”ہمیں پیارہے پاکستان سے”

:Share

لفظ بھی بچوں کی طرح ہوتے ہیں،معصوم اوربھولے بھالے بچوں کی طرح، بہت محبت کرنے والے،لاڈوپیار کرنے والے،نازواداوالے،تنگ کرنے والے، روٹھ جانے والے اورپھربہت مشکل سے ماننے والے یاہمیشہ کیلئے منہ موڑ لینے والے۔ کبھی تومعصوم بچوں کی طرح آپ کی گودمیں بیٹھ جائیں گے پھر آپ ان کے بالوں سے کھیلیں،ان کے گال تھپتھپائیں تووہ کلکاریاں مارتے ہیں، انہیں چومیں چاٹیں بہت خوش ہوتے ہیں وہ۔ آپ ان سے کسی کام کا کہیں تو وہ آمادہ ہوجاتے ہیں۔ محبت فاتح عالم جو ہے۔ کبھی تنگ کرنے پر آجائیں تو ان کا رنگ انوکھاہوجاتاہے۔آپ ان کے پیچھے دوڑدوڑکرتھک جاتے ہیں لیکن وہ ہاتھ نہیں آتے کہیں دم سادھے چھپ کربیٹھ جاتے ہیں اورآپ انہیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ آپ ہلکان ہوں توہوجائیں وہ آپ کو تنگ کرنے پراترے ہوتے ہیں اور جب آپ کی ہمت جواب دے جاتی ہے تو وہ دیکھو میں آگیا کہہ کر آپ کے سامنے کھڑے مسکرانے لگتے ہیں۔
بچوں کی طرح لفظوں کے بھی بہت ناز نخرے اٹھانے پڑتے ہیں اور اگر اللہ نہ کرے وہ روٹھ جائیں اورآپ انہیں منانے کی کوشش بھی نہ کریں تب تو قیامت آجاتی ہے۔ ایک دم سناٹا ،تنہائی اداسی، بے کلی آپ میں رچ بس جاتی ہے، آپ خود سے بھی روٹھ جاتے ہیں۔ ہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ کا تومیں نہیں جانتا،میرے ساتھ توایسا ہی ہے۔میں کئی ہفتوں سے اسی حالت میں ہوں۔ کچھ سجھائی نہیں دیتا،بے معنی لگتی ہے زندگی، دوبھر ہو گیاہے جینا………لیکن پھروہی جبرکہ بڑامشکل ہے جینا،جئے جاتے ہیں پھربھی۔وہ رات بھی عجیب سی تھی۔ بے کلی کم ہونے کانام نہیں لیتی تھی اور بالآخر صبح ہوئی توایمبولنس کوبلاناپڑگیااوراب کئی ہفتوںسے ہسپتال کے چکرلگ رہے ہیں۔تھوڑی دیر کیلئے ای میل دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں توان گنت،ہزاروں دعاگومحبتوں کے پھول سجائے میرا اس طرح استقبال کرتے ہیں کہ اپنے کریم ورحیم رب کے کرم ورحم کی بارش میں مکمل طورپر بھیگ جاتاہوںاور خودمیں دوبارہ اتنی قوت محسوس کرتاہوں کہ اپنے اردگردکی بھی خبرلے سکوں۔
مزاحمتی قوت گر تے ہوؤں کو پیروں پرکھڑا کر تی ہے ،ڈوبتے ہوؤں کوتیرنے کاحوصلہ دیتی ہے اورسا حل پرلاپٹختی ہے۔بیمارکوبیماری سے جنگ میں فتح یاب کر تی ہے (اللہ کے حکم سے) بجھتے د یئے کی لوبجھنے سے پہلے تیز ہوجاتی ہے،کیوں؟شایددیادیرتک جلناچاہتاہے۔یہ اس کی مزاحمت ہے۔اندھیروں کے خلاف کبھی کوئی مسا فرکسی جنگل میں درندوں کے درمیان گھرجائے توتنہاہی مقابلہ کرتاہے کہ اس کے بغیرکوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ایک نا تواں مر یض جوبسترسے اٹھ کر پانی نہیں پی سکتاناگہانی آفت کی صورت میں چھلانگ لگاکربسترسے نیچے کودسکتاہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مر یض میں وہ مزاحمتی قوت موجودتھی جس کااس کوخودبھی اندازہ نہیں تھا۔
خطرے کے احساس نے اس قوت کو بیدارکردیا۔یہی وہ قوت ہے جوکمزوروں کوطا قتورسے ٹکرا دیتی ہے،کبوترکے تن نازک میں شاہین کاجگرہ پیدا ہوجاتاہے،چیو نٹی ہاتھی کے مقا بلے میں اترآتی ہے،مظلو م کی آنکھیں قہربرساتی اورسلگتے انگارے شعلہ جوالہ بن جا تے ہیں۔
لیکن تا ریخ ہمیں یہ بتا تی ہے کہ د نیاوی کامیا بی کے حصول کیلئے مزاحمت کمزورپڑکرسردہو جاتی ہے لیکن اگر مزاحمت کے ساتھ ”ایمان باللہ” شامل ہوجائے تومزاحمت کبھی سردنہیں پڑتی، راکھ میں کوئی نہ کوئی چنگاری سلگتی رہتی ہے جہاں مزاحمتی قوت بیدارہوتویہ چنگاری بھڑک اٹھتی ہے لیکن کیایہ ضروری ہے کہ یہ مزاحمتی قوت اس وقت بیدارہوجب خطرہ حقیقت بن کر سا منے آجا ئے،جب سرپرلٹکتی تلوارکی نوک شہہ رگ کوچھو نے لگے،جب سرحدوں پرکھڑے مہیب اوردیوہیکل ٹینکوں اور طیا روں کی گڑگڑاہٹ سڑکو ں اورچھتوں پرسنائی دینے لگے۔جب ڈیزی کٹر،کروزاورٹام ہاک بم بارش کے قطروں کی طرح برسنے لگیں ۔جب بہت کچھ”گنواکر”کچھ بچانے کیلئے ہم مزاحمت پراترآئیں گے؟
پا کستانی ذمہ داروں نے پہلی مرتبہ خطرہ کودرحقیقت”دوچارلب بام” سمجھنے کی بجائے انتہائی مناسب جواب دیکرساری قوم کے دل جیت لئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی قوم لڑے بغیرہی شکست تسلیم کرلیتی ہے تویہ جسمانی نہیں ذہنی پسپائی ہوتی ہے۔ایسی قوم کوجسمانی طورپرزیر کرنے کیلئے دشمن کوزیادہ مشکل نہیں اٹھانی پڑتی۔ہلا کوخان کی فوجیں کھوپڑیوں کے میناریوں ہی نہیں تعمیرکرلیاکرتی تھیں۔صلا ح الدین ایو بی نے جب ”ملت اسلا میہ”کانام لیاتوایک غدارطنزیہ مسکرااٹھا،کون سی ملت اسلامیہ؟یہ ذہنی پسپائی کی سب سے گری ہوئی شکل تھی کہ ایک دیوہیکل انسان اپنے ہی وجودسے انکاری تھالیکن صلا ح الدین ایوبی نے مزاحمت کی قوت کے ساتھ ایمان کوجمع کرکے خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروق کے بعدبیت المقدس نا پاک ہا تھوں سے چھین لیا۔
آج ہمیں ثابت قدمی سے میدان میں کھڑادیکھ کرہمارادشمن پہلے سے بڑھ کرمصیبت مو ل لے چکا ہے۔ایک یقینی شکست کے امکان کے باوجود محض دنیاپرظاہری غلبے کی خو اہش نے اسے ایک ایسی دلدل میں اتاردیاہے جہاں اگلاقدم اس کی ظاہری شان وشوکت اورمصنوعی ہیبت کاجنا زہ نکال کررکھ دے گا۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمیں گھروں میں بیٹھے ہیبت زدہ کرنے کی ناکام کوشش کے بعدوہ سارے لا ؤلشکرکے باوجود زیادہ خوفزدہ ہے۔اس کی چڑھائی میں شیرجیسی بے جگری نہیں بلکہ لومڑی جیسی عیاری ہے۔اب وہ ہمیں دیوارسے لگانے کیلئے پس پردہ دوسرے اقدامات کرنے سے بازنہیں آئے گایعنی ہمیں سیاسی اورمعاشی فتنوں میں مبتلاکرے گا،پس آ ج ہمیں ا پنی مزاحمتی قوت کوسمجھنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد”ایمان”ہے اوراس قوت کومضبوط کر نے والی قوت ”اللہ کی نصرت”ہے اوراللہ کی نصرت کیلئے اس کی مکمل حاکمیت کاعملی اعلان کرناہوگا۔جب مومن اپنا سب کچھ لگادیتاہے تومزاحمت میں اللہ کی نصرت نازل ہوکراس کوکا میابی سے ہمکنارکرتی ہے ۔تاریخ اسلام کے صفحات پرایسی روشن مثالیں ان گنت تعدادمیں جگمگارہی ہیں جب نہتے مسلما نوں کی مزاحمت نے وقت کے فرعونوں کوزخم چا ٹنے پرمجبورکردیا۔آج بھی دنیابھرمیں مزاحمتی تحریکیں پوری شان سے جاری ہیں۔پتھرنے ٹینک سے شکست نہیں کھائی،دنیاکشمیراورغزہ میں دیکھ رہی ہے کہ معمولی پتھروں سے جدید ٹیکنا لوجی کامقابلہ جاری ہے ۔جتنا ظلم بڑھتاجارہاہے اتنی ہی شدت سے مزاحمت بڑھتی جارہی ہے۔
لیکن کیامزاحمت کی صرف ایک ہی صورت ہے؟جب کوئی جابروقت اپنے لشکروں کے زعم میں کسی قوم پرچڑھ دوڑتاہے توہرمظلوم ہاتھ ہتھیار اٹھالیتاہے۔یہ یقینی امرہے کہ ایسے وقت میں اس کے بغیرمزاحمت کی کوئی اورصورت نہیں ہوتی لیکن اس سے بھی پہلامرحلہ کبھی نہیں بھولناچا ہئے اورہمیں یا درکھناہوگا کہ مزاحمت”ایمان” کے بغیرکچھ نہیں۔لہنداایساکڑاوقت آ نے سے پہلے ”ایمان”کوبچانااورقائم رکھنااشد ضروری ہے۔ ایمان کی کمزوری ہی ذہنی غلا می اورپسپائی کی طرف لیجا تی ہے،لہنداہراس وارکی مزاحمت ضروری ہے جس کانشانہ آج ایمان بن رہاہے۔ہما رے نظریات وافکار،ہماراطرززندگی،ہماری تعلیم،ہماری معیشت،ہمارامیڈیایہ سب وہ میدان ہائے کارزار ہیں جوہما ری مزاحمتی قوت کے شدت سے منتظرہیں۔یہ ڈوب رہے ہیں ان کوساحل پرکھینچ لا نے کیلئے بھرپورتوانائیوں کی ضرورت ہے۔آج وہ خطرناک مرحلہ آچکاہے جب نحیف ونزارمریض زندگی کی ڈورسلامت رکھنے کیلئے اس پوشیدہ قوت پرانحصارکرتاہے جواس کے جسم میں بجلی کی سی طاقت بھردیتی ہے۔گونگے،بہرے اوراندھے بھی اس نا زک دورکی شدت سے کچھ کر گزرنے کوتیارہوجائیں توجن کواللہ نے تمام ترتوانا ئیوں سے نوازرکھاہے ان کواپنی صلاحیتوں سے بھرپورفائدہ اٹھا نے سے کس نے روک رکھاہے؟
وطنِ عزیزکی طرف نگاہ اٹھتی ہے تودل میں ایک کسک سی پیداہوجاتی ہے کہ آخرہم کہاں جارہے ہیں؟پھرسوچتاہوں کوئی بھی ہو…….جب طاقت ہواس کے پاس،ہتھیاربند جتھہ ہو،حکم بجا لانے والے خدام ہوں،راگ رنگ کی محفلیں ہوں،جام ہوں،عشوہ طرازی ہو،دل لبھانے کاسامان ہو،واہ جی واہ جی کرنے والے خوشامدی اوربغل بچے ہوں…………تواس کے دیدے شرم وحیاسے عاری ہو جاتے ہیں۔ شرم وحیا کااس سے کیالینادینا!چڑھتا سورج اوراس کے پوجنے والے بے شرم پجاری جن میں عزت ِنفس نام کوبھی نہیں ہوتی۔ بس چلتے پھرتے روبوٹ……… تب طاقت کانشہ سرچڑھ کربولتاہے۔ کل جوٹی وی پربیٹھ کربرملابنی گالہ کونشئیوں کااڈہ کہتاتھا،اسی کوبلاکرپہلے پارٹی کا ترجمان اوربعدازاں مرکزمیں وزارت اطلاعات ونشریات عطاکردی جاتی ہے کہ کرلوجوکچھ کرنا ہے ہم تودھڑلے سے ایسے ہی بے شرمی کامظاہرہ کرتے رہیں گے۔
لیکن مجھے آج ان کے برعکس کرداروں کاذکرکرناہے کہ جن کاذکرآنکھوں کی ٹھنڈک ،دلوں کا سکون اوراطمینان وفرحت بخش ہے۔ہاں کوئی بھی ہو، کہیں بھی ہو،انکارسنناتواس کی لغت میں ہی نہیں ہوتا۔ انکارکیاہوتاہے وہ جانتا ہی نہیں ہے۔ لیکن ہوتایہی آیا ہے،ہوتایہی رہے گا۔ منکرپیدا ہوتے رہتے ہیں۔نہیں مانتے کانعرہ ٔمستانہ گونجتارہتاہے،تازیانے برستے رہتے ہیں، کھال کھنچتی رہتی ہے،خون بہتارہتاہے لیکن عجیب سی بات ہے ،جتنی زیادہ شدت سے نہیں مانتے کی آوازکودبانے کی کوشش کی جاتی ہے،ہرجتن ہرحربہ اپنایاجاتاہے،وہ آوازاسی شدت سے گونجنے لگتی ہے چاروں طرف۔نہیں مانتے کارقص…….رقص ہی نہیں رقصِ بسمل،نہیں مانتے نہیں مانتے کانغمہ اور گھومتا ہوارقاص۔
کیابات ہے جی ،کھولتے ہوئے تیل کے اندرڈالاجاتاہے، تپتے صحرامیں لٹاکر،سینے پرپہاڑجیسی سلیں رکھی جاتی ہیں،برفانی تودوں میں کودجاتے ہیں لیکن نعرۂ مستانہ بلند ہوتارہتا ہے۔ رقص تھمتا ہی نہیں اوریہ توحید کارقص، جنوں تھمے گابھی نہیں۔ زمین کی گردش کوکون روک سکا ہے ! بجا فرمایا آپ نے،بندوں کوتوغلام بنایاجاسکتا ہے،ان پررزق روزی کے دروازے بندکیے جاسکتے ہیں،یہ دوسری بات ہے کہ ہم نادان صرف روپے پیسے کو ہی رزق سمجھ بیٹھے ہیں۔بندوں کوپابہ زنجیرکیاجاسکتا ہے، قید خانوں میں ٹھونس سکتے ہیں آپ، عقوبت خانوں میں اذیت کاپہاڑ ان پرتوڑسکتے ہیں۔ پنجروں میں بند کر سکتے ہیں،معذورکرسکتے ہیں،بے دست وپاکرسکتے ہیں،ان کے سامنے ان کے پیاروں راج دلاروں کی توہین کرسکتے ہیں، انہیں گالیاں دے سکتے ہیں،جی جی سب کچھ کرسکتے ہیں لیکن سپاہی مقبول حسین 40سال مکاردشمن بھارت کی جیل میں گزارکراپنے وطن کی خاک کوچوم کرجس شان سے لوٹا،چنددن پہلے مقبول حسین کواس شان سے پاک سپاہ نے اسی وطن کی خاک کے سپرد کردیاکہ فلک بھی یہ پاک نظارہ دیکھ کرعش عش کراٹھا۔
صدیوں سے انسان یہ دیکھتا آیا ہے،انکارکرنے والوں کو بھوکے کتوں اور شیروں کے آگے ڈال دیا جاتا تھا۔ اس جگہ جہاں چاروں طرف خلق خدا کا ہجوم ہوتا اور ایک جابر تخت پر براجمان ہوکر یہ سب کچھ دیکھتا اور قہقہے لگاتا اورخلق خدا کو یہ پیغام دیتا کہ انکار مت کرنا،کیاتو پھر یہ دیکھویہ ہوگا تمہارے ساتھ بھی۔ ہر فرعونِ وقت اپنی تفریح طبع کے لیے یہ اسٹیج سجاتا ہے ،سجاتا رہے گا۔ ایسا اسٹیج جہاں سب کردار اصل ہوتے ہیں، فلم کی طرح اداکار نہیں۔ لال رنگ نہیں، اصل بہتا ہوا تازہ خون، زندہ سلامت انسان کا، رونا چیخنا بھنبھوڑنا کاٹنا سب کچھ اصل…… بالکل اصل۔ ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا، فرعونیت تو ایک رویے کا نام ہے، ایک بیماری کا نام ہے۔ ایک برادری ہے فرعونوں کی، فرعونوں کی ہی کیا…….ہامان کی، شداد کی، قارون کی، ابولہب کی، ابوجہل کی۔ یہ برادری کا نام ہے جس میں کسی بھی وقت کسی بھی مذہب وملت کے لوگ ہوسکتے ہیں۔ بس بچتا وہ ہے جس پر رب کی نظرِکرم ہو۔
سب کچھ قید کیا جاسکتا ہے، سب کچھ لیکن ایک عجیب سی بات ہے، اسے قید نہیں کیا جاسکتا، بالکل بھی نہیں،مشکل کیاممکن ہی نہیں ہے۔ عجلت نہ دکھائیں،خوشبوکوقید نہیں کرسکتے آپ!اور پھرخوشبو بھی توکوئی ایک رنگ ایک مقام نہیں رکھتی ناں،بدلتے رہتے ہیں اس کے رنگ، خوشبو کے رنگ ہزار…….بات کی خوشبو،جذبات کی خوشبو،ایثارووفاکی خوشبو…….بس اب آپ چلتے رہئے اوران تمام خوشبوؤں کی رانی ہے ہمارے شہداء کی خوشبوجنہوں نے اپناآج ہمارے کل پر قربان کردیا،یہ ہے ان کی عقائد کی خوشبوجنہوں نے اس معجزاتی ریاست جس کانام پاکستان ہے، اس سے محبت کودین کالازمی جزوسمجھاکہ اس کاقیام 27رمضان الکریم کی مبارک شب کوہوا، دین کی خوشبو،نظریات کی خوشبو۔ یہ خوشبو قید نہیں کی جاسکتی۔ جب بھی دبائیں ابھرتی ہے۔ وہ کیایادآگیا: ”جتنے بھی تو کرلے ستم، ہنس ہنس کے سہیں گے ہم”۔ جتنا خون بہتاہے اتنی ہی خوشبو پھیلتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتاہے جب دردخود ہی مداوابن جاتاہے دردکا۔ دیکھئے پھر مجھے یاد آگیا:” رنگ باتیں کریں اورباتوں سے خوشبوآئے، درد پھولوں کی طرح مہکے اگرتو آئے”۔
یہ سب کچھ میں آپ سے اس لیے کہہ رہاہوں کہ چند دن پہلے ہی ایک خبرآئی ہے۔آپ نے دیکھی، پڑھی یاسنی ہوگی۔اگرنہیں،تویہ بتانے کی سعادت شائدمیرے حصے میں آرہی ہے لیکن نہیں،یہ تواس کاکمال ہے جس نے ہم جیسے بے خبروں کوبتایاہے۔ (نیویارک۔آن لائن) امریکی آرمی کے ایک اسپیشلسٹ میٹری ہولڈ بروکس گوانتاناموبے کے عقویت خانے میں کلمۂ شہادت پڑھ کرحلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔ نوجوان فوجی افسرہولڈ بروکس نے جن کی ڈیوٹی صرف چھ ماہ تک کیوبا کے عقوبت خانے میں مسلمان قیدیوں کی نگرانی اوربعض اوقات انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجاتے وقت رہنمائی کرناتھی،مسلمان قیدیوں کے اخلاق اورعبادات سے متاثر ہوکراسلام قبول کرلیا۔ ہولڈبروکس نے ایک مختصرسی ای میل میں تسلیم کیا کہ مراکشی اوردیگر مسلمان قیدیوں کے حسنِ اخلاق اورتلاوت ِقرآن پاک جووہعقوبت خانے کی سخت ترین جالیوں کے عقب میں کرتے تھے،کی مانیٹرنگ کرتے ہوئے وہ بے حد متاثرہوئے تھےاورکیابات باقی رہ گئی جناب۔
دیکھئے!چراغ کوتوپھونک مارکربجھایاجاسکتاہے،نورکوکون بجھاسکتا ہے!جی جناب نورکوتو پھونک مارکرنہیں بجھایاجاسکتا۔ اسلام نورہے،قرآن حکیم نورہے،روشنی ہی روشنی،صراط مستقیم کھراسودا……..اسی قرآن کونافذکرنے کیلئے توپاکستان جیسی معجزاتی ریاست عطاہوئی تھی جس نے یہ سکھایاکہ اس ملک کیلئے جان قربان کردیناسب سے بڑااعزازہے اورماں باپ، بیوی بچے اورپوری قوم کے علاوہ ملائکہ بھی استقبال کیلئے جمع ہو جاتے ہیں کہ بندے نے اپنے رب سے وفاداری کاجوحلف اٹھایاتھااس میں یہ کامیاب ہوگیا۔ہم بھلا اپنے135/نوجوان جوبرف کے پہاڑوں میں دفن ہو گئے تھے،آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ دنیاکے ماہرین نے اپنی تمام تربہترین جدید ٹیکنالوجی،کوششوں اور تجربات کی روشنی میں برف میں دفن افرادکی بازیابی کوناممکن قراردیتے ہوئے ہاتھ اٹھالئے لیکن صدآفرین ہے ان کے بہادرساتھیوں پرکہ انہوں نے ان تمام پاک پوتر شہداء کونہ صرف بازیاب کیابلکہ دنیاکے ناممکن کوممکن ثابت کرکے دکھادیا اوریہ ناممکن کوممکن کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہواکہ اب تک آٹھ ہزارسے زائد نوجوان ان سردترین وادیوں کارزق بن گئے ہیں کہ انہوں نے یہ حلف اٹھایاتھاکہ اس ملک کی سرحدوں کی ہرحالت میں حفاظت کریں گے۔بابااقبال کیاخوب فرماگئے
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں کعبے میں گاڑوبرہمن کو
آپ سن لیجیے پاکستان بھی نورہے اوراس کیلئے جان قربان کرنے والے اسی نورکے وہ چراغ ہیں جنہوں نے ملک کو دشمنوں کی پھیلائی ہوئی تمام ظلمتوں سے پاک کردیاہے،آپ نے سنابھی ہے اورباربارسنا ہے،میرے رب نے اعلان کردیاہے،اس کافرمان ہے:شہدازندۂ جاوید ہیں۔ اپنے رب سے رزق پاتے ہیں اورقادرِمطلق نے خبردارکیاہے کہ کبھی مردہ گمان بھی مت کرنااوراب آپ ذرا دل تھام کرسنئے: جب بدترین تشددکے بعد بھی وہ قیدی اور ایسے جاںگسل حالات میں وطن کی حفاظت کرنے والے نوجوان مسکرا رہے ہوں تو وہ کون سی طاقت ہوتی ہے جس سے ان کے پائے استقلال میں ذرہ بھربھی جنبش نہیں ہوتی،کیاایساتونہیں کہ کوئی شہید اسے تحسین کی نظرسے دیکھ رہاہو …….بدری شہداء یامیدان احدکے شہداء کی مثالیں جب ان کے دلوں کومنورکردیتی ہوں توپھر بھلا خوف کیسا۔ہمارے ان جانبازوں اورشہداءنے آج اپنی اس طاقت کے اس رازکوپالیا جس کانام خداداد مملکت پاکستان سے محبت ایمان کاجزوہے اوراس کوپختہ کرلیاتویہ وہ مورچہ ہے جس میں پناہ لینے والوں کیلئے دائمی فتح کی خوشخبریاں ہیں۔ ایمان کی آبیاری وقت کی اوّلین ضرورت ہے۔ مزاحمت ایما نی قوت سے مشروط ہے،اس کوکھودیاتوسب کچھ چھن جائے گا!!ہمارے یہ تمام شہداء ہمارے سروں کے تاج اوراللہ کاانمول تحفہ ہیں۔یادرکھیں کہ اللہ کوپاکرکبھی کسی نے کچھ نہیں کھویا اوراللہ کوکھوکرکبھی کسی نے کچھ نہیں پایا۔ یہی ہمارے یوم دفاع کابہترین پیغام ہے!
!”ہمیں پیارہے پاکستان سے،اورہمیں پیارہے اپنے شہد اء سے”

اپنا تبصرہ بھیجیں