بھارتی کروناکاذمہ دارکون؟

:Share

ہمیشہ کی طرح اب بھی مونچھوں کی طرح داڑھی کوبھی عام طورپرمردانگی کی ایک تابندہ علامت کے طورپرلیاجاتاہے لیکن ان دنوں مودی اپنی داڑھی کومنفرد سیاسی شناخت کے طورپربروئے کارلانے کی کوشش کررہے ہیں۔کوروناکی نئی لہرنے بھارت کوہلاکررکھ دیا ہے۔کوروناکی نئی لہرکے دوران بھارت کاجوحال ہوا ہے اُسے دیکھ کرایک دنیاحیران ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ یومیہ ساڑھے تین چارلاکھ نئے کیسزدیکھ کردنیا بھرمیں لوگ خوفزدہ ہوگئے ہیں۔بھارت آبادی کے اعتبار سے چین کے بعددوسرابڑاملک ہے۔اتنے بڑے ملک میں بہتر طرزِحکمرانی اوراچھی حکومتی کارکردگی یقینی بنانابہت مشکل ہے۔کوروناکے ہاتھوں بھارت کوجس صورتِ حال سے دوچارہوناپڑاہے اُسے دیکھ کرزیادہ حیرت اس بات پربھی ہے کہ بھارت نے کچھ مدت قبل کوروناپرقابو پانے کے حوالے سے قابلِ رشک بلکہ مثالی نوعیت کی کارکردگی کاجوتاثردیاتھااب مغربی میڈیاکے علاوہ نیویارک ٹائمزنے بھی مودی کے جھوٹ کی قلعی کھول کررکھ دی ہے۔

زرخریدمیڈیامودی کی ساکھ بچانے کیلئے جنرل گوئبلزکی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے اب یہ پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں کہ بھارت میں صحتِ عامہ کانظام اگر کمزور دکھائی دیاہے اوربعض مقامات پرکوروناکوکنٹرول کرنے میں مکمل ناکامی کاسامناکرناپڑاہے تواس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ کوروناسے نمٹنے میں بعض ترقی یافتہ ممالک نے بھی خاصی کمزوری دکھائی ہے۔دنیابھرمیں مودی کے حلیے میں تبدیلی خاصی لمبی داڑھی کوحیرت کے ساتھ دیکھاگیاہے۔گزشتہ برس جب سے کورونانے بھارت میں جڑپکڑناشروع کیاتھاتب سے اب تک مودی اپنی داڑھی کوپروان چڑھانے میں مصروف ہیں۔اب اُن کی داڑھی بہت حدتک درجۂ کمال کوپہنچ چکی ہے۔مودی کی داڑھی نے بھارت میں ایک نئی گھریلوصنعت کو جنم دیاہے،یعنی مودی کی داڑھی کے بارے میں سوچنا،اندازے لگاناکہ وہ اس کے ذریعے کیادھوکہ دیناچاہتے ہیں؟

مودی کی داڑھی پراُن کے سیاسی مخالفین نے اچھی خاصی تنقیدکی ہے۔مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابینرجی کہتی ہیں،’’مودی کی داڑھی اور بھارتی معیشت میں بالکل اُلٹاتعلق پایاجاتاہے یعنی یہ کہ داڑھی بڑھتی جارہی ہے اورمعیشت گھٹتی جارہی ہے۔معیشت کے تمام ہی شعبے کمزوری کامظاہرہ کررہے ہیں۔صنعتی شعبے کاحال سب سے بُراہے مگرمودی کی داڑھی ہے کہ مسلسل بڑھتی جارہی ہے‘‘۔دنیابھرمیں داڑھی اور بالخصوص لمبی داڑھی کومردانہ وجاہت،طاقت اوراولوالعزمی کی علامت کے طورپردیکھاجاتاہے۔مودی نے خودکو بھارت کے اسٹرانگ مین، سپر مین اورنجات دہندہ کے طورپر پیش کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔سیاست میں آنے کے بعدسے اب تک وہ اپنے حامیوں کویہی باورکرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ اب جبکہ وہ آچکے ہیں،کچھ بھی ایساویساباقی نہیں رہے گا،تمام مسائل حل ہوجائیں گے اورملک کوافلاس اورتنزل سے نجات مل جائے گی۔

مودی کی داڑھی دیکھ کرلوگ قیاس کے گھوڑے دوڑاتے رہتے ہیں۔سیاسی مخالفین نےمودی کی داڑھی کے حوالے سے پُرلطف جملے گھڑنے اور پھیلانے میں تساہل کامظاہرہ کیاہے نہ تاخیرکا۔کوئی کہتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران چونکہ ملک بھرمیں حجاموں کی دکانیں بندتھیں اس لیے مودی کوکسی حجام کی خدمت میسرنہ ہوسکی جبکہ کچھ مخالفین کاکہناہے کہ مودی سے بڑاحجام بھلااس دنیامیں کہاں ملے گاجس نے اپنے جھوٹ سے سچ کی حجامت بناڈالی ہے۔کسی نے یہ کہتے ہوئے مودی جی کاتمسخر اڑایاکہ بھارتی وزیراعظم کو چونکہ ہر وقت قوم کاغم ستاتارہتا ہے اوروہ بہبودِ عامہ کے کاموں میں بہت مصروف رہتے ہیں اِس لیے انہیں حجامت بنوانے کاوقت ہی نہیں مل پایاہے۔

کوئی کچھ بھی کہے،مودی نے داڑھی بڑھاکراپنی سیاسی شناخت کوایک نئی سمت،نیاچہرہ دینے کی بھرپورکوشش کی ہے۔مودی دراصل بھارتی سیکولرآئین کویہ پیغام دیناچاہتے ہیں کہ وہ سیکولر ازم پرقطعی یقین نہیں رکھتے اوریہ کہ ہندوازم کی ایک علامت کے طورپر داڑھی رکھ کرخود کوکٹّرہندوثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت میں سادھو،سنیاسی لمبی داڑھی رکھتے ہیں۔لمبی داڑھی گہری مذہبیت کی ایک تابندہ علامت سمجھی جاتی ہے۔مودی نے داڑھی کے ذریعے یہ پیغام دیاہے کہ وہ غیر معمولی حد تک مذہبی ہیں اورہندوازم کی جڑیں مضبوط کرنے پریقین رکھتے ہیں۔یوں انہوں نے عام ہندوکادل جیتنے کی بھرپورکوشش کی ہے اوراپنے ووٹ بینک کومضبوط تر کرنے کی طرف ایک اہم قدم اٹھایاہے۔

معاملہ صرف یہاں تک آکررک نہیں جاتا۔مودی نے یہ تاثرپروان چڑھانے کی بھی بھرپورکوشش کی ہے کہ وہ ایک بڑے مُدَبّرہیں اورقوم کا درد اُن کے دل میں بہت زیادہ ہے۔وہ خودکومفکرحکمران کے طورپرپیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں جوقوم کے تمام مسائل کاعلم اور درد رکھتاہے۔خودکو سادھو کے سے اندازمیں پیش کرنے کابنیادی مقصدیہ ہے کہ عام ہندوکویقین دلایاجائے کہ اب اُن کیلئےایک نجات دہندہ یامُصلح بھیجاجاچکاہے لہٰذا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ بیرونِ ملک مودی کے ایجنڈے کوحیرت کے ساتھ دیکھاجاتارہاہے مگراب شایدان کے چہرہ پرپڑے نقاب کے بارے میں زیادہ ابہام باقی نہیں رہا۔

2014ءمیں مرکزمیں برسرِاقتدارآنے کے بعدسے اب تک مودی نے قدم قدم پریہ بھرپورتاثردیاہے کہ وہ برتری پسندانسان ہیں۔اس کانتیجہ یہ برآمد ہواکہ اُن کے دورِحکومت میں بھارت کی اقلیتوں کیلئےصرف مسائل پیداہوئے ہیں۔ان کی شکایت سُننے والاکوئی نہیں۔اُن کے دیرینہ مسائل حل کرنے کی طرف متوجہ ہونے والا کوئی نہیں۔مودی اوراُن کی ٹیم انتہاپسندی پریقین رکھتی ہے جس میں معاشرے کے اقلیتی طبقات کے پنپنے کی زیادہ گنجائش نہیں۔سنگھ پریوارکے لوگ یعنی انتہاپسندہندوچاہتے ہیں کہ ملک کی سیکولرشناخت ختم کرکےاِسے ہندو ریاست کادرجہ دیا جائے۔اس کامطلب یہ ہے کہ بھارتی معاشرے میں دیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والوں کیلئےواحدراستہ یہ چھوڑاجائے کہ جوکچھ بھی ہندواکثریت کرے اُسے بلاچُوں چراقبول کیاجائے۔بھارت ہزاروں سال سے مختلف نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کا ملک رہاہے اوریہ سب مل کررہتے آئے ہیں،مگرمودی اوراُن کے ساتھی اس حقیقت کے خلاف جاکریہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ بھارت صرف ہندوؤں کاہے۔ ہزاروں سال سے ساتھ رہنے والوں نے جمہوریت اوراظہارِرائے کی آزادی کوبھی کُھلے دل سے قبول کیا۔1947ء میں انگریزوں سے آزادی ملنے پربھی بھارت میں جمہوریت ہی پروان چڑھی اورایک دوسرے کوقبول کرنے کاکلچربھی مقبول رہامگراب مودی اوراُن کی ٹیم نے مل کربھارت کوتعصب،انتہاپسندی اورتنگ نظری کی طرف دھکیل دیاہے۔

ہندوازم میں شِرک نمایاں حقیقت ہے۔بیشترہندو35کروڑدیوی دیوتاؤں کاوجودتسلیم کرتے ہیں۔دوسری طرف بھارت میں پنپنے والے دیگر مذاہب بہت حدتک وحدانیت کی بات کرتے ہیں۔انتہاپسندہندوؤں نے ہندوازم کوایک ایسے مذہب کے روپ میں پیش کیاہے،جس میں دوسروں کوقبول کرنے کی گنجائش برائے نام ہے۔اس روش پرگامزن ہونے سے بھارتی معاشرہ انتشارکاشکارہورہاہے ۔ مودی ہندوازم کی جن اقدارکو مانتے ہیں وہ اُس سیکولرازم اوررواداری کے منافی ہیں جن کی ضمانت بھارت کے آئین میں دی گئی ہے۔ ہندوانتہاپسندوں نے اقتدارمیں آنے کے بعداقلیتوں سے متعلق جوپالیسیاں تشکیل دی ہیں اُن سے بھارت کواچھا خاصانقصان پہنچ چکاہے۔

ایک اورعالمی شہرت یافتہ طبی جریدے نے بھارتی حکومت کی نااہلی کاپول کھولتے ہوئے کہاہے کہ مودی حکومت کاغیرسنجیدہ رویہ ہی بھارت میں کورونا کی خطرناک وباکے پھیلاؤکاباعث بنا۔عالمی جریدے کے مطابق جب وباسراٹھارہی تھی تومودی سرکارکوروناکے مکمل خاتمہ کا ڈھنڈوراپیٹ رہی تھی۔حالات ایسے ہی رہے تویکم اگست تک بھارت میں کوروناسے مرنے والوں کی تعداددس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔دی لینسٹ نے اپنے اداریے میں لکھاہے کہ مودی سرکارکا کورونا سے متعلق رویہ نا قابل معافی ہے۔اس خودساختہ تباہی کی مکمل ذمہ دارمودی سرکار ہےجس نے نہ صرف کمبھ میلے میں48لاکھ کے اژدھام کوجمع ہونے کاموقع دیا بلکہ اپنے سیاسی جلسوں میں لوگوں کوکثیرتعدادمیں جمع کرنے کا ناقابل معافی جرم کاارتکاب بھی کیا۔برطانوی جریدے نے کہاکہ ماہرین کورونا کی نئی بھارتی قسم کے آنے کی وارننگ دے رہے تھے،تب بھارتی حکومت ٹویٹرسے مخالفین کی پوسٹسس ہٹوانے میں مصروف تھی۔غیر ملکی جریدے کاکہناہے کہ بھارتی حکومت نے غلط اعدادوشمارکے ذریعے اس ہرڈامیونٹی کاہدف حاصل کرنے کےدعویٰ نے کہ”اب وائرس اب مزید نہیں پھیلے گا”،اقوام عالم کوگمراہ کیاجبکہ مودی حکومت کی اجازت سے لاکھوں افرادپرمشتمل سیاسی اورمذہبی اجتماعات ہوتے رہے، جواس خطرناک وباکے پھیلاؤکاباعث بنا۔رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ اترپردیش اورمہاراشٹروباسے نمٹنے کے لئے تیارنہ تھے۔وباآتے ہی ہسپتالوں اورشمشان گھاٹوں میں جگہ ختم ہوگئی، مگر حکومت آکسیجن کی کمی کی شکایت کرنے والوں پر قومی سلامتی کوٹھیس پہنچانے کے الزام میں مقدمات قائم کرتی رہی۔

کوروناوباکے دوران مودی کی انتہاپسندہندوحکومت نے جوکچھ کیاہے اُس نے بھی اچھی خاصی خرابیاں پیداکی ہیں۔گزشتہ برس کوروناکی پہلی لہرکے دوران بھارت بھرمیں مسلمانوں کواس وباکے پھیلاؤکے حوالے سے مطعون کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن خودمودی نے سیاسی مقبولیت کے حصول کیلئےکمبھ کے میلے کے انعقادکی اجازت دیکر48لاکھ ہندووں کوجمع ہونے کی اجازت دے ڈالی اوردوسری جانب اپنی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی مدد کیلئے بڑے گروپوں کو جمع کرنے، ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے جلسوں پربھی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ہزاروں حامیوں کے ساتھ جلسوں میں بغیرکسی ماسک کے ریاستی انتخابات میں انتخابی مہم چلائی جو ماسک بھی نہیں پہنے ہوئے تھے۔دنیابھرکے طبی ماہرین اس خطرناک وباکے نتیجے میں ہلاک ہونے اورمتاثرہونے والوں کامکمل ذمہ مودی کوگردانتے ہیں کہ مودی نے اپنے سیاسی قدکوبڑھانے کیلئے ہزاروں افرادکوموت کے منہ میں دھکیل دیا۔ اس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پریہ وباپھیلی اوراب حالت یہ ہے کہ یومیہ ساڑھے تین سے چارلاکھ بھارتی باشندے کوروناوائرس کے گڑھے میں گررہے ہیں۔اترپردیش کے علاقے ہردوارمیں کمبھ میلے کے سلسلے میں یکم سے17/اپریل تک کم و بیش48لاکھ افرادجمع ہوئے جن کی وجہ سے مودی کی اس فاش غلطی نے نہ صرف بھارت بلکہ دنیابھرکوبھارتی کروناکی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔

نیویارک ٹائمزنے توہندوستان کے کورونابحران کومودی کے سیاسی ناقابل شکست جذبات کومحض بڑھکوں سے تشبیہ دیتے ہوئےمودی کے آئندہ سیاسی کردار کوداغدارقراردیاہے۔مودی کی حکومت کی بدعنوانی نے اسے دنیاکابدترین متاثرملک بنادیاہے اوراس وقت مودی شدیداحتساب کی زدمیں ہیں اوربھارتی زرخرید میڈیاکے بھی کئی افرادچیخ اٹھے ہیں۔اس وقت کوروناکے یومیہ چارلاکھ نئے کیسزنے ایک سنگین عالمی ریکارڈقائم کر دیاہے۔ویکسین دینے کاعمل بھی ناقابل یقین حدتک سست ہے،ہسپتالوں میں دلدل ہے۔زندگی بچانے والی آکسیجن ختم ہورہی ہے۔ہرروزہزاروں لاشوں کوشمشان گھاٹ میں جلانے کی بجائے سڑکوں،فٹ پاتھوں پرانسانی گوشت کی بدبونے قیامت کاسماں باندھ رکھاہے اورمغربی ریاست گجرات میں ان تازہ ترین حادثات نے اس غم اوربے حسی میں اس وقت مزید اضافہ کردیاجب مریضوں کے لواحقین نے ہسپتالوں کے اطلاع دینے کے باوجودلاشیں وصول کرنے سے انکارکرتے ہوئے جلانے کاعمل بھی ہسپتال والوں کے سپردکر دیااوربھارتی عوام جومودی کواپنامسیحامانتے تھے،اپنے ان تمام عزیزوں کی ہلاکت کاذمہ دارمودی کوٹھہرارہے ہیں جس نے مودی کے سیاسی مستقبل کو لاشوں سے اٹھنے والے بدبوداراورسیاددھوئیں کی مانندکردیاہے۔ بہر کیف، مودی کی طرف سے دیا جانے والا یہ تاثر کسی سے ہضم نہیں ہو پارہا کہ وہ حقیقی معنوں میں ایک ہندو شخصیت اور نجات دہندہ ہیں۔ مودی جی داڑھی منڈوائیں نہ منڈوائیں، اس تاثر کو ضرور منڈوائیں ہ تاریخ میں ان کانام سیاہ جلی حروف میں ایک ایسے
خودغرض قاتل کے طورپرلکھاجائے گاجن کی ذاتی انااورپالیسیوں نے ہزاروں افرادکی جان لے لی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں