دہشتگردکون؟

:Share

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دومساجدمیں قیامت صغری ڈھاتے ہوئےدہشتگرد حملوں میں 49افراد ہلاک اور 20 سے زیادہ لوگوں کو شدید زخمی کردیاگیاہے۔بیس سالہ آسٹریلوی ظالم حملہ آور برینٹن ٹارنٹ نے سر پر لگائے گئے کیمرے کی مدد سے النور مسجد میں نمازیوں پر حملے کو فیس بک پر لائیو بھی دکھایا۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن نے مسجد پر فائرنگ کے واقعے کو دہشتگردی قرار دیتے ہوئے اسے نیوزی لینڈ کی تاریخ کے سیاہ ترین دن قرار دیاہے۔پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں کہا: ”کرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ میں مسجد پر دہشت گرد حملہ نہایت تکلیف دہ اور قابل مذمت ہے۔ یہ حملہ ہمارے اس مقف کی تصدیق کرتا ہے جسے ہم مسلسل دہراتے آئے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔ ہماری ہمدردی اور دعائیں متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں”۔ ان کا مزید کہنا تھا: ”ان بڑھتے ہوئے حملوں کے پیچھے نائن الیون کے بعد تیزی سے پھیلنے والا ”اسلاموفوبیا ”کارفرما ہے جس کے تحت دہشت گردی کی ہرواردات کی ذمہ داری مجموعی طور پر اسلام اور سوا ارب مسلمانوں کے سر ڈالنے کا سلسلہ جاری رہا۔ مسلمانوں کی جائز سیاسی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے لیے بھی یہ حربہ آزمایا گیا”۔
دہشتگرد کون ہیں؟ کیا یہ کسی تحریک یا نظریہ کا نام ہے؟ یا کسی فرد یاجماعت کا؟ یہ وقت کا اہم موضوع ہے،خوداقوام متحدہ اس موضوع پرکئی سال غور کرنے کے باوجود یاقوام متحدہ اس کی تعریف متعین کرنے سے قاصرہے۔وہ جوبھی تعریف متعین کرتی ہے اس کی زدمیں وقت کی سپر طاقتیں آجاتی ہیں چونکہ اقوام متحدہ سپرطاقتوں کی آلہ کارہے،اس لئے ان طاقتوں کی خواہش پران کانام لینے کی بجائی ملت اسلامیہ کوہدف بنادیا جاتاہے اور دہشتگردی کاایک آسان نام اسلامی دہشت
گردی ایجاد کرلیاگیاہے تاکہ افغانستان،عراق وغیرہ پرحملوں کاجوازفراہم ہوجائے۔اس طرح وقت کے سب سے بڑے دہشتگردامریکا نے اپنے جنگجو مقاصد کوحاصل کرنے کیلئے ان مسلم ممالک میں تباہی اور بربادی مچادی اوروہاں لوٹ کھسوٹ اورقتل وغارت گری کواپنے لئے جائزقراردے دیا ۔اسرائیل نے بھی اپنے مربی کی شہ پر فلسطین میں عربوں کے قتل عام کرکے تباہی مچادی اور اسرائیل کویقیناًامریکا کے بعد دہشتگرد ثانی بھی کہہ سکتے ہیں۔ جرمنی میں ہٹلر نے یہودیوں کا جو قتل عام کیاتھا (جسے لو ہولوکاسٹ کے نام سے جانتے ہیں) اس کا بدلہ وہ عربوں سے لے رہاہے۔ ہٹلرنے جوسلوک ان کے ساتھ کیاتھا،اس سے بدترسلوک وہ فلسطین میں عربوں کے ساتھ کررہاہے چونکہ اسرائیل جرمنی سے بدلہ نہیں لے سکتا اورامریکی پالیسی ساز بھی اسرائیل کے ذریعے عربوں کو کچلنا چاہتے ہیں۔ان دوطاقتوں کالےپالک بھارت بھی پچھلی سات دہائیوں سے مقبوضہ کشمیرمیں ایک لاکھ سے زائدبے گناہ کشمیریوں کوشہیدکرچکاہے اورحال ہی میں پاک بھارت کشیدگی نے دونوں جوہری طاقتوں کوایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑاکردیاہے اورکسی بھی وقت ایک چنگاری اس سارے خطے کوبھسم کرسکتی ہے لیکن میڈیاپریہ تینوں جابروظالم تسلسل کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ تمام مسلمان دہشتگردنہیں لیکن تمام دہشتگردمسلمان ہیں جبکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے اورخود معتبر مغربی ذرائع کی رپورٹیں حقائق آشکار کرتے ہوئے ان کے ناپاک عزائم اوران کے جھوٹ کا کاپردہ چاک کررہے ہیں۔
“گلوبل ڈیٹابیس ٹیررازم”کے اعدادوشمارکے مطابق اگر1970ء سے 2007ء تک،سینتیس برسوں کے دوران پوری دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کا جائزہ لیاجائے تو مجموعی طورپر دنیا بھر میں دہشتگردی کے87000واقعات ہوئے تھے جن میں سے 2695یعنی 3فیصد واقعات ان لوگوں نے کئے جواپنے آپ کومسلمان کہتے تھے۔ان میں سے 2369 واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 10یا اس سے کم تھی، 201 واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد11سے50تک تھی، 16واقعات میں ہلاک ہونے والے51 سے100تھے اور4واقعات میں101یااس سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔گویادنیامیں99.6 فی صد دہشتگردی کے ذمہ دارغیرمسلم ہیں۔
یورپین یونین کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی یوروپول کے مطابق2007سے2008 تک یورپ میں دہشتگردی کے99.6فیصد واقعات غیر مسلموں نے کئے۔ ان میں سے 84.8 فیصد واقعات علیحدگی پسندوں نے کئے جبکہ کوئی علیحدگی پسند مسلمان نہیں تھا۔بائیں بازو کےگروہوں کی دہشتگرد کارروائیوں کی تعداد مسلمان دہشتگردی کی نسبت16گنا زیادہ ہیں۔ یورپی یونین کے ممالک میں ہونے والے جرائم میں صرف 2فیصد کا محرک مذہبی ہوتاہے۔ مثلایورپی ممالک میں 2013 میں دہشتگردی کے 152واقعات ہوئے جن میں سے صرف2کامحرک مذہبی تھا۔2012 میں دہشت گردی کے 219 واقعات ہوئے جن میں سے صرف 6 کا محرک مذہبی تھا۔2011 میں دہشتگردی کے 174واقعات ہوئے جن میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھاجس کامحرک مذہبی ہو۔ 2010 میں دہشتگردی کے 249 واقعات ہوئے جن میں سے تین کا تعلق مسلمانوں سے تھا۔ 2009 میں دہشت گردی کے 294 واقعات ہوئے جن میں سے صرف ایک میں مجرم مسلمان تھا۔ یادرہے کہ دہشتگردی کے دو فیصد مذہبی محرک کامطلب اسلامی نہیں،ان واقعات میں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شریک تھے۔
ادھرمودی سرکارجوانتخاب جیتنے کیلئے اس خطے کوبربادکرنے پر تلی ہوئی ہے، پلوامہ میں خودکش حملہ جس میں 44دلت بھارتی دلت فوجی مارے گئے ،خودان کے ملک میں اپوزیشن کی جماعتیں اس دہشت گردی کامودی کوموردالزام ٹھہرارہے ہیں کہ مودی نے اپنی حکومت کی ساری ناکامیوں پرپردہ ڈالتے ہوئے پاکستان کوموردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں جبکہ حقیقت تویہ ہے کہ خودمودی کی سیاسی پرورش ہی ایک متعصب ہندو جماعت کی گود میں ہوئی ہے۔ مودی نے کس طرح ایک سوچی سمجھی سازش کے مطابق گجرات میں اپنے دورِ اقتدارمیں مسلم کش فسادات کروا کے عالمی طورپر ”مسلمانوں کے بے رحم قاتل اور خونی قصاب ” کا کردار ادا کیا تھا ۔کون نہیں جانتاکہ موہن داس گاندھی کوعلیٰ ذات کے ہندو’ ‘نتھوارام گوڈسے” نے قتل کردیاتھاہے جو سنگھ پریوار کا فرد تھا۔ گویا بھارت میں یہ دہشتگردی کا آغاز تھاجس کے بعدیہ سلسلہ آج تک بندنہیں ہوا۔
٭ ملک کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کوسکھوں کی مذہبی عبادت گاہ”دربارصاحب”کوشہید کرنے کی پاداش میں انہی کے ایک سکھ محافظ نے دن دہاڑے قتل کردیاتھا۔
٭سابق وزیر اعظم راجیوگاندھی کا قاتل، جنوبی ہند کا ایک ہندو شخص تھا۔
٭ آسٹریلیا کے عیسائی پادری گراہم اسٹینس اوراس کے بچوں کو زندہ جلادیاگیا۔ جلانے والے بجرنگ دل اور بی جے پی کے لوگ تھے ۔
٭ شمالی ہند میں نچلی ذاتوں کے لوگوں کی جان ومال، عزت وآبرو کو پامال کرنااعلی ذات کے انتہاپسندوں کا مشغلہ ہے۔ نکسلائیٹ، الفا وغیرہ تنظیموں کے تشدد کے شکار آئے دن لوگ ہوتے رہتے ہیں۔
٭ سنگھ پریوار نے مسٹرایڈوانی کی قیادت میں تاریخی بابری مسجد کو شہید کردیا باوجود اس کےکہ اس کاکیس سپریم کورٹ میں چل رہاتھااور اسی کورٹ میں یہ حلف نامہ داخل کرنے کے بعد کہ بابری مسجد کو نقصان نہیں پہنچائیں گے، قانون کو ہاتھ میں لیاگیا۔
٭ گودھرا میں مودی پیٹنٹ فارمولے کواپناکراس کے تجربے سے گجرات میں مسلم اقلیت کی نسل کشی کی گئی۔
٭ مہاراشٹر میں ناندیڑ،پربھنی،پرنا،جالنہ،عمرکھیڑوغیرہ بم دھماکوں کے مجرم آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ ان کی آج تک خاطر خواہ تحقیقات نہیں کی گئی۔
٭بھارتی فوج کے حاضرسروس کرنل پروہت اوراس کے ساتھیوں نے پاک بھارت کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ٹرین کوآگ لگاکر70پاکستانی مسافروں کوزندہ جلادیاگیا۔
٭ امریکی صدرکلنٹن کے بھارتی دورۂ کے دوران 20مارچ 2000ء کوچھتی سنگھ پورہ جموں میں رات کے اندھیرے میں 35سکھوں کوگولیوں سے بھون دیاگیاجس کاالزام پاکستان پرلگایاگیالیکن بعدازاں خودتین افرادپرمشتمل بھارتی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اسے باقاعدہ ”را”کی سازش قراردے دیا۔
آپ سب جانتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ افراد کن لوگوں نے قتل کئے؟ ہٹلر،ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قاتل،وہ ایک عیسائی تھا،جوزف سٹالن نے دوکروڑافرادکوقتل کیاجن میں سے ڈیڑھ کروڑکوبھوکا رکھ کرماراگیا،یہ مسلمان نہیں تھا،چینی ما زؤئے تنگ نے ڈیڑھ سے دوکروڑافرادکاقتل کیاوہ بھی مسلمان نہیں تھا،اٹلی کے مسولینی نے چارلاکھ افرادکوقتل کیا،فرانسیسی انقلاب کے دوران دو لاکھ افرادکوایک ایسے انسان نے قتل کیاجومسلمان نہیں تھا،اشوکا،جسے ہندو بہت مانتے ہیں،نے ایک لاکھ افراد کوقتل کیا،وہ مسلمان نہیں تھاجبکہ امریکا کے جارج بش نے صرف عراق میں پانچ لاکھ بچوں کوقتل کرڈالا،کیاجارج بش مسلمان تھا؟ دہشتگردی کے خلاف جنگ(جوکہ اگرسی آئی اے کے ڈرگ بزنس کومدِنظررکھ کردیکھی جائے توبنی ہی لاشوں کے اوپرہے)میں صرف ایک اسامہ بن لادن کولیکرلاکھوں افرادکوافغانستان میں قتل کیاگیااوراب تک یہ سلسلہ جاری ہے،کیا امریکی، برطانوی اور نیٹو افواج مسلمانوں کی ہیں؟ لیبیا،مصر،عراق اورشام میں کتنے بے گناہ افراد کا قتل کیا گیا؟ پاکستان میں 317ڈرون حملوں میں2160 /افرادکوشہیدکردیاگیاجبکہ غیرسرکاری طورپران کی تعداد پانچ ہزارسے زائد ہے۔ایک ڈرون حملہ ڈومہ ڈولہ میں بھی کیاگیاجہاں 83سے زائد معصوم مدرسے کے بچے اوربچیاں شہیدکردی گئیں۔کیا امریکی حکومت نے آج تک ان تمام افرادکے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے کہ یہ شہید ہونے والے چھوٹے بچے دہشتگرد تھے؟؟دراصل امریکی وارآن ٹیررکے قانون کے مطابق فریڈم آف ایکسپریشن کامطلب ہی مسلمان کودہشتگرد ثابت کرناہے اورنائن الیون حملے کے بعدبش جونئیرنے فرعونی اندازمیں ساری دنیاکوللکارکرکہاتھاکہ امریکی سرزمین پرحملہ انسانیت پرحملہ ہے پھر بے شک اس کیلئےساری انسانیت کو ہی کیوں نہ ختم کرنا پڑے۔
زمانے کی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دہشتگردکی کوئی ذات، مذہب یا ملک نہیں ہوتامگر جب ملت اسلامیہ کا تعلق آتا ہے، فورا پیمانے بدل جاتے ہیں اور اس کی ہر حرکت وعمل کو مخصوص خوردبین سے دیکھاجاتا ہے کہ کس طرح اور کیسے اس کوبدنام کیاجائے اوراپنے مقاصد کی تکمیل کیلئےراستے ہموار کئے جائیں۔مسئلہ وہی ہے جس کی طرف پروین شاکر نے اشارہ کیا ہے!
میں سچ بولو ں گی مگر ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں