آپ وزیراعظم ہیں!

:Share

پچھلے دنوں عمران خان صاحب نے میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے انکشاف کیاتھاکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے انہیں یاددلایاکہ”آپ وزیراعظم ہیں”تو پھرانہوں نے متعلقہ محکمے کوفون پرہدایات دیںوزیراعظم قوم کوایک اوربات میڈیاکے توسط سے اس قدرتسلسل کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی فوج مکمل طور پرپی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی ہے کہ بالآخرآئی ایس پی آرکے سربراہ کومیڈیاپر آکریہ کہناپڑگیاکہ” فوج تمام صوبوں اورملک کی ہے اور آئین پاکستان کی پابندہے”تاہم ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت بقو ل عمران خان صاحب فوج کی حمائت کے ساتھ چوتھے مہینے میں داخل ہوچکی ہے اور ملک کی سمت اور قبلہ درست کرنے کے سودن کے نعرے کے غبارے کواپنے ہی ہاتھوں بری طرح پھوڑچکی ہے۔وزیراعظم کے مسلسل بیانیے کہ فوج پی ٹی آئی کے منشورکے ساتھ کھڑی ہے لیکن حکومت کی جس اندازسے اٹھان ہورہی ہے، پالیسیاں،فیصلے اوراقدامات یاان کے اثرات و نتائج جوسامنے آرہے ہیں ،ان سے تواب تک یہ ثابت ہواہے کہ پی ٹی آئی خودبھی اپنے منشورکے ساتھ نہیں ،شائداسی لئے عمران خان صاحب اور ”یو ٹرن” اب لازم وملزوم دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ سودن گزرجانے کے بعدکم ازکم اتناضرور نظر آرہاہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس منشورکے ساتھ نہیں جواس نے عوام کے سامنے پیش کرکے ووٹ حاصل کرنے کے بعدمسنداقتدارسنبھالاہے۔اب آئے روزایک ایسافیصلہ یا اقدام سامنے آرہاہے جو حکومت کے بے سمت،ذہنی اعتبارسے غیرواضح ہی نہیں بلکہ الجھی ہوئی اورکنفیوژصورتحال پیش کررہاہے۔
شروع میں یہ تاثررہاتھاکہ اچانک حکومت میں آنے کے بعد اکثرحکومتی وزراء کی ناتجربہ کاری آڑے آرہی ہے لیکن اب تک کیاقدامات سے یہ بات واضح ہوناشروع ہوگئی ہے کہ کچھ مثبت کرنے کیلئے کمٹمنٹ کابھی فقدان ہے۔بظاہروزیراعظم اوران کی ٹیم کے بعض ارکان شتربے مہارکی طرح بہت بولنے اورحدودوقیودکی تمام سرحدوں کوعبورکرنے کے اظہارہی کواپنی اورحکومت کی لیاقت وکارکردگی سمجھتے ہیں مگرحقیقت یہ ہے کہ جو چیزیں بیان کی جارہی ہیں ان میں الاماشاء اللہ کا ہی حقیقت کی دنیاسے تعلق ہے۔حکومتی معاملات یااداروں پرگرفت کایہ عالم ہے یابے خبری اور لاتعلقی کاشاخسانہ ہے کہ وزیراعظم نے بڑے اہتمام سے میڈیاکے اہم اینکرپرسنزکو دیئے گئے اپنے خصوصی انٹرویومیں ڈالرکی ایک بار پھربڑھ جانے کے بارے میں بارے میں بڑی معصومیت سے کہہ دیاکہ یہ فیصلہ اسٹیٹ بینک نے کیاہے جبکہ اسٹیٹ بینک نے فوری اطلاع دے دی کہ انہوں نے اپنے اس فیصلے سے وزیرخزانہ اسدعمرکوپیشگی بتادیاتھااورخوداسدعمرنے اپنے ایک ٹی وی انٹرویومیں اسٹیٹ بینک کی اطلاع کونہ صرف تسلیم کیا بلکہ یہ بھی قوم کوبتادیاکہ انہوں نے فوری طورپروزیر اعظم کو اس خبرسے مطلع کردیاتھااب سوال یہ پیداہوتاہے کہ خودان کی اپنی پارٹی کے انتہائی اہم رکن اس عمرکے اس انکشاف کے بعدوزیراعظم کے صادق ہونے پربھی ایک سوال اٹھتاہے کہ انہوں نے جانتے ہوئے بھی ملکی میڈیا کے اہم ترین اینکرپرسنزکے سامنے اس معصومیت کے ساتھ غلط بیانی سے کام کیوں لیا؟
ایک سوال یہ بھی اٹھتاہے کہ اگرواقعی انہیں ڈالرکی پاکستانی روپے کے مقابلے میں اس اڑان کا خبروں سے پتہ چلاہے تویہ اس کے باوجودہے کہ وزیر اعظم نے جب سے حکومتی باگ ڈور سنبھالی ہے ،صبح وشام اوردن رات کام کرنے کاتاثردے رہے ہیں،بارباراپنی اقتصادی ٹیم کے ساتھ اجلاس کرتے ہیں،بیرون ملک اب تک ان کے جتنے بھی دورے ہوئے ہیں انہیں خالصتاً انہی معاشی چیلنجوں کے تناظرمیں پیش کیاگیاحتیٰ کہ ان دوروں کوملک کے معاشی مسائل کے حل کے حوالے سے کامیاب بھی گرداناگیابلکہ ان کے منہ پھٹ وزیر اطلاعات نے توان کی کامیابی میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملادیئے تھے لیکن اس سارے بنائے گئے ماحول کے باوجوددیوارپرلکھی ہوئی حقیقت یہ ہے کہ ملک سخت مالی بحران کاشکار ہے اورعام آدمی کی زندگی کوبڑھتی ہوئی مہنگائی نے بدحال کردیاہے۔حکومت اپنے طورپربڑی ہوشیاری کے ساتھ عوام کوطفل تسلیاں بھی دے رہی ہے اوربڑے شاطرانہ اندازمیں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کوبتدریج ہی سہی ،پوراکرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔اسی کامظہرہے کہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح کوچھوچکاہے اورخدشہ ہے کہ اگلے چنددنوں یاچندہفتوں کے روران امریکی ڈالرکی قیمت 145 پاکستانی روپوں کے برابرہوجائے گی کہ آئی ایم ایف کاتقاضہ کچھ ایساہی ہے۔
آئی ایم ایف کامطالبہ اس عربی اونٹ جیساہے جوآہشتہ آہستہ ہ پورے خیمے کواپنے لئے مختص بنانے کاکامیاب تجربہ رکھتاہے۔اس ماحول میں اگرچہ وزیراعظم نے ڈالرکے بارے میں اسٹیٹ بینک کے تنہائی میں کئے گئے فیصلے پرخوشگورایت ظاہرنہیں کی ہے۔اس سے بعض مبصرین توسمجھتے ہیں کہ حکومت ایک خاص حدتک ڈالرکی قیمت میں اضافے کے احکامات اوراہداف پورے کرنے کے بعدوکٹ کی دوسری جانب سے آتے ہوئے1998 ء والی تاریخ دہراکرڈالراورفارن کرنسی کے بارے میں اسحاق ڈارجیسے فیصلے کرسکتی ہے تاکہ ایک جانب آئی ایم ایف کے مطالبات اور معاملات کو پوراکردے اوردوسری جانب قوم کے وسیع ترمفادات کے کھاتے میں ماضی کی طرح حکومت ایک مرتبہ پھرفارن کرنسی اکاؤنٹس ضبط اورمالیاتی ایمرجنسی لگاکراپنا الوسیدھاکرنے کی کوشش کرسکتی ہے جیساکہ ایک خفیف سااشارہ وزیراعظم نے اسٹیٹ بینک کی ڈالرسے متعلق پالیسی اور فیصلوں پر ناگواری کااظہارکرکے دیاہے۔
دوسری جانب اسدعمرجنہیں حکومت اورپی ٹی آئی اپنے ترکش کے سب سےکارگرتیراور
باصلاحیت وزیرکے طورپرپیش کرتی رہی ہے لیکن اب وہ بھی اس معاشی الجھاؤ کے اہم کردار کے طورپرسامنے ہیں۔حکومت کے ناقدین کے بعد حکومت کے اندربھی وزیرخزانہ کی صلاحیتوں پرانگلیاں اٹھنے لگی ہیں حتیٰ کہ یہ بات بھی اس پس منظرمیں افواہ کے طور پر ملک کے طول وعرض میں پھیل گئی تھی کہ اسدعمرنے اپنی وزارت سے استعفیٰ دیدیاہے بعدازاں وزیراعظم کے دفترسے اس کی تردیدآگئی لیکن یہ بات اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے کہ اب تک وزارتِ خزانہ کی طرف سے عام آدمی کے کندھوں پرہی بوجھ ڈالاگیاہے۔کبھی بجلی وگیس کے نرخوں میں اضافے سے کبھی پٹرول وڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں اوراشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کے وہ بظاہرحکومت کے کسی گنتی شمارمیں نہیں آتے لیکن عام آدمی کی زندگی کو حکومتی فیصلوں سے بلاواسطہ یابلواسطہ دونوں طریقوں سے اجیرن بنانے کاجوعمل سالہاسال سے جاری ہے،پی ٹی آئی حکومت نے اسے تبدیل کرنے کی بجائے جاری رکھنے بلکہ بڑھاوا دینے کااہتمام کیاہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ عام آدمی کے بجھتے چولہے کی جانب حکومت کے کسی زبان درازقسم کے ترجمان کی توجہ ہوسکی ہے نہ پالیسی اورفیصلہ سازی میں اہم سمجھنے والے زیرک اورخاموش طبع کی۔صاف ظاہرہے کہ نتائج” مرے کامارے شاہ مدار”والے پیداہوچکے ہیں۔ حکومت اپنی تبدیلی کے سارے نعروں نے بوجھ سمیت عام آدمی کی زندگی میں مشکلات کم کرنے کی بجائے اضافے کاباعث بن رہے ہیں۔
ایک طرف مہنگائی کی بے رحم یلغارسے اوردوسری جانب بے تعلق اورکافی حدتک بے حس حکومت اوراس کے کارپردازان ہیں کہ جودوسرے چوتھے ہفتے بعدعوام کونہ گھبرانے کامشورہ دینے کیلئے آدھمکتے ہیں۔وقت خوش خوش کاٹنے کایہ مشورہ اورامیدوں کے سہارے چلنے کی نصیحت سر آنکھوں پرمگریہ مشورہ عام آدمی کی صرف اسی شخص کے منہ سے قبول ہوسکتاہے جوعام آدمی پربیتنے والے شب وروز کو خودبھی جھیل رہاہو۔خود مکمل آرام اوراطمینان کی زندگی گزارنے والے عناصرخواہ وہ حکومت کے اندرہوں یاحکومت کے باہریاحکومت کے وزیران کے مشورے کی حیثیت زخموں پرنمک چھڑکنے سے زیادہ نہیں ہوسکتی کہ حکومت کے مالیاتی واقتصادی شعبے کے سارے فیصلے عملی طورپرعام لوگوں کی مشکلات میں غیرمعمولی اضافے کاذریعہ ہیں۔ایسے میں ان حکومتی عہدیداروں سے مشورے قبول کرناعطارکے لونڈوں سے دوالینے والی بات ہوسکتی ہے۔اس حکومت کے عہدیداروں،ان کے سرپرستوں اورحامیوں کوجہاں عوامی جذبات اور احساسات کے حوالے سے دیگر احمقانہ فیصلوں پرتحسین نہیں کی جاسکتی وہی ان تحمل آفرین مشوروں کوبھی عام آدمی اپنے لئے قابل قبول قرارنہیں دے سکتا،اس لئے اگر وزیراعظم جن کے اہم ترین اقتصادی دست وبازو اسدعمرکے مستعفی ہونے کی تردیدآگئی تویہ سمجھناچاہئے کہ کم ازکم اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بات پرہی کان دھرنے چاہئیں کہ “آپ وزیر اعظم ہیں”
حضورِ والا،مشورے،نصیحتیں اورامیددلاکرآپ عام آدمی کیلئے توکارنمایاں کرنے کاکریڈٹ نہیں لے سکتے۔اس کیلئے آپ کوبقول صدرمملکت عارف علوی کے کچھ عملی طورپربھی کرنا ہوگا،یہ عوام کاحق بھی ہے اور آپ کے منصب کاتقاضہ بھی۔یہ کہہ دیناکہ ہم مصروف تھے ،مضحکہ خیز ہے ۔ اخباری تراشوں کوتوآجکل کی عدالتیں بھی نہیں مانتی ہیں،اس لئے اخباری تراشوں کی بنیادپر سودنوں کی کارکردگی کواچھانہیں بنایاجاسکتا۔ہرآنے والے دن میں نئے ٹیکس عوامی جیبوں سے نکلوانے کیلئے ہتھکنڈے اورعوام کوریلیف دینے کے مرحلہ پراقتصادی بیچارگی کارونادھوناکسی کامیاب حکومت کاتعارف نہیں ہوسکتے۔
حکومتی اقتصادی پالیسیوں،فیصلوں اوراقدامات پرنظررکھنے والے سمجھتے ہیں کہ حکومت نے بھی ماضی کے اچھے بچوں کی طرح آئی ایم ایف کی خواہشات کوپوراکرناہے لیکن اب کی بار پی ٹی آئی حکومت شایدماضی کی حکومتوں والے طریقہ واردات کی بجائے دوسراطریقہ واردات اختیار کرنا پسندکرے گی جبکہ عملی طورپرصورتحال اسی جانب بڑھ رہی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس سلسلے میں کیاحتمی اقدامات کرتی ہے ۔آئی ایم ایف کی ہدائت پراگرڈالربے لگام ہوتاگیااوراس کی قیمت 145روپے تک پہنچ گئی تونگراں حکومت کے دورسے اس ہدف کوچھونے تک ڈالرکی قیمت 118روپے سے تقریباً27روپے زیادہ ہوجائے گی۔اس سے پہلے مالی ماہرین کا خیال تھاکہ ایک سال میں ڈالرکی قیمت تقریباً32 فیصد بڑھی ہے۔اب اگرپی ٹی آئی کی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ مزیدڈھیرہوجاتی ہے تویقینا یہ شرح بھی 32فیصدسے بہت بڑھ جائے گی، جس کے بعدایک جانب آنے والاسال پاکستان کے عام لوگوں کیلئے بدترین معاشی حالات کامظہرہوگااور دوسری جانب خودحکومت کیلئے بھی خطرناک ہو گاجیساکہ وزیراعظم عمران خان کی تمامترطل تسلیوں کے باوجودوفاقی وزارت ریلوے ڈالرکی مسلسل اڑان سے گھبراگئی ہے اوراس نے اپنے کرایوں پرنظرثانی کااعلان کردیاہے،گویاوزیرریلوے شیخ رشیدبھی ڈالرکے اس طرح بے لگام ہوجانے کے باعث اپنے محکمے کومشکل میں دیکھ رہے ہیں ۔ انہوں نے اس مشکل کوفوری طور پرعام آدمی پرمنتقل کرکے فیصلہ ریل کے کرایوں میں اضافے کے اعلان سے کیاہے۔اس وقت ملک میں فوادچوہدری اورشیخ رشیددونوں ہی میڈیاکے لاڈلے بنے ہوئے ہیں جن کاکام شب وروز پرانی حکومتوں پردشنام طرازی کے علاوہ اورکچھ نہیں اور ملک میں اپنی کارکردگی میں ناکامی کا ہر لحاظ سے سابقہ حکومتوں کوگردان کرقوم کوبیوقوف بنانے میں مصروف ہیں۔
ٹرانسپورٹ دیگرذرائع کے علاوہ زندگی کے تقریباً ہرشعبے کے لوگ بھی جب بھی ڈالرکی قیمتوں میں ہوشربااضافے کوجوازبناتے ہوئے اپنی مصنوعات اورخدمات کومہنگاکریں گے تواس کے اثرات عام آدمی پرہی توپڑیں گے۔جس سے جہاں غریب کے گھرکاچولہاٹھنڈاہوگا وہیں حکومت کے نئے شاہکارمنصوبے پناہ گاہوں کی آبادی بڑھنے کے امکان کے علاوہ خودکشیوں کاتناسب بھی بڑھاواپائے گا۔اگرایندھن کی قیمتوں میں اضافہ فرانس کے خوشحال عوام کیلئے قابل برداشت نہیں ہوسکتاتوپاکستان کے عوام جن کی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعدادپہلے سے ہی غیر معمولی ہے ،وہ اس صورتحال پرکب تک چین کی بانسری بجاتے رہیں گے۔حکومت اپنی نااہل ٹیم یاکزوراقتصادی ڈویژن کی وجہ سے معاشی منجدھار میں بری طرح پھنس چکی ہے۔سعودی عرب سے اب تک ایک ارب ڈالرصرف ملکی خزانے میں محفوظ کرکھنے کی شرط پرپہنچی ہے جس کوہم قطعاً ہاتھ نہیں لگاسکتے اوربقیہ امدادکے وعدے اب ایک افسانہ کی صورت میں ہمارامنہ چڑھارہے ہیں۔چین نے ہمالیہ سے بلنددوستی کے باوجوداپنے قونصل جنرل کے ذریعے صاف طور پرپاکستان کو باور کرادیاہے کہ قرضے دیناچین کاطریقہ ہی نہیں ہے۔چین اپنے دوستوں کومچھلی دینے کی بجائے مچھلی پکڑنے کاطریقہ بتانے پریقین رکھتاہے۔
چین پاکستان کی اقتصادی صورتحال کی بہتری کیلئے جوبیل آؤٹ پیکج دے گاوہ سرمایہ کاری کے حوالے سے ہی دے گا اوراس حوالے سے ابھی بہت کچھ ہوناباقی ہے۔متحدہ عرب امارات نے بھی قرض دینے کیلئے بڑی کڑی شرائط رکھی ہیں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ وہ گوادرپورٹ کے سلسلے میں پاکستان سے ”گوسلوپالیسی”پرعملدرآمدچاہتاہے۔ایسے حالات میں وزیراعظم کاسرمایہ کاروں خصوصاًبیرون ملک سرمایہ کاروں کو”پیسہ لگاؤ،پیسہ بناؤ”کی پیشکش کرنااچھی بات ہے لیکن سرمایہ کاروں کیلئے ملک میں پیسہ بناناآسان کرنے کے اقدامات کرتے ہوئے ظاہراً نظرآرہاہے کہ اس کوبھی حکومت اندھادھندبنیادوں پرطے کرناچاہتی کہ غیرملکی دوست سرمایہ کاروں کوپیسہ بنانے کی کھلی چھٹی دینے کاعام آدمی کی زندگی اورروزوشب پر اثرات کیاہوں گے۔ اس سلسلے میں حکومت اوراس کے شہ دماغوں نے توازن رکھنے کااہتمام نہ کیاتولاہوراورکراچی توشائدپیرس نہ بن سکیں، پاکستان کے عوام آجکل کے فرانس میں اپنے لئے رہنمائی کے امکانات کی تلاش ضرورشروع کردیں گے۔یوں وزیراعظم جوجلدنئے الیکشن کاعندیہ بھی دے چکے ہیں ،انہیں کسی اچانک نئے سیاسی منظرنامے کاسامناہوسکتاہے۔
ملک کے اقتصادی حالات بدلنے کے وہ سارے طریقے غلط اورلغومانیں جائیں گے جن کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی مزیداجیرن ہوجائے۔غریب ،غریب ترہوتاجائے اورامیر،امیرترہونے کیلئے کوئی مشکل نہ دیکھے۔اگریہی اقتصادی حکمت عملی رہی تونیب کاکام اگلے برسوں میں مزیدبڑھ جائے گااورعدالتوں میں جگہ بھی کم پڑجائے گی،اس لئے بہترہوگاکہ حکومت ایسے دعوؤں کو عملی شکل دے،نہ یہ کہ اگلے انتخابات کی باتیں شروع ہوچکی ہوں اوریہ دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں کیونکہ یہ اطلاعات آناشروع ہوگئی ہیں کہ حکومت میں گہرے رسو خ رکھنے والی غیر حکومتی شخصیات تیزی سے اپنے مالی اہداف پورے کررہی ہے۔شوگرملزمالکان کیلئے خوشگوار اعلانات سے لیکرپنجاب میں صاف پانی کی فراہمی کی اتھارٹی کے قیام تک یہ حضرات اپنا کھانچا نکال رہے ہیں لیکن عام لوگوں کیلئے صرف مشورہ ہے کہ گھبرانانہیں حالات ٹھیک ہوجائیں گے کہ عمران خان کواب پتہ چل گیاہے کہ”وہ وزیراعظم ہیں”۔

اپنا تبصرہ بھیجیں