Who is responsible?

ذمہ دارکون؟

:Share

اس کے کپڑے میلے کچیلے تھے،جوتوں پرپالش نام کونہیں تھی لیکن پھربھی اس نے انہیں تھوڑاساصاف کررکھاتھاجس سے اس کے عیب زیادہ نمایاں ہوگئے تھے۔کانپتے ہاتھوں سے اس نے میرے سامنے ایک فائل رکھ دی جس میں اس کی ڈگریاں،درخوستوں کی کاپیاں پڑی ہوئی تھیں۔اس نے سب کو ایک طرف کیا، چند چھوٹے چھوٹے رسید نما کاغذات کا ڈھیر ایک سمت اکٹھا ہونے لگا۔اس نے وہ ڈھیرسمیٹا اور پھر اسے میری طرف بڑھادیا۔میں نے پوچھا،یہ کیا ہے؟اس نے کانپتے ہاتھوں سے اشارہ کیا کہ خود دیکھ لیں۔عجیب رسیدیں تھیں۔کوئی ڈاکخانے کی،کوئی کوریئرسروس کی،لیکن ان کے علاوہ بہت سی ایسی رسیدیں تھیں جو یا تو منی آرڈر تھے یاپے آرڈر یا پھر نقد جمع کرائی گئی رقم کی رسیدیں۔

میں نے سوال کیا”یہ سب کیاہے؟“تواس کی آنکھ میں رکے ہوئے آنسواچانک ڈھلک پڑے اوراس کی بے ہنگم بڑھی ہوئی داڑھی کو بھگونے لگے۔میں اس نوجوان کوکئی سالوں سے جانتاتھا۔اس نے اپنی تعلیم کے اخراجات بھی اپنی دن رات کی محنت ومزدوری سے پورے کئے تھے۔یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے کے بعداس نے تلاشِ رزق کاآغازکیا۔کبھی کسی جگہ مل جاتاتو میں اس کی نوکری کے بارے میں سوال کرتاتومسکراکرکہتاکہ تلاش اورکوشش جاری ہے۔پھر وہ کتنے سال غائب ہوگیا،غالباًپورے پانچ سال،لیکن آیاتوکیاعجیب کہانی ساتھ لئے ہوئے۔ان پانچ سالوں میں اس کے والدین چل بسے،بہن بھائی غربت کے ہاتھوں مجبورگھرچھوڑکرکہیں چلے گئے،اس کودورکے رشتے داروں نے اپنے ہوٹل پرملازم رکھ لیاجس سے اس کے گھرکاچولہاکبھی آبادہوجاتاا ورکبھی اسی چولہے کی راکھ ان سب کامذاق اڑاتی ہوئی ان کے چہروں پربسیراکرلیتی۔

لیکن ایم اے اوروہ بھی فرسٹ کلاس میں پاس کرنے والے کے توخواب ہی اورہوتے ہیں۔دفترگاڑی چپڑاسی،پی اے اوراگرنہیں توڈسٹر چاک اورطالب علم ۔اس نے درخواستوں کاآغازکررکھاتھا،اب تھوڑاسہاراملاتوتلاش تیزکردی اورہراس جگہ درخواست دینے لگاجہاں سے تھوڑی سی بھی امیدہوتی،اورآج اس کے صبرکاپیمانہ لبریزہوگیا۔وہ اس پورے سال میں اپنی ہرماہ کی تنخواہ ان درخواستوں پر خرچ کرچکاتھااوراس کے ہاتھ پھربھی خالی تھے۔نہ نوکری نہ کھانے کو پیسے،نہ سفرخرچ اورنہ ہی مزید درخواست جمع کروانے کی ہمت۔میرے پاس بھی اس وقت سوائے تسلی کے اورکوئی راستہ نہیں تھا۔لیکن آج میں نے بھائی کوجب فون پراس نوجوان کا نام لیکرکہا کہ اس کوآج ہی بلاکر یہ ساری رقم اس کے حوالے کردیناتواس کے جواب نے میرے ہوش اڑادیئے۔

اس نوجوان نے بیروزگاری سے تنگ آکرخودکشی کرلی تھی اوراپنی لاش کے پاس ایک پیغام چھوڑگیاتھاکہ”میں پاکستان کی خدمت اس کے سوااورکچھ نہیں کر سکتاکہ اپنابوجھ اپنے کندھوں پراٹھاتاہوااپنے رب کے پاس چلاجاؤں۔“میں باوجود ضبط کے اسی طرح رونے لگ پڑاجس طرح وہ کبھی میرے پاس آکر بلک بلک کررورہاتھااوراس کی چھلکتی آنکھوں کے بے اختیارآنسو اس کے چہرے پرمختلف خوفناک لکیریں بنارہے تھے۔میں اس وقت سے اسی خیال میں گم ہوں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جب سے ہم نے ورلڈبینک ،آئی ایم ایف اوردیگرعالمی مالیاتی اداروں اور ان کی مقرر کردہ این جی اوز کو اپنا “ان داتا” بنایاہے، ہم نے ایسے کتنے لوگوں کوخودکشی پرمجبورکردیاہے،کتنی ماؤں کومعصوم بچوں سمیت کسی نہرمیں کودتے یازہرکھاکرزندگی سے منہ موڑتاہوادیکھاہے۔آیئے میں آپ کو ان چند مفلوک الحال،غریب و بے یارومددگارلوگوں کے ساتھ ایک سفرپرلئے چلتاہوں جولفظ”زندگی”سے متنفراوربیزارہوگئے ہیں۔

اس بیمارکے ساتھ جسے بیروزگاری اورغربت نے بھوک کے دروازے پرکھڑاکیاہے جب وہ سرکار کے ہسپتال میں جاتاہے توڈاکٹرکی پرچی کے پیسے دینے کے بعدکبھی ایکسرے کی پرچی کبھی کسی ٹیسٹ کی پرچی کبھی سستی دوائی کی پرچی بنواتاہے اوراس کے باوجودبھی تندرستی نہیں بلکہ قرض کابوجھ اٹھاکرباہرنکلتاہے ۔اسے یہ بھی شکائت ہے کہ میں نے آج تک اس صحت کارڈکی شکل تک نہیں دیکھی جس کا تذکرہ حکومت کاہرکارندہ اپنے سنہری کارناموں میں گنواتا ہے۔ آیئے اس انصاف مانگنے والے مظلوم کے پاس لئے چلتاہوں جوچند سال پہلے بڑے سے بڑے مجسٹریٹ کے سامنے بھی سادہ کاغذپردرخواست لے کرجاتا تھا تواورکچھ ہونہ ہو،ایک تسلی ضرورلے کرآتاتھااوراگرمجسٹریٹ ایماندارہوتاتوشائداسے اس سادہ کاغذپرانصاف مل جاتالیکن اب اسے عرائض نویس سے لیکر کورٹ فیس تک،وکیل کے خرچے سے لے کرمنشی کے پیسوں تک سب ادا کرنے کیلئے پہلے قرض لیناپڑتاہے اورپھراس عدل کی زنجیرلہرائی جاسکتی ہے۔

اس طالب علم کے پاس لئے چلتاہوں جوکچے مکان کی ایک لالٹین کی مدھم روشنی میں علم حاصل کرکے اعلیٰ ترین نمبرحاصل کرتا ہے اورامیدرکھتاہے کہ اسے کسی بہترین کالج یایونیورسٹی میں داخلہ مل جائے گالیکن داخلہ فارموں کے ساتھ ان ٹیکس نمامنی آرڈروں یاپے آرڈروں کاخرچہ تواس کے پاس ہے نہیں، زکوٰةکاوظیفہ توبہت بعدکی بات ہے،جب اسے داخلہ مل جائے گاتوپھردھکے کھانے کے بعداپناحق لے سکے گا۔اوراب ہم نے بیروزگاروں سے بھی وہی غنڈہ ٹیکس وصول کرناشروع کردیا ہے۔ظاہربات ہے جتنی بیروزگاری بڑھے گی اتنے درخواست دینے والے بڑھیں گے اوراتنے ہی لوگ پبلک سروس کمیشن کو،کسی وزارت کو،کسی محکمے کوزیادہ نذرانہ اپنی درخواستوں کے ساتھ پیش کریں گے اوریوں میرے ملک کے معاشی شعبدہ بازیہ سمجھتے ہیں کہ عدالتوں کاخرچہ ان بے آسرامظلوموں کی کورٹ فیس سے نکلے گا،ہسپتال مفلوک الحال مریضوں کی پرچیوں کے پیسوں سے چلنے لگیں گے اورپبلک سروس کمیشن بیروز گاروں کی درخواستوں سے ہونے والی آمدنی سے اپنے پاؤں پرکھڑے ہوجائیں گے۔

میں صرف چاردہائیاں پہلے نظراٹھاکردیکھتاہوں توسوچتاہوں کہ ہم بہترتھے کہ ہم نے ایسی معاشی منصوبہ بندیاں نہیں سیکھی تھیں۔ ہمارے محکمے سادہ کاغذ پر درخواستیں وصول کرتے تھے اورنہ کوریئرکے پیسے ہوتے نہ درخواست کی کوئی فیس۔ہمارے ہسپتال ایک آنہ یادس پیسے سے زیادہ کی پرچی فیس وصول کرنے کے قطعاًحقدارنہیں تھے۔ہمارے مظلوم،وکیلوں اورکورٹ فیسوں کے محتاج نہیں ہواکرتے تھے لیکن شائد کسی کوعلم نہیں ان ساری تھوڑی تھوڑی رقوم سے جوہم نے ان مظلوموں سے اب اکھٹے کرنا شروع کردی ہیں ان سے توشائد ایک ہسپتال کی بجلی کاایک دن کابل بھی ادانہ ہوسکے،شائد ایک اعلیٰ افسرکی گاڑی کے ایک دن کے پٹرول کابل بھی پورانہ ہو،عدالت کے ایک اہلکارکی تنخواہ بھی نہ نکل سکے۔ایوانِ صدر،ایوانِ ہائے وزیراعظم ،وزیرِاعلیٰ اور گورنروں کے مہمان خانوں میں پکنے والے ایک دن کے کھانوں کی قیمت ادانہ ہوسکے!

مگرہم یہ فیس ضرورلیں گے،اس طرح ہمارے آقاؤں کی نظرمیں ہم محترم ہوجائیں گے اوربتائیں گے کہ اس طرح لوگوں میں احساس پیداہوتاہے اوراونر شپ جنم لیتی ہے،کسی سہولت کی قدرآتی ہے،ادارے اپنے پاؤں پرکھڑے ہوتے ہیں لیکن اس عمل میں کتنے ایسے مظلوم،مجبور،بیروزگاررسیوں پرجھول جاتے ہیں اوران کے پاؤں کے نیچے رکھی کرسی مایوسی کی ٹھوکرسے لڑھک جاتی ہے!کیا ہمارے آئین میں ایسی کوئی شق ہے جوان مجبوروبیکس اورحالات سے دلبرداشتہ خودکشی پرمجبورلوگوں کے ذمہ داروں کاتعین کرکے ان کوسزادے سکے؟کیاایوانِ صدراورایوانِ ہائے وزیراعظم کے مکین ان اموات کے ذمہ دار
ہیں کہ نہیں؟

خدارا!آگے بڑھئے ،اپنے اڑوس پڑوس میں آج ہی ان افرادکو اپنی خوشیوں میں شریک کیجئے،آپ کوایسے میلے کچیلے کپڑوں والوں کو ڈھونڈنے میں دیر نہیں لگے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں