Urgent need for political dialogue

سیاسی مذاکرات کی اشدضرورت

:Share

نہ کوئی دنیاکی حقیقتوں کوجانتاہے اورنہ ہی اپنے اردگردبکھرتی قوموں اورتباہ ہوتی ہوئی قوتوں کودیکھتاہے۔عذاب کے فیصلوں اوراللہ کی جانب سے نصرت کے مظاہروں کودیکھنے کیلئے کسی تاریخ کی کتاب کھولنے یاعادوثمودکی بستیوں کامطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں،یہ ابھی کل کی باتیں ہیں۔میرے اللہ کافرمان ہے کہ جب ہم کسی قوم پرکوئی آفت نازل کرتے ہیں تووہ اس کی مادی توجیہات کرنے لگ جاتاہے۔کوئی سوچ سکتاتھاکہ دنیا کی دوایٹمی سپر طاقتیں جن کے پاس اس ساری دنیاکوکئی مرتبہ تباہ کرنے کاسامان موجودہو،جن کی تسخیرخلاؤں تک ہو،ایک سپرطاقت سوویت یونین جوپچاس سے زیادہ کیمونسٹ تحریکوں کی برملامددکرتاتھا،اوردوسری سپرطاقت امریکاجودرجنوں ممالک کوتاراج کرکے اپنی قابض افواج کے ذریعے آج بھی ان کی قسمت کے فیصلے کرتاہے،ان دونوں طاقتوں کوبے خانماں،بے سروساماں افغان مجاہدوں نے صرف اپنے رب کے بتائے ہوئے حکم جہاد کے ذریعے ان کی یہ حالت کر دی کہ روس کی ائیرہوسٹس صرف ایک ڈبل روٹی کیلئے اپنی عزت بیچنے پرمجبورہوگئی اوروہاں کے لوگ صرف روٹی کیلئے دوکانوں پراس طرح ٹوٹ پڑے کہ معاملہ مقامی پولیس کے قابومیں نہ رہااوربپھراہجوم ایک دوسرے پرحملہ آورہوگیااورسینکڑوں شدید زخمی ہوگئے ۔نفرت اس حدتک پہنچ گئی کہ کل تک جس لینن کے مجسمے کو چومنااپنے لئے اعزازسمجھتے تھے،اسی مجسمے کوسرعام جوتے مارے گئے اوراس پرتھوکاگیا۔

دوسری سپرطاقت گیارہ سال تک اپنے تمام جدیدجنگی سازوسامان اوردرجن سے زائداتحادی افواج کی مددکے باوجوداپنی افواج کی واپسی کی سلامتی کیلئے منت سماجت کرتی ہوئی اوربالآخر جاتے ہوئے 42بلین ڈالرکے اسلحے کاسکریپ اور13بلین ڈالر کا سازوسامان چھوڑکرذلت آمیزرسوائی کے ساتھ راہِ فراراختیارکرناپڑا۔یہ انہی فاقہ کشوں اورموجودہ جدیدتہذیب سے کوسوں دور افرادکاملک ہے جہاں دنیاکی تین سپرطاقتوں کاقبرستان آج بھی دیدہ عبرت نگاہ ہے،بس ذراایمانداری سے پیچھے مڑکردیکھنے کی ضرورت ہے۔

کسی ایک محاذ پرشکست کے بعدقومیں اپنے آپ کومزیدطا قتورکرنے کیلئے،متحدہوجایاکرتیں ہیں لیکن جومسلمان قوم جہادسے منہ موڑلے توقدرت اس قوم کیلئے زوال ورسوائی کافیصلہ صادرکر دیتی ہے۔ان کونفرت،تعصب،بھوک،افلاس اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہونے کامزاچکھادیاجاتا ہے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکا1901ءسے چین،فلپائن،کوریا ، ویت نام،جنوبی امریکااوردنیاکے دیگر38ممالک سے ذلیل ورسواہوکر نکلا ہے۔دورنہ جائیں،ابھی کل کی بات ہے،امریکاکی بھرپورطاقت اورقوت کامظہراسرائیل،جس کادفاعی نظام اس قدر مضبوط تھاکہ امریکی پینٹاگون بارہا ایسی خواہش کااظہارکرتاتھا کہ اس کادفاعی انتظام بھی اسرائیل جیساہولیکن اس طاقت کوایک فوجی لحاظ سے غیرمنظم صرف ساڑھے تین ہزارافرادپر مشتمل تنظیم حزب اللہ نے اپنے رب پربھروسہ کرتے ہوئے جہادکے ذریعے امریکاکے لے پالک اسرائیل کوایسی ذلت آمیز شکست دی کہ اس کے فوری تین شہرخالی ہوگئے،اس کے چارلاکھ شہری دربدرہوگئے،کیاحزب اللہ کوکسی عالمی طاقت کی مدد حاصل تھی؟اب ایک مرتبہ پھرگزشتہ چھ ماہ سے نہتے محصورغزہ کے ایک ایک انچ پرگولہ باری کرکے تباہ وبربادکرکے رکھ دیا،لیکن اس کے باوجوداپنے مغویوں کی رہائی کیلئے اپنی بے بسی کااظہارکرتے ہوئے اپنے آقاؤں سے مددکی دہائی دے رہاہے۔

ان کونفرت،تعصب،بھوک،افلاس اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہونے کامزاچکھادیاجاتاہے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکا1901ءسے چین،فلپائن،کوریا ،ویت نام، جنوبی امریکااوردنیاکے دیگر38ممالک سے ذلیل ورسواہوکرنکلاہے۔دورنہ جائیں،ابھی کل کی بات ہے،امریکاکی بھرپورطاقت اورقوت کامظہراسرائیل،جس کادفاعی نظام اس قدرمضبوط تھاکہ امریکی پینٹاگون بارہاایسی خواہش کااظہارکرتاتھا کہ اس کادفاعی انتظام بھی اسرائیل جیساہولیکن اس طاقت کوایک فوجی لحاظ سے غیرمنظم صرف ساڑھے تین ہزارافرادپر مشتمل تنظیم حزب اللہ نے اپنے رب پربھروسہ کرتے ہوئے جہادکے ذریعے امریکاکے لے پالک اسرائیل کوایسی ذلت آمیز شکست دی کہ اس کے فوری تین شہرخالی ہوگئے،اس کے چارلاکھ شہری دربدرہوگئے،کیاحزب اللہ کوکسی عالمی طاقت کی مدد حاصل تھی؟اب ایک مرتبہ پھرگزشتہ چھ ماہ سے نہتے محصورغزہ کے ایک ایک انچ پرگولہ باری کرکے تبہاوبربادکرکے رکھ دیا،لیکن اس کے باوجوداپنے مغویوں کی رہائی کیلئے اپنی بے بسی کااظہارکرتے ہوئے اپنے آقاؤں سے مددکی دہائی دے رہاہے۔

لیکن وہ طاقت کے پجاری جن کادل ہی نہیں مانتاکہ اس کائنا ت پرایک اورحکمران طاقت ہے جس کایہ وعدہ ہے کہ اگرتم مجھ پریقین کروتوتم قلیل بھی ہوگے توزیادہ طاقت پرغالب آؤ گے۔یہ لوگ پھربھی توجیہات کرتے ہیں لیکن آخرمیں انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔قدرت نے ہرانسان کے سینے میں ایک چھوٹاساایٹم بم”دل”کی شکل میں نصب کررکھاہے۔یہ چھوٹاسالوتھڑاپہاڑوں سے ٹکراجانے کی ہمت رکھتاہے اگراس میں صرف ایک رب کاخوف موجودہو،ساراباطل اس سے لرزاں اورخوفزدہ رہتاہے،لیکن اگر اس میں دنیاکاخوف بٹھالیں توہردن رسوائی کی موت آپ کی منتظررہتی ہے۔ ہم نے جب سے جہادسے منہ موڑاہے،دنیاکی تمام رسوائیاں ہمارامقدرٹھہری ہیں۔ہم ایک جوہری قوت ہوتے ہوئے بھی لوگوں سے اپنے امن کی بھیک مانگ رہے ہیں اوردوسری طرف طالبان نے جہاد کاسہارالیکراپنے وجودکومنوایاہے۔

امریکااورمغربی ممالک جوجدیدٹیکنا لوجی رکھنے کادعویٰ کرتے ہیں،جہاں ہزاروں افراداپنی اس ٹیکنالوجی کی بدولت دہشت گردوں کی بوسونگھتے رہتے ہیں جہاں کوئی شہری اپنے پڑوسی میں کسی لمبی داڑھی والے کودیکھ لیں توفوراًپولیس کوآگاہ کر تے ہیں،باہرسے آنے والوں کوگھنٹوں ائیرپورٹ پر سیکورٹی کے نام پرذلیل کیاجاتاہے،کیاوہاں یہ سب ختم ہوگیایاان کے شہران خطروں سے محفوظ ہوگئے ہیں یاان کاخوف کم ہوگیا؟؟؟ہرگزنہیں،ہم توایک آتش فشاں کے دہانے پربیٹھے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں سیاسی افراتفری اوربدامنی قابومیں نہیں آ رہی۔

اپنے گھرکوٹھیک کرنے کیلئے فوری ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ قوم کے اندرنظریاتی تقسیم کوختم کرنے کیلئے چندملکی دانشورآگے بڑھ کرآپس کے اختلافات کوختم کرانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کریں۔آج ہرکوئی سوشل میڈیاکے خطرناک ہتھیاروں سے لیس ایک دوسرے پرجوحملے کررہے ہیں،اس کوفوری روکنے کی ضرورت ہے۔مذاکرات ہمیشہ انتہائی خفیہ اورسنجیدگی سے کئے جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ہرکوئی میڈیاپربیٹھانظرآتاہے۔کیادنیاکے کسی خطے میں ایساہواہے؟ویت نام،لاؤس،سری لنکا،چلی،نکاراگوا،کمبوڈیا،کہاں کسی نے میڈیاپرایسی دوکانداری چمکائی ہے؟دشمن تویہی چاہتاہے کہ مزید افراتفری بڑھے،عوام کاخون اوربہے اورگھرانے ماتم کدہ بن جائیں اورلوگ اس آگ میں جھلس جائیں اورپھرمجبورہوکرسرجھکاکران کی ہربات، ہر مطالبہ مان لیں۔،جوہری اثاثوں اورکشمیرسے دستبرداری اوربھارت کی غلامی اختیارکرلیں لیکن وقت نے یہ ثابت کیاہے کہ ایسا نہ کبھی پہلے ہواتھا اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔

اس میں شک نہیں کہ ماضی میں ایک فوجی ڈکٹیٹرنے ہماری بہترین افواج کوان دشمنوں کاآلہ کاربنانے کی پوری کوشش کی لیکن”جہاد”جیسے جذبے سے معمور فوج آج بھی اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یومِ شہداپر جنرل عاصم منیر کے صرف ایک بیان پرساری قوم میں اطمینان کی لہر دوڑگئی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری افواج کومکمل طورپر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کیلئے استعمال کیاجائے۔مجھے قوی امیدہے کہ”جہاد”کے جذبے سے سرشارافواج اپنے ملک کے جوہری اثاثوں اورمسئلہ کشمیرپرکبھی قوم کومایوس نہیں کرے گی،اسی لئے جنرل عاصم منیرنے ببانگ دہل کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ قراردیکرکشمیریوں سے مکمل یکجہتی کااعلان کیاہے۔پچھلے77برسوں سے بھارت اورعالمی طاقتوں نے مسئلہ کشمیر سے جس طرح بے اعتنائی اختیارکی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔اقوام متحدہ جوان عالمی طاقتوں کی کنیزاورلونڈی کاکردارادا کررہی ہے اس کے چارٹر میں بھی مظلوم اقوام کی اپنی آزادی کیلئے مسلح جدوجہدکی حمائت کی گئی ہے اورکشمیرکامسئلہ تو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پرسب سے پراناایسامسئلہ ہے جوابھی تک عالمی ضمیرکو ان کی بے حسی کی یاددلانے کیلئے کافی ہے۔

اہل نظر پچھلے کئی ماہ سے خبردارکرتے چلے آرہے ہیں۔رب کریم کے سامنے اپنی عاجزی وبے بسی کے ساتھ جہادسے منہ موڑنے پراستغفارکی ضرورت ہے۔جن کے دلوں میں امریکاکا خوف اورہاتھوں میں کشکول ہے،ان کے تکبرٹوٹنے کاوقت آپہنچا ہے۔کیا ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کاوقت آن پہنچاہے؟ سنا ہے جب جہازڈوبنے کاوقت ہوتاہے توچوہے سب سے پہلے جہازچھوڑتے ہیں لیکن اب توشایدان چوہوں کامقدربھی ہمیشہ کیلئے غرق ہوناٹھہرگیا ہے ۔کیاخوابوں کی تعبیرکاوقت آن پہنچاہے؟
جب تک نہ جلے دیپ شہیدوں کے لہوسے
سنتے ہیں کہ جنت میں چراغاں نہیں ہوتا

اپنا تبصرہ بھیجیں