Why Is The Ombudsman Not Accountable?

محتسب کااحتساب کیوں نہیں؟

:Share

کرپشن کی واضح تعریف کیلئےنیب آرڈینینس کےسیکشن 9 کی سب سے اہم ذیلی شقیں اے پانچ(ذرائع آمدن اوراثاثہ جات)اوراے چھ (اختیارات کا غلط استعمال ) ہیں۔سیاست دانوں اور سرکاری افسران کے خلاف بننے والے 95فیصد مقدمات ان دو سب سیکشن کے تحت درج کیے گئے ہیں۔نیب کسی معاملے کی انکوائری حکومتی اداروں کی درخواست، دوسرے ذرائع سے ملنے والی شکایات،یا نیب افسران کے اپنے فیصلے کی بنیاد پر شروع کرتی ہے۔سیکشن24کے تحت نیب چئیرمین کے پاس یہ اختیارات بھی ہیں کہ وہ کسی ملزم کو انکوائری یا تفشیش کی غرض سے مقدمے کے کسی بھی مرحلے پر گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر سکتے ہیں جبکہ نیب کے دائرہ اختیارمیں آنے والے تمام جرائم ناقابلِ ضمانت ہیں۔احتساب عدالتیں ملزم کی ضمانت کی درخواست لینے یاسننے کی مجازنہیں ہیں۔

حقائق یہ ہیں کہ ملک میں اس وقت نوبقیدِحیات شخصیات ایسی ہیں جومختلف اوقات میں وزیراعظم پاکستان کے عہدے پرفائزرہی ہیں۔ماسوائے دوسابقہ وزرائےاعظم کے باقی تمام نیب میں مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں۔گمنام درخواستوں پر ایکشن، ناکافی شواہد کی بنیاد پر گرفتاریاں ، الزامات ثابت ہونے سے پہلے میڈیا میں تشہیر،تفشیش کاروں کانامناسب رویہ،زیرحراست ملزمان سے نارواسلوک،اورنیب آرڈینینس کے تحت اس ادارے اوراس کے چئیرمین کو حاصل لامحدود صوابدیدی اختیارات وہ الزامات ہیں جن کا نیب کو بحیثیت ایک ادارہ جوابدہی کا سامناہے۔نیب کے قواعد و ضوابط اور سپریم کورٹ کے چند فیصلوں کے مطابق نیب صرف بڑے کرپشن کیسیز کو دیکھ سکتی ہے تاہم”عمومی طورپران قواعد کی پاسداری نہیں کی گئی۔”

یادرہے کہ چیئرمین نیب کوحاصل لامحدوداختیارات اورنیب کے دوسرے قوانین کومحدودکرنے کی کوششیں ماضی میں مسلم لیگ اورپیپلزپارٹی کے ادوارمیں جاری رہی تاہم ماضی میں یہ کبھی کامیابی سے ہمکنارنہ ہوپائیں۔سیاسی جماعتوں کی رہنمائوں نے اپنی اس کمزوری کوباقاعدہ تسلیم کیاکہ وہ اپنے ادوارمیں نیب کے قوانین کوختم نہ کرسکے،یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم نے اقتدارسنبھالتے ہی بڑی سرعت کے ساتھ نیب کے قوانین میں ایک بڑی تبدیلی کیلئے باقاعدہ قانون سازی کرکے اس کے بال وپرکاٹ کرسکھ کاسانس لیااوراب بتدریج ان کے خلاف مقدمات دم توڑتے جارہے ہیں۔

میں مضبوط اعصاب کامالک ہوں مگرنیب کے زیرحراست گزارے گئے سات دن اور اس دوران میرے ساتھ روا رکھا گیا سلوک میرے لیے کسی ڈرا ؤ نے خواب سے کم نہیں۔احتساب کے نام پر گرفتار کرنے والے شایداس بات سے ناواقف ہیں کہ عزت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔”نیب کی انکوئری،تفتیش اور زیر حراست رہنے ریٹائر ہونے والے وفاقی حکومت کے گریڈ بائیس کے ایک افسر کا جوگزشتہ دو برسوں سے نیب کے”زیرِعتاب”رہا جس پر الزام تھا کہ اس نے ایک تعمیراتی منصوبہ روک کر “اختیارات کا ناجائز استعمال” کیا ہے، بالآخر کچھ ثابت نہیں ہوسکا۔

نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربات کرتے ہوئے ایک اورشخص کاکہناتھاکہ”دوسال قبل میں سات روزنیب کے سیل اور15روزاڈیالہ جیل میں رہ چکا ہوں ۔ ہائی کورٹ کے دورکنی بینچ نے میری ضمانت منظورکرتے ہوئے28صفحے کے فیصلے میں میرے کیس کے حوالے سے نیب کی کارکردگی پرسنگین سوالات اٹھائے ۔دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ نیب اب تک احتساب عدالت میں میرے خلاف ایک بھی چارج فریم نہیں کرپائی ہے۔”اپنی طویل دکھ بھری داستان یہ کہتے ہوئے ختم کی کہ”نیب شایدوہ واحدادارہ ہے جس کااحتساب کرنے والاکوئی نہیں۔ایساہی ایک واقعہ میں آئی ایس آئی کے سابق آفیسراسدمنیرنے مبینہ طورپر نیب کے ہاتھوں”ذلت”سے بچنے کیلئےاپنی جان لے لی تھی جبکہ سرگودھایونیورسٹی کے سابق چیف ایگزیکٹومیاں جاوید اقبال کی لاش کولگی ہتھکڑیوں والی تصاویر ابھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ایساہی حال پنجاب یونیورسٹی کے چانسلراورایک استادکوبھی پیش آیاجن کی بعدازاں عدالت کے نوٹس لینے پرجان بخشی ہوئی۔

وزیرخزانہ اسحاق ڈارکے خلاف بننے والے ریفرینس میں نیب کی استغاثہ ٹیم کے سربراہ اورنواز شریف کے خلاف پانامہ پیپرز میں استغاثہ ٹیم کے ممبر عمران شفیق کے مطابق نیب کے قواعدوضوابط کے تحت گمنام درخواست یاشکایت پرایکشن نہیں لیاجا سکتاتاہم اگرنیب یہ سمجھتاہے کہ گمنام درخواست میں کافی موادموجودہ ے توایسی درخواست کوصوابدیدی اختیارت میں تبدیل کر کےایکشن لیاجاتاہے تاہم ایسے ایکشن کوصوابدیدی اختیارکے تحت گناجائے گانہ کہ گمنام درخواست کی بنیادپر۔نیب میں کیس کے چارمراحل ہیں:شکایت کی تصدیق پہلامرحلہ ہے جس میں مبینہ ملزم کے علم میں لائے بغیراس کے خلاف آنے والی شکایت کی تصدیق کی جاتی ہے۔شواہدملنے پرباقاعدہ انکوائری،مزیدشواہدپرتیسرامرحلہ تفشیش اورچوتھااحتساب عدالت میں ریفرینس فائل کرنا ہے۔

جولائی2018میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل”گمنام”درخواستیں موصول ہوتی تھیں جنہیں صوابدیدی اختیارت استعمال کرتے ہوئے فی الفورانکوائری میں تبدیل کیاجاتا۔”آپ یوں سمجھیے کہ اس دوران شکایت کی تصدیق کاپورامرحلہ احتساب کے عمل سے سرے سے نکال ہی دیاگیا۔”یہی وہ وجہ تھی جس کے باعث نیب کوتنقیدکانشانہ بنایاگیاکہ ادارہ گمنام درخواستوں پرنہ صرف ایکشن لیتارہابلکہ”پگڑیاں اچھالنے”اور”الیکشن پراثرانداز”ہونے میں ملوث رہا۔

ابتدامیں نہ صرف احتساب عدالت بلکہ ہائی کورٹس کو بھی یہ اختیار نہ تھا کہ وہ ان جرائم کی ضمانت کی درخواست سن سکیں۔تاہم2001 میں اسفند یار ولی کیس میں سپریم کورٹ نے قراردیاکہ ضمانت کاحق نہ دیناانصاف کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اس کے بعدنیب آرڈینینس میں ترمیم ہوئی اورہائی کورٹ کالفظ آرڈینینس سے نکالاگیا۔اب ہائی کورٹ اپنی رٹ کادائرہ اختیاراستعمال کرتے ہوئے ضمانت کی درخواست سن سکتی ہے۔عمران شفیق کے مطابق قتل، دہشتگردی اورمنشیات سے متعلقہ جرائم ناقابل ضمانت ہیں مگرعدالتوں کوضمانت کی درخواست سننے اورقبول کرنے کااختیار ہوتا ہےمگر احتساب عدالت کے پاس قانوناًایساکوئی اختیارسرے سے موجودہی نہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے بینچ نے نومبر 2018میں اپنے ایک تحریری فیصلے میں پارلیمان کوتجویزدی تھی کہ قومی احتساب آرڈینینس میں ترمیم کرکے احتساب عدالت کوضمانت کی درخواست سننے کامجازقراردیاجائے۔

عمومی طورپردنیابھرمیں کسی ملزم کی گرفتاری اس وقت عمل میں آتی ہے جب شواہد کا انبار اکٹھا ہو جاتا ہے اور جب تفشیش کاروں کو اس بات کا اندیشہ نہ رہے کہ ملزم عدالت سے باعزت بری ہوجائے گااورادارے کی نیک نامی پرحرف نہیں آئے گا۔خودنیب کے مطابق”جلدبازی نیب کابڑامسئلہ ہے اور بدقسمتی سے ایسے بہت ہی کم مقدمات ہیں جن میں شواہدکے انبارجمع کرنے کے بعدگرفتاری عمل میں لائی گئی ہواورنتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ اکثر کیسزیاتوبے نتیجہ ختم ہوجاتے ہیں یاطوالت کاشکار،یہی عمل احتساب کوبدنام کرنے کیلئے کافی ہے۔ایون فیلڈریفرنس میں نوازشریف،مریم نوازاورمحمدصفدرکی اسلام آبادہائی کورٹ سے سزامعطلی اورضمانت پررہائی اس بات کی واضح دلیل ہے۔یہ الگ بات ہے کہ نیب کے بال وپرکاٹ دینے کے بعداب شہبازشریف اوران کی اولادکے خلاف16/ارب کاکیس بھی ختم کردیاگیاہے اورچارہزارصفحات اورسات جلدوں پرمشتمل تحقیقاتی رپورٹ وشواہد سمیت8مستندگواہ منہ دیکھتے رہ گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں