What is lost what is found

کیاکھویاکیاپایا

:Share

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے حتمی مشاورت کے بعدعمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک داخل کردی ہے۔اب اجلاس14روز میں طلب ہوگاجہاں تحریک پر کاروائی سات روزکے اندرمکمل ہوگی۔ وزیر ِاعظم کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک میں کامیاب ہوجاتی ہے توانہیں اپناعہدہ چھوڑنا ہوگا۔اس کے بعد آئین کے مطابق صدرِپاکستان قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت کوحکومت بنانے کی دعوت دیں گے۔حکومت تشکیل دینے کیلئے 172 ووٹوں کی ضروت ہوگی ۔اگروہ ایسانہیں کرپاتی توصدرتیسری جماعت کودعوت دے سکتے ہیں۔آئین کے مطابق صدراس دوران ہٹائے گئے وزیرِاعظم کواس وقت تک کام جاری رکھنے کاکہہ سکتے ہیں جب تک نیاوزیرِاعظم منتخب نہیں ہوجاتاتاہم اس دوران وہ وزیرِ اعظم اسمبلی تحلیل کرنے کااختیارنہیں رکھتے۔ اگر دوسری جماعت یاامیدوارواضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے توصدراسمبلی تحلیل کرسکتے ہیں۔اس کے بعدایک نگراں حکومت نئے انتخابات کروائے گی۔

ان دنوں تحریک عدم اعتمادپیش کرنے کے بعدتمام سیاسی جماعتوں میں عجیب قسم کی سراسیمگی اورافراتفری کے مناظرعیاں ہیں اپوزیشن نے جہاں متفقہ طورپر شہبازشریف کوتمام اختیارات سونپ دیئے ہیں وہاں اب حکومتی اتحادی جماعتیں بہت اہمیت اختیارکر چکی ہیں۔سب سے پہلے چوہدری برادران کے ڈیرے کی رونقیں دوبالاہوگئیں اورتمام ہی سیاسی جماعتوں کے سربراہان پھول تھامے چوہدی شجاعت کی عیادت کوپہنچ گئے اورچوہدری پرویزالٰہی کیلئے پنجاب کے نئے وزیراعلی کانام گونجنے لگاجس کی تائید اپوزیشن نے بھی کردی ہے اورایک اطلاع کے مطابق پنجاب میں حکمران جماعت کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویزالٰہی کا کہناہ ے کہ”شہبازشریف کے ساتھ ملاقات کسی بھی وقت ہو سکتی ہے اور اگر اپوزیشن اتحاد میں گئے تو وزارتوں سے استعفی دے دیں گے”۔انہوں نے حکومت کومزیددباؤمیں لاتے ہوئے یہ بھی کہاکہ آج جہانگیر ترین گروپ کے عون چوہدری ملاقات کیلئے آئے تھے،اگلے دودن میں وہ بھی ہمیں اپنی حمایت کی تصدیق کردیں گے اورایسے ہی تعاون کاایم کیوایم اوربلوچستان عوامی پارٹی نے بھی یقین دلایاہے گویااتحادیوں کے پتے ہوادینے لگے ہیں اورکپتان کوہرروزجلسوں میں غصہ قابل دیدنی ہے اورفریقین کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف منافرت پھیلانے کیلئے جو زبان استعمال کی جارہی ہے،وہ دن بدن آگ پرتیل کاکام کررہی ہے ۔

ادھراچانک حکومتی پارٹی کے اہم رہنما علیم خان نے اپنے ایک مضبوط گروپ کے ساتھ حکومتی باغی دھڑے ترین گروپ میں شمولیت کااعلان کرکے جہانگیر ترین جولندن میں علاج کیلئے ہیں،ان سے مشاورت کے بعدواپس ملک پہنچ کرپنجاب سے کم وبیش 70/اراکین صوبائی اسمبلی کی معیت میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی فوری تبدیلی کامطالبہ کرکے حکومت کوٹف ٹائم اورنئی پریشانی میں مبتلاکردیاہے۔تاہم ان دنوں وزیراعظم ملک کے طول وعرض میں طوفانی دوروں کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں کے اعتمادکے حصول میں سرگرداں ہیں جبکہ ایم کیوایم بھی اپنابہترریٹ لگواکرحکومت کوداغِ مفارقت کا عندیہ دے چکی ہے اورجہاںسندھ سے حکومتی اتحادجی ڈی اے کے سربراہ پیرپگاڑہ نے اپنی مصروفیات کی بناء پر وزیراعظم سے ملنے سے معذرت کرلی ہے وہاں بلوچستان عوامی پارٹی بھی خم ٹھونک کراپناحساب برابرکرنے کیلئے میدان میں اترآئی ہے۔

اس تحریک کے نتائج کاانحصاراگلے چنددنوں پرمنحصرہے لیکن اگرایک مفروضے کے طورپرتحریک کی کامیابی کومان لیاجائے تواس کے اسباب میں آسمان سے چھوتی ہوئی مہنگائی، بیروز گاری تو یقیناسرفہرست ہو گی ، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اگلے آرمی چیف کی تقرری کی کھچڑی کوبھی شامل ہے،اور مزید براں عمران
خان کے دورہ روس کے بعدامریکاومغرب کو واضح پیغام موصول ہوگیاہے کہ پہلی مرتبہ پاکستان نے اپنے تمام انڈے ایک ٹوکری میں رکھنے کی بجائے اپنی خارجہ پالیسی کارخ تبدیل کرلیاہے اورخطے میں انڈیا،اسرائیل اور امریکاکی ٹرائیکاکے مقابلے میں ر روس،چین اورپاکستان کی سپرٹرائیکامعرضٰ وجودمیں آچکی ہے۔ امریکاومغرب کوپاکستان کانیاکرداراپنے مفادات کی راہ میں کھٹکناشروع ہوگیا ہے،اس لئے ملک میں پیش کی گئی عدم اعتمادکی تحریک کواس سے بھی جوڑکر80٪کامیابی کے امکانات کااظہارکیاجارہاہے۔

اگرواقعی ایساہونے جارہاہے توکیاوہی لوگ جنہوں نے ملک کوغیرملکی قرضوں کی دلدل میں گردن تک ڈبودیااورملکی اہم اثاثے غیرملکی مالیاتی اداروں کو گروی کر دیئے ، جو گزشتہ 35 سال سے آپس میں سرپھٹول اور سڑکوں پرگھسیٹنے کا دعوی کرتے رہے،جن کے بیرون ملک اثاثے اور سوئس بنکوں میں اربوں ڈالر کے اکاؤنٹس ہیں،جن پرملک کی عدالتوں اور نیب میں اربوں روپے کے کرپشن کے کیسزہیں،مسنداقتدارسنبھالنے جارہے ہیں۔اہم سوال یہ ہے کہ کیاتبدیلی سرکار واقعی عدم اعتمادکی تحریک کی کامیابی سے قبل غیبی اتحادسے بھی محروم ہوچکی ہے؟

ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ تحریک کی کامیابی کے بعدملک کااگلاسربراہ کون ہوگا؟کون موجودہ حکومت کی جاری ناکامیوں کاملبہ اپنے سراٹھاکراگلے انتخاب میں اپنے سیاسی مستقبل کوتاریک کرنے کاحوصلہ رکھتاہے تاہم اگرباہمی صفوں میں اتفاق رائے سے کسی کومنتخب کرلیاجاتاہے توکیااگلے انتخابات تک اپنے میڈیاہاؤسزکوصرف الزامات کی سیاست کیلئے استعمال کرناہے تواس سے بڑھ کراس ملک سے اورکیاظلم ہوگالیکن بادی النظرمیں موجودہ اپوزیشن یہ مت بھولے کہ اقتدارسے علیحدگی کی صورت میں کپتان جو”پہلے سے زیادہ خطرناک”ہونے کی دہمکی دے چکاہے،وہ سیاسی شہیدبن کرجہاں ان کوآرام سے حکومت نہیں کرنے دے گا وہاں اسے اگلے انتخاب کی تیاری کابھرپورموقع مل جائے گااو ر قوم کے جذبات سے کھیلنے کاخوب موقع میسرہوگابلکہ وہ توابھی سے تحریک اعتمادکاناکام کرنے کیلئے اپنے اپنی انتخابی مہم شروع کرچکاہے اوروہ اپنے ہرجلسے میں اعلان کررہاہے کہ میں وہ پہلا حکمران ہوں جس نے امریکاکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراڈے دینے سے انکارکیا،میں نے برملااپنی تقریرمیں قوم کی غیرت کو زندہ کرتے ہوئے یادلایاکہ جس ملک کیلئے ہم جنگ لڑرہے تھے،اس امریکانے2008سے 2018تک پاکستان پرچارہزارسے زائد ڈرون حملے کیے لیکن آصف زرداری اورنوازشریف نے ایک باربھی اس کی مذمت نہیں کی اورمیں نے ہرجگہ دنیامیں اس کوانسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے نہ صرف بھرپوراحتجاج کیابلکہ فیصلہ کیاکہ آئندہ ایسے تمام ڈرون مار گرائیں گے۔ پہلی مرتبہ ملک کوامریکی کیمپ سے نکال کراس کی تاریخی سمت تبدیل کرنے کی کوشش کی اورملک کوکسی ایک طاقت سے جڑنے کی بجائے کثیر ملکی پالیسی کی طرف گامزن کرتے ہوئے پاکستانی معیشت کوسہارادینے کیلئے تجارتی اورتوانائی راہداری کیلئے روس کاکامیاب دورہ کیاجس کااعتراف پیوٹن نے اپنی تقریرمیں پاکستان کاپہلی فرصت میں ایک ہزارمیل طویل گیس پائپ لائن کے افتتاح کااعلان ہے، یورپ کی غلامی سے کھلم کھلاانکارکرکے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو قومی غیرت کی بنیاد پراستوارکیا۔اقوام متحدہ میں اسلام فوبیاپرکھل کر بات کی،اقوام متحدہ میں پہلی مرتبہ یورپ اورامریکاکے دباؤکوپاؤں کی ٹھوکرپر رکھ کرنہ امریکا اور یورپ کی روس کے خلاف پیش کی گئی قرارداد میں حصہ لینے سے انکارکر دیا بلکہ سی پیک پرکسی بھی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکارکردیا۔ فرانس کی طرف سے بھارت کورافیل طیاروں کی فراہمی کے بعدخطے میں بگڑتے فضائی توازن کامقابلہ کرتے ہوئے ریکارڈکم مدت میں چین سے جدیدترین چھ جے10 لڑاکا طیاروں کوشامل کرکے پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو مضبوط کیا۔

اقتدارکے شروع میں ملکی معیشت کے بارے میں غلط فیصلوں کے دفاع میں سابقہ حکومتوں کے بے پناہ قرضوں کی واپسی اورسابق حکومت کی غلط پالیسیوں کو موردالزام ٹھہراکرملک کودیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے13/ارب ڈالرقرض لینالازمی ہوگیاتھااور عالمی وباکوروناجس نے دنیاکی مضبوط ترین معیشتوں کوبھی کھنگال کررکھ دیا،ان مشکل حالات میں نہ صرف ”احساس پروگرام اورانصاف کارڈ”جیسے فلاحی پروگرام شروع کئے بلکہ10روپے فی لٹرپٹرول سستا اور 5روپے فی یونٹ بجلی کانرخ کم کیااوراگر مجھے سازش کے تحت حکومت سے محروم نہ کیاجاتاتومیں تومزیدرعایات کاپیکج لیکرآرہاتھا۔ہم سب جانتے ہیں کہ عمران خان کا مزاج ہی مبنی براحتجاج اورحزب اختلاف کاہے،حکومت میں رہتے ہوئے ایک بھی دن اپوزیشن کومعاف نہیں کیالیکن اب اقتدارکی محرومی کازخم اورگہرے گھاؤ کے اثرات کو عوامی مقبولیت کے حصول کیلئے امریکا و مغرب مخالفت،سامراج دشمنی،کرپشن کے خلاف جہاد کی کوششوں کے بھاشن اورآخر وقت میں سستا پٹرول اوربجلی کے نرخ کی یاددہانی کے ساتھ ساتھ اپنے مخالفین کو زہرسے بجھے دشنام و طرازکے تیروں سے چھلنی کرنے کے جوہر دکھائیں گے تو یقینا پاکستانی عوام اپنے کمزوریادداشت اورمزاج کے مطابق پھرسے ان وعدوں پراعتبارکرکے عمران خان کی مقبولیت کودوتہائی اکثریت کی فتح دلانے میں ممد و معاون ہو سکتے ہیں۔

تیسرامفروضہ یہ ہے کہ اگرتحریک عدم اعتمادکی کامیابی کے فوری بعدعمران خان کوگرفتارکرلیاجاتاہے توکپتان نے ابھی سے اپنے حامیوں کوچارج کرناشروع کردیا ہے اورکپتان جیل میں بیٹھاحزب اختلاف کابڑالیڈربن جائے گا،اس کے کارکن کسی بھی پروٹوکول کی پرواہ کئے بغیرملکی شاہراہوں پردمادم مست قلندرکی دھمال میں مصروف ہوں گے اوراس احتجاجی تحریک میں یقیناخفیہ ہاتھ میں خاموش نہیں بیٹھیں گے۔عالمی کسادبازاری کی بناپریقیناپٹرول کے نرخ ناقابل یقین حد تک بڑھنے کاخدشہ ہے اورابھی سے مہنگائی اور آسمان سے چھوتی ہوئی قیمتوں نے تمام دنیاکے پالیسی سازوں کے ہاتھوں میں رعشہ طاری کردیاہے۔ یقیناًپاکستان بھی مزید مہنگائی کاشکارہوکرجب پٹرول اوربجلی کے نرخ بڑھائے گاتوپاکستانی عوام کوکپتان کی طرف سے پٹرول میں دی ہوئی رعائت اوریادآئے گی اورعوام یہ بھول جائیں گے کہ کپتان نے بارہ روپے ریٹ بڑھاکر10روپ کی رعائت کی تھی جس سے عام آدمی کوکوئی فائدہ نہیں پہنچاتھالیکن مشکلات میں پسی ہوئی عوام کاغیض وغضب حکومت کے تمام انتظامات کو درہم برہم کردینے کیلئے کافی ہوگااوراس کافائدہ یقیناجیل میں بیٹھے عمران خان کی مقبولیت میں اضافے کاموجب ہوگاکیونکہ ہماری قوم کامزاج ہے کہ ہرحکومت کے دورمیں مشکلات کودیکھ کرجانے والابے اختیار یادآتا ہے جس طرح زرداری کے دور میں مشرف، نوازشریف کے دورمیں زرداری اوراب عمران کے دورمیں میاں نوازشریف کی یادبری طرح ستاتی ہے۔ ادھر ملک پہلے سے ہی دشمنوں کی سازشوں کے نرغے میں ہے ،امریکاویورپ فیٹف اورعالمی مالیاتی اداروں کی کمرٹھونکتے ہوئے ملک کی مشکیں کسنے کیلئے پہلے ہی سے تیاربیٹھے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امن کی ناگفتہ حالت کوکنٹرول کرنے کیلئے فوری نئے الیکشن کااعلان کردیاجائے جس کیلئے عبوری حکومت کی بجائے اس مرتبہ ٹیکنوکریٹ حکومت کاقیام عمل میں لایا جائے۔

ادھرنیب کوکرپشن کے مقدمات کوتیزی سے ختم کرنے کیلئے حرکت میں لایاجائے گا۔کرپشن کے مقدمات کے ساتھ ساتھ فارن فنڈنگ کیس،بی آرٹی کیس، ملین ٹری کادھاندلی کیس،مالم جبہ کیس،شوگراورآٹامافیاکے بارے میں جے آئی ٹی کی مصدقہ رپورٹس میں نامزد ملزمان کے مقدمات کی تشہیرکےپہنچانے کیلئے جہاں مزید وقت درکارہوگاوہاں عمران خان کے خلاف مقدمات کامضبوط شکنجہ کس دیاجائے گا اورقوم مہنگائی ساتھ ساتھ ان کوانجام تک ومشکلات کے طوفان میں چیخنے چلانے کے باوجودان تمام مقدمات کومنطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اس لئے منتظرہوگی کہ وہ سات دہائیوں سے اس ملک کے ساتھ کھلواڑکرنے والوں کوبہرحال کیفرکردارتک پہنچایاجائے۔ایسے مناظرہم عدلیہ کی بحالی کے سلسلے میں دیکھ چکے ہیں اورقوم اس بات سے بھی شاکی ہے کہ عدلیہ آزادی کی تحریک میں گھرکی دہلیزپر سستے انصاف کے وعدے کاجس بری طرح خون بہایاگیاہے،اب وہ آئندہ ایسے کسی بھی ایسے ڈرامے کاحصہ بالکل نہیں بنے گی بلکہ نتائج کے حصول کیلئے تگ ودومیں مصروف رہے گی۔

یہ عین ممکن ہے کہ ملک میں آئندہ منصفانہ انتخاب کیلئے الیکشن کمیشن کی اصلاحات کامطالبہ سامنے آجائے تاکہ آئندہ کسی کو بھی جماعت کودھاندلی کی شکائت نہ ہو۔صاف اورغیر جانبدارانتخاب کیلئے یقیناالیکشن کمیشن کی اصلاحات کیلئے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرکے90دن کی بجائے کم ازکم چھ ماہ کی درخواست کی جائے گی۔بعدازاں عدلیہ کی اصلاحات کی تحریک بھی زورپکڑسکتی ہے۔قوم کے سامنے پہلے سے ہی یہ انصاف میں غیرمعمولی تاخیرکی بناپرشدیدتحفظات ہیں جبکہ قوم اس سے بھی آگاہ ہے کہ اس وقت موجودہ ججزکی غیر معمولی تنخواہوں کاخصوصی بھاری سکیل یعنی ہرجج کی ماہانہ تنخواہ نولاکھ اورمراعات،ریٹائرڈہونے پر سات لاکھ پنشن کے ساتھ غیر معمولی مراعات بالآخر کون سے اسکیل کے تحت دی جارہی ہیں جبکہ ملک میں سب سے بڑاسرکاری عہدہ گریڈبائیس کاہے، آخراس سے بھی کہیں زیادہ اس غریب ملک پربوجھ کیوں ڈالاگیاہے۔

الیکشن کمیشن کی اصلاحات کے ساتھ عدلیہ کی اصلاحات کیلئے بھی سال بھرکاوقت درکار ہوگا۔اس کے بعدنئے الیکشن کمیشن کے وضع کردہ قوانین کے تحت سیاسی جماعتوں کی تطہیرکاسلسلہ شروع کیاجائے گااور بہت سے موجودہ سیاسی چہرے قانونی طورپریاتوجیل یاتراپرہوں گے یاپھرہمیشہ کیلئے سیاست سے نااہل ہو کراپنی کچھاروں میں اگلے کسی دنگل کے انتظارمیں پناہ لینے پرمجبورکر دیئے جائیں گے ۔ باقی ماندہ سیاسی جماعتوں کے اہل افرادکوانتخابی مہم کیلئے تین ماہ کی مہلت دی جاسکتی ہے توگویاٹیکنوکریٹ حکومت کادورانیہ تین سال سے کہیں زیادہ محیط ہو جائے گااوراب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آئینی طورپرنئے چیف کی تقرری منتخب آئینی وزیراعظم کے حکم پرعمل میں لائی جاتی ہے،توکیاآرمی چیف جنرل باجوہ جن کی مدت ملازمت 29نومبر2022کوختم ہورہی ہے،مزیدتین سال سے زائدتک اس عہدے پراپنی خدمات سرانجام دیتے رہیں گے؟

اس تمام صورتحال سے بچنے کاواحدطریقہ یہ ہے کہ اسپیکرقومی اسمبلی اسدقیصرجو ایوان کے کسٹوڈین ہیں،فوری طورپرایوان کی چاردیوری کے اندتمام فریقین کوبلا کر ان کے سامنے جمہوری حکومت کی بساط لپیٹنے کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے حکومت اوراپوزیشن کورولزآف گیم کاپابندبنانے کیلئے ایک تحریری معاہدے پردستخط کرواکے اس معاہدے کو اعلیٰ عدلیہ کے حوالے کریں ۔ عدم اعتماد کے موقع پر آئین یا قانون سے انحراف نقصان دہ ہوگا اگر سب کچھ آئین کے اندر رہ کر کیا گیا تو حکومت جانے کے باوجود جمہوریت کا بھرم رہ جائے گا۔دوسری طرف شیخ رشید اور چوہدری فواد حسین مقتدر حلقوں سے چاہتے ہیں کہ وہ بیچ میں پڑ کر حکومت اور اپوزیشن میں صلح کروا دیں توچھ ماہ کے اندر الیکشن کروایاجاسکتاہے تاہم یہ اس لئے ممکن نہیں کہ اپوزیشن کا ٹارگٹ تو 172 ارکان ہیں لیکن وہ اس تعداد کو 200 تک پہنچانا چاہتی ہے تاکہ نمبر گیم میں کوئی شک و شبہ نہ رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں