جوں جوں پاکستان میں انتخابات قریب آرہے ہیں،اپنے بیرونی آقاؤں کے اشارے پردہشتگردخودکش حملوں کی صورت میں ابتری پھیلانے کیلئے ارضِ وطن کوخون میں رنگین کرنے کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں جس کاپہلااوچھااور جان لیواوارمیں اے این پی کے امیدوارپشاورمیں بیرسٹرہارون بلور اوران کے دودرجن سے زائدساتھیوں کی جان چلی گئی ۔ابھی یہ صدمہ سردنہ ہواتھاکہ بنوں میں ایم اے ایم کے امیدواراکرم درانی سابقہ وزیراعلیٰ (کے پی کے) جوعمران خان کے خلاف انتخاب لڑرہے ہیں،کے قافلہ پربم حملہ نے چھ افرادکی جان لے لی۔ابھی یہ خبرچل رہی تھی کہ کوئٹہ سے تقریبا 35کلومیٹر دور جنوب مغرب میں کوئٹہ تفتان شاہراہ کے قریب مستونگ واقع درینگڑھ کے علاقے میں ایک خودکش حملے میں حال ہی میں بننے والی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی جوسابق وزیرِ اعلی اسلم رئیسانی کے بھائی تھے ، صوبائی اسمبلی کے حلقہ بی پی 35 سے ایک انتخابی جلسے میں کارنر میٹنگ میں شرکت کیلئے پہنچے تھے کہ اچانک ایک خودکش حملہ آورنے خودکوایک دہماکے سے اڑادیاجس میں سراج رئیسانی سمیت کم از کم 85 افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔ اسی حلقے میں اسلم رئیسانی اپنے بھائی کے مخالف آزاد حیثیت میں لڑ رہے تھے۔ سراج رئیسانی کو اسلم رئیسانی کے دور میں بھی حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں وہ خود بچ گئے تھے البتہ ان کا بیٹا ہلاک ہو گیا تھا گویاپاکستان جو ضرب عضب اورردالفسادآپریشنزمیں پاکستان سے ان دہشتگردوں سے صفایاکرنے میں مصروف ہے، ایک مرتبہ پھرپیغام دیاجا رہاہے کہ ان دہشتگردوں کامکمل صفایاہوناابھی باقی ہے۔یادرہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل باجوہ نے پچھلے سال یوم دفاع پراپنی تقریرمیں ٹرائیکا(امریکا،بھارت اوراسرائیل) کوبرملایہ پیغام دیاتھاکہ پاکستان اپنی لازوال قربانیوں سے ان دہشتگردوں کاخاتمہ کرنے میں مصروف ہے اوران طاقتوں سے”ڈومور”کامطالبہ کیاتھا لیکن ان طاقتوں نے مثبت جواب دینے کی بجائے پاکستان کودہشتگردملکوں کی فہرست میں شامل کرنے کے لئے کوششیں شروع کردیں تاہم پاکستان کو”گرے لسٹ”میں شامل کرلیاگیاہے۔
مسیحی ممالک کے علاوہ دنیابھرمیں نئے سال کے تہنیتی پیغامات کے ساتھ ایک دوسرے کوگلے ملنے کاپیغام دیاجاتاہے اورامن وآشتی کے ساتھ اس دنیاکوجنت بنانے کاعزم ظاہر کیاجاتاہے لیکن دنیانے پہلی مرتبہ یہ دیکھاکہ امریکاجیساملک جودنیامیں سپرپاورہونے کادعویٰ کرتاہے لیکن اس کے قصرسفیدمیں بیٹھا اس ملک کاسربراہ ٹرمپ نئے سال کی پہلی صبح پاکستان کے بارے میں ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنے خبثِ باطن اورنفرت کااس طرح اظہارکرتاہے :”امریکانے پاکستان کوآخری پندہ برسوں میں33 /ارب ڈالرزکی امداددی ہے جس کے بدلے پاکستان نے امریکاکو دھوکے اورجھوٹ کے سواکچھ نہیں دیا۔پاکستان نے دہشتگردوں کوپناہ دے رکھی ہے اورہمارے لیڈروں کوبیوقوف سمجھ رکھا ہے ”۔ٹرمپ کایہ سارابیانیہ میڈیامیں درجنوں مرتبہ زیربحث بھی رہاحتی کہ خودامریکامیں کئی دانشوروںاورسیاسی تجزیہ نگاروں نے ٹرمپ کے اس رویے کو بداخلاقی اورسیاسی عقل سے عاری بھی قراردیالیکن آج تک ٹرمپ کے رویے میں تبدیلی کی بجائے مسلسل ایسے ریمارکس کئی دیگرملکوں کے خلاف بھی استعمال کرکے ان سیاسی تجزیہ نگاروں کی آراء کودرست ثابت کردیاہے کہ ٹرمپ طاقت کے بل بوتے پرتمام مسائل کاحل اپنی مرضی کے تابع دیکھناچاہتے ہیں۔ ٹرمپ کے اس بیانیہ میں ایک لفظ ”دہشتگردی”جواس فاعل کے صیغے کے ساتھ استعمال ہواہے ،انتہائی مبہم اورغیرواضح ہے،دہشتگردی کیاہے؟
آج کی دنیامیں سب سے زیادہ استعمال ہونے والالفظ”دہشتگردی”ہے۔انسائیکلوپیڈیابتاتاہے کہ دنیاکی تمام زبانوں میں آج یہ سب سے زیادہ لکھااور پڑھاجانے والالفظ ہے جو کرۂ ارض کی ہرزبان میںترجمے کی صورت گردش کررہاہے۔اخبارات،ریڈیو،ٹیلی ویژن ہرجگہ آپ کواس لفظ کاسامنا کرنا پڑے گا۔یہ لفظ ہماری سماجی زندگی کی گفتگومیں ہرطرح سے دخیل ہے۔دنیابھرکر کے اسکولوں کالجوں اوریونیورسٹیوں کے طالب علموں کی زبان پر ہے۔استادوں،صحافیوں اوردانشوروں کی گفتگوکامحوریہی لفظ”دہشتگردی”ہے۔انٹرنیٹ کی دنیامیں داخل ہوتے ہی آپ کاسامنااس لفظ سے ہوتا ہے ۔آج یہ لفظ دہشتگردی بغیرکسی ٹھوس وضاحت اورتعریف کے عالمی طاقتوں کی اجارہ داری کی نذرہوگیاہے۔ کوئی بھی ملک ،تنظیم ،گروہ یا بااثر شخصیت اپنے ملک کوبین الاقوامی سطح پرذلیل کرکے اپناضمیربیچ کراپنی عزت نیلام کرکے اپنے ہی شہریوں کی نظرمیں اپنے آپ کو رسواکرکے اگر عالمی طاقتوں کے مفادات کیلئے ایڑی چوٹی کازورلگاتاہے تواس ملک اورگروہ کے جنگجوحریت پسندکہلاتے ہیں اوراعلیٰ عہدیداروں کونوبل پرائز اورامن ایوارڈز دیئے جاتے ہیں اور خراج تحسین پیش کیاجاتاہے لیکن اگرکسی کامردہ ضمیربیدارہوجاتاہے،اپنے ملک کوترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کیلئے منصوبہ بندی اوردیگر ممالک سے معاہدے کیے جاتے ہیں،خیرات کاکشکول توڑکرمعیشت کومستحکم کرنے کاارادہ کیاجاتاہے،ملک کودہشتگردی سے پاک کرنے کیلئے اقدامات کیے جاتے ہیں ،خوداپنے پاؤں پرکھڑاہونے کی کوشش کی جاتی ہے،اپنے ملک کے انفرادی اوراجتماعی مفادات کوعالمی طاقتوں کی چاپلوسی پرترجیح دی جاتی ہے تووہی لوگ جوپہلے عالمی طاقتوں کی نظرمیں حریت پسندکہلاتے تھے، وہی دہشتگرد،جھوٹے اور دھوکے بازکہلاتے ہیں۔
پاکستان ہی کی مثال لے لیجئے ،برسوں سے لیکرآج تک تیل کے حصول کیلئے امریکی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کرفرنٹ لائن اتحادی کارول اداکیا جس سے ہمارااپناملک دہشتگردی کی زد میں آ گیا۔مزیدنقصان یہ ہواکہ عالمی میڈیامیں پاکستان کواسٹیٹ آف ٹیررقرارے دیاگیا ۔تیل کے ذریعے امریکی معیشت کوجلابخشنے کیلئے اپنے ہی ہاتھوں اپنی قوم کے نوجوانوں کو دہشتگردی کی آگ میں دھکیل دے دیاگیا لیکن جب اسٹیٹ آف ٹیررکو(اسٹیٹ آف پیس اینڈلو) میں تبدیل کرنے کاارادہ کیاگیاتوہم دھوکے بازاورجھوٹے ٹھہرے۔
جب اپنی لازوال قربانیوں سے اپنے ملک سے دہشتگردی جیسی لعنت کوختم کرنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کرلی اوریہ تمام دہشتگردپاکستان کی سرزمین پریاتوماردیئے گئے یاپھرفرارہوکر افغانستان کی سرزمین کے اس علاقے میں جابسے جہاں خودامریکی افواج کی عملداری ہے اوران کی ناک کے نیچے بھارتی ”را”انہیں پاکستان میں دہشتگردی کیلئے استعمال کرنے کیلئے باقاعدہ اڈے قائم رکھے ہیں،پاکستان کے ٹھوس شواہدفراہم کرنے کے باوجودان کے خلاف کاروائی سے اجتناب کیاجارہاہے لیکن پہلی مرتبہ ”ڈومور”کے احکامات ماننے کی بجائے اقوام عالم سے”ڈومور ”کاجب جائز مطالبہ کیاتوجواب میں تحسین کی بجائے الٹااس پرجھوٹ اوردھوکہ دہی کاالزام ایک فاترالعقل ہی لگاسکتاہے۔
افغانستان کی مثال لے لیجئے۔روس کے ساتھ برسرپیکارافغان طالبان کومالی تعاون کے ساتھ ساتھ امریکاکی طرف سےاسٹنگرمیزائل اورجدیدقسم کا اسلحہ فراہم کیاجاتارہاجس کی مدد سے تقریباًدس سال تک بے سروپاطالبان روس کے ساتھ زورآزمائی کرتے رہے بالآخرروس انتہائی بری طرح شکست کھاکرنہ صرف اپنابوریابسترسمیٹ کرچلاگیابلکہ اسی کے بطن سے چھ اورمسلم ریاستوں کاقیام عمل میں آگیااورامریکادنیامیں واحدسپرپاوربن گیا۔ ہوناتویہ چاہئے تھاکہ اس لازوال قربانیوں کوتسلیم کرتے ہوئے تباہ حال افغانستان اورپاکستان کی ہرممکن مددکی جاتی لیکن امریکافوری طور پرطوطے کی طرح آنکھیں پھیرکرواپس چلاگیالیکن اس مشکل حالات میں یہ پاکستان ہی تھاجس نے افغانستان میں قیام ِامن کیلئے اپنی تمامترکوششوں کو جاری وساری رکھااورکسی حدتک انہی افغان طالبان نے افغانستان میں جاری خونریزری پرقابوپاکرپرامن حکومت کی بنیادرکھی اوردنیانے یہ تسلیم کیاکہ انہی طالبان کے دورِ حکومت میں منشیات اوردیگرجرائم پرقابوپالیاگیا لیکن جونہی روس سے الگ ریاستوں جہاں قدرتی معدنی گیس اورتیل کے وافرذخائرکے خزانوں کاانکشاف ہواتو امریکاایک مرتبہ پھران کے حصول کیلئے راہداری کیلئے افغانستان کواستعمال کرنے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیئے لیکن طالبان امریکاکی بے وفائی کے مناظربھول نہ پائے تحے ،اس لئے انہوں نے اپنی شرائط پر معاملہ طے کرنے کی کوشش کی جوایک خود مختارملک کاحق ہے جوامریکانے طاقت کے نشہ میں ماننے سے نہ صرف انکارکردیابلکہ افغان حکومت کوتبدیل کرنے کیلئے سازشیں شروع کردیں۔ جب امریکااپنی ان سازشوں میں کامیاب نہ ہوسکاتواس نے ورلڈ ٹریڈ سنٹرکی تباہی کاافسانہ گھڑلیااوروہی طالبان جوکبھی حریت پسندکہلاتے تھے، اسامہ بن لادن کوپناہ دینے کے الزام میں امریکی بربریت ،درندگی اورسفاکی کانشانہ بنے اوردہشتگردکہلائے۔
امریکاکواپنے علاوہ تمام مسلم دنیابالخصوص پاکستان دہشتگرددکھائی دیتاہے اورکیوں نہ دکھائی دے کہ امریکاباربارانسانیت سوزمظالم اوردرندگی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دے رہاہے اور کسی بھی ملک کیلئے جوغلط راہ پرچل پڑے ،مسلمان ملک وملت سے خائف ہوناایک فطری امرہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کیلئے غلط کام کرنے پرایک خوف ڈال دیا ہے ۔اسی خوف کے زیراثرٹرمپ یاکسی بھی شخص کاپاکستان کو دہشتگرد کہناکوئی عجب بات نہیں۔اس کوتوایک مثال سے یوں سمجھ لیجئے کہ ایک چورکسی گھرمیں ڈاکہ ڈالتا ہے،پولیس کواطلاع ہوتی ہے تو چورکورنگے ہاتھوں گرفتارکرنے کیلئے چوراورپولیس کاآمناسامناہوتاہے۔اس وقت چورکیلئے پولیس دہشتگردہوئی کیونکہ چورکیلئے پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کی دہشت اورخوف ایک طبعی امرہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکااوراسرائیل کے دلوں میں پاکستانی کی انتہائی دہشت چھپی ہوئی ہے ،اسی لئے تومختلف مواقع پراس خوف کا اظہار کیاجارہاہے۔
جب 1967ء کی جنگ میں عربوں کی شکست پریہودیوں نے فرانس میں جشن منایا،اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان نے ایک تقریب میں واشگاف اعلان کیاکہ”یہودی تحریک کیلئے پاکستان کونظراندازکرناانتہائی خطرناک ثابت ہوسکتاہے،اس لئے ہمارے لئے پہلاہدف پاکستان ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان ایک نظریے کی بنیادپروجودمیں آیا ہے اوریہی نظریہ ہماری منزل مقصود کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔چنانچہ ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے کہ ہم جلداز جلد پاکستان کے خلاف ٹھوس اورپرزوراقدامات کاآغازکریں”۔بہرحال یہ توہمیشہ پاکستان سے خوفزدہ رہیں گے لیکن عوامی سطح پردہشتگردی کی اصطلاح سمجھنے کیلئے نہ توامریکاکی کسی ڈکشنری میں اس کی ٹھوس تعریف اوروضاحت ملتی ہے نہ امریکا کے کسی صدر،اس کے کسی اتحادی ملک کے سربراہ یا وزیراعظم،سیاستدان یاقانون دان نے دہشتگردی کی ٹھوس تعریف کرنے کی زحمت گوارہ کی ہے۔کرے بھی کیوں،کہ اسے اپنے حق میں استعمال جو کرنا ہے۔
دہشتگردکالفظ پہلی مرتبہ 1790ء میں پہلی مرتبہ انقلاب فرانس کے دوران استعمال ہواجبکہ امریکا کی آکسفورڈڈکشنری کے مطابق اس کی وضاحت کچھ یوں کی گئی ہے:
The use of violent actions in order to achieve political aims or to force and government to act.
”شدیدمقاصد کیلئے یاحکومت کو عمل کرنے پرمجبور کرنے کیلئے تشدد کے کاموں کااستعمال”۔اسی وضاحت اورتعریف کومدنظررکھتے ہوئے امریکا کوعالمی دہشتگرد کہنا یقیناانصاف کاتقاضہ ہے۔میری بات سے میرے ملک کے بعض دوراندیش،روشن خیال اورترقی پسندحضرات یقیناً اختلاف کریں گے لیکن شایدکوئی مندرجہ ذیل حضرات کی تائیدکی بناء پرہی ہمارے مؤقف سے اتفاق کرلے۔
امریکی جنگ آزادی کے دوران برطانوی حکومت کی طرف سے بینجمن فرینکلن اورجارج واشنگٹن کوعالمی دہشتگردقراردیاگیاتھا۔20ستمبر2006ء کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کےاجلاس وینزویلاکے صدرہوگوچیوازنے جارج بش کوشیطان اوردہشتگردقراردیاتھا۔دسمبر2005ء میں”دی آئرش ٹائمز”کوایک انٹرویودیتے ہوئے بولویاکے صد رایوومورالس نے جارج بش کودہشتگرد قرار دیاتھا۔جنوری2006ء میں امریکاکےمشہورموسیقارہیری بیلافونٹی نے جارج بش کودنیاکاسب سے بڑادہشتگردقراردیاتھا۔اگست 2005ءمیں برطانوی پارلیمنٹ کے ممبرجارج گیلوے نے جارج بش کودنیاکا سب سے بڑادہشتگردقراردیتے ہوئے کہاتھاکہ جارج بش اورٹونی بلیئرکے ہاتھ ان لوگوں کی نسبت زیادہ خون آلودہیں جوورلڈ ٹریڈ سنٹریالندن میں دہشتگردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں۔اس پرمستزادیہ کہ اگرکوئی شخص کسی بے گناہ انسان کوتکلیف پہنچائے بغیر جارج بش اور ٹونی بلیئرپرخودکش حملہ کرے گاتویہ عین انصاف ہوگا۔25جولائی 2006ء نیدرلینڈکی نوبل انعام یافتہ بیٹی ویلیمزنے تویہاں تک کہہ دیاتھا کہ”مجھے جارج بش کوقتل کرنے کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے”۔
اپنی خونخواری،درندگی،سفاکی اوربربریت کودنیاکی نظروں سے چھپانے اوراپنے مذموم مقاصد کے حصول میں اسلام اورمسلمانوں کوراستے سے ہٹانے کیلئے اسلام کو دہشتگردی سے جوڑنے اوراسے ایک خطرناک اورخونخوارمذہب کے طورپرپیش کرنے کیلئے پرزور پروپیگنڈہ اورسرتوڑناکام کوششیں کی جا رہی ہیں جس کیلئے ماہانہ کروڑوں ڈالرز خرچ کئے جاتے ہیں اورمسلمانوں میں سے سلمان رشدی جیسے ملعون لوگ پیدا کرنے اور خریدنے کی کوششیں کی جاتی ہیں لیکن اسلام کے مطالعے سے لوگ یہ بات سمجھ جاتے ہیں کہ اسلام عالمگیر امن کاداعی ہے اورپرامن معاشرے کیلئے مختلف مذاہب کے ہوتے ہوئے بھی باہمی محبتوں کاوجودضروری ہے۔اسی محبت کے جذبے کوفروغ دینے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کومختلف مقامات سے مٹی کوجمع کرکے تخلیق فرمایا۔ اس حقیقت کوجاننے کے بعد پروپیگنڈہ سے متاثرافرادفطری طورپراسلام قبول کرنے پررضامندہوجاتے ہیں۔یورپ میں اسلام قبول کرنے پررضامندہوجاتے ہیں۔ یورپ میں اسلام کے تیزی سے پھیلاؤ کوروکنے اوراس کے آگے بندباندھنے کیلئے متبادل راستے کے طورپر ہر مسلمان دہشتگردنہیں لیکن ہر دہشتگرد مسلمان ہے”کے نعرے کوعالمی میڈیامیں فروغ دیاجارہاہے جس نے اسلام کی طرف رغبت رکھنے والے غیر مسلموں اورہمارے بعض دانشوران اورترقی یافتہ طبقے کوبھی کسی حدتک متاثرکیاہواہے جسے حقیقت اورتاریخ کے آئینے میں جانچنے کی ضرورت ہے تاکہ غیرمسلموں کواسلام پرمطمئن کرنے کاسامان ہوسکے اوریہ ہمارے لئے مزیداستقامت کاسبب بنے۔
انیسویں اوربیسیویں صدی میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کااگرجائزہ لیاجائے توحقیقت کھل کرسامنے آجاتی ہے۔13مارچ1881ء کوایک دہماکے میں روس کے بادشاہ الیگزینڈردوم کوقتل کیاگیا جبکہ اس کے ساتھ ہی بیس دیگرافرادبھی ہلاک ہوگئے۔یہ واقعہ ایک غیرمسلم شخص کے ہاتھوں پیش آیا۔4مئی 1886ء کوشکاگومیں ایک لیبرریلی کے دوران دہماکہ ہواجس میں بارہ افرادہلاک اور سات افرادزخمی ہوئے جس کی ذمہ داری انارکسٹ نے قبول کی جوکہ ایک غیرمسلم تھا۔6ستمبر 1902ء کوایک غیرمسلم شخص نے امریکاکے صدرویلیم میکنلے کوقتل کردیا۔یکم اکتوبر1920ء کومسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے دوافرادضیمزاورجوزف نے ٹائمزاخبارکی عمارت کو دہماکے سے اڑادیاجس میں 21 افراد ہلاک ہوگئے ۔28جون1914ء کوآسٹریلیاکے آرکوڈوک اوراس کی بیوی ایک بوسینائی سرب کے ہاتھوں قتل ہوئے جوجنگ عظیم اوّل کاپیش خیمہ بنا۔
سولہ اپریل1925ء کوبلغاریہ کی کیمونسٹ پارٹی نے بلغاریہ کے”سینٹ نیڈیلا”چرچ میں دہماکہ کیاجس میں 50/افرادہلاک اور500/ افرادزخمی ہو گئے،اس کوبلغاریہ کی سب سے بڑی دہشتگردانہ کاروائی شمارکیاجاتاہے۔9/اکتوبر1934ء کویوگوسلاویہ کے کنگ الیگزینڈراوّل کا ایک غیرمسلم
کے ہاتھوں سیکورٹی گارڈکے ہاتھوں قتل ہوا ۔3/ستمبر 1969ء کوبرازیل میں امریکی سفیرکوایک غیرمسلم شخص نے اغواء کرکے قتل کردیا ۔30 جولائی 1969ء کوجاپان میں ایک غیرمسلم نے امریکی سفیرپرچاقوسے حملہ کرکے زخمی کردیا۔انیس اپریل1995ء کومسیحی برادری کے دو افراد ٹی موتھی اورٹیری نےاوکلوہاماشہرکی فیڈرل بلڈنگ میں دہماکہ کیاجس میں 166/افرادکی جانیں ضائع ہوگئیں اور100سے زیادہ افرادزخمی ہوئے ۔ 1941ء سے لیکر1948ء تک مختلف یہودی تنظیموں کی دہشتگردی کے تقریباً260واقعات نوٹ کیے گئے۔ 22جولائی 1946ء کودائیں بازوکے صہیونی کے لیڈرمینہم بیگن نے یروشلم میں واقع برطانوی ایڈمنسٹریشن ہیڈکوارٹرکنگ داؤدہوٹل میں دہماکے کروائے جس میں 91/افرادہلاک اور40/افرادسے زائدزخمی ہوئے جسے برطانیہ نے عظیم دہشتگردقراردیاجبکہ 1978ءمیں اسی عظیم دہشتگردکونوبل پرائزسے نوازاگیا۔
نومئی 1978ء کوایک غیرمسلم کے ہاتھوں اٹلی کے ایلڈومورکاقتل ہوا۔20مارچ1995 ء کو”کلٹ موومنٹ آم” نامی تنظیم کے رکن اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ٹوکیوکی ایک شاہرا ہ میں زہریلی گیس چھوڑدی جس سے 12/افرادہلاک اورہزاروں متاثرہوئے۔
امریکامیں گزشتہ سوسال کے دوران “آئرش ری پبلکن آرمی”کے ہاتھوں دہشتگردی کےمتعدد واقعات دیکھے گئے۔1972ء میں تین دہماکے کیے جس میں 20افرادہلاک اورسوسے زائدہوگئے۔ 1974ء میں دودہماکے کئے جس میں 25سے زائدہلاک اورسوسے زائدزخمی ہوئے۔
1995ء میں مانچسٹرکے شاپنگ مال میں ایک زبردست قسم کادہماکہ ہواجس میں کئی درجن افراد ہلاک اور200سے زائدزخمی ہوئے۔اگست 1998ء میں بین بریج کے دہماکے میں 30سے زائدزخمی ہوگئے ۔اسپین اورفرانس میں”ای ٹی اے”(اوسکاڈی ٹااسکاٹاسونا) دہشتگردی کے36واقعات میں ملوث پایاگیا۔یادرہے ان تمام واقعات میں ایک بھی مسلمان ملوث نہیں تھابلکہ تمام ملزمان غیرمسلم تھے۔
پانچ جون1984ء کوامرتسربھارت میں اندین فورسزنے گولڈن ٹیمپل پرحملہ کیاجس میں سینکروں سکھ افرادکوبیدردی سے ماردیاگیاجس کاانتقام لینے کیلئے اندراگاندھی کوان کے اپنے ہی سکھ گارڈ نے 31/اکتوبر1984ء کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔بیسیویں صدی میں2/اکتوبر2004ءکو عیسائی دہشتگردوں نے 44/ہندوؤں کوقتل کردیاجس میں انہوں نے یہ مؤقف اختیارکیاکہ اب تک ہندو جنونیوں نے ہمارے کئی گرجاگھروں کوآگ لگائی ہے اورہمارے کئی عیسائی راہبوں کوزندہ جلادیا گیااورعلاوہ ازیں مسلسل عیسائیوں کوجبراً ہندو بنانے کاعمل جاری ہے جس پربھارتی حکومت نے چپ سادھ رکھی ہے۔اسی طرح 1990ء سے لیکر2006ء تک شمالی مشرقی انڈیاکی ایک تنظیم یونائیٹڈلبریشن فرنٹ آف آسام کودہشتگردی کے 749واقعات میں ملوث پایاگیا۔بھارت کے 600 علاقوں میں سے150 علاقوں پریعنی ایک تہائی بھارت پرمحیط نیپال کی ماؤ تنظیم نے سات برسوں میں دہشتگردی کے 99واقعات سرانجام دیئے۔4جنوری2017ء بروزجمعہ کولندن کے پارسنزگرین اسٹیشن پرصبح8:20پرزورداردہماکہ ہواجس میں 30/افرادزخمی ہوگئے۔اس کے علاوہ بھی بیسیوں واقعات ایسے ہیں جن میں آپ کوکسی مسلمان کانام تک دکھائی نہیں دے گااوراگرکہیں پردعویٰ کیا گیاہے تووہ بے جااوربلاثبوت ہے اوراگردعویٰ ٹھوس ثبوتوں کی بنیادپرہے تب بھی یہ حملہ آور کا ذاتی فعل ہے،جومذہب اسلام نمازکیلئے وضو میں زائدپانی بہانے کی اجازت نہیں دیتا وہ بھلاکسی
بے گناہ کے قتل کی اجازت کیسے دے سکتاہے بلکہ کسی ایک بے گناہ کے قتل کوتوساری امت کے قتل سے تشبیہ دی کرشدیدمذمت کرتا ہے۔
یوگنڈامیں”لارڈسالویشن آرمی” کے نام سے عیسائیوں کی دہشتگردتنظیم موجودہے۔سری لنکامیں تامل ٹائیگرزکے نام سے دہشتگردتنظیم جواس خطے میں خودکش حملوں میں کافی مشہورہے،وہ
ایک ہندومذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔پنجاب بجرنگ دل کے نام سے سکھوں کی تنظیم پائی جاتی ہے جویہ دعویٰ کرتی ہے کہ اب تک بھارتی سیکورٹی وفورسز نے تین لاکھ سے زائدبے گناہ سکھوں کوقتل کیاہے جس کی بناء پروہ اب بھارت سے الگ خالصتان بناناچاہتی ہے جس کوبھارت نے دہشتگردتنظیم قراردے رکھاہے لیکن ان میں سے کسی کوبھی ہندددہشتگرد،عیسائی دہشتگرد یاسکھ دہشتگرد کہہ کرپکارنےیاسننے کاکبھی اتفاق نہیں ہوابلکہ ان کی دہشتگردی کوان کی تنظیموں کے نام سے منسوب کیاجاتارہاہے تاہم کسی بھی جگہ ایک ناسمجھ مسلمان کی چھوٹی سی غلطی کوبھی اسلام سے منسوب کردیناکہاں کاانصاف ہے۔فافھم وتدبر!
عراق،لیبیا،افغانستان،فلسطین،لبنان اورکشمیرمیں اب تک لاکھوں افرادقتل کردیئے گئے ہیں اورہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔عراق پرامریکااوراس کے اتحادیوں نے جوبہانہ بناکر اس کوتاراج اورتین ملین سے زائدبے گناہ افرادکوشہیدکردیاگیا،اس بہانے کوسب سے پہلے خودامریکی جنرل نے اقوام متحدہ میں اس غلطی کوتسلیم کیا،بعدازاں ٹونی بلیئرنے میڈیا پرآکراس غلطی کوتسلیم کرتے ہوئے معافی مانگی لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کیااس معافی کی تلافی ممکن ہے؟عراق جیسے قدیم ملک کی تہذیب کونابودکردیاگیا،تیس لاکھ افرادکوبمباری کی بارش نے تہس نہس کردیا،خاندان اجڑ گئے، کاروبار و تجارت کانام ونشان نہیں بچا۔کیاکسی عالمی ادارے نے امریکااوربرطانیہ کے ان جنگجورہنماؤں کے خلاف کسی جنگی عدالت میں مقدمہ چلانے کی قراردادمنظورکی؟اگریہی ظلم کسی مسلمان ملک یا مسلم رہنماء سے سرزدہوتاتوکیااس کوبھی اسی طرح ہلکے پیٹ برداشت کرلیاجاتا؟ سزا دیناتو درکنار ان ظالم درندوں کومجرم تک قرارنہیں دیاگیا۔
افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف امریکاسمیت تمام مغرب انہی افغان لڑنے والوں کومجاہدین کے نام سے پکارتاتھااورہرقسم کے جنگی اسلحے سے روس کے خلاف امدادفراہم کرتارہالیکن آج یہی کام امریکاکے خلاف جاری ہے اورایک اطلاع کے مطابق امریکانے روس سے کہیں زیادہ خوفناک بمباری میں منی ایٹم بم کے ساتھ ساتھ فاسفورس بم استعمال کرکے پانچ ملین افغانوں کوموت کے گھاٹ اتاردیااورہنوزیہ سلسلہ جاری ہے لیکن منافقت کایہ عالم ہے کہ اپنے اس دہرے کردار پر شرمندہ ہونے اوراپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے انہی مجاہدوں کودہشتگرد قراردیاجا رہاہے ۔یہی معاملہ فلسطین میں جاری وساری ہے جہاں اسرائیل جیساظالم درندہ صفت پچھلی پانچ دہائیوں سے نہ صرف ان کی سرزمین پرناجائزقابض ہے بلکہ ہرآئے دن ان مظلوم فلسطینیوں کوگاجرمولی طرح کاٹ رہاہے لیکن امریکااعلانیہ اس کی پشت پناہی پرنہ صرف کھڑاہے بلکہ اقوام متحدہ کی منظور قراردادوں کو پس پشٹ ڈال کراپناسفارت خانہ یروشلم میں منتقل کرکے دنیاکوکیاپیغام دے رہاہے؟ کیاٹرمپ کے اس غیرقانونی اقدامات کو اقوام عالم میں کسی نے چیلنج کیاہے؟ابھی حال ہی میں یکطرفہ طورپرایران کے ساتھ کئے گئے جوہری معاہدے کے پرزے اڑادیئے ہیں اوراس پرمستزاد دنیابھرکے ان تمام ملکوں کودہمکاکرایران کودنیامیں تنہاکرنے کی پالیسی پرعملدرآمد کرانے پر سرگرم ہے جوایران کے ساتھ کھڑے ہیں۔
بھارت بھی خطے میں امریکاکے نقش قدم پرچلتے ہوئے طاقت کے بل بوتے پراپنے تمام ہمسایہ ممالک پراپناایجنڈامسلط کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں کے پرخچے اڑاتے ہوئے اب تک کشمیریوں کوحق خودارادیت دینے کی بجائے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہیدکرچکاہے۔جانوروں کوشکارکرنے والی ممنوعہ پیلٹ گن کابے دریغ استعمال کرکے سینکڑوں کشمیریوں کوبصارت سے محروم کرچکا ہے۔ کیااقوام متحدہ یاکسی بھی مغربی ملک نے بھارت کودہشتگردملک قراردینے کے بارے میں سوچا بھی ہے؟ اگریہی عمل پاکستان یا کسی اورمسلمان ملک میں رونماہوتاتوکیاامریکااورمغربی ممالک کی لونڈی اقوام متحدہ اب تک خاموش تماشائی رہتی؟ لیکن اگرکہیں بدقسمتی سے کچھ مسلمان دہشتگردی میں ملوث پائے جاتے ہیں تومعدودے چندمسلمانوں کی وجہ سے ان کے دین کی تعلیمات سے انکارکرناانتہائی پرلے درجے کی بیوقوفی اورحماقت کے سواکچھ نہیں۔
اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ ایک شخص کوگاڑی چلانانہیں آتی اوروہ کسی اعلیٰ کمپنی کا بہترین اورنئے گاڑی میں بیٹھ کرکسی کھمبے میں جامارتاہے اوربعدمیں اس کمپنی کوموردِ الزام ٹھہرائے کہ اس نے گاڑی تھیک نہیں بنائی توکیاہم اس اناڑورناہنجارشخص کی بات پریقین کرنے کیلئے تیارہوں گے؟کوئی احمق ہی ہوگاجواس کی بودی دلیل پرقہقہہ نہ لگائے کیونکہ کھمبے سے گاڑی کاجاٹکراناگاڑی کی نہیں بلکہ چلانے والے کی ناسمجھی اورکم علمی ہے۔اسی طرح اگرکوئی مسلمان دہشتگردی اورانتہاء پسندی کے واقعات میں ملوث پایاجائے تواس کی وجہ اسلام کی تعلیمات نہیں بلکہ اس مسلمان کاسلام سے لاعلمی کانتیجہ ہے۔اس کے باوجودمذہب کے تناظرمیں درندگی،سفاکی،بربریت اورانسانوں پرہونے والے مظالم اورزیادتیوں کا جائزہ لیاجائے تب بھی دیگر ناانصافیوں اورانسانیت کاخون بہانے ے حوالے سے مسلمانوں کی تقصیرات ہیچ نظرآنے لگیں گی۔
جرمنی کے ایڈولف ہٹلرنے ساٹھ لاکھ لوگوں کاقتل عام کیاجوایک عیسائی تھا۔دوسری عالمی جنگ جوجرمنی،اٹلی،فرانس،برطانیہ،جاپان،آسٹریلیا، کینیڈا،نیوزی لینڈ،انڈیا،سوویت یونین،چائنا اور امریکا کے مابین لڑی گئی ،اس جنگ میں تمام ملکوں کی افواج کے ہاتھوں ہلاکتوں کی تعدادکم ازکم پانچ کروڑ اورزیادہ سے زیاآٹھ کروڑ بتائی جاتی ہے،ان میں کوئی ایک بھی مسلمان ملک شامل نہیں۔ سوویت یونین کے جوزف سٹالن نے دوکروڑلوگوں کاخون بہایاجن میں ایک کروڑچالیس لاکھ افراد کوبھوک اورپیاس سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔چائناکے ماؤزے تنگ نے ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑساٹھ لوگوں کوفناکے گھاٹ اتاردیا۔اس باب میں مسولینی نے بھی حصہ لیااور چار لاکھ افرادکاقتل عام کیا۔ میکسی میلین نے انقلاب فرانس کے دوران چارلاکھ لوگوں کوقتل کیا،ان میں کوئی ایک بھی مسلمان نہیں بلکہ یہ تمام عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے تھے۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اشوکانے کلنگاکی جنگ میں ایک لاکھ افرادکوقتل کیاتھا جوایک ہندوتھا۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ عراق کے صدام کے ذمہ بھی کئی ہزارلوگوں کاخون ہے اورانڈونیشیا کے محمد سوہارتونے بھی تقریباً پانچ لاکھ لوگوں کوقتل کرنے کااعزازاپنے نام کیاہے لیکن یہ تعداد باقی تمام جنگوں اور دہشتگردی کے واقعات جوغیرمسلموں کے ذریعے انجام پائے کے مقابلے میں کئی گناکم بلکہ نہ ہونے کے برابرہے۔
ان تاریخی حقائق سے یہ بات روز، روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ دہشتگردی کاکوئی مذہب نہیں ہوتااوراسے کسی بھی مذہب کی تعلیمات سے جوڑناقرین انصاف نہیں۔ہاں! ایک بات ضرورہے اگرمستقبل قریب یابعیدمیں دہشتگردی کیلئے کسی مذہب کانیانام کے انتخاب پرغورکیاجائے تو دہشتگردی کے مذہب کانیانام امریکاہوناچاہئے اوردہشتگردوں کے کمانڈروں کے نام جارج واشنگٹن ،جارج بش،ٹونی بلیئراورڈونلڈٹرمپ ہونے چاہئیں کیونکہ ان کی اپنی آکسفورڈڈکشنری کی تعریف کے مطابق یہ حضرات عالمی دہشتگردقرار دیے جاچکے ہیں۔اس تناظرمیں سب سے بڑے جھوٹے ،مکارکہلائے جانے کے لائق یہ حضرات ہیں جوانسانیت اورمذہبی رواداری کاڈھونگ رچاکر مساوات کاعلم ہاتھ میں لیے ساری دنیاکوویران کرنے چل پڑے ہیں۔