام انسان کوپہنچانے والے ہوں،ان پرذمہ داری عائدہوتی ہے کہ ان کی زندگی عکاسی کرتی ہومیرے رب کے احکامات کی۔اس لئے جودعویٰ کرے اسے اپنے دعوے کی سچائی میں کچھ توپیش کرناہی ہوتاہے۔جوخودکوخطاکارکہیں،عام انسان کہیں،ذمہ داری توان پربھی عائد ہوتی ہے لیکن اتنی نہیں جتنی کسی دعوے دارپر۔اس لئے کہ عام انسان انہیں دیکھ کر،سن کر پرکھتے ہیں اورپھرکہتے ہیں:کچھ بھی ہیں،ہیں تویہ تقویٰ کے قریب۔

لیکن گستاخی معاف کریں توعرض کروں۔کیاہورہاہے ہمارے ارد گرد!میں کیالکھوں،آپ خودسنتے ہیں،دیکھتے ہیں،پڑھتے ہیں۔ہم کیا کہیں کون کرتا ہے سیدھی سادی سچی بات۔ کیاحق مشروط ہوتاہے،یاحق ماننے کیلئے شرط عائدکردی جائے؟میرے ناقص خیال میں حق، حق ہوتاہے،وہ کسی شرط کونہیں مانتا۔حق کسی آمیزش کونہیں مانتا۔وہ حق ہوتاہے اوراس کا صرف ایک مطالبہ ہوتاہے:وہ حق ہے اسے ماناجائے۔زندگی کی ڈورٹوٹتی ہے توٹوٹ جائے، انسان درگورہوجائے توہوجائے۔وہ حق ہے،اس لئے اسے بلاچوں چراتسلیم کیا جائے ۔جناب علی المرتضی نے ارشادفرمایااورکیاخوب فرمایا، قربان ہو جاؤں میں ان پر : ”میں اپنے رب کی عبادت جنت کی لالچ اور دوزخ کے خوف کی وجہ سے نہیں کرتا، میں تو اپنے رب کی عبادت اس لئے کرتاہوں کہ وہ ہے ہی لائقِ عبادت”۔غورکیجئے ناں اس پر،اورپھراپنے اردگردنظردوڑائیے۔

اب ان کی ناسمجھی پرکیابات کی جائے۔اپنی بہترین پالیسیوں کوملک کی خوشحالی گرادنتے ہوئے بڑے بڑے دعوے کررہے تھے لیکن ایک ہی جھٹکے نے سارے کس بل نکال دیئے لیکن ڈھٹائی کاپھربھی یہ عالم ہے کہ اتنے بڑے سانحے پرکس طرح ڈھٹائی پراپنی بات پرقائم رہنے کادرس دے رہے ہیں۔ آخر بے پیندہ کالوٹااسی کوکہتے ہیں کہ اپنے ہی وزن سے لڑھکتارہتاہے۔عمران خان صاحب فوج کے کندھوں پر سوار ہوکر اقتدار میں آگئے۔ آرمی چیف کو قوم کا باپ بتایا گیا۔آرمی کی سیاست میں مداخلت پر سوال اٹھائے گئے تو کہا گیا”جسے فوج سے مسئلہ ہے، وہ کسی اور ملک دفع ہو جائے”باجوہ کو اپنے سیاسی مفاد کیلئے ایکسٹینشن دی لیکن جیسے ہی آئینی طوراقتدارسے محروم ہوئے فوری اپنے ہی محسنوں کے کیڑے نکالنے شروع کردیئے۔ فوج کو نیوٹرل ،جانور اورمیر جعفر میر صادق کہا،عوام کے سامنے تڑیاں لگائی لیکن رات کے اندھیرے میں میں اسی میر جعفر کے بوٹ پالش کیے ۔ بیک ڈور میں اقتدار جانے سے پہلے باجوہ کو ایک اور ایکسٹینشن کی آفر بھی کردی اور غدار بھی کہتے رہےتاہم قدرت کے اس فیصلے کوکیاکہیں گے کہ جنرل عاصم منیرنے بطورڈی جی آئی ایس آئی اپنے عہدہ کی پرواہ کئے بغیرجب برملااس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے سامنے جب کرپشن کے ثبوت فراہم کئے توجواب میں انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑگئے لیکن آج قدرت نے انہیں انعام کے طورپرملک کاسپہ سالارمقررکردیاہے۔

یقیناًکئی سیاستدان جوبڑے فخرسے خودکوشاہ سے زیادہ شاہ کاوفادارقراردینے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے،وہ بغیرکسی جھجک اورشرم وحیاکے اپنے نئے آقاکاراتب حلال کرنے کیلئے اس کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔اسے تواس وقت سمجھ آتی ہے جب وقت کاگھوڑاانہیں اپنے سموں تلے روندتاہواچلاجاتاہے اورپھرنعرہ بلندہوتاہے”وَتُعِزُّمَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ”۔

اپنا تبصرہ بھیجیں