Will India Be Able To Unite?

کیابھارت متحدرہ سکے گا؟

:Share

عالمی سطح پرکچھ کردکھاناممکن نہ ہوتب بھی کم ازکم جنوبی ایشیاکاچودھری بننے کی خواہش کوعملی جامہ پہنانے کے حوالے سے بی جے پی نے مودی کی قیادت میں وہ سب کچھ کیاجوکرناچاہتے تھے۔اس کے باوجودبھارت کواب تک اس مقام تک نہیں پہنچایاجا سکاجہاں وہ ایک نمایاں قوت کے طورپردکھائی دے۔ایک طرف توبھارت کے گوناگوں مسائل ہیں اوردوسری طرف تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی وعلاقائی حالات۔آج کی دنیا کوجن پیچیدہ مسائل کاسامناہے اُن کا حل تلاش کرنے میں ترقی یافتہ ممالک کو بھی مستقل نوعیت کی الجھنوں کاسامناہے۔سوچاجاسکتاہے کہ ایسے میں بھارت کیلئے تیزی سے پنپنے اورخودکوعلاقے کا چودھری بنانے کی گنجائش کہاں سے نکل سکتی ہے۔

مودی اوراُن کی ٹیم نے بھارت کوکہاں پہنچادیاہے،اِس سوال پرساری دنیامیں بحث ہورہی ہے۔آج بھارت کی سیاست عجیب موڑپرآ کھڑی ہوئی ہے۔ آئینی طورپربھارت سیکیولرہے مگرسیاست سے سیکیولرازم یوں نکل چکاہے کہ ڈھونڈے نہیں ملتا۔سنگھ پریوارکی سیاسی جماعتوں اورتنظیموں نے معاملات کویوں بگاڑاہے کہ اب پوری سیاست ہی مذہب کی بنیادپرپھیلائی جانے والی منافرت کی نذرہوکررہ گئی ہے۔مودی سرکارنے ہندُتوافورسزکوخوش کرنے اورعام ہندوؤں کواپنی طرف تیزی سے متوجہ کرنے کیلئے مقدس مقامات کوتعمیروترقی کے نئے مرحلے سے گزارنے کیلئے ایودھیا کے بعدکاشی،متھرا اوربنارس میں بھی شاندارمندرتعمیرکیے جا رہے ہیں۔بعض پرانے مندروں کوتوسیع کے ذریعے وسیع وعریض کمپلیکس کی شکل دی جارہی ہے۔مندروں کے ساتھ ساتھ شاپنگ مالزاورانٹرٹینمنٹ ایریا بھی بنائے جارہے ہیں۔یہ سب مذہب کے نام پرہورہاہے اورمقصود ہے ووٹ بینک مضبوط بنانا۔

12برس میں وہ مہنگائی دکھائی نہیں دی جوآج مودی دورمیں دکھائی دے رہی ہے۔کوئی ایک چیزبھی ایسی نہیں جس کی قیمت عام آدمی کو سُکون کاسانس لینے کاموقع فراہم کرے۔بیروزگاری بھی خطرناک حدتک بڑھ چکی ہے۔بھارتی سیاست میں مذہب کاعمل دخل خطرناک حدتک بڑھ چکاہے۔ہربڑی اورچھوٹی جماعت کی قیادت اب صرف مذہب کے نام پرووٹ مانگنے کی تیاریاں کرتی دکھائی دے رہی ہے۔مذہب کوسیاست کی بنیادبناکرکچھ اس اندازسے سُکون کا سانس لیاجارہاہے گویا تمام بنیادی مسائل حل کیے جاچکے ہیں اور سیاست کی گرم بازاری کیلئےصرف مذہب رہ گیاہے۔

حزبِ اقتدارہویاحزبِ اختلاف،آج بھارت میں ہرطرف مذہب کی بنیادپرکی جانے والی سیاست کی بات ہورہی ہے۔پورے ملک میں مودی کوپوجاپاٹ کرتے ،آرتی میں شریک ہوتے اورگنگامیں اشنان کرتے دکھایاجارہاہے۔اُنہیں چیلنج کرنے والے بھی خودکومذہب کااُن سے بڑامحافظ ثابت کرنے پرتُلے ہوئے ہیں۔ راہول گاندھی چیخ چیخ کراپنے ہندوہونے کاثبوت فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔کاشی میں جوکچھ تعمیرنوکے نام پرہورہاہے اُس کاسہرااکھلیش یادو اپنے سرباندھنے کی کوشش میں جُتے ہوئے ہیں۔پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں لوک سبھاکے اگلے انتخابات میں خودکوحزب اختلاف کی سب سے بڑی رہنما بنانے کی کوشش میں مصروف مغربی بنگال کی ممتا بینرجی نے مندر،مسجداورگرجاکی تصویروالے پوسٹراوربینرچھپواکراپنی پارٹی ترنمول کانگریس کی پوری سیاست کو مذہب کے کھونٹے سے باندھ دیاہے۔ایک طرف بھارتیہ جنتاپارٹی مذہب کے نام پرسیاسی دکان چمکاکراقتدارپراپنی گرفت مضبوط ترکرناچاہتی ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف کی جماعتوں کوبھی بھرپورانتخابی فتوحات مذہب کے سائے ہی میں دکھائی دے رہی ہیں۔

ملک کی کم وبیش تمام بڑی اورجھوٹی سیاسی جماعتوں کے منشوراورترجیحات کاجائزہ لیجیے تواندازہ ہوتاہے کہ انہیں لگتاہی نہیں کہ ملک میں مذہب کے علاوہ بھی کوئی ایسا نکتہ ہے جس پر سیاست کی جا سکے۔ترقی و خوشحالی کے مختلف پیمانوں کے مطابق جائزہ لیجیے تو بھارت آج بھی اچھا خاصا پچھڑاہوا ہے۔25 فیصد سے زائد بھارتی آج بھی ناخواندہ ہیں۔35فیصدسے زائد بھارتی باشندے خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسرکررہے ہیں۔امیروں اورغریبوں کے درمیان فرق تیزی سے بڑھ رہاہے۔ بھارت وہی ملک ہے جوکوروناوائرس کی وباسے بمشکل نکلا۔ تب ملک مرگھٹ میں تبدیل ہوکررہ گیاتھا۔شایدہی کوئی ہوجس کے گھر، خاندان، دوستوں یاجاننے والوں میں سے کسی کو موت چُھوکرنہ گزری ہو۔جن لوگوں نے اپنے پیاروں کوکاندھادیاوہ اورجواپنے پیاروں کاآخری دیدار بھی نہ کرسکے وہ اتنی جلدی اُس مشکل گھڑی کوکیسے بھول گئے؟جن کے ہاتھ میں اقتدارہے وہ توچاہیں گے ہی کہ لوگ کوروناکی دوسری لہرکے ہاتھوں پیدا ہونے والی تباہی کوبھول جائیں۔وہ تویہ بھی چاہیں گے کہ لوگ یہ بھی بھول جائیں کہ ڈانوا ڈول قومی معیشت بھی اپنی جگہ ایک بڑی آفت اورمصیبت ہے۔ملک ترقی کی راہ سے ہٹ چکاہے۔سیاسی تماشوں سے ہٹ کردیکھنے کی کوشش پرلوگوں کودکھائی دے گا کہ ملک انتہائی پریشان کن مسائل میں گِھراہواہے۔

اس وقت ملک کوایسی سیاست کی ضرورت ہے جویہ بتائے کہ ملک میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کوروزگارکیسے ملے گا،مہنگائی پر کس طورقابوپایاجاسکے گا،بچے اسکول کس طرح جاسکیں گے،اسپتالوں میں ڈاکٹراوربستروں کی تعداد کیسے بڑھے گی۔ملک کی مجموعی حالت تویہ ہے کہ آکسیجن جیسی انتہائی بنیادی ضرورت بھی آسانی سے پوری نہیں ہوتی۔مسائل ہیں کہ ختم ہونے کانام نہیں لیتے۔قومی وجودخطرے میں ہے۔ایسے میں اس بات کی کیااہمیت باقی رہ جاتی ہے کہ کون سامندرکب اورکہاں بنے گا۔عوام کس پارٹی کوحکومت چلانےکیلئےچُنیں گے یہ توآنے والاوقت ہی بتائے گامگرسیاسی جماعتوں کے پاس اپنے منشورکے ذریعے ترجیحات ظاہر کرنے کا موقع موجودہے۔ایسالگتاہے کہ تمام قابلِ ذکرسیاسی جماعتیں اپنی ترجیحات طے کرچکی ہیں،یہ ٹھان لی گئی ہے کہ الیکشن صرف مذہب کی بنیادپرلڑناہے۔سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں فی الحال یہ نکتہ شامل نہیں کہ عوام کامعیارِزندگی کیونکربلندکیا جاسکتاہے۔

کورونا کی وبانے بھارت کی معیشت کوشدیدنوعیت کی شکست وریخت سے دوچارکیاہے۔ہزاروں صنعتی یونٹ بندکردیے جانے سے بیروزگاری بڑھ گئی ہے ۔مہنگائی نے رہی سہی کسرپوری کرتے ہوئے عوام کاسُکون سے جینادوبھرکردیاہے۔ آزادبھارت کی تاریخ میں پہلی بارقومی معیشت پھیلنے کی بجائے سکڑرہی ہے۔متمول افرادتویہ جھٹکا برداشت کرسکتے ہیں،عام آدمی کیاکرے کہ وہ توشدید غربت کی چَکّی میں پِس رہاہے۔خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔کم وبیش ڈھائی عشروں کی محنت کے نتیجے میں جن کروڑوں افرادکو کسی نہ کسی طورغربت کے دائرے سے نکالنے میں کامیابی حاصل ہوئی تھی وہ دوبارہ غربت کے دائرے میں جاچکے ہیں۔کم ازکم 12برس کے دوران ایسی مہنگائی دکھائی نہیں دی اوربیروزگاری کا تو45سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیاہے لیکن ان تمام بدحالی کے باوجود مودی نے جومذہب کے نام پرسیاست شروع کی ہے،اس نے بھارت کولامتناہی تباہی کی طرف دھکیل دیاہے اوراب یوں محسوس ہورہا ہے کہ بھارت اپنی غلط پالیسیوں کے بوجھ تل خودہی ٹوٹنے کے عمل کی طرف بگٹٹ بھاگ رہاہے اوراس تباہی سے بچانے کیلئے اس کے آقابھی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں