"Where did the sound come from, Lailalah illallah"

”کہاں سے آئے صدا ،لااِلٰہ اِلّااللّہ ”

:Share

ہرگزرتالمحہ ارض وطن کی ابترمعیشت کی سانسیں مختصرکرتاجارہاہے اوراب تشویش یقین کے سفرکی طرف بگٹٹ دوڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ہمارے ملک کی مقتدراشرافیہ کی غلطیوں کی سزاعوام برداشت کررہی ہے اوراب توان کی چیخیں بھی آسمان کارخ اختیارکئے ہوئے نوحہ کناں ہے۔اب یقین ہوتا جارہاہے کہ ہمارے حکمرانوں کی پے درپے غلطیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی قوتوں نے اپنے اس حتمی فیصلے پرعمل پیراہونے کافیصلہ کرلیاہے جس کی وہ پچھلے دس سال سے خوفناک پیش گوئیاں کررہے ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی طاقتوں نے توخاکم بدہن پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے نقشے اپنی مبینہ تاریخوں کے ساتھ بھی شائع کئے ہیں اورجونہی وہ تاریخ گزرجاتی ہے توبدترین حالات میں بھی سینہ ٹھونک کرہم اپنے زندہ ہونے کایقین دلادیتے ہیں۔

پچھلے کئی ماہ سے آئی ایم ایف پاکستان کے حالات سے لاتعلق ہوچکاہے اورہرروزکی منت سماجت سے بھی کام نہیں چل رہا۔ ہماری معاشی سانسیں بے ترتیب دیکھ کر ورلڈ بینک نے قرض کوایک سال کیلئے مؤخر کردینے کی نویدسنائی دی لیکن بعدازاں تردیدسامنے آگئی،یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمیں ڈالرزکی اشد ضرورت ہے۔سعودی عرب نے بھی واضح کردیا کہ وہ اپنے شہریوں پرٹیکس لگاکرخیرات نہیں کرسکتا۔اب کچھ غیرمشروط نہیں ہوگا۔امریکاکے دفترِخارجہ نے پاکستان کے معاشی حالات پرتشویش ظاہرکرکے ساری دنیاکیلئے پیغام چھوڑ دیاہے۔

عمران جب وزیراعظم تھے توانہیں یہ شکائت رہی کہ امریکی صدر نے ان کو فون نہیں کیا۔دس ماہ سے شہبازشریف وزیر اعظم کوبھی کوئی فون نہیں آیا ۔اگر امریکا عمران سے ناراض تھا اورشہبازشریف کولانے والاوہی ہے تواس نے اِن کے سرپردستِ شفقت کیوں نہیں رکھا؟ان کوفون کیوں نہیں کیا؟ حکومت تبدیل ہونے سے امریکی پالیسی کیوں تبدیل نہیں ہوئی؟ آج بھی وہی سرد مہری کیوں ہے جوکل تھی؟اپنے کالمزاورٹی وی پروگرامزمیں کئی مرتبہ کہہ چکاہوں کہ”رجیم چینج”سے امریکاکوکوئی دلچسپی نہیں اورافغانستان انخلا کے بعد پاکستان کی کسی حکومت میں اسے دلچسپی نہیں تاہم عمران نے عوام کی سادہ لوحی سے خوب فائدہ اٹھایااوربعدازاں اپنے اس مؤقف میں تبدیلی بھی کرلی۔امریکاجانتاہے کہ ریاست کامرکزِاقتدارکہاں ہے اوریہ مرکز سیاسی حکومت نہیں ہے۔مجھے خدشہ ہے کہ امریکانے اب ریاست پاکستان کے بارے میں جوفیصلہ کرلیاہے،اس فیصلے میں وہ تنہانہیں۔

آج سے تین دہائیاں قبل کولمبیایونیورسٹی میں افغانستان کی قومی یکجہتی کے متعلق سیمینارہواجس میں ایری زونایونیورسٹی کے پروفیسر”لیون پولاڈا”نے افغانستان کی داخلی سیاست اورپختونستان کے مسئلہ کے موضو ع پراپنے مقالہ میں امریکاسے مطالبہ کیاتھاکہ وہ ڈیورینڈ لائن کے معاملے میں سردارداؤدکی تائیدکرے جواسے مستقل سرحدتسلیم نہیں کرتا۔ یاد رہے کہ یہ امریکی پروفیسرطویل عرصہ افغانستان میں بطورسفارتکارکام کرچکاتھا۔وہ پختونستان کے مسئلے پرایک تحقیقی کتاب کا مصنف بھی ہے۔ جس میں پختونستان کی سرحدیں جہلم تک بتائی گئی ہیں۔اس سیمینارکی رپورٹ سے اس وقت کے وزیراعظم بھٹوصاحب کوبھی مطلع کیاگیاتھا۔

اب بلوچستان کی طرف آئیے۔کارنیگی وقف برائے بین الاقوامی امنسے وابستہ امریکی دانشورایس ہیری سن جنہوں نے1981میں بلوچستان پررپورٹ ”گریٹربلوچستان” کا تصور پیش کیاتھا ۔ اس زمانے میں مغربی دنیاکودرپیش سوویت خطرات کے پیشِ نظر ،امریکی سپاہِ دانش،پاکستانی بلوچستان اورایرانی بلوچستان کو گریٹربلوچستان کے نام پراپنے کٹھ پتلی حکمران شہنشاہ ایران کے سپردکردینے میں کوشاں تھیں۔سیلگ ہیری سن اس آزاداوروسیع تربلوچستان کے بڑے گرم جوش نظریہ سازتھے اورشہنشاہ کے اقتدارکاختم ہونا،اس منصوبے کی تکمیل میں مانع ثابت ہوگیا۔

اب اس بات سے اندازہ لگالیں کہ پاکستان کے بارے میں امریکاکے پالیسی سازحلقوں میں کیاسوچ پائی جاتی ہے اوراس خطے کے جغرافیے کووہ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔امریکی اہلِ دانش ایساکیوں سوچتے ہیں؟اس کے اسباب جغرافیے ہی میں نہیں،تاریخ میں بھی ہیں۔یہاں تفصیل کاموقع نہیں اورشاید میں کھل کربیان بھی نہ کرسکوں کہ بیسویں صدی میں جوعالمی نظام تشکیل پایااورجس پرعالمی قوتوں نے اتفاق کیا،پاکستان کاوجوداس نظام سے مطابقت نہیں رکھتا۔پے در پے واقعات نے عالمی قوتوں کے اس تاثرکو تقویت پہنچائی ہے ۔یہ رائے اب صرف امریکاتک محدودنہیں رہی۔(میرے نزدیک اسرائیل بھی اس عالمی نظام سے مطابقت نہیں رکھتااوراس کامستقبل بھی خطرات میں گھراہواہے)۔

افغانستان میں امریکااورمغربی قوتوں کوجوہزیمت اٹھاناپڑی،اس نے عالمی قوتوں کی اس رائے کومزیدمستحکم کیاہے۔یہ قوتیں اب اس نتیجے تک پہنچتی دکھائی دیتی ہیں کہ پاکستان کو تاریخی عمل کے حوالے کردیناچاہیے۔ان کے خیال میں داخلی تضادات کا بوجھ اتنازیادہ ہوچکاہے کہ ریاست اب اسے اٹھا نہیں سکے گی۔آئی ایم ایف اورورلڈ بینک کی لاتعلقی اسی لیے ہے۔امریکاکی سرد مہری کارازبھی یہی ہے۔ہمارے دوست بھی اس تاریخی عمل کوروکنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اگرافغانستان میں سردارداداورایران میں شہنشاہ کی حکومت رہتی توممکن ہے آج خطے کاجغرافیہ کچھ اورہوتا۔تاہم قدرت کانظام یہ ہے کہ وہ اس زمین پرکسی قادرِ مطلق کے وجودکوقبول نہیں کرتا۔یہ صرف اللہ تعالی کی ذات کوزیباہے۔اس لیے یہاں ایسی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں جو زمینی قوتوں کے عزائم میں حائل ہوجاتی ہیں،جیسے شہنشاہ کاجانااورسرداؤ د کی حکومت کا خاتمہ۔

تاہم،عالمی قوتوں کے منصوبے مؤخرہوئے ہیں،ختم نہیں ہوئے۔آج ایک بارپھرتاریخ ان کی ہم نوادکھائی دیتی ہے۔افغانستان میں طالبان آچکے ہیں لیکن ڈیورینڈلائن پران کامؤقف وہی ہے جوسردارداؤدکاتھا۔ایران میں شہنشاہ مخالف گروہ برسرِاقتدارہے لیکن ”ایرانی نیشنلزم”کے معاملے میں ایرانی قوم کے جذبات وہی ہیں جس کی حالیہ مثال حال ہی میں ایرانی سرحدکے اندرسے دہشتگردی میں پاک افواج کے چارسپوتوں کوشہیدکردیاگیا۔یہ پختونستان کامعاملہ ہویاآزاد بلوچستان کا،اس خطے کے زمینی حقائق تبدیل ہوئے ہیں نہ عالمی قوتوں کی سوچ۔اگرآج ایران اورافغانستان کی سیاسی قیادت عالمی قوتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے توان خدشات کوزندہ ہوتے دیرنہیں لگے گی۔۔کیا عراق میں ہم نے ایران اورامریکی قیادت کوہم آوازنہیں دیکھا؟

ریاستی اداروں اورسیاسی قیادت کواس صورتِ حال کاادراک نہیں ہے۔کوئی وجہ توہے کہ اس مشکل میں کوئی ہماراہاتھ تھامنے کوتیارنہیں۔دوست بھی لاتعلق ہیں۔سعودی عرب کا مؤقف ہمارے سامنے ہے۔چین کی خاموشی بھی یہی کہہ رہی ہے۔زندگی رکتی نہیں،یہ ہرحال میں چلتی رہتی ہے۔یہ افغانستان اورعراق وشام میں بھی رواں رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ زندگی سے آپ کی مرادکیا ہے؟دنیانے ہمیں تاریخی عمل کے حوالے کردیاہے۔اب وہ سہارادینے کوتیارنہیں۔ ہمارے ڈوبنے یاابھرنے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ۔اس عمل سے اگرکسی کودلچسپی ہوسکتی ہے تواتنی کہ دنیاپراس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ہمارے ایٹمی اثاثوں کاکیا ہوگا؟اگرمیرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تواس کایہ مطلب نہیں کہ کسی کے پاس اس کاجواب نہیں ہے۔یقیناًان دگرگوں حالات میں انہوں نے بہت کچھ سوچ رکھاہوگا،کوئی فیصلہ کرلیاہوگا۔

اس وقت ہمارے کندھوں پر تاریخ اورجغرافیے کے ساتھ ان گنت حماقتوں کابوجھ ہے۔ 75سال تک ان کندھوں نے اسے اٹھائے رکھا ہے۔ان کی سکت اب ختم ہو رہی ہے لیکن حماقتیں نہ صرف جاری ہیں بلکہ خوفناک راستے پرگامزن ہیں۔اس راست قدم سے بچنے کی تیاری کرناہوگی جوسیاستدانوں کی ضد،انا،تکبراور عقل کل کی پالیسیوں کی بناپروجودمیں آسکتی ہے اوریہی وہ وقت ہوگاجب عالمی طاقتیں اپنے راست اقدامات سے اپنے خواب کی تعبیر میں رنگ بھرنے کیلئے میدان کارزارمیں اترآئیں گے۔اس وقت عالمی ساہوکار امریکابھی اپنے مالی مسائل میں بری طرح الجھاہواہے اورقرض لینے کی اپنی طے شدہ آخری حدتک پہنچ چکاہے اورچند دن قبل امریکا کے محکمہ خزانہ نے ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے چند فوری اورخصوصی اقدامات اٹھائے ہیں۔

قرض کی آخری حدکوچھونے کامطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اب اس وقت تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی جب تک کانگریس قرض حاصل کرنے کی حدکوبڑھانے پرراضی نہ ہو جائے۔اس وقت امریکی حکومت کی قرض حاصل کرنے کی حد تقریبا ً31.4ًکھرب ڈالرہے۔1960کے بعدسے امریکی سیاستدانوں نے قرض کی حدمیں78بار اضافہ، توسیع یانظرثانی کی ہے۔ اگرصرف پچھلے چھ ماہ کی بات کی جائے توتین مرتبہ اس حدپرنظرثانی کی گئی ہے لیکن اس مرتبہ صورتحال تھوڑی مختلف ہے کیونکہ کانگریس میں معاملات گذشتہ دوہفتوں سے تناؤکاشکارہیں یعنی اس وقت سے جب سے ریپبلکنز نے ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول حاصل کیاہے اوروہ مسلسل اخراجات میں کمی کامطالبہ کررہے ہیں۔

ایسی صورت یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ اس بارسیاستدان ردِعمل ظاہرکرنے میں(یعنی قرض حاصل کرنے کی حدمیں اضافے کے حوالے سے) سست روی کامظاہرہ کریں گے ،جس کی وجہ سے امریکاکونقصان پہنچ سکتاہے اوریہ صورتحال امریکاکواپنی تاریخ میں پہلی بارجان بوجھ کرڈیفالٹ کی جانب لے جاسکتی ہے ۔ہیلن کااندازہ ہے کہ خصوصی اقدامات کم ازکم جون تک امریکا کیلئے مہلت حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس وقت تک حکومت اپنے بل ادا نہیں کرسکے گی۔اس پرمستزادیہ ہے کہ امریکااپنی بقاکی آخری جنگ کیلئے ایک مرتبہ پھر اپنے اتحادیوں سمیت یوکرین کی جنگ میں کودچکاہے اورجنگی اخراجات ملکوں کی کمرتوڑنے میں آخری تنکاثابت ہواکرتی ہیں۔یہی وہ منظر نامہ ہے جسے بہت سے تجزیہ کارایک ”حقیقی معاشی تباہی”کے طورپردیکھتے ہیں۔عالمی معاشی ماہرین کے مطابق امریکاکواس ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے ہرممکن کوشش کرنی ہوگی جس کیلئے سودکی ادائیگی کے طریقے تلاش کرناہوں گے۔اس کے باوجوددیگرذمہ داریاں ،جیسے دفاعی سازوسامان کے ٹھیکیداروں کوادائیگیاں،سوشل سکیورٹی چیکس،جوملک بھرمیں لاکھوں ریٹائرہونے والوں کودیئے جاتے ہیں اورسرکاری ملازمین بشمول فوج کی تنخواہیں وغیرہ،پرنظر ثانی کرناہوگی۔

عالمی ماہرین کے مطابق ڈیفالٹ ملک کے اعتبارکوبربادکرسکتا ہے،عالمی مالیاتی منڈیوں کونقصان پہنچاسکتاہے اوروہ اس طرح کہ وہاں امریکی قرضوں کی بہت زیادہ تجارت کی جاتی ہے کیونکہ امریکی بانڈزکی خریداری کوروایتی طورپرکم خطرناک سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے۔کرنسی کے طورپرڈالرکمزورہوجائے گااورابتدائی طورپرحکومت کیلئے قرض لینے پرشرح سودبڑھ جائے گی یعنی مہنگے قرضے ملیں گے اوربالآخر اس کااثر عام لوگوں پربھی ہوگاکیونکہ اس کے نتیجے میں رہن،کریڈٹ کارڈ کے قرضوں اوردیگرقرضوں کیلئے سودکی شرح زیادہ ہوجائے گی۔صورت حال کایہاں تک پہنچناپہلے کبھی نہیں دیکھاگیاہے اور اس سے صارفین کے اعتماداورمعیشت کوبڑے پیمانے پرنقصان پہنچے گا،جوپہلے سے ہی ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ہیلن نے حال ہی میں خبردار کیاہے کہ”حکومتی ذمہ داریوں ”کو پورا کرنے میں ناکامی امریکی معیشت،تمام امریکیوں کی روزی روٹی اورعالمی مالیاتی استحکام کوناقابل نقصان پہنچائے گی ۔

یہ وہ امریکی معیشت کی بدترصورتحال ہے جس نے فی الحال پاکستان کی معیشت کوملنے والی آکسیجن پراپناپا ؤ ں رکھ کراسے مکمل بندکرنے سے گریزکیا ہوا ہے اوروہ سمجھتاہے کہ پاکستان کی معاشی کشتی کوجاری سیاسی ابتری اوربدترین معیشت کی طوفانی لہروں کے نتیجے میں ان کے مقاصدخودہی ان کی جھولی میں آن گریں گے لیکن میرے رب کافرمان ہے کہ ”ہوگاوہی جومیراپلان ہے”لیکن اس کیلئے ہمیں اپنے قول وفعل کی منافقت سے فوری توبہ کرناہوگی اورسیاستدانوں اوردیگرمقتدر اشرافیہ کو یہ پیغام دیناہوگاکہ پاکستان کی سلامتی کے ساتھ اقتدارکی تمام خواہشات جڑی ہوئی ہیں۔اب افسرشاہی کوعملاًیہ پیغام دیناہوگاکہ اب افسرشاہی اورکرپشن کادورختم ہوچکااوراب ملک میں حکومت کرنے کامعیارصرف خدمت ہوگاجیساکہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات نے عوام نے برسوں بعدجماعت کومنتخب کیاہے ۔یادرکھیں کہ حق بندگی کی ادائیگی میں مطلوب کودیکھاجائے گا،امرکے وجوب یا استحباب کو نہیں۔دین کی تاویلیں کرنے والے شکوک وشبہات پیداکرتے ہیں ۔تن آرائی کوترک کرکے من کی دنیاآبادکرنے کی کوشش کرناہوگی۔زمین میں سب کیلئے ضروریات کاسامان رکھ دیاگیاہے۔ہمارے ظالم حکمرانوں نے غیرمنصفانہ تقسیم دولت کا نظام بنارکھاہے۔اللہ تعالی زبردستی مساوات قائم نہیں کرتا۔ جدید تعلیم کے کسی مضمون میں خداشناسی کاسبق شامل نہیں کیاجاتاپھر”کہاں سے آئے صدا لااِلٰہ اِلّااللّہ”۔

اپنا تبصرہ بھیجیں