کس کے ہاتھ پرلہوتلاش کروں؟

:Share

اقوام متحدہ اورلبنان کے حکام کے مطابق لبنان کی جنوبی کمشنری کے ضلع بشرّی کے شامی مہاجرین کیمپ میں مقامی آجراور شامی پناہ گزینوں کے درمیان پیسوں کے لین دین کے معاملے پرجھگڑے میں ایک شامی کے ہاتھوں لبنانی شہری جوزف طوق کی ہلاکت کے بعدبلوائی کاروائیوں نے دوسوشامی خاندانوں پرمشتمل قصبے کی ساری مہاجرآبادی کوتلپٹ کرکے انہیں پناہ کی خاطر محفوظ مقامات کیلئے انخلا پرمجبورکردیا۔نقل مکانی نہ کرنے والوں پرجسمانی تشدد کرکے سخت سزاسے دوچارکیاگیا۔بدنصیبی تویہ ہے کہ اس نسلی امتیازکرسمس کے جلومیں شمالی لبنان کے علاقے منیہ میں شامی مہاجرین کی خیمہ بستی پر مقامی نوجوانوں کے ایک جتھے نے حملہ کرکے کئی جھگیوں کو آگ لگاکرکیا،جس کے بعدکیمپوں میں مقیم مہاجرین سے ان کی مڈبھیڑہوئی۔ لبنان میں مقیم بے خانماں شامی برادری کے خلاف پرتشدد واقعات میں حالیہ مہینوں کے دوران تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔قابل مذمت بات تویہ ہے کہ عوام اورحکومت دونوں ہی ان واقعات کوروزمرہ کامعمول سمجھ کران سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔ 1375 نفوس پرمشتمل منیہ کی خیمہ بستی پر حملہ خطرناک رجحان کاعکاس ہے۔ ملک کی تباہ کن معاشی صورتحال کےتناظرمیں لبنان میں مقیم ڈیڑھ ملین شامی مہاجرین بڑھتے ہوئے تشدّد ودہمکیوں کانشانہ بن رہے ہیں جس کی وجہ سے کشیدگی اپنے عروج پرہے۔

جبران باسل جیسے سیاستدانوں نے لبنان کی تباہی کاالزام شامی مہاجرین پرلگاکرغیرملکیوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ یاد رہے جبران باسل عام سیاستدان نہیں بلکہ وہ سابق وزیرخارجہ اورصدرمیشل عون کے دامادہیں۔مہاجرین کو ہمیشہ جبران باسل خوف کی علامت کے طور پر پیش کرتے چلے آئے ہیں،ماضی میں ان کایہ بیان ریکارڈپرموجودہے کہ’’لبنان کو درپیش بحرانوں میں شامی مہاجرین کابحران سب سے بڑاہے ۔ بشار الاسدحکومت کاتختہ الٹنے کے حامی حلقوں میں یہ تاثرتیزی سے راسخ ہورہاہے۔بشرّی کاواقعہ اس کی ایک مثال ہے لیکن ایسی بہت سی اورمثالیں بھی موجودہیں۔

صورت حال میں بہتری اورسکون کی خواہاں آوازیں اپنی موجودگی کااحساس دلانے لگی ہیں۔منیہ اوربشرّی کے علاقے میں سعد الحریری کی فیوچرموومنٹ اور سمیرجعجہ لبنانیزفورسزکی حامی ہے۔دونوں رہنماؤں نے کھلے عام لبنان میں مقیم شامی مہاجرین کوتحفظ دینے کامطالبہ کیاہے ۔حریری اعلان کرچکے ہیں کہ’’جب تک بشارالاسد کی حکومت قائم ہے اس وقت تک مہاجرین شام واپس نہیں لوٹیں گے۔اقوام متحدہ سے مہاجرین کی محفوظ وطن واپسی کااشارہ ملنے تک میں کچھ نہیں کرسکتا۔

شامی آبادی کی ملک سے بے دخلی کے مطالبات سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ لبنان کی روایتی سیاسی جماعتوں کواس معاملے میں اپنے حلقہ ارادت پرقابو حاصل نہیں رہا۔مقامی میڈیابھی غیرملکیوں کے خلاف منافرت کوہوادینے میں پوری طرح شریک جرم ہے۔شامی مہاجرین کالبنان میں ملازمتوں کا حصول میڈیابڑھاچڑھاکرپیش کرتاہے جبکہ انہی مہاجرین کے خلاف ہونے والی پرتشدد کاروائیوں کوتوتکارجیسے معمولی تنازع کے طورپرپیش کیاجاتاہے۔

حزب اللہ اوران کے اتحادیوں کے زیرنگین علاقوں میں ہونے والی پرتشدد کاروائیوں کوذرائع ابلاغ رپورٹ کرنے سے تجاہل عارفانہ برتتے ہیں جس کی خالصتاًوجہ ان تمام مہاجرین کوبشارالاسدحکومت کامخالف سمجھاجاتاہے۔لبنان کی سلامتی کیلئےخطرہ خیال کیے جانے والے مہاجرین کی سرحدی قصبے عرسال سے زبردستی بے دخلی کی خبربھی مذکورہ پالیسی کی وجہ سے میڈیا میں جگہ نہ پاسکی۔مہاجرین کوملک میں قیام کی اجازت دینے میں لبنانی ریاست سازبازسے کام لے رہی ہے۔بعض حالات میں مہاجرین لبنان میں شام سے زیادہ سخت حالات کاسامناکرنے پرمجبور ہیں۔مختلف اقدامات کے ذریعے مہاجرین کو قانونی حقوق سے محروم کرکے انہیں ظلم کانشانہ بنایاجاتاہے۔

ان جرائم سے اغماض برتنالبنانی حکومت کی پالیسی کاحصہ ہوسکتاہے،تاہم لبنانی عوام کوبھانین کیمپ کونذر آتش کرنے جیسے جرائم پرپردہ پوشی کیلئےجواز تراشنے سے بازرہنا چاہیے۔بھانین کیمپ میں آتشزدگی غیرلبنانیوں کے خلاف سیکڑوں سنگین نسل پرستانہ اقدامات کی صرف ایک ادنیٰ مثال ہے۔شامی مہاجرین کابحران بلاشہ لبنان کیلئےبڑاچیلنج ہے۔لبنانیوں کانسلی امتیاز،تشدداور شامی مہاجرین کی بے دخلی اس بحران سے سواہے۔سوال پیداہوتاہے کہ ہچکچاہٹ کی شکار بین الاقوامی برادری ایک ایسے ملک میں کیونکرسرمایہ کاری کرے گی جہاں کی مقامی آبادی دوسروں کااحترام ملحوظ نہ رکھتی ہو؟

دونوں ملکوں کی عوام کے درمیان خراب رشتوں کی ایک اہم وجہ ماضی کی رقابتیں بھی ہیں۔ایک دورتھاجب شامی افواج کاپڑاؤ لبنان ہواکرتاتھا اور تقریباً تین عشروں تک پڑوسی ملک لبنان پرشام کادبدبہ قائم رہا۔2005میں لبنانی وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کے بعداس وقت شامی فوجیں واپس ہوئیں جب ملک بھرمیں شام کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ملک میں جاری خانہ جنگی سے بچ کرآنے والی شامی پناہ گزینوں اور مقامی لبنانیوں کے مابین کشیدگی کوئی خطرناک موڑبھی اختیارکرسکتی ہے۔50 لاکھ کی آبادی والے ملک لبنان میں دس لاکھ سے بھی زیادہ شامی پناہ گزین مقیم ہیں اوراس طرح ملک کے انفراسٹرکچرپر کافی بوجھ اوردباؤہے۔

شمالی لبنان میں پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی کے ترجمان خالدکبّاراکاکہناتھاکہ”مذکورہ عارضی کیمپ کرائے کی ایک زمین پر قائم ہے جس میں375مقیم شامی مہاجرین باقاعدہ کرایہ اداکرکے رہائش پذیرتھے۔اس سانحہ کے بعدکیمپ پوری طرح سے جل کرخاک ہوگیاہے اوریہ تمام شامی پناہ گزین نہ صرف اپنی تمام پونجی سے محروم ہوگئے ہیں بلکہ کھلے آسمان کے نیچے بی یارومددگارکسی غیبی امدادکے منتظرہیں جوابھی تک ان کومیسرنہیں آسکی ” ۔منیہ خیمہ بستی میں جلتی ہوئی جھگیوں کادردناک منظر صرف انسانیت کے خلاف جرم ہی نہیں بلکہ اس سے جہاں لبنان کی روح اوراخلاقی اقداربھی شعلوں کی نذرہوگئیں وہاں حزب اللہ اوران کے اتحادیوں کی مکمل خاموشی بھی اپنی ہی روایات کاقتل اورانسانی جرم سے کم نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں