اللہ اکبر،وہ کون ساگھرہے آپ کی نگاہیں جس کی دیواروں کی بلا ئیں لیکرپلٹی ہیں،جہاں آپ کاجسم بھی طواف میں تھا اور آپ کادل بھی،دنیاکے بت کدوں میں کل بھی وہ پہلاگھرتھاخداکااورآج بھی۔دوچارصدیوں کی بات نہیں بلکہ دنیاکاسب سے پہلاعبادت خانہ!بنی آدم میں کسی کے حافظے میں اس وقت کی یادیں محفوظ ہیں،اس طویل عرصے میں بے حساب مندر تعمیر ہوئے لاتعداد گرجے آبادہوئے،کیسے کیسے انقلابات سے یہ زمین آشنا ہوئی کیسی کیسی بلندیاں پستیاں ہوئیں،کون کون سی تہذیبیں ابھریں اورمٹیں،چاہے مصروبابل ہوں یاروم وایران لیکن عرب کے ریگستانوں میں چٹانوں اورپہاڑوں کے وسط میں سیاہ غلاف میں لپٹی یہ عمارت جس کورب نے“اپناگھر“کہا۔اس کو زمانے کاکوئی طوفان،کوئی انقلاب،کوئی زلزلہ اپنی جگہ سے نہ ہلاسکا،جوابرہہ اس کومٹانے اٹھاوہ خو دمٹ گیا!
اس سفرحجازمیں باربار نظروں نے طواف کیاہے اس گھرکا!ہرتکلف وتصنع سے مبرا یہ سیاہ چوکورگھر، نگاہ جب بھی پڑی ،جم کررہ گئی اوراس موقع پر موسیٰ کلیم اللہ یادآتے چلے گئے جب اس کے گھرکی تجلی پرہوش وحواس قائم رکھنامشکل ہے تواس گھرکے رب کی تجلی کیاکیا ہلچل بپاکرتی ہے،جب گھرکی برق پاشیوں کایہ عالم ہے کہ جودیکھتاہے وہ کچھ اور دیکھنابھول جاتاہے اورہمیشہ کیلئےیہی نظروں میں سماجاتاہے توگھروالے کے دیدارکی تاب انسانی بصارت بھلاکہاں لاسکتی ہے!
خسرو،غزل وکتاب تاکے
درمصحف روئے اونظرکن
“اس کے چہرے کی زیبائی کودیکھواے خسرو،شعروکتاب میں کب تک مشغول رہوگے”
وہ گھرنظروں کے سامنے تجلیاں بکھیررہاتھاجسے کسی انجینئر،کسی ماہرتعمیرات نے نہیں بنایاتھا،نہ لاکھوں روپے کاسامان ِتعمیراس پرلگاتھا،نہ جدید مشینری استعمال ہوئی تھی،اللہ کے گھر کا معمار؟؟ہاں وہ معماربھی لمحہ لمحہ تصورمیں آگیا،اپنے سرپربھاری بھاری پتھر اٹھاکرلا نے والا،جس کے ہاتھ چونے،مٹی اورگارے سے بھرے ہوئے ہیں۔عرب کی چلچلا تی ہوئی دوپہروں میں ریگستان کی لوُکی پرواکیے بغیرروپے پیسے کی مزدوری سے بے نیازوہ مزدور، جوگویااپنے پورے وجودکواس گھر کی تعمیرمیں لگارہے تھے اورگھرکامالک بڑے چاؤسے بڑے پیارسے ذکرکرتاہے ان“مزدوروں“کا“جب ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اس گھر کی بنیادیں اٹھارہے تھے:
جی ہاں!اس گھرکی زیارت کرتے ہوئے جب نظریں اس پرٹھہرتی ہیں تولگتاہے کہ جوہاتھ اب تعمیربیت اللہ میں مشغول ہیں، پتھرپرپتھررکھ رہے ہیں ہاتھوں میں چونااورگاراہے اورچشم ِاشکباراشکوں سے لبریز،کہ دل کاسوزوگد اززبان پرآجاتاہے کہ ” اے ہمارے رب ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے بے شک توسب کچھ سننے اورجا ننے والا ہے“(البقرہ:127)تویہ ہے دوستوں کی شان،عشق کی منزلوں سے آگے کی منزلیں،فدائیت کی منزلیں،کہ سب کچھ لگاکربھی دھڑکایہی لگاہواہے کہ مٹنا قبول بھی ہو گاکہ نہیں؟؟؟
اگرایساگھرنہیں دنیامیں تواس گھرکے سے مزدورکب دیکھے ہیں دنیانے!دنیاکے کسی مزدورنے وہ مزدوری مانگی جوبیت اللہ کے مزدوروں نے مانگی تھی اور مزدوری کی طلب تودیکھئے،تنہااپنی ذات کیلئےنہیں ہم بھی شریک تھے اس اجرت کی طلب میں کہ “اے ہمارے رب!ہم دونوں کواپنافرمانبردار بنا اورہماری اولاد سے ایک امت اپنی فرمانبرداربنااورہمیں ہمارے حج کے اعمال بتااورہم پررحمت سے توجہ فرمااورتوبے شک رحمت سے توجہ کرنے والاہے“البقرہ128
گھربنانے والے کوجومزدوری ملی وہ مزدورجانے یامالک،لیکن اس اجرت میں اس گھرکی زیارت کرنے والوں کو،طواف کرنے والوں کو ،سفرکرنے والوں کو،اس گھرسے محبت کرنے والوں کو،اس کی تعظیم کرنے والوں کو،کیاکچھ نہیں ملا ،برکتوں اور عزتوں کے اس گھرسے ۔ ہرایک یہی خزانے لے کرپلٹتاہے اور……ساتھ ہی دل بھی توانہی خزانوں سے مالامال ہے۔ایک شکر سپاس ہے کہ نفس پاک ہوکراپنی خودی(انا)کومٹاکراپنے رب کی معرفت کی منزلوں میں سرگرداں ہے۔رب کاگھرہے یہ!!! مقام تفریح تونہیں؟یہ آگرہ کے تاج محل یافرانس کے ایفل ٹاورکانظارہ تونہیں تھا…. یہ گھروندے جوسیر تماشے اوردل کے بہلاوے کیلئے صدیوں سے موجودہیں لیکن وہاں آنے والے لا کھوں لوگ نہ عقیدت مندہوتے ہیں نہ انہیں چومتے ہیں نہ آنکھوں سے لگاتے ہیں نہ والہانہ طواف کرتے ہیں نہ سجدے کرتے ہیں نہ روتے اورگڑگڑاتے ہیں نہ جھکتے اورگرتے ہیں نہ عشق و فدائیت سے سر شارپکارتے رہتے ہیں کہ “لَبَّیْکَ اللّھمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمدَ وَالنِّعْمَۃ لَکَ وَالْمُلکَ لاشریکَ لَکَ لَبَّیْکَ “آگیاہوں مولا،میں آگیامیرے رب میں حاضرہوگیا،تونے بلایاتھامیں کیوں نہ آتا؟میں آگیاسب کچھ چھوڑ کرآگیا، درویشوں اوردرماندہ فقیرکے روپ میں تیرے درپہ آیاہوں،دنیاکی لذتوں کوٹھوکرمارکرآیاہوں۔لاکھوں لوگ…. ایک ہی وقت میں ایک ہی لے ہے ایک ہی دھن جس کاسوداسرمیں سمایاہے،دیوانہ وارطواف کرتے ہیں اورسب خوش نصیب احرام کایونیفارم پہنے اس سلطانِ عالم کی فوج کاحصہ تھے اورجب نمازوں کے اوقات میں بھی اورصبح کے تڑکے میں بھی جب ہربلندی اورہرپستی پرلبیک کی آوازیں گونجتی تھیں توسب ہی ایک نشے میں سرشار ہو جا تے ہیں،ایک کیفیت میں جذب ہوجاتے ہیں اوراس خاک پرکبھی اس محبوب علیہ اسلام کے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہیں جوکبھی آگ میں کود اتوکبھی عزیزازجان نورنظرکے حلقوم پرچھری پھیردی کہ آسمانوں پرملائکہ بھی ششدررہ گئے اوریک زبان ہوکرپکاراٹھے کہ واقعی اس نے خلیل اللہ ہونے کاحق اداکردیااورپسراطاعت کی معراج کوجاپہنچااور….اور…..چودہ سوبرس پیچھے لے گیا یکدم میراشعور کہ اسی خاک پراس عظیم ہستی ﷺ پرقربان ،اوریوں طواف کرتے کرتے وا رفتگی میں یکبارگی اضافہ ہوتا چلاگیا کہ یکایک یہ شعرحجاب بن کرنظروں کے سامنے آگیاکہ:
توبردن درچہ کردی کہ درون خانہ آئی
چو بطرف کعبہ رفتم بحرم اہم ندا اند
جب میں کعبہ کے طواف کیلئےگیاتومجھے حرم میں داخل نہ ہونے دیاگیاکہاگیاکہ تونے حرم سے باہرتونافرمانی کی اب بیت اللہ کس منہ سے آیا ہے؟
تب ہرکسی کی سانسیں تھم تھم جاتی ہیں،گردشِ ایام کے جائزے پراورتوبتہ النصوح کامفہوم آشکارہوا۔ دوران سعی اس خاک ِ پاک پرسیدہ ہاجرہ صدیقہ کے قدموں کے نشان بھی ڈھونڈتارہا جونبی کی ماں اورنبی کی بیوی ہونے کے شرف سے مشرف تھیں اوربرسہابرس سے قافلے اس عظیم خاتون کے قدموں کے نشانوں پردوڑرہے ہیں کیساشرف ایک عورت کودیاہے اس دین نے کہ اپنے محبوب ﷺ کوبھی بی بی ہاجرہ کی سنت کی پیروی کرنے کاحکم دیا،کیامنظرہوگاجب رسول خدا ﷺ بھی اس مخصوص مقامات پراماّں ہاجرہ پر تفاخرکرتے ہوئے تیزتیز بھاگ رہے ہوں گے!یقینًاام المومنین حضرت عائشہ بھی بی بی حاجرہ کی سنت کی ادائیگی کے مناظراورعظیم عورت کے عظیم کردارپراپنے رب سے مناجات میں رازونیازکرتی ہوں گی۔
یقینا ًیہ سب کارہائے عظیم کتابوں میں پڑھے ہیں لیکن آج اپنی چشم ترسے ان کاجی بھرکر نظارہ کرتے ہوئے اپنے مقدرپررشک کرتے ہوئے اپنے خالق کے سامنے کئی مرتبہ جبیں سرنگوں ہوتی چلی گئی۔گنبدِخضراپرجب پہلی نظرپڑی تویقیناًدل کوتھامنا بہت ہی مشکل ہوگیاکہ محسن انسانیت ﷺ کے درپرحاضری،اپنی قسمت پررشک کہ ایسی عظیم الشان شخصیت جس پر خوداللہ اوراس کے ملائکہ کثرت سے درود پڑھتے ہیں اوراہل ایمان کوبھی حکم دیاگیاکہ وہ بھی کثرت سے درودپڑھتے رہا کریں۔ جونہی یہاں پہنچاکہ قبلہ آصف عنائت بٹ صاحب کے وجدوعشق کے جملے نے بے حال کردیاجب انہوں نے دربان سے یہ درخواست کی کہ جالی کوہاتھ لگاکرمیرے سینے پرپھیردو…..!
ایسی فخر کائنات ہستی جس کے بارے میں غیر مسلم بھی کچھ اس طرح رطب اللسان ہیں:
٭مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب میں دنیاکے ان سوعظیم ترین آدمیوں کا ذکرکیاہے جنہوں نے دنیاکی تشکیل میں بڑاکردار ادا کیا۔اس نے حضور ﷺ کوسب سے پہلے شمارپر رکھاہے۔مصنف ایک عیسائی ہوکربھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد ﷺ پورے نسل انسانی میں سیدالبشرکہنے کے لائق ہیں۔
٭تھامس کارلائیل نے1840ءکے مشہوردروس میں کہا کہ میں محمد(ﷺ)سے محبت کرتاہوں اوریقین رکھتاہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اورریاکاشائبہ تک نہ تھا۔ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہ اخلاص پیش کرتے ہیں ۔
٭فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے محمد ﷺ دراصل سروراعظم تھے،15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں،یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت ﷺ کی تعلیم کا ۔
٭جارج برناڈشالکھتاہے:موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد (ﷺ)اس دنیاکے رہنمابنیں۔
٭گاندھی لکھتاہے کہ بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کوسچائی کاراستہ دکھایااوربرابری کی تعلیم دی،میں اسلام کاجتنامطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوارسے نہیں پھیلا۔
٭جرمنی کامشہورادیب شاعراورڈرامہ نگارگوئٹے حضور(ﷺ)کامداح اورعاشق تھا،اپنی تخلیق دیوانِ مغربی میں گوئٹے نے حضوراقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد (ﷺ)کااظہارکیاہے اوران کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاورکئے ہیں ۔
٭فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب تاریخِ ترکی میں انسانی عظمت کیلئےجومعیارقائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے:اگرانسانی عظمت کو ناپنے کے لئے تین شرائط اہم ہیں جن میں (1)مقصد کی بلندی، (2)وسائل کی کمی(3)حیرت انگیر نتائج،تواس معیارپرجدیدتاریخ کی کون سی شخصیت محمد ﷺ سے ہمسری کادعوی کرسکتی ہے ۔
٭فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے:فلسفی،مبلغ،پیغمبر،قانون ساز،سپہ سالار،ذہنو ں کافاتح، دانائی کے عقائدبرپاکرنے والا، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا،بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا….وہ محمد ﷺ ہیں ….جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پرپورااترنے والا محمدۖ سے بھی کوئی برترہوسکتاہے؟
٭ڈاکٹرشیلے پیغمبرآخرالزماں کی ابدیت اورلاثانیت کااقرارکرتے ہوئے لکھتے ہیں محمد ﷺ گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اورافضل تھے اورآئندہ ان کامثال پیداہونامحال اورقطعاغیرممکن ہے۔
مدینہ کے شمال میں واقع پہاڑجبل احدکے پاس اس مقام پرحاضری دینے کی سعادت ملی جہاں نبی کریم ﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہ دفن ہیں۔ حضرت حمزہ جنگ احد میں70دیگر صحابہ کے ہمراہ شہیدہوگئے تھے،اورکفارنے ان کی لاش کی بے حرمتی کی تھی۔رسول کریم ﷺ کو اپنے اس ہم عمرچچاسے بڑی محبت تھی۔یہی وجہ ہے کہ ان کے شہیدلاشے کودیکھ کرفرطِ غم سے آپ پھوٹ پھوٹ کررو دیئے اورجب تک اس دنیامیں قیام فرمایا آپ ﷺ ہربدھ کوشہدئے احد کے مزارپرجاکر فاتحہ کہتے تھے!
ہرزائرکوسفرحجازنے ایک پیام ضروردیاہے وہ اک پیام جومسجد حرام نے بھی دیاہے اورمسجد نبوی ﷺ نے بھی،وہ ایک صدا جو عرفات کے میدان میں بھی آرہی تھی اور منیٰ کی قربان گاہ میں بھی،جوزم زم کے قطروں نے بھی ہم سب سے سرگوشی میں کی ہے اور خاکِ حرم کے ذروں نے بھی قدموں سے لپٹ کرکی ہے اوروہ صداتھی،بس ایک صدا،کیسی صدا کہ “کونوانصاراللہ “جب دنیاظلم سے بھرگئی توکیاتم اپنے حصے کاکام کرنے نہ اٹھوگے!راستہ بھی موجودہے اوراس کی دی ہوئی ٹانگیں بھی موجود ہیں اوراس راستے پرچلنے کاقرض بھی موجود ہے۔مالک نے جوزمین حوالے کی، مزارع نے اس پرہل نہ چلایااورزمین زہرآلود جھاڑیوں اور کانٹوں سے بھرگئی۔سفرحجازنے یہی توکہاہے ہم سب سے کہ جیسے یہاں کے ہرچپے ہراللہ کی بڑائی اوراس کا ذکرہے اللہ کی ساری کائنات یونہی اس کی بڑائی چاہتی ہے۔معرکہ بدراورواقعہ کربلاآج بھی بپاہے۔ہمارے اندرکتناعزم ہے اس دین کے نفاذکی سختیاں جھیلنے کی …….سفرحجازکی یادیں ہم سے سوال کرتی ہیں کہ آج ربّ کعبہ کے بندوں کوبندوں کی غلامی سے نکال کرخالقِ کائنات کی غلامی میں واپس لانے کیلئے اپنا کردارکب اداکروگے؟