امریکا:ناقابل اعتباراتحادی

:Share

فروری1946ء میں جب سردجنگ کاآغازہورہاتھا،ماسکومیں واقع امریکی سفارت خانے میں تعینات جارج کینن نے پانچ ہزارالفاظ پرمشتمل ایک “کیبل”اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ بھیجی۔اس خفیہ پیغام میں جارج نے سوویت یونین کے مزاج کوسمجھانے اوراس پرجوابی حکمت عملی ترتیب دینے کی کوشش کی۔ایک برس بعدیہ طویل پیغام’’فارن افیئرز‘‘میگزین میں تجزیے اورتفصیل کے ساتھ کالم کی صورت میں شائع ہوا۔ اس کالم میں کینن کا کہناتھا کہ سوویت یونین کے”مارکسٹ لینن”نظریات دراصل حقیقت تھے اوروہ ان نظریات سے ہی عالمی منظرنامے کودیکھتے تھے،اوران کے اندر پائے جانے والے عدم تحفظ نے انہیں توسیع پسندانہ عزائم رکھنے پرمجبورکیالیکن اس کاہرگز یہ مطلب نہیں کہ سوویت یونین لازمی طورپر تصادم کاراستہ اختیارکرے گا۔ انہوں نے ایک اہم نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ روس نے ایک عالمی طاقت کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے سے کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی ۔اس سب کے بعدامریکاکواپنی طویل مدتی سلامتی کویقینی بنانے کیلئےسوویت یونین کی طرف سے لاحق خطرات کامقابلہ کرناتھا۔اگرامریکاایسا کرتاتو سوویت یونین کی طاقت خودبخودکم ہونے لگتی۔اس وقت روس کاگھیراؤنہ صرف ضروری تھابلکہ کافی بھی تھا۔

کینن کاوہ پیغام ان لوگوں کیلئےاہم متن بن گیا،جوامریکااورروس کے مابین تنا زع کوسمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔سردجنگ کے خاتمے تک امریکانے روس کے گھیراؤکی حکمت عملی اختیارکیے رکھی،باوجوداس کے کہ اس حکمت عملی کوکئی بارتنقیدکا نشانہ اورمتنازع بھی بنایاگیا جیسا کہ کینن نے پیشگوئی کی تھی۔سردجنگ کے خاتمے کی وجہ صرف امریکااوراس کے اتحادیوں کی طاقت اورتسلسل کے ساتھ کھڑے رہنے کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ سوویت یونین کی تباہی کی ذمہ دارخود اس کے نظام کی کمزوریاں اورتضادات ہیں۔

اب70برس بعدامریکااوراس کے اتحادیوں کوایک مرتبہ پھرایک کمیونسٹ حریف کاسامناہے،جوامریکاکواپنے دشمن کے طورپر دیکھتااورعلاقائی تسلط اورعالمی اثرورسوخ کاخواہاں ہے۔واشنگٹن اوربیجنگ میں موجودبہت سے ماہرین کیلئےامریکاچین سرد جنگ کے تجزیے کیلئےروس امریکا سردجنگ کونظر اندازکرناتقریباًناممکن ہوگیاہے۔امریکی اہم اداروں نے امریکی پالیسی سازوں کومشورہ دیاکہ’’گھیراؤکی پالیسی‘‘کواپ ڈیٹ کرکے اس پرعمل کریں۔ اس سال اپریل میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرپالیسی اور پلاننگ”کرن سکنّر”نے کینن طرزکی حکمت عملی کی ضرورت پرزوردیالیکن اس مرتبہ حریف’’چین‘‘تھا۔

آج کے چین کے بارے میں دومرکزی حقائق ہیں۔پہلایہ کہ حالیہ دورمیں جس تیزی سے چین نے معاشی ترقی کی ہے اس کی مثال دنیانے نہیں دیکھی ۔ دوسری حقیقت چین کانظامِ حکومت ہے جہاں ایک غیرمنتخب کمیونسٹ پارٹی طویل عرصے سے حکومت کر رہی ہے،جس نے آزادی اظہار رائے کے حقوق کوسلب کررکھاہے اورلوگوں کوسخت قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں۔ ژی جن پنگ کادورتواس بات کی گواہی دیتاہے کہ تھوڑی بہت آزادی جولوگوں نے”ڈینگ ژاؤپنگ”کے اصلاحاتی دورمیں اپنے لئے حاصل کی تھیں وہ بھی سلب کرلی ہیں اوریہ خبریں بھی منظرعام پرآرہی ہیں کہ حکومت نجی کمپنیوں کے معاملات میں بھی بے جامداخلت کرکے ان پراپناکنٹرول بڑھارہی ہے۔

ان پالیسیوں کی بڑی وجہ اس بات پراصرارہے کہ چینی ترقی کاماڈل مغرب کے ماڈل سے کئی گنابہترہے۔2017ءمیں ژی جن پنگ نے ایک تقریرکے
دوران کہاکہ’’بیجنگ ترقی پذیرممالک کے جدیددورسے ہم آہنگ ہونے کیلئےایک نئی مثال قائم کررہاہے‘‘اور وہ ممالک جو اپنی آزادی اورتحفظ کے ساتھ ساتھ ترقی کی راہ پرچلناچاہتے ہیں ان کیلئےنئی راہیں کھول رہاہے‘‘۔کمیونسٹ پارٹی کاکہناہے کہ مغرب جس جمہوریت کاراگ الاپتا ہے،اس کاواحد مقصد غریب ممالک کی خودمختاری اوران کی معیشت کاسوداکرنا ہے ۔ چین نے جس طرح معاشی نموکے حصول کیلئےکیمونزم کاسہارالیاہے،اسی طرح دیگر ممالک کوبھی کرناچاہیے۔اگرچہ اس طرح کے اعتقادات نے بیرونی دنیاکے ممالک کوتوزیادہ متاثرنہیں کیا،تاہم ملک کے عوام کااپنے راہنما’’ژی‘‘ اور پارٹی قیادت کی پالیسی پراعتمادمیں اضافہ ہواہے اوروہ سمجھتے ہیں کہ چینی قوم ایک بالکل نئے اندازمیں اور پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بن کرابھری ہے اور چینی قوم کے معیارزندگی میں غیرمعمولی بہتری اورچینی قوم پرستی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چینی عوام اپنی کامیابیوں پرنہ صرف فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ اس ترقی کوتسلیم بھی کرتے ہیں۔پارٹی یہ بھی کہتی ہے کہ بیرونی دنیا خاص کرامریکاہماری پیش رفت کوختم کرناچاہتاہے یاپھروہ اس ترقی کوروک دیناچاہتاہے۔بالکل اسی طرح کاپروپیگنڈاروس بھی کیا کرتاتھا۔

اس قوم پرستی کوبھی ایک خاص نقطہ نظردیاگیا،اس کے تحت انیسویں صدی کے وسط سے تاریخ بتائی جاتی ہے،جہاں1949ءسے کمیونسٹ پارٹی نے اقتدارسنبھالایاپھرتاریخ کاوہ حصہ بتایاجاتاہے جب بیرونی طاقتیں چین پرجابرانہ تسلط قائم کیے ہوئے تھیں۔ اگرچہ تاریخ کے اس رُخ میں کچھ صداقت بھی ہے لیکن کمیونسٹ پارٹی عوام کویہ بتاتی ہے کہ چین کواگربیرونی حملوں سے کسی نے بچایاہواہے تووہ صرف اورصرف کمیونسٹ پارٹی ہے۔جیساکہ کمیونسٹ پارٹی نے یہ مؤقف اپنالیاکہ ایک پارٹی کی مرکزی حکومت کاقیام ضروری ہے تاکہ ملک بیرونی حملہ آورقوتوں سے محفوظ رہے لیکن کینین رپورٹ کے مطابق اختیارات کی مرکزیت کواس انتہائی سطح پرلے جانے کے شدید قسم کے نتائج برآمد ہوں گے جیساکہ اس وقت سوویت یونین نے کہاتھاکہ ’’اگرکبھی سیاسی مفادات کیلئےپارٹی کونقصان یاپھراس کوتوڑپھوڑکاشکارکیاگیاتوروس طاقتورترین ملک سے کمزورترین ملک کی صورت اختیار کر لے گااوراس قوم کی حالت بھی قابل رحم ہوگی‘‘۔

چین میں موجودہ قوم پرستی کاایک پہلویہ بھی ہے کہ وہاں عوام کویہ باورکروایاجاتاہے کہ چین ایک’’نیشن اسٹیٹ‘‘ہے،لیکن درحقیقت چین کو ایک سلطنت کی طرح چلایاجاتاہے۔چینی سرزمین کاچالیس فیصدسے زائدحصہ وہ ہے جہاں رہنے والے لوگ خود کوچینی نہیں سمجھتے تھے۔اس حصے میں انرمنگولیا ،تبت،زی جیانگ شامل ہیں۔اگرچہ حکومت نے ان اقلیتوں کوخصوصی حقوق دیے ہوئے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی اس قوم پرستی کی لپیٹ میں آگئے اور98فیصد چینی قوم ان پرحاوی ہوگئی جنہوں نے مزاحمت کی انہیں سوویت سلطنت کی طرح جیلوں اور حراستی مراکزمیں ڈال دیاگیا۔

خارجی معاملات پرنظرڈالی جائے توپڑوس میں شمالی کوریاسے چین بہترین تعلقات قائم کیے ہوئے ہے جوامریکاکوانکھیں دکھاتا ہے،پڑوس میں تائیوان سے مستقل تنازعہ چل رہاہے،بیجنگ اسے اپناہی ایک صوبہ سمجھتاہےجبکہ تائیوان امریکی مددسےچین کیلئےسفارتی اورسیاسی مشکلات پیداکررہاہے۔ امریکا نےچین کے مختلف فوجی ایڈوینچروں کے سامنے بہت سے دشمن لاکھڑے کیے ہیں۔جہاں جنوبی چینی سمندرمیں جاپان کے ساتھ تنازع کھڑاہوگیاہے وہاں دوسری طرف چین کے ڈرسے جنوبی کوریاامریکا سے دفاعی میزائل سسٹم خریدنے پرمجبورہوگیاہے۔اس طرح درپیش چیلنجوں میں پچھلی ایک دہائی سے مشرقی ایشیائی ممالک کو امریکی پروپیگنڈہ کی وجہ عدم تحفظ کایقین ہونے لگاہے کہ مستقبل میں اس خطے میں چین غالب قوت ہوگااس لیے انہیں پہلے سے تیاری کرنی ہوگی۔اس تاثرکی بنیادی وجہ چین کی بے پناہ معاشی ترقی ہے۔سوویت یونین اور امریکاکے درمیان جومعاشی فرق تھا، اس کااگرآج کے دورمیں چین اورامریکاکے درمیان معاشی طاقت کے فرق سے مقابلہ کیاجائے توچین سوویت یونین کے مقابلے میں آگے ہے بلکہ کروناوبابھی چین کی معاشی نموکی رفتارمیں سستی پیدانہیں کرسکی لیکن جولوگ یہ سمجھتے ہیں جاپان کی طرح چین بھی معاشی جمودکاشکارہوجائے گا،وہ غلط فہمی کاشکارہیں۔ اگرچینی اشیاپرغیرملکی ٹیرف میں یہ اضافہ قائم بھی رہتا ہے توچین نے اپنی داخلی مارکیٹ اتنی طاقتورکرلی ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں اس کامتبادل حل آسانی سے نکال لے گااور ایشیاکابقیہ حصہ جوکہ سردجنگ کے آغازپرموجودمغربی یورپ کے مقابلے میں نہ صرف بڑاہے بلکہ معاشی طورپرمتحرک بھی ہے،اسے چینی ٹیرف کی مارکااندیشہ بھی لاحق ہے۔

فوجی اورتزویراتی لحاظ سے امریکااورچین کاتقابلی جائزہ لیناکافی مشکل کام ہے۔فوجی لحاظ سے چین کے مقابلے میں امریکاکے پاس20گنازیادہ ایٹمی وارہیڈ ہیں،کئی گنابڑی فضائی فوج ہے اورامریکاکادفاعی بجٹ بھی تین گنازیادہ ہے۔امریکاکے پاس چین کے پڑوس میں جاپان اورجنوبی کوریا کی سمیت بھارت اورویت نام بھی ممکنہ اتحادیوں میں شامل ہیں،اوریہ اتحادی بہت تیزی سے اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کررہے ہیں۔لیکن اس طرح کاکوئی اتحادی یورپ میں چین کے پاس نہیں ہے۔اس سب کے باوجود آج چین کے پاس اتنے بین البراعظمی میزائل، طیارے،بحری جہاز موجودہیں کہ اس نے خطے میں اپنی برتری ثابت کردی ہے۔چینی میزائل فورس بحرالکاہل میں امریکی فضائی اڈوں،طیارہ بردارجہازوں کوایسا چیلنج پیش کررہے ہیں کہ امریکااس خطے میں اپنی بالادستی کا دعویٰ نہیں کرسکتااورچین کی دفاعی ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ ساتھ یہ معاملات مزیدخرابی کی طرف جائیں گے، جیساکہ چین نے اب اپنی بحری فوج کی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کیاہے اوراس کے علاوہ جدیدترین ڈرون،خلائی پروگرام میں چین کی طرف سے کی جانے والی ترقی اسے امریکاکے برابرلاکھڑاکرنے میں مدددے گی۔اگرچہ سردجنگ کے وقت کا امریکااورروس کے درمیان دفاعی ترقی کی نسبت اتنی نہیں تھی جتنی کہ اب چین اورامریکاکے درمیان ہے،لیکن چین میں یہ صلاحیت ہے کہ بہت تیزی سے اس خلاکوپُرکرسکتاہے۔

ماضی کے سوویت یونین اورآج کے چین میں حیرت انگیزمماثلت پائی جاتی ہے۔سب سے پہلے تودونوں ریاستوں میں کمیونسٹ حکمران ہیں۔ گزشتہ40 برس سے چین کی معاشی ترقی نے مغرب کی نظروں سے اس حقیقت کوہٹادیاکہ یہ ملک کمیونسٹ آمریت کے ذریعہ چلایاجارہاہے۔چینی ظالمانہ اقدامات کےپروپیگنڈہ کے باوجودمغرب کویہ یقین ہےکہ چین لبرل ازم اورجمہوریت کی طرف رواں دواں ہے اورآج مغرب کاوہ یقین بیوقوفی کی علامت محسوس ہوتاہے۔چینی کمیونسٹ پارٹی اپنی حکمرانی کومستحکم کررہی اوراقتدارکوہمیشہ قائم رکھناچاہتی ہے۔صدرژی نے2017ء میں اعلان کیاتھاکہ’’پارٹی کو مضبوط کرنے کاعمل تیزرفتاری سے جاری ہے۔سینٹرل کمیٹی کی قیادت کومتحدرکھنے اورمرکزیت قائم رکھنے کیلئے مزید محنت کرنی ہوگی۔قوم میں پارٹی کی حیثیت ہمیشہ ریڑھ کی ہڈی جیسی ہوگی‘‘۔ایک اورمماثلت یہ کہ جس طرح سوویت یونین یورپ پرغلبہ حاصل کرناچاہتاتھابالکل ویسے ہی آج چین مشرقی ایشیاپراپناتجارتی اثرورسوخ قائم کرناچاہتاہے۔یہ خطہ آج امریکاکیلئےاتناہی اہم ہے جتناسردجنگ کے آغازکے وقت یورپ تھا۔اس غلبے کے حصول کیلئےچین بڑی حکمت کے ساتھ زیادہ بہترطریقے استعمال کررہاہے۔ امریکاسمجھتا ہے کہ اس نے بروقت اقدامات نہیں کیے تو 2020ءکے اختتام تک مشرقی ایشیامیں انڈونیشیا سے لیکرجاپان تک چین اکیلاٹھیکے دارہوگا۔

سوویت یونین کے راہنماؤں کی طرح چین بھی ایک دورمیں امریکاکواپنادشمن سمجھتاتھا۔یہ عوام میں توبہت محتاط اورشائستہ رہتے ہیں اور عالمی روایات کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔تاہم پارٹی کے اجلاسوں میں کھلے عام یہ بات کی جاتی ہے کہ امریکاچین کی ترقی کوروکنے کیلئےبیرونی دباؤاوراندرونی مداخلت کی ہرممکن کوشش کرتاہے اور اپنے عوام میں مغرب اورامریکاکے خلاف پروپیگنڈابھی جاری ہے۔یہی کام ماضی میں اسٹالن بھی کیاکرتاتھا۔چینی کمیونسٹ پارٹی نے اپنی عوام کویہ باورکروادیاہے کہ امریکی ہم سے صرف اس لیے نفرت کرتے ہیں کہ وہ ہم پر حکومت کرناچاہتے ہیں ان کے راستے کی واحد رکاوٹ چینی کمیو نسٹ پارٹی ہے۔

چین سوویت یونین نہیں ہے۔سوویت یونین کی نظریاتی کشمکش پوری دنیاکوایک ساتھ دیکھتی تھی،لینن اوراسٹالن کے نظریات کے مطابق کمیونزم کو نافذکرنے کیلئےضروری تھا کہ شاہانہ بیوروکریسی اورسرمایہ داری کاخاتمہ کرکےپوری دنیاپرکمیونزم کاغلبہ قائم کرکےہی سوویت یونین کی برتری قائم کی جاسکتی ہے۔تاہم چین کانظریہ اس سے مختلف ہے۔ان کے ہاں عالمی سطح پرتبدیلی کومدنظرنہیں رکھاجاتابلکہ چینی قوم پرستی پرہی فوکس ہے۔ان کاخیال ہے کہ واشنگٹن ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ضرورہے لیکن وہ اپنی ترقی اورمقاصدکے حصول کیلئےامریکی نظامِ حکومت یاامریکاکوشکست دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔اس کے علاوہ سوویت یونین کی نسبت چینی معاشرے کی امریکاسے مماثلت زیادہ ہے۔روسی سوشلسٹ معاشی پالیسیوں کونہ صرف قبول بلکہ وہ ان پرعمل بھی کرتے تھے،اس کے برعکس چینی عوام کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ موجودہ دور کی مارکیٹ میں اپنی برتری قائم رکھنے کیلئےجدوجہد کریں۔عوام کی اکثریت کیلئے’’کمیونزم‘‘صرف حکمراں پارٹی کانام ہے نہ کہ کوئی ہدف،جسے حاصل کرناہے۔اگرچہ ژی کی مرکزیت قائم کرنے کی جو کوششیں ہیں انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے لیکن خودژی بھی اصلاحات سے پہلے والے چین کی طرف لے جانے کی حامی نہیں ہیں۔جہاں چین عام دنیاسے بالکل الگ تھلگ تھا۔

مزیدیہ کہ چینی عوام نے پچھلی چنددہائیوں میں ملک میں امن اور ترقی کے مزے لوٹے ہیں جبکہ1947ءمیں روس تیس سال کی جنگ اورانقلابی جدوجہد کے بعدعالمی طاقت بن کرسامنے آیاتھا۔ کینن کے مطابق’’روسی جسمانی اورروحانی طورپرتھکے ہوئے تھے ‘‘۔جبکہ چینیوں کاتجربہ اس کے بالکل الٹ ہے۔چین کی دوتہائی آبادی نے امن اورترقی کے علاوہ کچھ دیکھاہی نہیں ہے۔ملک کی طرف سے آخری فوجی مداخلت30برس قبل ویت نام میں ہوئی تھی،اس کاآخری بڑاتنازع کوریاکے ساتھ جنگ کی صورت میں 70سال قبل پیش آیاتھا۔اس لیے ایک طرف توماضی کی چند دہائیوں کی کامیابی اور امن نے عوام کوجنگ کے خطرات سے محتاط رہنے پرمجبورکردیاہے۔دوسری طرف ماضی قریب میں جنگ کاتجربہ نہ ہونے اوراس کی تباہ کاریوں کے بارے میں علم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ جنگ کے حوالے سے دھمکی آمیزگفتگوکرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔آج کل چینیوں میں خاص کرنوجوانوں میں یہ خیا ل عام ہے کہ ہمیں امریکاسے بچنے کیلئےجنگ لڑنی پڑے گی۔اگرچہ ژی اوراس کے ساتھیوں کاشمارعمومی طورپر رسک لینے والوں میں نہیں ہوتالیکن بحران کی صورت میں اس بات کاقوی امکان ہے کہ چینی عوام دوسری جنگ عظیم کے بعد کے تھکے ہوئے روسی عوام کی نسبت1914ءکے جرمنوں جیسے جوش وخروش کامظاہرہ کریں گے۔

عالمی سطح پرطاقت کاتوازن بھی کینن کے دورجیسانہیں رہا۔آج کی دنیاسہ قطبی کی بجائے کثیرقطبی ہوتی جارہی ہے۔اگرچہ یہ عمل بتدریج جاری ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عمل حقیقی ہے۔سردجنگ کی طرح دوعالمی طاقتوں کے درمیان تنازع دنیاکو”بائی پولر”نہیں بنائے گابلکہ آج کے دورمیں دوعالمی طاقتوں کے درمیاں تنازع دیگرطاقتوں کوبھی اپنی مرکزی حیثیت بنانے میں مدددے گا،کیونکہ اب نظریاتی جنگ توہے نہیں، ساری لڑائی معاشی مفادات کی ہے۔امریکااورچین جتناایک دوسرے سے مقابلے بازی کریں گے اتناہی دوسری طاقتوں کوبرتری حاصل کرنے میں مددملے گی۔نتیجتاً جلد یابدیرہوگایہ کہ علاقائی طاقتیں وجود میں آئیں گی بلکہ وہ اپناتسلط بھی قائم کریں گی۔

امریکاکی داخلی صورت حال بھی سردجنگ کے دورسے یکسرمختلف ہے۔امریکاکی سوسائٹی میں اس وقت بھی ووٹر تقسیم تھے لیکن جوتقسیم، تعطل اور تعصب کی صورت حال اب امریکی سیاست میں ہے ایسی سردجنگ کے وقت نہ تھی۔اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکانہ صرف اندرونی طوربلکہ بیرونی دنیامیں بھی اپنے مقاصداورمنزل سے دورہوتاجارہاہے۔امریکاکامؤقف اوراس کا قدوکاٹھ اتنی تنزلی کاشکارکبھی نہیں ہوا جتناکہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں ہواہے۔حالت یہ ہوگئی ہے واشنگٹن کے قریب ترین اتحادی بھی اسے قابل اعتماد شراکت دارسمجھنے کوتیار نہیں۔ٹرمپ کی صدارت سے پہلے ہی امریکی خارجہ پالیسی کی اشرافیہ اس بات کااقرارتوکرتی رہتی تھی کہ خارجی معاملا ت میں اتفاق رائے کی شدید کمی ہے لیکن بیوروکریسی اس کمی کو پوراکرنے میں مکمل طورپرناکام رہی۔اب دنیاکے ممالک امریکی قیادت کی استعدادکے بارے میں سوال کرتے نظرآتے ہیں جبکہ ماضی میں مسائل پرامریکی مؤقف اورپالیسی کوناگزیرسمجھاجاتاتھا۔

سوویت یونین کے مقابلے میں امریکی معیشت چین کے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ اسے الگ کرنے کاتصورنہیں کیاجاسکتا۔ کینن معیشت کے بارے میں کافی علم رکھتے تھے،انہوں نے اس وقت کہاتھاکہ’’سوویت یونین کامعاشی گھیراؤکرنے کی ضرورت نہیں ہے،کیونکہاس نے عالمی معیشت میں شامل ہونے سے انکاری ہوکرخودہی اپنے آپ کومحدودکرلیاہے‘‘۔چین اس معاملے میں یکسرمختلف ہے کیونکہاس کی مجموعی ملکی پیداوارمیں برآمدات کاحصہ ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے۔اورامریکااس کاسب سے بڑاتجارتی شراکت دارہے۔چینی معیشت کوامریکی معیشت سے جداکرنے کیلئے سیاحت کی پابندی،تجارتی پابندیاں اوراسی طرح کے دیگرسیاسی ہتھکنڈے اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک باقاعدہ جنگ نہ مسلط کردی جائے ،جس کے تحت چین سے کسی بھی قسم کامعاشی رابطہ ناممکن ہوجائے۔محصولات میں اضافے جیسے اقدامات قلیل مدتی فوائدتوپہنچاسکتے ہیں تاہم اگرطویل مدتی تناظرمیں اسے دیکھاجائے توچین ان اقدامات سے خودانحصارہوتاچلاجائے گااورایسے اقدامات سے امریکاکوناقابل تلافی نقصان کے ساتھ وقارکوبھی ٹھیس پہنچے گا۔اس لیے چین سے رقابت کوایک بہترحکمت عملی کے ساتھ نمٹنے کیلئےایک دوسرے پرمعاشی انحصارکوبھی جاری رہناچاہیے اوراس سب کے علاوہ چینی رہنماؤں کے پاس کھیلنے کیلئے کچھ ایسے عالمی پتے بھی ہیں جوکہ سوویت یونین کے پاس نہ تھے۔سردجنگ کے دوران سوویت یونین اندرونی طورجس طبقاتی سیاست کاشکارتھااس کے مقابلے میں چین عالمی دنیاکوماحولیاتی تبدیلی،عدم مساوات،عالمی اتحاداورتجارت جیسے موضوعات پر اکٹھاکرنے کی بات کرتاہے جس کی وجہ سے بیرونی دنیامیں اس کامثبت تشخص اجاگرہوتاہے۔اگرچہ چین جیسے ملک کی جانب سے ان مسائل پربات کرنا نہایت مضحکہ خیزہے لیکن چوںکہ امریکاان مسائل پردنیامیں قائدانہ کرداراداکرنے میں ناکام رہاہے توچین نے اس ناکامی سے فائدہ اٹھاتےہوئے دنیاکویہ باورکروانے کی کوشش کی ہے کہ جمہوری نظام کی نسبت چینی نظام حکومت میں ان مسائل سے بہتر طریقے سے نمٹاجاسکتاہے۔

چینی طرزِعمل اورطرزِسیاست اورپھرموجودہ دنیامیں امریکی کرداراس بات کی طرف اشارہ کررہاہے کہ یہ دشمنی47۔1946ء طرز کی نہیں ہے، جس کی نشاندہی کینن نے کی تھی۔جہاں فوری جنگ کے امکانات کم ہیں،وہیں محدودتعاون کے نتیجے میں مشکلات بھی زیادہ ہیں۔اسی طرح قوم پرستی کے نتیجے میں تنازعات کادائرہ وسیع ہونے کاخطرہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔اس کے علاوہ چین جس سرعت سے ایشیامیں امریکاکی تجارتی پوزیشن کاسستانعم البدل بننے کیلئےجدوجہدکررہاہے اتنی تواسٹالن نے بھی امریکا سے یورپ چھیننے کیلئےنہیں کی تھی۔اگرامریکاچین سے مقابلہ کرناچاہتاہے تواسے اپنے اثرورسوخ کوقائم کرنے کیلئےایک طویل مدتی مہم تیا رکرنی ہوگی اوریہ مہم تزویراتی ترجیحات اورطویل مدتی منصوبہ بندی کے حوالے سے امریکاکی اپنی اہلیت کی بھی جانچ کرے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت تیزی سے بدلتے معاشی حالات،تیزی سے ترقی کرنے والی ٹیکنالوجی کی وجہ سے اب ماضی میں اپنائی جانے والی’’گھیراؤ کی پالیسی‘‘توناممکن ہے،وہ بھی چین جیسے ملک میں جہاں معلومات کابہاؤبھی بہت تیز ہے اورجواپنے آپ کودنیاسے الگ تھلگ بھی نہیں رکھناچاہتا۔

امریکی پالیسی سازاداروں کے مطابق اگرچہ امریکااورچین کے مابین تنازع سردجنگ کی طرزکانہیں ہے لیکن اس کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ کینن کے مشوروں کوبالکل ہی نظراندازکردیاجائے۔جیساکہ کینن نے کہاتھاکہ یورپ میں امریکاکواپنی مداخلت اوراثرو رسوخ میں اضافہ کرناچاہیے بالکل اسی طرح امریکاکوچاہیے کہ ایشیاکے وہ ممالک جوچین کی وجہ سے خوف کاشکارہیں ان کے ساتھ تزویراتی سطح پرتعلقات قائم کرے۔ سوویت یونین کے مقابلے کیلئے1948ءمیں امریکانے’’مارشل پلان‘‘(جوکہ بنیادی طورپر کینن کاہی آئیڈیاتھا)جاری کیاتھااوراس سے اگلے ہی برس نیٹوکا قیام عمل میں لایاگیاتھا۔بالکل اسی طرح ایشیامیں بھی یورپ کے جو اتحادی ہیں ان کے ساتھ تعاون دفاعی اورمعاشی فروغ کی اشدضرورت ہے۔ درحقیقت آج کی دنیامیں معاشی پہلو70برس پہلے کی دنیاکے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے اورپھرچین توہے بھی معاشی طاقت۔اس لیے”ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ”سے امریکی حمائت کاخاتمہ سے امریکی حمایت کاخاتمہ بالکل اسی طرح جس طرح کہ امریکانیٹوبنوائے اورپھروہ یکدم ہی اس سے علیحدگی اختیارکرلے۔ ٹرمپ کے اس اقدام کو ملک کی داخلی سیاست میں توسراہابھی گیالیکن اگرخارجہ پالیسی کے تناظرمیں دیکھاجائے تویہ ایک تباہ کن فیصلہ تھا،جس نے چین کاخطے میں یہ بیانیہ کامیاب نظرآیاکہ امریکاناقابل اعتبارہے۔

کینن کواس بات کااندازہ تھاکہ امریکاکوآنے والی کئی دہائیوں تک سوویت یونین کاسامناکرناہوگا،اس لیے اس کی تجویزتھی کہ امریکی حکومتی مشینری کو مذاکرات اورسمجھوتوں کوبھی اتنی ہی اہمیت دینی ہوگی،جتنی وہ فوجی تیاری اورخفیہ آپریشنزکو دیتی ہے۔کینن کے ساتھیوں کوان باتوں کااندازہ وقت کے ساتھ ساتھ ہوالیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سردجنگ کے پرامن خاتمے کی بڑی وجہ باہمی افہام وتفہیم اورمذاکرات ہی ہیں۔امریکی اورسوویت حکام میں اس قدررابطے تھے کہ انہو ں نے طویل عرصے تک دونوں ممالک کوجنگ سے روکے رکھااوراس دوران سوویت یونین کے امریکاکے حوالے سے نقطہ نظرمیں بڑی حدتک مثبت تبدیلی آئی۔اس تناظرمیں دیکھاجائے توچین اپنے رویے میں سوویت یونین سے بھی زیادہ جلدی تبدیلی لاسکتاہے کیونکہ موجودہ رقابت نہ ہی کوئی تہذیبی جنگ ہے اورنہ ہی کوئی نسلی تعصب کامسئلہ بلکہ”سکنّر”نےکئی ماہ قبل کہاتھاکہ”چین کے ساتھ ہمارے تنازعات کودو بڑی طاقتوں کے مابین سیاسی تنازعات کے طورپرلیناچاہیے،چینیوں کی ایک بڑی اقلیت اپنے ملک کوایک ایسے ملک کے طور پردیکھنے کی خواہش مندہے جہاں مکمل آزادی ہو،مساوات قائم ہوں اور پڑوسی ممالک اورامریکاکے ساتھ اس کے تعلقات اچھے ہوں۔چین کوجتناتنہاکرنے کی کوشش کی جائے گی ،اتناہی ایسے لوگوں کی آوازقومیت کے سمندرمیں ڈوبتی چلی جائے گی”۔ سوویت یونین کے بارے میں کینن نے کہاتھاکہ’’سوویت یونین کیلئےہماری پالیسی ہونی چاہیے کہ انہیں ہمارے مطالبات کو تسلیم کرنے کا باعزت موقع ملے‘‘۔

“ضرورت اس بات کی ہے امریکاایشیاکے علاوہ بھی ماحول کوسازگاربناکررکھے۔ایک ایسے وقت میں جب چین اپنے عروج کا سفرجاری رکھے ہوئے ہے، یہ کسی طوردرست نہیں کہ روس جیسی طاقت سے تعلقات بگاڑکراسے دنیابھرمیں بدمعاشی کرنے کیلئے کھلاچھوڑدیاجائے۔واشنگٹن کوچاہیے کہ وہ روس کومغرب کے ساتھ شراکت داری کے مواقع فراہم کرے اورمشرقی یوکرائن میں جاری تنازع کوختم کرنے میں اس کی مددکرے۔اگر امریکاایساکرنے سے انکارکرتاہے توسرد جنگ کے دورکاایک بھیانک خواب ’’روس چین اتحاد‘‘جوکہ سردجنگ کے دوران تونہ بن سکالیکن اب وہ حقیقت بن کرسامنے آسکتاہے۔آج روس کے وسائل اورچین کی آبادی کاامتزاج مغرب کیلئےوہ چیلنج بن سکتاہے،جس کاسامنااسے70برس قبل تھا”۔ کینن نے1954ء میں کہاتھاکہ”امریکا کوجس حقیقی خطرے کاسامناہے،وہ یہ ہے کہ اگریورپ اورایشیاکے وسائل کسی امریکامخالف سیاسی قوت کے ہاتھ لگ جائیں”۔

کینن کی سب سے اہم نصیحت کاتعلق خارجہ پالیسی سے نہیں بلکہ امریکی سیاست سے تھا۔انہوں نے متنبہ کیاتھاکہ فیصلہ سازی کی قوت میں کمی کامظاہرہ،تفریق اورداخلی تقسیم وہ بڑے خطرات ہیں جن کااس وقت امریکاکوسامناہے۔کینن نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیاتھاکہ”عوامی مقاصد کیلئے وسائل کے استعمال کیلئےکبھی بھی غفلت کامظاہرہ نہیں کرناچاہیے۔70برس پہلے کے مقابلے میں آج کے امریکاکواس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ اعلیٰ مہارت کے حصول،دنیاکےبہترین انفراسٹرکچراورجدید ترین تحقیق وترقی کیلئےبے پناہ وسائل صرف کرے۔چین کے ساتھ مقابلہ کرناکوئی سستاسودا نہیں ہے۔امریکی طاقت کاانحصارامریکاکی ان صلاحیتوں پرہے کہ وہ دنیابھرکے لوگوں میں یہ تاثرپیداکرنے میں کامیابی حاصل کرےکہ وہ ایساملک ہے جو جانتاہے کہ اسے کیاچاہیے،اورجوملک داخلی مسائل سے بہترین طریقے سے نمٹ رہاہے اورعالمی طاقت ہونے کی ذمہ داریوں کابھی ادراک کیے ہوئے ہے،اوراس میں اتنی روحانی طاقت بھی ہے کہ وہ وقت کے نظریاتی چیلنجوں کامقابلہ کرسکے”۔

امریکی سیاسی اوردفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق چیلنج آج بھی ماضی جیساہی ہے۔چین کے ساتھ مقابلے کیلئے کینن کی پسندیدہ اصطلاح امریکی ذہن پراپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور اس نکتے پرتوجہ دینے کیلئے اپنے ان ایشیائی اتحادیوں کے ساتھ باہمی دوستی کی اخلاص کے ساتھ یقین دہانی کروانا ہوگی جنہوں نے اسے ایشیا میں قدم جمانے کاموقع فراہم کیا وگرنہ دوسری صورت میں امریکاکی تنزلی کاسفر تیزی سے طے ہو گااورنتیجتاًدنیاصر ف ”ملٹی پولر”ہونے پرہی نہ رکے گی بلکہ دنیاایک ایسے خطے میں تبدیل ہوجائے گی،جہاں کسی کی حکمرانی نہ ہوگی، ہر طرف خوف و نفرت کاراج ہوگااورامریکامتحدبھی نہ رہ سکے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں