With Deepest Apologies

انتہائی معذرت کے ساتھ

:Share

جتنے لوگ رائیونڈ اجتماع میں جمع ہوتے ہیں اگر یہی لوگ اپنی سماجی اخلاقی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کریں تو پاکستان جنت نظیر بن جائے۔یہ جتنے محرم و یوم علی کے جلوسوں میں سینہ کوبی کرنے اہلبیت کی محبت میں روتے، 1400 سال پہلے ہوئی دہشت گردی پر احتجاج کرنے نکلے ہوتے ہیں یہ اہلبیت کا درس اپنے اعمال سے پھیلانے لگ جائیں تو سماج میں کوئی دہشتگرد پیدا نہ ہو۔ جتنے لوگ ہر سال حج پر جاتے ہیں، اگر وہی سدھر جائیں تو سماج سدھر جائے،جس قدر امام اور خطیب ہیں اگر وہی اپنے قول و فعل کا تضاد ختم کر لیں تو پاکستان ریاست مدینہ بن جائے۔جو دو لاکھ حفاظ اور لاکھوں علماء ہر سال معاشرے کی مین اسٹریم میں داخل ہوتے ہیں وہی صحیح معنوں میں مسلمان بن جائیں تو معاشرے کا سماجی سرطان ختم ہو جائے۔

ان سارے نیک لوگوں کا نیکی کا تصور ہی مسخ شدہ ہے، سماج بدکار لوگوں کی بدکاری سے کم اور ان بانجھ نیک لوگوں کی وجہ سے زیادہ خراب ہے۔ان نیک لوگوں کی نیکی سماج کیلئےکاؤنٹر پروڈکٹیو ہے، انہوں نے بس نمازوں کو ہی نیکی سمجھ رکھا ہے۔حج کو ہی نیکی سمجھ رکھا ہے، ماتم کو ہی نیکی سمجھ رکھا ہے، حفظ کو ہی نیکی سمجھ رکھا ہے۔اسی نیکی نے ان کو جھوٹ بولنے ، وعدہ خلافی کرنے، دوسروں کی زمین غصب کرنے، مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچانے، والدین کے اور اولاد و ازواج کے حقوق ادا نہ کرنے پر جری کر رکھا ہے۔ان کا پڑوسی نہ امن میں ہے نہ سکون میں ہے۔ ان کو پیشاب کا قطرہ نکلنے کی تو فکر ہے مگر گلی کو صاف رکھنے کی کوئی فکر نہیں۔ یہ روزانہ بالٹیاں بھرکر کچرا باہر پھینکتے ہیں اور ان کے ضمیر میں کوئی خلش نہیں ہوتی کیونکہ یہ سب نیک ہیں۔

ان میں سے اکثر والدین کے نافرمان، بیویوں اور اولاد کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے اور اپنی یتیم بھتیجے بھتیجیوں کی زمین دبا لینے والے ہیں۔ان کو دور کشمیر،فلسطین، برما اور روانڈا کے مسلمانوں کی فکر ہے مگر اپنے ہی گاؤں میں اپنی یتیم بھتیجی کی کوئی فکر نہیں کہ وہ کہاں سے کھا رہی ہے اور کیسے گذر بسر کر رہی ہے۔ الٹا مشترکہ زمین میں سے اس یتیم کا حصہ بھی نہیں دیتے مگر سال کا عمرہ و حج بھی نہیں چھوڑتے۔آدھے نیک لوگ پورے برے انسان سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں جیسے منافق کافر سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور زیادہ سزا کا حقدار ہے اگرچہ نماز رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے پہلی صف میں ہی پڑھتا ہو۔

ہمارے منبر، ہمارے جمعہ المبارک کے خطبے، وہ کیا ہیں۔جمعہ کا مقصد کیا تھا ؟. یہی کہ ہر ساتویں دن مسلمان جمع ہوں اور ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہنے کے ساتھ ان کو درپیش مسائل کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق حل کرنا۔ منبر سے سماجیات ، رہن سہن اور بنیادی مینرز کی تبلیغ کرنا اور حقوق العباد کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنا کہ جس کا ذکر عبادات کے ذکر سے کئی گنا زیادہ ہے۔ کلام مجید میں آیا ہے اور جس پر اللہ نے پکڑ سخت رکھی کہ وہ خودہی فرماتاہے “اپنے حق میں معاف کر سکتا ہوں مگر بندوں کے حق معاف نہیں ہوں گے اور خطبوں میں ہوتا کیا ہے ؟ وہی داستان ، وہی قصے جو بچپن سے سنتے آئے، جو ازبر ہو چکے یا کوئی بھلے شاہ و اقبال سنا دے گا۔ یا پھر کسی مسلک پر بدعت و کفر کے فتوے ، یا کسی کلمہ گو گروہ پر نکتہ چینی، یا کفار کو بد دعائیں، وقت پورا، نماز پڑھیں اور اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔

اگر یہ نمازیں، روزے، حج،عمرے، ماتمی جلوس، مجالس، میلاد محافل، تبلیغی اجتماعات، دعوت کانفرنسیں، لنگر، سبیلیں، وغیرہ وغیرہ آپ کو انسان نہیں بنا رہے یا آپ کو برائی سے نہیں روک رہے یا آپ کے اندر کوئی مثبت تبدیلی نہیں پیدا کر رہے تو لکھ لو کہ یہ سب اعمال آپ کے کے منہ پر ویسے ہی مارے جائیں گے جیسے خدا کہتا ہے کہ اگر نماز تمہیں راہ راست پر نہیں لا رہی اور برے کام سے نہیں روک رہی تو وہ نماز تمہارے منہ پر دے ماری جاتی ہے۔ مگر ان سارے نیک لوگوں کا بون میرو سماج کے بون میرو سے میچ نہیں کرتا لہذا معاشرے کا کینسر بھی ختم نہیں ہو رہا۔ مسئلہ برے لوگ نہیں مسئلہ نیک لوگ ہیں جن کا تصورِ نیکی محدود اور مسخ شدہ ہے۔

ارضِ وطن کے باسی ان دنوں ایک شدیدعارضہ میں مبتلاہورہے ہیں جس کی بنیادی وجہ ان کے ہاتھوں میں موجودان کاموبائل فون اوراس پرسوشل میڈیاکی طرف سے پھیلائی ہوئی جھوٹی خبروں،افواہوں کی بھرماراوراسے بغیرتصدیق کے فوری طورپرآگے اپنے احباب کوبھیجنےکاوہ عمل ہے جس نے نہ صرف ہماری ذاتی زندگی کے شب وروزکوبربادکرکے رکھاہواہے بلکہ ہم اس گناہِ بے لذت میں بری طرح مبتلا ہوچکے ہیں۔یوں تومیں گاہے بگاہے اس موضوع پرکئی مرتبہ لکھ چکاہوں لیکن یوں محسوس ہورہاہے کہ خاکم بدہن ہم تیزی سے عذاب الہٰی اورغیض وغضب کودعوت دینے پرتلے ہوئے ہیں۔

ای آوازکی سی ای او عارفہ بہن کی دعوت پرکینیڈاکے سفرکیلئے جہازمیں بیٹھنے کی تیاری کررہاتھاکہ عمران خان کے کنٹینرپردوران لانگ مارچ فائرنگ کی افسوس ناک خبرملی جس میں زخمیوں کے علاوہ ایک کی جان بھی چلی گئی۔دکھ تواس بات کاہے کہ ان سانحے سے ہم کوئی سبق سیکھیں بلکہ الٹاایک دوسرے پربے سروپا الزامات اورموردالزام ٹھہرانے کی خبروں نے سوشل میڈیاکے کاروبارکووسعت دے دی ہے اوریہ اسی صورت میں ختم ہوسکتاہے جب ہم ایسی خبروں کو آگے ارسال کرنا بند کر دیں اور سیاسی اختلافات کے باوجود انسانیت کے ناتے اپنے دلوں میں اپنے مخالفین کا دردمحسوس کریں۔پہلے ایسے ابتر حالات میں اسٹیبلشمنٹ حکومت اور اپوزیشن کو ایک میز پر بٹھا کر مصالحانہ کردار ادا کرتی تھی لیکن اب بدقسمتی سے ان کو بھی ایک فریق بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تو اس سلسلے میں سپریم کورٹ ہی ایک ایساادارہ بچاہے جوحکومت اوراپوزیشن کوایک میزپربٹھاکرکسی ایسے فیصلے پرلاسکتاہے جہاں اس ملک کوممکنہ خطرات سے نجات مل سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں