خبردار:مومن بے تیغ کے خلاف سازش

:Share

تاریخ نے ایک اورفیصلہ سنادیاکہ اب افغانستان دنیاکی ایک اورسپرپاورکا قبرستان بن کردنیابھرکے ظالموں کیلئے ایک عبرت کانشان بننے جارہاہے اور نائن الیون کے بعداب افغانستان سے امریکی اورغیرملکی افواج کے انخلاء کے بعدجنوبی ایشیامیں چہارسوپھیلے تشدد کے ان بے ہنگم رحجانات پر قابو پانے میں مددملے گی جس نے اس خطہ کی تمام ریاستوں کو داخلی انتشارکے آشوب میں مبتلاکئے رکھا۔گزشتہ چھ روز دوحا میں افغان طالبان سے مذاکرت میں شریک امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے مذاکرت میں خاطرخواہ پیشرفت ہوئی ہے لیکن اب بھی کچھ معاملات حل طلب ہیں۔ البتہ طالبان ذرائع نے کہا کہ امن معاہدے کے مسودے پراتفاق ہوگیاجس کے تحت تمام غیرملکی افواج طے شدہ مقررہ مدت کے اندر افغانستان سے نکل جائیں گی، افغان طالبان کو بلیک لسٹ سے ہٹا لیا جائے گا جس سے ان پرلگی سفری پابندیاں ختم ہوجائیں گی اورقیدیوں کا تبادلہ بھی ہوگا۔ طالبان اس بات کی ضمانت دیں گے کہ افغانستان میں داعش یا القاعدہ جیسے دہشتگرد گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا نہیں ہوں گی۔زلمے خلیل زاد اب امن کے اس مسودے کے بارے میں افغانستان کے صدر اشرف غنی کوبریفنگ دیں گے جس کیلئےوہ کابل روانہ ہو گئے ہیں ۔افغانستان میں قیام امن کے معاہدہ کے بارے میں مزید تفصیلات کچھ روزمیں ایک مشترکہ بیان میں جاری کی جائیں گی۔
زلمے خلیل زادنے ٹوئٹرپراپنے پیغام میں کہاکہ دوحامیں چھ دن کے بعدمیں مشورے کیلئے افغانستان کارخ کررہاہوں۔ ملاقاتیں ماضی کی نسبت زیادہ سودمندرہیں۔ ہم نے اہم معاملات پر خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔ مذاکرات کے عمل میں جوتیزی آئی ہے اُسے برقرار رکھتے ہوئے ہم انہیں دوبارہ شروع کریں گے۔ ابھی کچھ معاملات حل کرنا باقی ہیں۔ جب تک سب معاملات طے نہیں ہو جاتے تب تک کچھ بھی حتمی نہیں ہے اور اس ضمن میں افغانوں کے مابین مذاکرات اورمکمل جنگ بندی ضروری ہے۔زلمے خلیل زاد نے مذاکرات کروانے میں مثبت کردار ادا کرنے پر حکومت قطرکا شکریہ اداکیااورملک کے نائب وزیراعظم اوروزیرداخلہ کی ذاتی کاوشوں کو سراہا۔
افغانستان میں لڑی گئی تاریخ کی طویل ترین جنگ لاکھوں بے گناہ ومعصوم انسانوں کونگل گئی ، امریکااوراس کے اتحادیوں کی مہیب جنگی جرائم نے انسانی نفسیات،علاقائی ثقافتوں،مقامی اقتصادیات اورریاستوں کے انتظامی ڈھانچوں کی چولیں ہلاکررکھ دیں۔افغان لوگ جومحبت اور لڑائی جھگڑوں کے ذریعے اپنے روزمرہ کودلچسپ بناتے تھے،سب سے قیمتی اثاثے اپنی اولاد کو انتہائی خوداعتمادی اوریقین کے ساتھ اپنی عقبیٰ و آخرت کی نجات کاوسیلہ سمجھتے ہوئے جنگجوؤں کے ساتھ روانہ کردیتے تھے،اب وہی لوگ منزل کوسامنے دیکھ کرخودکوبامراداور کامیاب”سمجھ رہے ہیں اور ایک مرتبہ پھرخودکوجنگ کے شعلوں سے محفوظ اپنے نئے مستقبل کی منصوبہ بندی کیلئے جوموقع ملے گا،وہ یقیناً اپنے اس دھرتی پراللہ کی حاکمیت کااعلان کرکے سربسجودہونے کاعملی ثبوت دیکر ان فاجرقوتوں پرثابت کریں گے کہ انسانوں کی فلاح وکامیابی کیلئے اس دھرتی پرصرف رب کانظام ہی کافی ہے کہ جس خالق نے سب کچھ تخلیق کیاہے،بھلا اُس سے بہتراورکون جان سکتاہے۔
دراصل تشددکے طویل دورانئے میں جینے والوں کی سوچنے کے انداز،طرزِ معاشرت اوراجتماعی زندگی کے قرینے بدل گئے،جس طرح بعض اوقات مرض اپنامداواخودکرتاہے ،اسی طرح خطے کی اجڑی ہوئی تہذیب کی راکھ سے ایک نئی ثقافت پیداہورہی ہے۔بلاشبہ تاریخ کااہم ترین قانون یہی ہے کہ جوچیزابھرتی ہے،وہ گرتی ضرورہے۔اسی اصول کے تحت افغان جنگ نے نہائت خاموشی کے ساتھ دنیاکی دوبڑی طاقتوں کی قوت وجبروت کو چوس کرتاریخ کے عبرت کدہ کوڑے دان میں پھینک دیاجہاں ان کی آنے والی نسلیں اپنے ان جابروفاجرحکمرانوںکی غلط پالیسیوں پرنفرین کے تبرے بھیج کر یادکیاکریں گی۔روس کے بعداب امریکابھی اس بے مقصدجنگ کوچھوڑکربھاگ جانے کی تیاری کررہاہے اورخدشہ ہے کہ سوویت روس کی طرح اگر امریکانے بھی افغان ایشوکاسیاسی تصفیہ کئے بغیرمیدان جنگ سے نکلنے کافیصلہ کرلیاتوایک بارپھراس خطے کوکبھی نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
1979ء میں داخلی انتشارمیں پھنسے افغانستان میں سوویت یونین نے ایک لاکھ فوجی داخل کرکے چنددنوں میں بآسانی بڑے شہروں کاکنٹرول حاصل کرکے اپنی خوشی کاجشن منارہا تھالیکن اس پیش دستی کے ردّ ِعمل میں پاکستان نے ایران،چین اورامریکاکے تعاون سے پراکسی وارکے ذریعے طاقتورمزاحمت کھڑی کرکے دنیاکی دوسری سپرپاورکوذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا تاہم دس برس پرمحیط گوریلاجنگ میں گیارہ لاکھ انسان لقمہ اجل بن گئے۔مرنے والوں میں جہاں90ہزارمجاہدین،18ہزارافغان سپاہی اورگیارہ ہزار چارسوپچاس(11450) روسی فوجی شامل تھے وہاں اس وقت کی افغان حکومت اورسوویت یونین کی طرف سے پاکستان میں جاری دہشتگردی میں کئی ہزارپاکستانی بھی لقمۂ اجل بن گئے اور50 لاکھ سے زائدافغانوں کودھکیل کر پاکستان میں مہاجرکیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پرمجبورکردیاگیاجس کوپاکستانی قوم نے بڑی خوش دلی سے ان کی میزبانی کے فرائض سرانجام دیئے اورآج بھی لاکھوں افغانوں کو ارضِ وطن میں پناہ دے رکھی ہے۔
روسی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے دوران پندرہ لاکھ سے زائد افرادعمربھرکیلئے معذور،تین لاکھ خواتین بیوہ،سترہ لاکھ سے زائدبچے یتیم اور پچاس لاکھ سے زیادہ لوگ نقل مکانی پرمجبورہوگئے لیکن 1988ء میں زخم خوردہ روس نے افغانستان چھوڑتے وقت جینوامعاہدہ کے تحت افغان تنازعہ کا سیاسی تصفیہ قبول کرنے سے انکارکرکے اس بدقسمت ملک کومہیب خانہ جنگی کی دلدل میں پھینک دیا۔ 1996ء میں افغان خانہ جنگی کی اسی راکھ سے جنم لینے والی تحریک ِطالبان نے بزورشمشیرافغانستان کے اقتدارِ اعلیٰ پرقبضہ کرکے کسی حدتک داخلی انتشار پرقابوپالیاتاہم شمالی افغانستان کی تاجک،ازبک اورہزارہ اقوام نے 2001ء تک طالبان کے خلاف مزاحمت جاری رکھی ۔اسی عہدمیں افغانستان دنیا بھرمیں القاعدہ کی پرتشدد کاروائیوں کا مرکز بناجس کوالقاعدہ امریکا کے مسلمانوں پرجاری مظالم کاردّ ِ عمل گردانتاتھااورالقاعدہ کاایک مطالبہ یہ بھی تھاکہ امریکافی الفوربالعموم تمام مسلمان ممالک اوربالخصوص سعودی عرب اوردیگرخلیھی ریاستوں سے اپنے اڈے ختم کرے اورجس کی انتہاء بالآخرامریکامیں ”ٹوئن ٹاورز” پرحملوں کی صورت میں سامنے آئی۔
نائن الیون کے بعداکتوبر2001ء میں افغانستان پرامریکی قیادت میں نیٹوافواج اوردیگرامریکی اتحادیوں کی یلغارنے اس تباہ حال ملک پردوسری بڑی جنگ مسلط کردی جو17 سال میں بیس لاکھ انسانوں کوخون پی گئی۔اہم امریکی ذرائع کے مطابق اب تک 31ہزارسے زائدافغان شہری جان سے ہاتھ دھوبیٹھے،امریکی سرکاری اعدادوشمارکے مطابق جون 2016ء تک 4424امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور31295 زخمی ہوئے جن میں نصف سے زائدعمربھرکیلئے معذورہوگئے، امریکی حملہ کی حمائت کی پاداش میں پاکستان کے 74 ہزارسے زائدشہری اور سیکورٹی اہلکارموت کی نیند سوگئے۔ ان سترہ برس میں پاکستان کو123بلین ڈالرکانقصان اٹھاناپڑا اوراب تک افغانستان میں امریکاکی ایک مشہورویب سائٹ کے مطابق یعنی47کھرب پچاس ارب ڈالرزسے زائدجنگ کے شعلوں میں پھونک چکاہے ۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق نائن الیون کے بعددنیابھرمیں امریکی جارحیت کے نتیجے میں براہِ راست آٹھ لاکھ انسان موت کی وادی میں اترچکے ہیں۔ان جنگوں میں لامتناہی امریکی اوردیگر ممالک کے نقصان کے بعدفاتح اورمفتوح،دونوں،وہ تمام چیزیں کھوبیٹھے جس کیلئے وہ باہم دست و گریباں رہے۔امریکی جنگوں کے ہاتھوں بربادہونے والے عراق اورافغانستان کوغیرمقبول آمریتیں اب دائرہ سلامتی کے اندرمحدودکرلیں گی۔سیرزنے سچ کہاتھاکہ”انسان مختلف طریقے اپنانے کے باوجودایک جیسے انجام سے دوچارہوتے ہیں”۔آج روس کی طرح امریکابھی کسی سیاسی تصفیے کے بغیر اپنی فورسزنکال کرافغانستان کواگریونہی پامال چھوڑگیاتوافغان عام اوربالعموم جنوبی ایشیائی ممالک کیلئے انتہائی خطرناک صورتحال پیداہوجائے گی ۔ پہلے بھی امریکیوں نے روس کوٹریپ کرنے کے بعداجڑے ہوئے افغانستان میں سیاسی استحکام پرتوجہ دی نہ تعمیرنوکاکام کیا۔
1988ء میں امریکی اگرچاہتے توجینوامعاہدے میں افغان تنازعہ کاسیاسی حل مل جاتالیکن مغربی طاقتوں نے افغانستان کے انحطاط کے مظاہرے سے نمٹنے میں دلچسپی نہیں لی،اب چالیس برس بعدبھی ہزیمت زدہ امریکی داعش کے مصنوعی خطرات پیداکرکے یوکرائن کی طرح یہاں روس کی فوجی مداخلت کے خواستگارنظرآتے ہیں۔امریکی انخلاء کے نتیجے میں پیداہونے والی نئی صورتحال سے نمٹنے کی خاطریقینا روس،چین،ایران اورپاکستان سمیت خطہ کے دیگرممالک باہمی تعاون کے امکانات پرغورکرتے ہوں گے۔ماسکونے9نومبر2018ءکوافغان امن مذاکرات کی میزبانی کرکے امریکی انخلاء کے مضمرات سے نمٹنے کی پیش بندی پرغورکیا،ماسکوامن کانفرنس میں طالبان کے نمائندوں کے علاوہ افغان حکومت کی مفاہمتی کونسل کے چاررکنی وفدچین، ایران، انڈیااوروسطی ایشیائی ریاستوں نے شرکت کی۔اس کانفرنس کے ذریعے بھارت کوپہلی مرتبہ افغان پراسس میں شامل کیاگیا ماسکوکانفرنس میں بھارتی مندوب کی شرکت کے بعدامریکااوربھارت کے مابین اعتمادکے رشتے کمزورہوتے نظرآئے جس کااظہار حال ہی میں ٹرمپ نے بھارت پربیہودہ طنز کے ذیعے کیا۔
وائس آف امریکاکے مطابق ٹرمپ نے کہاکہ ”مودی مجھے باربارکہتے ہیں کہ بھارت نے افغانستان میں ایک لائبریری بنائی ہے”۔امریکی صدرکے اس خندۂ استہزا پربھارتی حکومت اورمیڈیانے شدیدردّ ِ عمل دیاحالانکہ امریکی ایماء پربھارت نے گزشتہ سترہ سال افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی لیکن شائدامریکی اس مالی تعاون پرخوش اورمطمئن نہیں تھے،یہ بھی عین ممکن ہے کہ دوستی کے اس ریشمی پردوں کے پیچھے امریکی اس خطے کو ہولناک جنگ میں الجھانے کی خاطربھارت کی براہِ راست افغان جنگ میں شرکت کے خواہاں ہوں لیکن بھارتی بنیاء اس ٹریپ میں آنے کی بجائے ایک خاص حدسے آگے نہیں بڑھااوراسی امریکی دوستی کی آڑ میں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اپنے مفادات حاصل کرتارہا۔بھارت اس بات سے باخبر تھاکہ افغانستان جہاں امریکااپنے تمام اتحادیوں سمیت بری طرح ہزہمت اورشکست سے دوچارہے وہاں بھارت جوپہلے ہی داخلی طورپردو درجن علیحدگی پسندتحریکوں سے پریشان ہے ،وہ اگرافغانستان کی جنگ میں شریک ہوگیاتوبھارت کے ٹکڑے وقت سے پہلے ہونے سے کوئی بچانہیں سکے گا اس لئے مودی خطے میں دوسراگورباچوف بننے سے خوفزدہ ہے۔
بیشک ،جنوبی ایشیائی ممالک کی سلامتی اورترقی کارازعلاقائی امن میں پوشیدہ ہے ۔عالمی سطح پرمعاشی طورپرابھرتاہواایشیاباہمی جنگوں اورداخلی تشدد کامتحمل نہیں ہوسکتا چنانچہ جنگ کی آگ سے بچنے کی خاطرایشیاکے تمام ممالک اپنی بہترین مساعی سے افغانستان میں امن کے قیام کویقینی بناسکتے ہیں۔بلاشبہ ہربدنظمی ایک عبوری مرحلہ ہوتی ہے جومطلق العنانی کا مقابلہ کرکے پرانی رکاوٹیں ہٹادیتی ہے تاکہ نئی حیات کی نشوونماہوسکے۔آج ہمیں ایک مضبوط حکومت کی ضرورت تھی لیکن بدقسمتی سے پڑوسی ہونے کے ناطے پاکستان،افغان جنگوں کے اثرات کا براہِ راست شکاربنا،اس وقت ہماری مملکت کوانتظامی ڈھانچہ کی تشکیل نو،سیاسی رواداری،سوشل تبادلہ،معاشی فروغ،سفری اورحرکت کی آزادیوں کی بحالی کا مسئلہ درپیش ہے ۔
چالیس سال پرمحیط ہولناک جنگ کے مضمرات پرقابوپانے کی خاطر پاکستان نے پندرہ سوکلومیٹر لمبے افغان بارڈرپرباڑلگانے کے علاوہ سماجی وظائف کومعمول پر لانے کامیکنزم تیارکیا۔پاکستان میں باقی رہ جانے والے 35لاکھ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے علاوہ اب افغانستان سے پاکستان آنے والوں کیلئے ویزے کے حصول کا قانونی نظام بھی وضع کیاجارہاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں