A Column From Alam A Barzakh

اسلام کاآفاقی پیغام اورسائنس

:Share

ڈاکٹر ایلیس جوکہ ایک سائنسدان محقق مصنف اورامریکاکانامورآرکیالوجسٹ ہے،اس نے اپنی کتاب میں تہلکہ خیزدعویٰ کیاہے کہ انسان اس سیارے زمین کااصل رہائشی نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے پرتخلیق کیاگیااورکسی وجہ سے اس کے اصل سیارے سے اس کو موجودہ رہائشی سیارے زمین پرپھینک دیاگیا ۔یہ زمین سیارہ انسان کا نہیں ہے،انسان اس زمین کا ایلین ہے۔ڈاکٹر ایلس سلورنے اپنی اس کتاب میں”انسان زمین سے نہیں ہیں”اپنے شواہد کی سائنسی تشخیص کی17 وجوہات پیش کی ہیں کہ کیوں انسان اس سیارے پر رہنے کیلئے موزوں نہیں۔ہم کسی دوسرے سیارے سے پیداہوئے ہیں۔اگرچہ زمین ایک نوع کے طورپرہماری کچھ ضروریات کوپوراکرتی ہے لیکن یہ ہمارے لیے اتنی موزوں نہیں ہے ۔ وہ زمین پررہنے کیلئے ہماری غیرموزوں ہونے کی کچھ مثالیں دیکراپنے قاری کوسمجھانے کی کوشش کررہی ہیں کہ انسان سورج کی روزمرہ حاصل کردہ روشنی کی بڑی مقدارکے ساتھ اچھانہیں کرتے۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ دنیامیں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعدادموجودہے جن کی کمرمیں دائمی دردہے، جس کی وجہ اس بات کاثبوت ہےکہ ہم کم کشش ثقل والے سیارے سے پیدا ہوئے ہیں اورہم 24گھنٹے کی بجائے25گھنٹے کے دن کے ساتھ موجودرہنے کیلئے بہترپروگرام کررہے ہیں اورشائدہم الفاسینٹوری سے آئے ہیں(الفاسینٹوری سورج سے4.37نوری سال(1.34 پارسکس)پرنظام شمسی کے قریب ترین ستاروں اورسیاروں کاکشش ثقل سے جڑاہوانظام ہے)۔ہوسکتاہے کہ کرہ ارض کوکسی قسم کے تباہ کن واقعہ کاسامنا کرناپڑاہوجس سے چندباشندے بچ کر زمین پرآنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

اس کےالفاظ پر غور کرتے ہوئے یہ ذہن میں رہے کہ یہ الفاظ ایک سائنسدان کے ہیں جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا۔اس کا کہناہے کہ انسان جس ماحول میں پہلی بارتخلیق کیا گیااور جہاں یہ رہتا رہاہ ے،وہ سیارہ،وہ جگہ اس قدرآرام دہ پرسکون اورمناسب ماحول والی تھی جسے وی وی آئی پی کہاجا سکتاہے۔وہاں پرانسان بہت ہی نرم ونازک ماحول میں رہتاتھا،اس کی نازک مزاجی اورآرام پرست طبیعت سے معلوم ہوتاہے کہ اسے اپنی روٹی روزی کیلئےکچھ بھی ترددنہیں کرناپڑتا تھا ، یہ کوئی بہت ہی لاڈلی مخلوق تھی جسے اتنی لگژری لائف میسرتھی۔وہ ماحول ایساتھاجہاں سردی اورگرمی کی بجائے بہارجیساموسم رہتاتھااوروہاں پرسورج جیسے خطرناک ستارے کی تیزدھوپ اورالٹراوائلیٹ شعاعیں بالکل نہیں تھیں جواس کی برداشت سے باہراورتکلیف دہ ہوتی ہیں۔

تب اس مخلوق انسان سے کوئی غلطی ہوئی،اس کوکسی غلطی کی وجہ سے اس آرام دہ اورعیاشی کے ماحول سے نکال کرزمین سیارے پرپھینک دیاگیاتھا۔جس نے انسان کواس سیارے سے نکالاتھا۔لگتاہے وہ کوئی انتہائی طاقتورہستی تھی جس کے کنٹرول میں سیاروں ستاروں کانظام بھی تھا۔وہ جسے چاہتا،جس سیارے پرچاہتا، سزایاجزاکے طورپرکسی کوبجھواسکتاتھا۔وہ مخلوقات کوپیداکرنے پربھی قادرتھا۔ممکن ہے زمین کسی ایسی جگہ کی مانند تھی جسے جیل قراردیاجاسکتاہے۔یہاں پر صرف مجرموں کوسزاکے طورپر بھیجاجاتاہوکیونکہ زمین کی شکل کالاپانی جیل کی طرح ہے۔خشکی کے ایک ایسے ٹکڑے کی شکل جس کے چاروں طرف سمندر ہی سمندر ہے،وہاں انسان کوبھیج دیاگیا۔

ڈاکٹرسلورایک سائنٹسٹ ہے جوصرف مشاہدات کے نتائج حاصل کرنے بعدرائے قائم کرتاہے۔اس کی کتاب میں سائنسی دلائل کاایک انبارہے جن سے انکارممکن نہیں۔اس کے دلائل کی بڑی بنیادجن پوائنٹس پرہے ان میں سے چند ایک ثابت شدہ ہیں۔
1-زمین کی کش ثقل اورجہاں سے انسان آیاہے،اس جگہ کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے۔جس سیارے سے انسان آیاہے وہاں کی کشش ثقل زمین سے بہت کم تھی،جس کی وجہ سے انسان کیلئےچلناپھرنابوجھ اٹھاناوغیرہ بہت آسان تھا۔انسانوں کے اندرکمردرد کی شکایت زیادہ گریوٹی کی وجہ سے ہے۔
2-انسان میں جتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں وہ باقی کسی ایک بھی مخلوق میں نہیں جوزمین پربس رہی ہے۔آپ اس روئے زمین پرایک بھی ایساانسان دکھادیجئیے جسے کوئی ایک بھی بیماری نہ ہوتومیں اپنے دعوے سے دستبردارہوسکتاہوں جبکہ میں آپ کوہر جانور کے بارے میں بتاسکتاہوں کہ وہ وقتی اورعارضی بیماریوں کوچھوڑکرکسی ایک بھی مرض میں ایک بھی جانورگرفتارنہیں ہے۔
3-ایک بھی انسان زیادہ دیرتک دھوپ میں بیٹھنابرداشت نہیں کرسکتابلکہ کچھ ہی دیربعداس کوچکرآنے لگتے ہیں اورسن سٹروک کا شکارہوسکتاہے جبکہ جانوروں میں ایساکوئی ایشونہیں ہے۔مہینوں دھوپ میں رہنے کے باوجودجانورنہ توکسی جلدی بیماری کاشکار ہوتے ہیں اورنہ ہی کسی اورطرح کے مرض میں مبتلاہوتے ہیں جس کاتعلق سورج کی تیزشعاعوں یادھوپ سے ہو۔
4-ہرانسان یہی محسوس کرتاہے اورہروقت اسے احساس رہتاہے کہ اس کاگھراس سیارے پرنہیں۔کبھی کبھی اس پربلاوجہ ایسی اداسی طاری ہوجاتی ہے جیسی کسی پردیس میں رہنے والے پرہوتی ہے چاہے وہ بیشک اپنے گھرمیں اپنے قریبی خونی رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نابیٹھاہو۔
5-زمین پررہنے والی تمام مخلوقات کاٹمپریچرآٹومیٹک طریقے سے ہرسیکنڈبعدریگولیٹ ہوتارہتاہے یعنی اگرسخت اورتیز دھوپ ہے توان کے جسم کادرجہ حرارت خودکارطریقے سے ریگولیٹ ہوجائے گاجبکہ اسی وقت اگربادل آجاتے ہیں توان کے جسم کاٹمپریچر سائے کے مطابق ہوجائے گاجبکہ انسان کاایساکوئی سسٹم نہیں بلکہ انسان بدلتے موسم اورماحول کے ساتھ بیمارہونے لگ جائے گا۔ موسمی بخارکارواج صرف انسانوں میں ہے۔
6۔انسان اس سیارے پرپائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے۔اس کاڈی این اے اورجینزکی تعداداس سیارہ زمین پر موجوددوسرے جانداروں سے بہت مختلف اوربہت زیادہ ہے۔

انسان کوجس اصل سیارے پرتخلیق کیاگیاتھا،وہاں زمین جیساگنداماحول نہیں تھا،اس کی نرم ونازک جلدجوزمین کے سورج کی دھوپ میں جھلس کرسیاہ ہو جاتی ہے، اس کے پیدائشی سیارے کے مطابق بالکل مناسب بنائی گئی تھی۔یہ اتنانازک مزاج تھاکہ زمین پرآنے کے بعدبھی اپنی نازک مزاجی کے مطابق ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں رہتاہے۔جس طرح اسے اپنے سیارے پرآرام دہ اور پُرتعیش بسترپرسونے کی عادت تھی،وہ زمین پرآنے کے بعدبھی اسی کیلئےاب بھی کوشش کرتاہے کہ زیادہ سے زیادہ آرام دہ زندگی گزارسکوں۔جیسے خوبصورت قیمتی اورمضبوط محلات مکانات اسے وہاں اس کے ماں باپ کو میسر تھے وہ اب بھی انہی جیسے بنانے کی کوشش کرتاہے جبکہ باقی سب جانوراورمخلوقات اس سے بے نیازہیں۔یہاں زمین کی مخلوقات عقل سے عاری اور تھرڈ کلاس زندگی کی عادی ہیں جن کونہ اچھاسوچنے کی توفیق ہے نہ اچھااورنہ ہی امن سکون سے رہنے کی۔انسان ان مخلوقات کو دیکھ دیکھ کرخونخوارہوگیاہے جبکہ اس کی اصلیت محبت فنون لطیفہ اورامن وسکون کی زندگی تھی۔یہ ایک ایساقیدی ہے جسے سزاکے طورپرتھرڈکلاس سیارے پربھیج دیاگیاتاکہ اپنی سزاکا دورانیہ گزارکرواپس آجائے۔

ڈاکٹرایلیس کاکہناہے کہ انسان کی عقل وشعوراورترقی سے اندازہ ہوتاہے کہ اس ایلین کے والدین کواپنے سیارے سے زمین پرآئے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا،ابھی کچھ ہزارسال ہی گزرے ہیں۔یہ ابھی اپنی زندگی کواپنے پرانے سیارے کی طرح لگژری بنانے کیلئےبھرپورکوشش کررہاہے،کبھی گاڑیاں ایجادکرتاہے،کبھی موبائل فون، اگراسے آئے ہوئے چندلاکھ بھی گزرے ہوتے تویہ جوآج ایجادات نظرآرہی ہیں،یہ ہزاروں سال پہلے وجودمیں آ چکی ہوتیں،کیونکہ میں اورتم اتنے گئے گزرے نہیں کہ لاکھوں سال تک جانوروں کی طرح بیچارگی اورترس کی زندگی گزارتے رہتے۔ڈاکٹرایلیس سِلورکی کتاب میں اس حوالے سے بہت کچھ ہے اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے دلائل کوابھی تک کوئی جھوٹا نہیں ثابت کر سکا۔

تاہم،اس کتاب میں تیرہ اہم مفروضے اور سترہ عوامل شامل ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہم زمین سے نہیں ہیں۔ہم یہاں کیسے پہنچے؟ ہم یہاں کب پہنچے؟ ہمارا گھریلو سیارہ کیساہے؟سب سے زیادہ امکان والے ستارے جن کے گردہماراآبائی سیارہ گردش کرتاہے۔اگرغیرملکی وہاں موجودہیں توہم ان کا پتہ کیوں نہیں لگاسکتے ؟ کیاہم اجنبی ہیں؟اس دلچسپ کتاب میں ڈاکٹرایلس سلورسائنسی برادری اور دیگر جگہوں پرموجودہ شواہداور سوچ کی بنیادپران تمام سوالات کے جوابات فراہم کرتی ہے اوراپنے جوابات کیلئےان ویب سائٹس کے لنکس بھی فراہم کیے گئے ہیں جوشواہدپربحث کرتے ہیں اورمسائل پرمزیدتفصیل سے بحث کرتے ہیں۔ اس مختصر کتاب کامقصد بیداری پیداکرنااوربحث کی حوصلہ افزائی کرنااورقارئین سے مزیدشواہد جمع کرناہے۔

میں اس کے سائنسی دلائل اورمفروضوں پرغورکررہاتھا۔یہ کہانی ایک سائنسدان بیان کررہاہے،یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی داستان ہے جسے انسانوں کی ہر الہامی کتاب میں بالکل اسی طرح بیان کیاگیاہے۔میں تفصیل نہیں لکھوں گاکیونکہ آپ سبھی اپنے باپ آدم ؑاور حوا ؑ کے قصے کواچھی طرح جانتے ہیں۔سائنس اللہ کی طرف چل پڑی ہے۔سائنسدان وہ سب کہنے پرمجبورہوگئے ہیں جوانبیاءکرام اپنی نسلوں کوبتاتے رہے تھے۔میں نے نسل انسانی پرلکھناشروع کیاتھا۔ اب اس تحریرکے بعدمیں اس سلسلے کوبہتراندازمیں آگے بڑھاسکوں گا۔

ارتقاءکے نظریات کاجنازہ اٹھ چکاہے۔اب انسانوں کی سوچ کی سمت درست ہورہی ہے۔یہ سیارہ ہمارانہیں ہے۔یہ میں نہیں کہتابلکہ پیارے آقاﷺنے بے شمارمرتبہ بتادیاتھا۔اللہ نے اپنی عظیم کتاب قران حکیم میں بہی باربارلاتعدادمرتبہ یہی بتادیاکہ اے انسانوں،یہ دنیا کی زندگی تمہاری آزمائش کی جگہ ہے، یہ تمہارامستقل ٹھکانہ نہیں ہے،جہاں سے تم کوتمہارے اعمال کے مطابق سزاوجزاملے گی ۔ اچھے اعمال پرتم کووہ جنت ملے گی جہاں کی زندگی انتہائی خوبصورت پرسکون اورعیش وعشرت سے بھرپورہوگی ۔نبی کریمﷺسے کسی نے پوچھا:جنت کہاں ہے توآپﷺنے جواب دیاآسمانوں میں۔اس نے پوچھاجہنم کہاں ہے،آپﷺنے جواب دیااسی زمین پر۔

آج کل ساری دنیاکے طالب علموں کویہ سکھایاجاتاہےکہ ہزاروں سال پہلے ایک بڑے دھماکے نے اس کائنات میں موجودہرہرچیزکو پیداکیابشمول آپ کواور مجھے بھی۔مکمل قدرتی عوامل کے ذریعہ سے،جس کے نتیجہ میں بہت سےلوگ یقین رکھتے ہیں کہ سب چیزیں اپنے آپ تخلیق ہوئیں،دنیاکاارتقائی نظریہ اور اِسی طرح کی سوچ رکھنے سے خالقِ خداکی کوئی جگہ نہیں رہتی جس نے حقیقت میں سب چیزیں پیدا کی ہیں،جوہم سمیت ہرچیزکامالک ہے۔خداکاتصورمحض ہمارے دماغ کے ساتھ چال چل رہاہے،اسی طرح کانظریہ نام نہاددانشوروں میں پایاجاتاہے۔

اگرہرچیزاپنے آپ ہی وجودمیں آتی(ارتقا)،اورخدا،بھی موجودہوتا،تواخلاقیات کاکوئی میعاراورمقصدنہ ہوتا۔ہراِنسان اپنی مرضی کر سکتاہے۔لوگوں میں یہ بےمعنی سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ ہم صرف جانورہیں توکیوں نہ جانوروں کی سی حرکتیں کریں جیسا کہ “دوستو وسکائے”نے کہا:خداکے علاوہ ہرچیزجائز ہے،جرم ناگزیرہے ۔اگرچہ یہ ماننامنطقی طورپرفضول ہے کہ ہرچیزاپنے آپ وجود میں آئی۔یہ سب ہمارے تجربات کے برعکس ہے اوروجہ اوراثرکے اصول کوکمزورکرتاہے۔آج کل بہت سے سائنسدان تسلیم کرتے ہیں کہ ارتقاءناممکن ہے۔امریکامیں تقریباً10ہزارسائنسدان ایسے ہیں جوارتقاءکومکمل طوررد کرتےاوربائبل پریقین رکھتے ہیں کہ ہم اِس دُنیا میں کیسے آئے جبکہ قرآن نے اس زمانے میں کہیں زیادہ تفصیلات سے دنیاکوآگاہ کیاجس کی تصدیق 14 صدیاں گزرنے کے بعد سائنس کررہی ہے، اس کے جواب میں سائنسدان اس بات کااعتراف کرتے ہیں کہ سائنس ماضی کوجاننے میں کمزورتھی لیکن اب وسائل اورجدیدتحقیق میں فرانزک کی ایجادنے انہیں یہ تسلیم کرنے پرمجبورکردیاہے اوروہ بے دین اورگمراہ ارتقاء کےسائنسی اعتقادات کویکسرمسترد کر دیاہے۔

اِسی لئے جب بات ماضی پہ آتی ہے توہم زیادہ تراپنے عقائد پرانحصارکرتے ہیں کہ کیاہواتھا۔ہم اپنے عقیدے کے نظام کودیکھتے ہیں یااِسے خداسے حاصل کر سکتے ہیں جوسب جانتاہےاورجوابتداسے موجودتھااوراس کوواقعی فنانہیں۔سائنس برملااس اعتراف کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے کہ حال ماضی کاتالا ہے،بے دین فلسفے سے آیاہے جوبائبل کے بیان کردہ ماضی کوبھی ردکرتاہے۔یہ بات سائنس دانوں کیلئےپریشانی کاباعث ہے کہ اُن کے پاس آزمائش اورپیمائش کیلئے صرف حال ہی موجودہے۔موجودہ دورکے مشاہدات کو ماضی سے منسلک کیاگیا۔کشش ثقل پرموجودہ دورمیں بھی تحقیق کی جاسکتی ہے لیکن ہزاروں سال پہلے زمیں پرکیاہواہوگا،اس کے تجرباتی ثبوت موجود نہیں تھے جس کی بنیادپرارتقاءکے بارے میں غیرمبہم اختراع تراش کرکے دنیاکے نظام میں انسان کی من مانی ،تکبر اورطاقت کے زورپردنیاکوکئی مرتبہ تباہ وبربادکردیاگیا لیکن آج اسی سائنس نے انسان کے خیال کے خلاف بہت سے سائنسی ثبوت مہیاکردیئے ہیں۔

بائیوکمسٹری کاجدیدعلِم(جینز،ڈی-این-اے،پروٹین وغیرہ)بتاتاہے کہ سادہ بیکٹیریاانسان کی تخلیق ایک پیچیدہ ترین مشنزسے بھی زیادہ پیچیدہ ہے اوروہ اپنی نسل اپنے آپ بڑھاسکتے ہیں،بیس منٹ سے پہلے اس قسم کی بیکٹیریل،مشن کے ڈی این اے میں دوکتابوں کے برابرمعلومات موجودہیں۔کتابیں اپنے آپ نہیں لکھیں جاتی اورنہ ہی بیکٹیریااپنے آپ وجودمیں آسکتاہے۔اگرایک کتاب کوسمجھ دار خالق کی ضرورت ہے توایک بیکٹیریاکواس سے بھی بڑھ کرہے،ایک زندگی کی شروعات بغیرخالق کے ہونا،اس قسم کی معلومات اورپیچیدہ قِسم کی زِندگی کی ترقی ایک ناقابلِ تسخیرمنزل ہے۔ایک انسانی سیل کے ڈی-این-اے میں پائی جانے والی معلومات تقریباً ایک ہزارکتابوں میں پائی جانے والی معلومات کے برابرہیں۔اب آپ بیکٹیریامیں مزید کتابوں کی معلومات کوکیسے شامل کر سکتے ہیں ،تاکہ وہ انسان بن جائیں جس طرح ارتقاءپسندوں کادعویٰ ہے کہ یہ ہزاروں سال پہلے ہوا؟

ہم باقی جانداروں سے کافی حدتک ملتے جلتے ہیں،خاص طورپر،بن مانس کے،اسی لِئے ہم بن مانس کے ساتھ تھوڑی بہت مشابہت رکھتے ہیں؛شاید ہمارے آباؤ اجداد بھی ایک ہی رہے ہوں گے۔انسانوں اوربندروں کے ڈی این ایزکی100 فیصد مماثلت پربڑازوردیا جاتارہا۔ابتدائی تعلیم میں جب بنیادی ٹیکنیک اور جنیٹک کوڈکی معلومات محدودتھی،جس کے ذریعے٪97 سے٪99 مماثلت کادعویٰ کیا گیا،تاہم جب بن مانس کے ڈی-این-اے کوکھولاگیا،تومماثلت کے سارے دعوے اوروہ سارے ناپائیدارشواہدان تمام دانشوروں کے نام پرایک سیاہ دھبہ چھوڑگئے ہیں۔جدیدسائنسی تحقیق کاتقاضہ ہے کہ قرآن میں بتائے آفاقی قوانین اوراصول ضوابط کومن وعن تسلیم کرکے دنیاکوامن سکون اورخوشحالی کیاگہوارہ بنایاجائے کہ اس کے سواکوئی چارکارنہیں۔
رہے میرے رب کانام جوعلیم وخبیرہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں