چین کے انتہائی پسماندہ علاقے میں51سالہ گونگ وانپنگ صبح پانچ بجے اٹھتی ہے اورکنویں سے پانی نکال کرپہلے اپنامنہ ہاتھ اورپھربیٹے کابھی منہ ہاتھ دھلاتی ہے۔وہ خودتواسکول کی تعلیم مکمل نہ کرسکی مگراُس کا17سالہ بیٹالی کوئی شائی جدیدتعلیم حاصل کررہاہے۔وہ ہرسال امتحان میں بہترین نمبروں سےپاس ہوتاہے اوریہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اُس کی زندگی اچھی گزرے گی۔وہ ٹیکنیکل ایگزیکٹیوبنناچاہتاہے۔گونگ وانپنگ اور دوسرے کروڑوں غریب حکمراں کمیونسٹ پارٹی سے ایک غیرتحریری معاہدہ کرچکے ہیں۔حکمراں جماعت کاوعدہ ہے کہ اگرملک بھرکے کروڑوں عوام اوربالخصوص کسان سیاست سے دوررہیں تواُنہیں معقول حدتک پُرسکون اورقابلِ رشک زندگی بسرکرنے کیلئےدرکارتمام سہولتیں دی جائیں گی۔ عوام نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ سیاست میں کچھ نہیں رکھااوراِس سے دوررہ کراچھی زندگی بسرکی جاسکتی ہے،توسودا مہنگا نہیں بلکہ فائدے کاہے۔آج چین میں کروڑوں عوام سیاست سے برائے نام بھی تعلق نہیں رکھتے۔حکومتی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والوں کازیادہ ساتھ نہیں دیاجاتا۔عام چینی جب دنیابھرکے حالات کاجائزہ لیکراِس نتیجے تک پہنچاہے کہ سیاست سے دور رہنے ہی میں عافیت ہے۔
کئی عشروں تک مغرب کے تجزیہ کاراس خیال کے حامل رہے کہ چین میں کروڑوں افرادایک پارٹی کی حکومت اس وقت تک برداشت کریں گے جب تک ملک ترقی نہیں کرجاتا۔جب ملک ترقی کرے گاتوشخصی آزادیاں بھی آئیں گی۔آج اجتماعی ہی نہیں، انفرادی آمدنی کی سطح بھی قابلِ رشک حدتک بلند ہونے کے بعدان کی یہ رائے غلط ثابت ہوچکی ہے اورملک کے تمام معاملات پرکمیونسٹ پارٹی کی گرفت مزیدمضبوط ہوئی ہے۔ایسادکھائی دے رہاہے کہ صدرشی جن پنگ تاحیات حکمران رہیں گے۔گویایہ خیال بھی غلط ثابت ہواہے کہ جب کسی بھی معاشرے میں زیادہ خوشحالی آتی ہے توجمہوری اَقدار بھی پروان چڑھتی ہیں۔چین میں ایساکچھ بھی ہوتادکھائی نہیں دے رہا۔ایسالگتاہے کہ حکمراں جماعت اورکروڑوں غریب چینیوں کے درمیان جوغیر تحریری خاموش معاہدہ ہے وہ اُس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جیسادکھائی دیتاہے۔ایک صدی قبل چینی معاشرے کوجس بنیادی سوال کا سامناتھاوہی سوال اب تک ذہنوں میں کلبلارہاہے…یہ کہ مغرب نے اس قدرترقی کیسے کی اورچین اس قدرپیچھے کیسے رہ گیا؟
ایک صدی قبل یہ تصورعام تھاکہ تعلیمی نظام میں پائی جانے والی ایک بنیادی خرابی نے چین کوپیچھے رکھاہے۔یہ کہ کنفیوشس کی تعلیمات پرزیادہ زوردیاجاتاہے اورفطری علوم بالخصوص ریاضی میں آگے بڑھنے پرزیادہ توجہ نہیں دی جاتی اوریہ کہ ریاستی سطح پرجدیدتعلیم کوترجیح کادرجہ بھی حاصل نہیں۔پھریہ ہواکہ مارکسسٹ انقلاب آیا۔ماؤزے تنگ کی قیادت میں ملک نے بھرپور کروٹ بدلی۔ملک کی سیاست،معیشت،ثقافت…سبھی کچھ بدل گیا۔تعلیم کے شعبے میں بھی انقلاب آیا۔فطری علوم وفنون کو اہمیت دینے کاسلسلہ شروع ہوامگریہ تجربہ زیادہ کامیاب نہیں رہا۔چینی قیادت آج بھی اس بات کیلئےکوشاں ہے کہ جدیددورکے تمام تقاضوں کونبھانے کے ساتھ ساتھ روایات کوبھی ساتھ لے کرچلاجائے۔کنفیوشس اوردیگربڑی عظیم چینی شخصیات کی تعلیم کویکسرنظراندازکرنے کی پالیسی نہیں اپنائی گئی۔کوشش کی گئی کہ بہت کچھ تبدیل ہومگرروایات کی بھرپورحفاظت کی جائے۔
چینی قیادت نے جدید دورکے تقاضوں سے ہم آہنگ نظام تعلیم اپنانے کی بھرپورکوشش کی ہے اوراس میں بہت حدتک کامیاب بھی رہی ہے۔ کنفیوشس کی تعلیم اورمارکسسٹ مشینری بہت حدتک تاجرطبقے کے خلاف تھی۔انفرادی سطح پرمعاشی جدوجہدکو زیادہ اچھانہیں سمجھاجاتاتھا۔اب انفرادی سطح پرمعاشی جدوجہدکو غیرمعمولی اہمیت دی جارہی ہے۔عام چینی بھی اس بات کو سمجھتاہے کہ اگرآگے بڑھناہے تولازم ہے کہ جدیددورکے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم حاصل کی جائے۔دنیابھرمیں یہی ہورہاہے۔ جوکچھ دنیامیں چلتاہے وہی کچھ چین میں بھی اپنانےکی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ اِتنے بڑے پیمانے پراوراِس قدر نمایاں اندازسے کیاجارہاہےکہ محسوس ہوئے بغیرنہیں رہاجاسکتا۔ریاستی سطح پریہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ جدیددورکے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم حاصل کرنےکے عمل میں ملک کی تاریخی عظمت داؤپرنہ لگے۔آج کی چینی نسل کوبتایاجارہاہے کہ چین کم وبیش3ہزارسال سے بہت کچھ کرتاآیاہے۔چینی دانش وحکمت کودنیاتسلیم کرتی رہی ہے۔بہت سے علوم وفنون میں چینیوں کی مہارت کالوہا ماناجاتارہاہے۔ریاستی سطح پربھرپورکوشش کی جارہی ہے کہ نئی نسل کے ذہنوں سے یہ بات حذف نہ ہوکہ کنفیوشس اوردیگراہلِ علم نے دنیاکوبہت کچھ دیاہے۔
چینی معاشرے میں ایک خاص حدتک بے چینی ضرورپائی جاتی ہے۔جن غریبوں کوحکمراں جماعت سے بہت کچھ چاہیے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وعدے کے مطابق سب کچھ نہیں دیاگیامگرساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگرحکمراں جماعت سے تصادم کی راہ پرچلنے کی کوشش کی گئی تب بھی کچھ خاص حاصل نہ ہو سکے گا۔چندایک نسلی اورمذہبی اقلیتوں کواس بات کاشکوہ ہے کہ حکمراں جماعت کی جابرانہ پالیسیوں نے ہزاروں گھرانوں کیلئے اپنے نسلی اورثقافتی تناظرکےساتھ جینا ناممکن بنادیاہے۔
چینیوں کی اکثریت اب بھی بہت سے معاملات میں اندرہی اندرالجھی ہوئی ہے۔اگرحکومتی پالیسی سے کوئی اختلاف ہوبھی تووہ منظرعام پراس لیے نہیں آتاکہ عام چینی جانتاہے کہ ملک کی آبادی بہت زیادہ ہے۔اِتنی بڑی آبادی کیلئےتمام بنیادی سہولتوں کا بندوبست کرناآسان کام نہیں۔ملک کئی بارقحط کے دور سے گزراہے۔خانہ جنگی بھی ہوتی رہی ہے۔عام چینی جانتاہے کہ اگر سیاست میں دلچسپی لینے کاسلسلہ چل نکلااورانحراف کی آوازیں بلندہونے لگیں تو بہت کچھ داؤپر لگ جائےگا،کروڑوں چینیوں کو مختلف النوع خدشات چپ کرادیتے ہیں۔ماضی کی تلخ یادیں اُن سے کہتی ہیں کہ سیاست میں حصہ مت لو،کوئی سوال مت پوچھو اورخاموشی کے ساتھ زندگی بسرکرتے رہو۔
کروڑوں چینیوں میں’’فرسٹریشن‘‘پائی جاتی ہے۔وہ پریشان ہیں کہ اپنا معیارِزندگی کس طوربلندکریں،مگرساتھ ہی ساتھ اُنہیں اس بات پربھی فخرہے کہ ملک ترقی کررہاہےاورعالمی سطح پربہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں آچکاہے۔قومی تشخص کے حوالے سے چینی بہت حسّاس ہیں۔اُن میں وطن پرستی اورقوم پرستی نمایاں ہے۔اس بات سے وہ بہت خوش ہیں کہ ملک آگے بڑھ رہاہے اوریہ کہ اب اُنہیں بھی آگے بڑھنےکاموقع ملےگا۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ بیشترچینیوں کوچینی ہونے پرفخرہے۔ایک دور تھاکہ سب مغرب کی طرف دیکھتے تھے اوراُس سےغیرمعمولی حدتک متاثرہوتے تھے۔اب ایسا نہیں ہے۔بہت سے چینیوں نے امریکااور یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعدوطن واپس آکرقومی ترقی میں اپناکرداراداکرنے کوترجیح دی ہے۔
’’جیمزنی‘‘کے پاس امریکامیں تعلیم حاصل کرنے کاموقع تھامگراس نے ملک میں رہناقبول کیااورآج کروڑپتی ہے۔’’ہواییجیااوینچر‘‘سرمایہ دارہے اورچاہتاہے کہ اُس کا8سالہ بیٹاچینی ہونے پرفخرکرے۔ہواییجیاکاکہناہے’’میں چاہتاہوں میرے بیٹے کومعلوم ہوکہ ہماری زبان بہت خوبصورت ہے اوریہ کہ ہماری کئی نسلوں نے بہت کچھ سہاہے۔بہت کچھ سہنے کے بعداب اس بات کی گنجائش پیداہوئی ہے کہ چینیوں کی نئی نسل کچھ حاصل کرے ، کچھ کرکے دکھائے‘‘۔
بہت سے تجزیہ کاروں اورمغربی سفارت کاروں کواب یقین ہوچلاہے کہ جوکچھ انہوں نے چین کے حوالے سے سوچاتھاوہ غلط ثابت ہواہے۔بیجنگ سے تعلق رکھنے والے تاریخ دان اورمصنف شوژیوآن کے مطابق چینی ذہنیت مجموعی طورپربہت عمل پسند ہے۔ بہت چھوٹی عمر سے باورکرایاجاتا ہے کہ مثالی زندگی بسر کرنی ہے،کسی بھی معاملے میں غیرضروری طورپراختلافات سےگریزکرناہےاورجتنی بھی ترقی کرنی ہے سسٹم کے اندررہتے ہوئے کرنی ہے۔پورامعاشرہ مسابقت کامیدان ہے۔سبھی کو مسابقت کاسامناہے۔آگے بڑھنے کیلئےمحنت کیے بغیرچارہ نہیں۔
چین میں ہرسال کروڑوں طلباکوکالج میں داخلے کیلئےغیرمعمولی محنت کرنی پڑتی ہے۔میرٹ کاسختی سے خیال رکھاجاتاہے۔ کسی بھی سطح پردھوکادہی کی گنجائش نہیں۔اساتذہ کی طرف سے طلباکی حوصلہ افزائی کابھرپوراہتمام کیاجاتاہے۔وہ چاہتے ہیں کہ نئی نسل بہت چھوٹی عمرسے اس حقیقت کوتسلیم اورذہن نشین کر لے کہ کامیابی صرف اُنہی کوملتی ہےجوذہین اورمحنتی ہوں ۔محنت کی عظمت بارباریاددلائی جاتی ہے تاکہ چینیوں کی نئی نسل باقی زندگی بھرپورمحنت کرے اور معیاری زندگی بسرکرے۔ انہیں یہ بھی باورکرایاجاتاہے کہ بہترزندگی کیلئےعنفوانِ شباب ہی میں غیرمعمولی محنت کرلی جائے توبہت کچھ درست ہوجاتا ہے۔کالج میں داخلے کے ٹیسٹ کے حوالے سے چینی نوجوان بہت محنت کرتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ تعلیمی ادارے کم ہیں یعنی غیرمعمولی مسابقت کاسامناہے۔
چین میں حرکت پذیری کے حوالے سے تعلیم کابنیادی کردارہے۔میرٹ کی بنیادپرکالجوں میں داخلہ ملتاہے اورداخلے کےامتحان میں کامیابی کامطلب بہتر زندگی ہی نہیں بلکہ ملک کی بڑی جامعات میں داخل ہونے کاموقع بھی ہے۔جوطلبابڑی جامعات میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں وہ جب گرمیوں کی تعطیلات میں گھرواپس آتے ہیں تواپنے تجربات کھل کربیان کرتے ہیں جواسکول کی سطح کے بچوں کوبہترزندگی کی طرف بڑھنے کی تحریک دیتاہے۔چین میں اعلیٰ تعلیم کیلئےداخلے کے امتحان کو’’گاؤکاؤ‘‘کہاجاتاہے۔حکومت گاؤکاؤکوسماجی حرکت پذیری کنٹرول کرنے کے آلے کے طورپربھی بروئے کارلاتی ہے۔ملک بھرکی جامعات میں داخلے کیلئےاس امتحان میں کامیابی لازم ہے۔داخلے اس ترتیب سے دیے جاتے ہیں کہ کسی ایک صوبے یاعلاقے پرزیادہ بوجھ مرتب نہ ہو۔آبادی کومتوازن رکھنے کیلئےگاؤکاؤکواس طوربروئے کارلایاجاتاہےکہ کہیں بھی آبادی کاتوازن نہ بگڑے اور سماجی سطح پربگاڑزیادہ نہ ہو۔
اسکالرزکہتے ہیں کہ معاملات کو احسن طریقے سے چلانے کا یہ طریقہ دراصل1300سال تک سرکاری حکام اوردیگرملازمین کے انتخاب کیلئےاپنائے جانے والے کنفیوشین نظام’’کیجو‘‘سے اخذکیاگیاہے۔خاندانی بادشاہت کے ادوارمیں بھی سرکاری مشینری کے پُرزوں کاانتخاب خالص میرٹ کی بنیادپرکیاجاتاتھاتاکہ حکومتی امورکوچلانے کیلئےبہترین افرادی قوت میسرہو۔تب ایک فیصدسے زائدامیدوارکامیاب نہیں ہوپاتے تھے کیونکہ امتحان کیلئےبہت تیاری کرناپڑتی تھی اوربہت سوں کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہوتے تھے۔فی زمانہ گاؤکاؤکانظام اپنایاگیاہے جس میں بدعنوانی کی گنجائش بہت کم ہے۔ایسے میں اگرکوئی داخلے کے امتحان میں ناکام بھی ہوجائے توحکومت یاسسٹم کوموردِ الزام ٹھہرایانہیں جاتا۔امریکاکی یونیورسٹی آف کنساس میں تعلیم کے پروفیسر یانگ ژی کہتے ہیں کہ چینی حکومت کے گورننگ کاایک بہت اچھا طریقہ یہ ہے کہ داخلے کے امتحان میں ناکام ہونے والوں سے کہاجاتاہے کہ آپ لوگ اس لیے ناکام ہوئے کہ خاطرخواہ محنت نہیں کی تھی۔
گاؤکاؤ1952ءمیں شروع کیاگیاتھا۔ابتدامیں کمیونسٹ پس منظرکے حامل طلبہ کوترجیح دی جاتی تھی۔بعدمیں خرابیاں پیداہوئیں۔ پھرایک دورایسا بھی آیاکہ ثقافتی انقلاب کے نام پراساتذہ کوماراپیٹاگیااوراسکول تباہ کردیے گئے۔ماؤزے تنگ کے انتقال کے بعد 1977ءمیں گاؤکاؤکوبحال کیاگیا۔ یوں اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخلے کے حوالے سے بدعنوانی کاخاتمہ ہوااورنئی نسل کواپنی صلاحیتیں آزمانے کابھرپورموقع ملا۔
اس سارے مضمون کاارض وطن کے نظام تعلیم سے تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔ہماراہرحکمران چین سے دوستی کوہ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں کہ تہہ سے گہراضرور قرار دیتاہے لیکن کیاان کے قول ان کے فعل سے مطابقت رکھتے ہیں؟یقیناًیہ سوچ کربھی ندامت سے سرجھک جاتاہے کہ ہم سے ایک سال بعدآزادی حاصل کرنے والاملک جواپنی روایات کے ساتھ دنیامیں کس فتح مندی سے آگے بڑھ رہاہے اورہم ہرمیدان میں بھیک منگے بنادیئے گئے ہیں۔ہمارے ہاں آج بھی بیک وقت تعلیم کے کئی نظام جاری وساری ہیں اوریہ کہتے ہوئے سخت شرمندگی ہورہی ہے کہ صرف”بیکن ہاؤس”کے نظام تعلیم نے حکومتی احکام کے ہوا میں پرزے اڑا دیئے ہیں۔پچھلی تین حکومتوں نے سارے ملک میں یکساں نظام تعلیم کے بلندوبانگ نعرے توضرور بلندکئے اوراس نعرے کی آڑمیں کرپشن کے حیرت انگیزریکارڈبھی قائم کئے لیکن ہم اپنے پڑوسی دوست چین کی ترقی سے کچھ سبق حاصل نہ کرسکے۔