تاریخ کی گواہی

:Share

تاریخ گواہ ہےموسم بدلتاہے،سماں بدلتاہے اورمنظربدل جاتے ہیں۔جہاں تم شہر دیکھ رہے ہوکسی زمانے میں جنگل تھا اور جہاں جنگل ہے وہاں کبھی شہرہوا کرتا تھا،جہاں تم اور میں کھڑے ہیں ایک وقت تھایہاں میدان ہواکرتاتھا۔ شہرسے دورہونے کے سبب یہاں کوئی نہیں آتاتھا۔اب یہ شہر کامہنگاترین علاقہ ہے۔تم دیکھ رہے ہوناں کیسے کیسے عالی شان مکانات ہیں۔وہ دیکھواس مکان کی چھت پرپنجرے لگے ہوئے ہیں اوران کے بیچ ایک مورہمیں جھانک رہاہے۔شہرمیں جنگل کاباسی قیدکردیا گیا ہے۔قیدی بناناہماری تفریح ہوگئی ہے۔ہاں تومیں کیاکہہ رہاتھا……..؟آپ کہہ رہے تھے کہ شہر کبھی جنگل………ہاں ہاں یادآگیامجھے۔اب ایک وقت ایسابھی آئے گاجب ہماری جگہ کوئی اوردولوگ کھڑے ہوں گے ان کے نام چاہے کچھ بھی ہوں………وہ پتاہے کیاکہہ رہے ہوں گے!کہہ رہے ہوں گے:
کیسااجاڑویرانہ ہے،جنگل ہے یہ تو،اورآج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کتناعالی شان محلہ ہے،بس یہ وقت کاپھیرہے،موسم بدلتاہے، سماں بدلتاہے اورمنظر تبدیل ہوجاتے ہیں۔شاہ گداگربن جاتے ہیں اور بھکاری زمامِ کارسنبھال لیتے ہیں۔ فوج کاجرنیل جس کے حکم پرہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں خودعام سے لوگوں کا محتاج ہوجاتاہے۔ایڑیاں رگڑرگڑکرمر جاتاہے۔ حکم دینے والے خود حکم ماننے پرمجبورہوجاتے ہیں۔طبیب جو اوروں کوزندگی کی آسانیاں بانٹتاہے خودزندگی کی بھیک مانگتاہے۔ادویات کی فیکٹری کامالک دوائیں ہوتے ہوئے بھی دم توڑدیتاہے۔وہ تجھے یادآیاٹی بی کی ادویات کاہول سیلرکیانام تھااس کا………خود ٹی بی سے مرگیا۔سرمایہ دارقلاش ہوجاتے اور قلاش زرداربن جاتے ہیں۔چوراچکے کوتوالِ شہر بنے پھرتے ہیں۔
دودھ کی رکھوالی بلی کے سپردہوجاتی ہے،بھالوشہدکھانے لگتے ہیں،کوے موتی چگتے اورہنس دانادنکاچگتے پھرتے ہیں۔وہی گائے جودودھ دیتی تھی، بہت چہیتی تھی اوراب اسے قصائی کھول کرلے جارہاہے۔باپ میں جب دم تھاتوسب اس کے آگے پیچھے تھے اوراب بیٹے بیویوں کورجھاتے پھرتے ہیں۔بوڑھاباپ پیاساہی مرجاتاہے،ماں دواکوروتی رہتی ہے اورصاحبزادہ بیوی کے حضور دست بستہ حکم سن رہاہوتاہے۔موسم بدلتاہے سماں بدلتاہے اورمنظربدل جاتے ہیں پھر انہوں نے تھوڑی دیر خاموشی اختیارکی،کرتے کی جیب سے رومال نکال کرآنکھیں خشک کیں،ایک ٹھنڈی آہ بھری،اِدھرادھردیکھااورپھرکہنے لگے :
یہ سامنے والا آم کاباغ کرم دین کاہی ہے ناں؟مجھے نہیں معلوم……..ہاں ہاں یہ آم کاباغ اب کرمو کاہے پہلے سعید کاہوتاتھا۔ وہی سعیدجس کابیٹا ملک سے باہرگیا تھا پڑھنے اوروہاں ایک میم سے شادی کرلی اورپھرکبھی لوٹ کرنہیں آیا۔ایک ہی توبیٹاتھااس کا،بیوی مرگئی اورسعیدبہت کچھ ہوتے ہوئے بھی محتاج ہوگیا تھا۔ پھراس نے کرموکوباغ بیچ دیااوراتنے بڑے گھرمیں اکیلارہنے لگا۔روٹی ٹکڑگاؤں والے اسے دے دیتے تھے،بندہ بشرکمزورہے ناں پتر،بیمارہوگیاتھاوہ سب کچھ علاج پر لگ گیااورایک صبح جب لوگ اسے دیکھنے گئے تووہ دنیاسے چلاگیاتھا۔گاؤں والوں نے ہی اسے کفنایادفنایا۔اب سعیدکون تھا،کوئی جانتاہی نہیں۔وقت بدل گیاناں۔دیکھ سب کچھ بدل گیا،اب کرمواپنی نئی نکورگاڑی میں اتراتاپھرتاہے۔غریبوں کو تووہ کچھ سمجھتاہی نہیں،میں تونہیں رہوں گالیکن تو اس کرموکابھی حشردیکھنا،جوبویاہے وہ کاٹے گا۔
آج کل وہ تیرادوست مہتاب نظرنہیں آرہا۔ہاں وہ لاہورگیاہے۔کیوں؟گڈیاں لینے کیلئے،بسنت آرہی ہے ناں تووہ پتنگیں اور مانجھالینے لاہورگیا ہے۔واہ واہ جوان ہے یارتیرادوست۔ہاں……..دیکھ یہ جوگڈی ہے پہلے زمین پرہوتی ہےپھر تھوڑاسا اوپر اٹھتی ہے اورپھردیکھتے ہی دیکھتے آسمان پرپہنچ جاتی ہے،اتنی اوپرکہ نقطہ سی نظر آتی ہےاور پھراچانک پتاچلتاہے،پیچا لڑ گیااورکٹ گئی۔اتنی اونچائی سے ڈولتی ہوئی زمین پرآرہی ہوتی ہے اورپھربچوں کے ہاتھوں میں پہنچ کرپرزے پرزے ہوجاتی ہے۔کبھی تونے سوچا ہے اس پر؟…….. نہیں تو……..توجھلیاسوچاکرغورکیاکرپگلے….
اب کے مہتاب پتنگ اڑائے تودیکھناایسا ہی ہوتا ……..یہ تو مجھے معلوم ہے……..تو پھرتونے سوچا نہیں بندہ بشر بھی گڈی کی طرح ہوتا ہے معصوم سا گگلوبچہ اورپھر تھوڑابڑابچہ پھرلڑکااورلڑکی جوبھی ہو،پھرجوانی جوکسی کی نہیں سنتی،منہ زور، پھرشادی بیاہ،کھیل کود،اوراچانک جب سب کچھ بن جاتاہے سب لوگ ہوتے ہیں…… بندے کی ڈورکٹ جاتی ہے۔ پھروہ جو سامنے تودیکھ رہاہے ناں قبرستان…. یہ ہے اصل جگہ جھلیا ….بس یہ ہے اصل جگہ جسے ہم سب بھول گئے۔
اِس کے اوپرتہمت اس کے اوپرالزام،اِس کی غیبت اس کی چغلی،اس کادل توڑا،کسی کودھوکادیا، بندوں کوآزارپہنچایا،جھوٹ بول بول کرپیسہ بنایا، کچھ نہیں رہے گاپتر…….. سب ڈھلتی چھایاہے، سب مایاہے،جی ہاں سب مایاہے۔موسم بدلتاہی،سماں بدلتاہے اورمنظربدل جاتے ہیں۔نجانے آج میں ان کی باتیں کیوں لے بیٹھاہوں شایداس لیے کہ اس خبرنے مجھے بے چین کردیاہے ،آپ بھی سن لیں:
چندبرس قبل امریکی فوج کے چارمیرینزکویوٹیوب پربھیجی گئی ایک ویڈیومیں افغانستان میں طالبان کی لاشوں کی بے حرمتی کرتے دکھایاگیاتھا۔یہ اہلکارطالبان جنگجوں کی لاشوں پرکھڑے پیشاب کررہے ہیں،جن میں سے ایک لاش خون میں لت پت ہے۔اس غیرانسانی فعل پرساری دنیامیں انتہائی ناپسندیدگی کااظہارکیا گیا ۔اس ویڈیو میں ملوث اہلکاروں کاتعلق امریکی ریاست شمالی کیرو لائنا کے کیمپ لیجیون سے ہے جوایک بڑا امریکی اڈہ ہے۔امریکی میرین کے ترجمان لیفٹننٹ کرنل جوزف پلینزلرنے خبر رساں ادارے اے ایف پی کواس وقت تک یونٹ کانام نہیں بتاسکتے جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوجاتیں۔ایک بیان میں امریکی وزیرِخارجہ ہلری کلنٹن نے اس ویڈیو پراپنے شدیدغم وغصہ کااظہارکیاتھا۔امریکی وزیرِدفاع لیون پنیٹا نےاس ویڈیوکوانتہائی قابلِ مذمت قرار دیتے ہوئےان کے خلاف انتہائی سخت کاروائی کاعندیہ دیا۔
دنیاکی سپرطاقت کہلانے اورانسانی حقوق اوراقدارکی چیمپئن کہلانے والےاورآج تک افغان طالبان کوانسانی اقدارمحروم ہونے کاطعنہ دینے والے اس فعل پر ساری دنیاکے سامنے شرم سے منہ چھپائے کی بجائے ان فوجیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرسکے لیکن حیرت کی بات تویہ ہے کہ اگرایسا معاملہ کسی بھی مسلمان ملک میں رونماہوتاتوابھی تک ساری دنیاکامیڈیاچیخ چیخ کر آسمان سرپراٹھالیتالیکن اتنے بڑے شرمناک واقعے کومیڈیانے خاموشی کے ساتھ اپنی صحافی بددیانتی کی راکھ میں خاموشی سے دفن کردیا۔
باباجی آج شدت سے یادآرہے ہیں،بارش کاموسم شروع ہوتوسب ان کے گردگھیراڈال کربیٹھ جاتے تھے لیکن اب صرف ان کی محبت بھری یادیں،پندونصائح کی مجالس دل کوتڑپاتی ہیں۔لوگ سمجھتے ہیں وہ دنیاسے چلے گئے،نہیں ایسابالکل نہیں، لوگوں کوسکھ چین بانٹنے والے کبھی نہیں مرتے، مرتے وہ ہیں جوبندوں کوانسان نہیں سمجھتے،جواس زمین پرفرعون ونمرود بن کرخداکی مخلوق کے ساتھ ایسابہیمانہ سلوک کرتے ہیں اورانسانی حقوق کی حفاظت کے علم بردارہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن یادرکھیں جوخود کو مخلوق کیلئےمٹی میں ملادیں،طعنے سنیں،الزامات برداشت کریں، تہمتیں برداشت کریں،وہ کہاں مرتے ہیں لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایسےفرعون جوایسے بہیمانہ فعل کاارتکاب کریں بطورعبرت یادرکھے جاتے ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں