افغان جنگ سے ملاکیا؟

:Share

آج کی افغان فوج سابق سوویت یونین کی شکست وریخت کے وقت کی افغان فوج کے مقابلے میں خاصی کمزورہے جس کی بناءپرطالبان حکومت کے بحال ہونے کاقوی امکان ہے۔افغانستان سے امریکاکے حتمی انخلاکامرحلہ شروع ہوئے ایک ماہ ہوچکاہے اوراب یہ عمل تیز ہوتاجارہاہے۔ امریکی صدربائیڈن کے مطابق افغانستان سے تمام امریکی فوجی ستمبرتک نکال لیے جائیں گے۔ایسے میں یہ بات بعیدازقیاس لگتی ہے کہ وہ جولائی تک جاچکے ہوں گے۔امریکی جرنیلوں نے پیکنگ کرلی ہے اورمعاملات افغان حکومت اورفوج کے حوالے کرنے کاعمل نصف کی حدتک مکمل ہوچکاہے۔امریکی دفاعی حکام کے مطابق امریکااورنیٹوکے آخری فوجی دستوں نے افغانستان کاگوانتانامو کہلائے جانے والاایئربیس بگرام افغان حکومت کے حوالے کردیاہے جوگذشتہ20سال سے افغان طالبان کے خلاف جنگ کا مرکزتھا۔

دیگر نیٹو افواج بھی انخلا کے معاملے میں امریکا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکرچلنے کی کوشش کررہی ہیں۔بیسزکوافغان فورسزکے حوالے کرنے بعدطالبان ان پر قبضہ کرنے کیلئے پوری کوشش کررہے ہیں،اب افغان فورسزکوطالبان کاسامنااپنے طورپرکرناہوگا۔بظاہرایسالگتاہے کہ بائیڈن کسی سودے بازی کے موڈ میں نہیں ۔وہ ایک طویل مدت سے افغانستان میں امریکی مداخلت کے ناقدرہے ہیں۔ان کاخیال ہے کہ امریکی فوجی جتنی تیزی سے افغانستان سے نکلیں گے اتنے ہی کم جانی نقصان کاسامنا کرناپڑے گا۔(ویسے درحقیقت جانی نقصان بہت کم ہی ہواہے)قندھارایئربیس پرکبھی جیٹ طیارے،ہیلی کاپٹر اورڈرون ہواکرتے تھے مگر اب یہ ایئربیس ویران پڑی ہے۔

یہ فوجی اڈہ 1980کی دہائی میں سوویت افواج نے افغانستان پرحملے کے بعدقائم کیاتھا۔یہ کابل سے40کلومیٹرشمال میں ہے اوراس کانام ایک قریبی گاؤں کے نام پر ہے۔ امریکاکی قیادت میں اتحادی افواج نے دسمبر2001میں یہ اڈہ حاصل کیااوراسے10ہزارفوجیوں کی رہائش کے قابل بنایا۔اس کے دورن وے ہیں جن میں سے نیارن وے3.6کلومیٹرطویل ہے جہاں بڑے کارگواوربمبارجہازلینڈ کرسکتے ہیں۔ایسوسی ایٹڈپریس کے مطابق اس میں طیاروں کی پارکنگ کیلئے110 جگہیں ہیں جن کی حفاظت کیلئے بم پروف دیواریں ہیں،50بستروں پرمشتمل ہسپتال ہے،ٹرامامرکزہے،تین آپریشن تھیٹرہیں اورایک جدیددانتوں کاکلینک بھی ہے ۔اس کے ہینگرزاور عمارتوں میں وہ قیدخانے بھی ہیں جہاں تنازعے کے عروج کے دنوں میں امریکی فوج کی زیرِحراست لوگوں کورکھا جاتاتھا۔اسے کیوبامیں واقع بدنامِ زمانہ امریکی فوجی جیل کے نام پر”افغانستان کاگوانتانامو”کہاجاتاتھا۔بگرام اُن سائٹس میں سے ہے جس کاتذکرہ امریکی سینیٹ کی رپورٹ میں کیاگیاتھا جس کے مطابق سی آئی اے ان حراستی مراکز میں مبینہ طورپرالقاعدہ سے تعلق رکھنے والے افرادسے انسانیت سوزتشددکے ذریعے تفتیش کیاکرتی تھی۔

عتیق اللہ امرخیل کیلئےیہ ایک جانی پہچانی صورتحال ہے۔1989ءمیں جب سابق سوویت یونین کی فورسزنے افغانستان سے بوریابسترلپیٹا تب عتیق اللہ امرخیل افغان ایئرفورس کے کمانڈرتھے۔سابق سوویت افواج نے کمیونسٹ صدرنجیب اللہ کی سربراہی میں جوحکومت چھوڑی تھی اس کے بارے میں خیال تھاکہ مجاہدین کی طاقت دیکھتے ہوئے اس کی بساط چندہفتوں میں لپیٹ دی جائے گی۔حقیقت یہ ہے کہ عتیق اوران کے ساتھیوں نے جلال آباداوردیگرشہروں پرشدیدحملوں کے باوجود مجاہدین سے تین سال تک مقابلہ کیا۔بعدمیں جب روس نے نجیب اللہ کی مالی امداد روک دی تب اس کیلئےمجاہدین کاسامناکرناممکن نہ رہااورطالبان نے اس پرقبضہ کرلیا۔

ایک ایسی سرزمین پرجہاں چارعشروں کے بھیانک لمحات ومراحل اب تک دل ودماغ کیلئےعذاب بنے ہوئے ہیں،تاریخ کی صدائے باز گشت بھی ایک خاص انداز سے سنائی دیتی ہے۔افغان اس وقت یہ بحث کر رہے ہیں کہ طالبان کے دوبارہ واپس آنے کی صورت میں اب صدر اشرف غنی کی حکومت کے متوازی کیاہوسکتا ہے۔عتیق کاکہناہے کہ سابق سوویت یونین کی افواج نے افغانستان سے روانہ ہوتے وقت انہیں مجاہدین کاسامنا کرنے کے حوالے سے بہترحالت میں چھوڑاتھا جبکہ امریکااورنیٹو نے اس معاملے پرزیادہ توجہ نہیں دی۔عتیق کے مطابق تب ہم نے ایک لمحے کیلئےبھی یہ نہ سوچاتھاکہ ہم کامیاب نہ ہوسکیں گے۔سوویت افواج نے جوافغان فوج چھوڑی تھی وہ موجودہ افغان فوج سے کہیں زیادہ طاقتورتھی۔فضائی بیڑابھی وسیع اورمضبوط تھالیکن اس کے باوجودمجاہدین ہم پرحاوی ہوگئے۔

اس زمانے کے عتیق کے ایک دشمن کوبھی اس بات سے اتفاق ہے۔حزب اسلامی کے سربراہ کی حیثیت سے گلبدین حکمت یارکوپاکستان، سی آئی اے اورسعودی عرب کی مکمل اعانت میسرتھی۔افغان پارلیمنٹ سے متصل اپنے دفترمیں وہ کہتے ہیں کہ سوویت یونین کی افواج نے1989ءمیں مجاہدین سے نبردآزماہونے کیلئےجوافغان فوج چھوڑی تھی وہ موجودہ افغان فوج سے مضبوط ترتھی۔روسیوں نے افغان سرزمین سے روانہ ہوتے وقت افغان فوج کوٹینک،آرمرڈگاڑیاں، توپ خانہ اورایئرفورس سے مزین کیاتھا۔دو عشروں کے دوران امریکااور نیٹونے مقابلے کیلئےخاصی کمزوراندرونی سیکورٹی فورس تیارکی ہے۔عسکری امورکے تھنک ٹینک سی این اے کے جوناتھن شروڈن کہتے ہیں کہ تب کی اوراب کی افغان فوج کاموازنہ پوری صورت حال کے حوالے سے صرف ایک پہلوسے ہے۔ان کہناہے کہ1980ءکے عشرے میں مجاہدین کوغیرمعمولی فوجی امدادملی تھی جس میں اینٹی ایئرکرافٹ اسٹنگرمیزائل بھی شامل تھے۔طالبان کوشاید اب بھی پاکستان میں پناہ گاہیں میسرہوں اوروہ مجاہدین کے مقابلے میں زیادہ متحددکھائی دے رہے ہیں۔پھربھی یہ بات مانناپڑتی ہے کہ ان میں لڑنے کی قوت کم ہے۔ شروڈن کااستدلال ہے کہ نجیب اللہ کے مقابلے میں صدراشرف غنی زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہیں۔

امریکی افواج کے انخلاکی رفتارطالبان رہنماؤں کی نظرمیں بہت حوصلہ افزاہے کیونکہ ان کاخیال یہ ہے کہ وہ(طالبان)عسکری فتح سے ہم کنارہوسکتے ہیں۔ فریقین(افغان حکومت اورطالبان)کومذاکرات کی میز تک لانے اورکسی وسیع البنیاد معاہدے تک پہنچنے میں مدد دینے سے متعلق پاکستان اورامریکی کوششیں اب روکی جاچکی ہیں۔محسوس ہورہاہے کہ پورا موسمِ گرمافریقین کے درمیان لڑائی اورطاقت کا توازن اپنے حق میں کرنے کی کوشش میں گزرے گا۔طالبان کے مختلف علاقوں اورقصبوں پرقبضہ نے حکومت پردباؤبڑھادیا ہے۔ نصف سے 80فیصدکی حدتک دیہی علاقوں پر پرطالبان کاکنٹرول ہے،باقی ماندہ علاقوں پرقبضہ کیلئے لڑائی جاری ہے۔ اقوام متحدہ اورعالمی میڈیاطالبان کی فتوحات کی تصدیق کر رہے ہیں۔

افغان فوج جن پولیس اہلکاروں اورسپاہیوں پرمشتمل ہے وہ حالیہ چندماہ کے دوران دیہی علاقوں کی کئی لڑائیوں میں موم کی طرح پگھل گئے۔حدیہ ہے کہ غیرمعمولی پرقبضہ کے بعد باقی ماندہ تربیت یافتہ اورجدید ترین ہتھیاروں اورعسکری سازوسامان سے لیس نیٹوفورسزکو بھی طالبان کے کئی حملوں کے دوران شدید مزاحمت کرنا پڑی۔قندھارسے باہرکے ایک علاقے میں قبائلی عمائدین کاکہناہے کہ افغان پولیس کی بہت سی چیک پوسٹس میں خوراک دستیاب ہے نہ اسلحہ اوران اہلکاروں کووقت پرتنخواہ بھی نہیں ملتی۔جب طالبان ان کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہیں تب ان میں لڑنے کی ہمت باقی نہیں رہتی،مقامی عمائدین کی معرفت بات چیت کرکے ہتھیار پھینک کراپنے گھروں کی راہ لے رہے ہیں۔

حالیہ چندماہ کے دوران بہت سی چیک پوسٹس اوراڈوں کایہی معاملہ رہاہے۔پولیس اورعام فوج کوشدیدمزاحمت اورمشکلات کاسامناہے۔ایسے میں حکومت اسپیشل فورسزکے یونٹس پرمداررکھتی ہے۔ان کمانڈوزنے نیٹوفوجیوں کے ساتھ کام کیاہے اور انہوں نے بہت سے مواقع پرطالبان کو پچھاڑنے میں کامیابی بھی حاصل کی ہے ،ان کمانڈوزکوخطرناک علاقوں میں بھیجاجاتارہاہے۔انہوں نے طالبان کے حملوں کو ناکام بناکربہت سے علاقے واپس بھی لیے لیکن اب وہ بھی ہمت ہارچکے ہیں۔

امریکی فوجی تجزیہ نگارکے مطابق طالبان بڑے شہروں پرقبضے کی بھرپورکوششوں میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں لیکن حیرت انگیزطورپروہ صوبائی ہیڈکوارٹرز پر قبضہ کرنے سے گریزکررہے ہیں۔بہت سے عالمی تجزیہ کاروں کاخیال ہے کہ ایساہی ہوتارہے گاکیونکہ طالبان ایک سوچی سمجھی سیاسی اورجنگی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔سوال یہ ہے کیاطالبان کسی ماسٹرمائنڈکی طرف سے اس حکمت عملی پرکام کررہے ہیں یا بیس سالہ خانہ جنگی سے انہوں نے یہ سیکھاہے۔ تاہم امریکی جرنیل کہہ رہے ہیں کہ وہ روسیوں والی غلطی نہیں دہرائیں گے یعنی غیر ضروری طورپرفنڈ نہیں روکیں گے مگریہ واضح نہیں کہ ایک بارانخلامکمل ہوجانے کی صورت میں وہ افغان فورسزکی کیامددکریں گے۔امریکی محکمہ دفاع نے2جون کوکہاکہ امریکاکی امدادافغان فوج کی تنخواہ کی ادائیگی اورچندطیاروں کی دیکھ بھال کے اخراجات تک محدودرہے گی۔

شروڈن کہتے ہیں کہ سوویت افواج کے انخلاکے بعدصدرنجیب اللہ کوزیادہ دیرتک حکومت کرنے کاموقع اس لیے ملاکہ ایک طرف توفوج اچھی تھی اورفنڈنگ بھی تھی اوردوسری طرف یہ بھی ایک ناقابلِ تردیدحقیقت تھی کہ وہ حیرت انگیزحد تک لچک دارتھے اورروسیوں نے انہیں بقایقینی بنانے کیلئے کچھ بھی کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔اشرف غنی کوزیادہ دباؤکا سامناہے۔انہیں ایک طرف ملک کوتقسیم سے بچانے کیلئے متحارب 8کے قریب افغان وارلارڈز جوامریکی انخلا کے فوری بعدخانہ جنگی کیلئے تیاربیٹھے ہیں،کے مقابلے میںموقع پرست ریاستی عناصر کومتحدکرناہوگاجوکہ بڑامشکل دکھائی دے رہاہے ۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ جاری کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں طالبان اوردیگرتمام فریقین کے درمیان کوئی معاہدہ سامنے آجائے ۔

واشنگٹن کی طرف سے ملنے والے اشارے زیادہ حوصلہ افزانہیں۔ایسے میں فوج کامورال بنیادی چیزہے۔افغان فوج شدیددباؤ میں ہے۔یہ بہت حد تک نفسیاتی معاملہ ہے۔ایک افغان سفارت کارکاکہناہے کہ ہم اگریہ موسم گرماجھیل گئے توبہت کچھ درست ہو جائے گا۔عتیق بھی اس نکتے سے متفق ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہماری فوج اگر دوماہ میں اپنی بقاممکن بنانے میں کامیاب ہوگئی توہم بقایقینی بنا لیں گے۔یہی وجہ ہے کہ عبداللہ عبداللہ اوراشرف غنی شدیدسیاسی حریف ہونے کے باوجود واشنگٹن کی قدم بوسی کیلئے نئے احکام اوراس کی بجاآوری کیلئے بلائے گئے جہاں واشنگٹن نے آئندہ کے پروگرام کے بارے میں ہدایات دیں وہاں بھارت کوبھی ذمہ داریاں سونپی گئی لیکن قندھار میں اپنے سفارتی عملے کے انخلاء کی آڑمیں افغان فورسزکو80ٹن اسلحے کی بھاری کھیپ نے آئندہ کاساراکھیل چوپٹ کر دیا ہے ۔دوسری طرف طالبان کے بڑھتے قدم روکنے کیلئے حالیہ امریکی ڈرون حملوں نے خطے میںاک نئے سیکورٹی بحران کوجنم دے دیاہے اورپینٹاگون کے ترجمان ”جان کربی”نے حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے اس عمل کو آئندہ بھی جاری رکھنے کاعندیہ دیاہے۔اس انتہائی خوفناک ڈرون حملوں نے کہاں سے اڑان بھری،اس کی تحقیق بہت لازمی اوراہم ہے تاہم پاکستان کاامریکاکوائیربیس نہ دینے کا فیصلہ بالکل درست ثابت ہوا ہے ۔

خطے کے اہم ممالک پاکستان،روس،ایران اورچین کومل کرایک حکمت عملی تیارکرناہوگی اورکابل ائیرپورٹ کی حفاظت پرمامورترکی افواج کی واپسی کویقینی بنانا ہوگا ۔یادرہے کہ کابل ائیرپورٹ کیلئے امریکی حفاظتی نظام میں راکٹوں اورگولہ باری سے حفاظت اورہیلی کاپٹرسپورٹ سسٹم کے علاوہ کابل میں امریکی سفارت خانے کے تحفظ کیلئے ترکی کی افواج موجودہیں،جبکہ طالبان نے افغان سرزمین کوتمام غیرملکی افواج کے انخلاء کاحوالہ دیتے ہوئے مسلم برادرترکی کواپنی فوج کوفوری نکالنے کاپیغام بھی دے دیاہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ انخلا کے بعدخانہ جنگی کااونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

طالبان نے گذشتہ سال فروری میں معاہدے پردستخط کرنے کے بعداتحادی افواج پرحملے توبندکردیے تھے تاہم انہوں نے حکومتی فورسز کے خلاف جوابی حملےجاری رکھے ہیں اور طالبان کوکہناہے کہ امریکاکے ایماپرافغان فورسزاورداعش کے مشترکہ گٹھ جوڑکے خلاف انہیں کامیابی حاصل ہورہی ہے۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہدنے خبررساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بگرام اورقندھار سے امریکی افواج کے انخلاکاخیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ اس سےافغان اپنے مستقبل کافیصلہ آپس میں خودکرسکیں گے۔

اس جنگ میں اندازے کے مطابق کئی لاکھ افغان شہری اور70ہزارسے زائدافغان سپاہی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ2442امریکی سپاہی اور 3800سے زائدامریکی نجی سکیورٹی ٹھیکیداربھی ہلاک ہوئے ہیں۔دیگراتحادی ممالک کے1144فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔بران یونیورسٹی میں کوسٹ آف وارپراجیکٹ نے اس جنگ پرامریکی اخراجات کا تخمینہ 20کھرب260ارب ڈالرکے قریب لگایاہے جبکہ افغان جنگ میں عمربھرکیلئے معذورہونے والے فوجیوں اورہزاروں نفسیاتی بیماریوں میں مبتلافوجیوں کی ادویات پرسالانہ کئی ارب ڈالرسالانہ اخراجات تاعمربرداشت کرنے ہوں گے۔برطانیہ اورامریکاکے دوسرے اتحادی ملکوں نے ابھی تک مارے ندامت افغانستان میں اپنے مالی وجانی نقصانات کا مکمل تخمینہ جاری نہیں کیالیکن جلدہی اپنے عوام کی جوابدہی کیلئے اس کڑے امتحان سے گزرناہوگاکہ اس جنگ میں ٹیکس گزاروں کے اس خطیرنقصانات کے ذمہ داروں کوکٹہرے میں لایاجائے۔سوال یہ ہے کہ امریکااوراس کے اتحادیوں کواس جنگ سے ملاکیا؟

اپنا تبصرہ بھیجیں