This Uncontrollable Horn Of The Roman Nation

ملتِ روم کایہ بے قابوسینگ

:Share

کوئی اگرسوال کرے کہ وہ کون سی قوم ہے جس کوپچھلے چودہ سوسال سے عالمِ اسلام کے خلاف مسلسل جنگ کررہی ہے،بغیراس کے کہ اس جنگ میں کوئی ایک دن کابھی وقفہ آپایاہو،تو اس کے جواب میں”روم” کے علاوہ شایدآپ کسی بھی قوم کانام نہ لے سکیں توپھر کیایہ ضروری نہیں کہ اس جنگ کانقشہ جوآج بھی نہیں رکی بلکہ ہمارے خلاف ان کی یہ جنگ آج ایک بھیانک ترین رخ اختیارکرچکی ہے،ملت کے کسی فردکی نگاہ سے روپوش نہ رہے؟احادیث کے اندرروم کے کئی سینگ بتائے گئے ہیں کہ جب ایک سینگ جھڑے توان کاایک اورسینگ کہیں سے برآمدہوجائے گا۔دیکھنایہ ہے کہ اس وقت اقوامِ روم کاوہ کون سا”سینگ”ہے جوعالمِ اسلام کوپٹخ دینے کیلئے اس وقت”روم”کے سرپرلہرارہاہے اورقدسیانِ اسلام کی جان لینے کے در پے ہے؟

بنیادی طورپریورپ ایک بہت چھوٹاسابراعظم ہے،جوکہ بہت صدیاں پہلے وہاں بسنے والی گوری اقوام کیلئے تنگ پڑگیاتھا۔طبعی بات تھی کہ یہ اقوام اپنے مسکن کیلئے نئے خطوں کی دریافت کیلئے اٹھ کھڑی ہوتیں مگرسوال یہ ہے کہ یورپ سے نکل کروہ جاتیں کہاں؟کئی ایک مؤرخین نے سلطنتِ عثمانیہ کے جومحاسن بیان کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ عین اس وقت جب یورپی اقوام اپنے گھروں کی تنگی کے باعث نئے خطوں کی تلاش میں تھیں،جبکہ ان اقوام کوجوقریب ترین ہمسایہ پڑتا تھاوہ سب کی سب مسلم عرب اقوام تھیں جن کی زمینیں ہتھیانے کیلئے ان یورپی اقوام کوصرف بحرابیض پارکرکے آناپڑتا..اوربلا شبہہ یہ توسیع پسند قومیں اپنی بڑھتی ہوئی آبادیوں کیلئے شام،مصر،لیبیا،الجزائر،تیونس،مراکش اوران کے مابعد پائے جانے والے ان سب زرخیزوسیع وعریض خطوں پر للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی بھی رہیں..ان زرخیززمینوں پرچڑھ آنے کیلئے ان کوہمت مگراس لئے نہیں پڑرہی تھی کہ ان کومار بگھانے کیلئے ایک مضبوط وتواناخلافت یہاں موجودتھی، جونہ صرف ان کو”مشرقِ وسطیٰ”اورشمالی افریقہ کی طرف میلی آنکھ اٹھاکر دیکھنے نہ دیتی تھی بلکہ پورایورپ افواجِ خلافت کی دھمک سے لرزرہاتھابلکہ آدھایورپ تواس کے ہاتھوں تاراج ہوچکاتھا۔

بحرابیض جس کومؤرخ”وہ حوض جس کے گردتہذیب گھومتی رہی”کانام دیتاہے،گویااس وقت خلافت کی جاگیرتھی اوراس میں کوئی اس کی اجازت کے بغیرپرنہ مارسکتاتھا۔دنیاکے سب آبادخطوں تک یورپ کاراستہ اسی بحرابیض سے گزرتاتھایاپھرایشیائے کوچک کی خشکی(حالیہ ترکی)سے جس پرکہ عثمانیوں کی اپنی خلافت قائم تھی۔تیسراراستہ بحراوقیانوس کاہوسکتاتھاجس میں جہازرانی کرتے ہوئے پورے براعظم افریقہ کے اوپرسے ہزاروں میل کاایک طویل چکرکاٹناپڑتاتھااور جہاں سے فوجی مہمات گزارناتو قریب قریب ناممکنات میں تھا۔نتییجتاًیورپ اتنی صدیاں پوری دنیاسے کٹ کراپنے اسی چھوٹے سے خطے میں دبک کرپڑارہا۔ کسی کے ہنستے بستے گھرپرقبضہ کرناتب بڑے ہی جان جوکھوں کاکام تھا!

آخرکارمغربی اقوام کو”نئی دنیا”کارخ کرناپڑا،جوکہ اُس وقت کے بیابان کہلاسکتے تھے۔آج کابراعظم شمالی امریکا،براعظم آسٹریلیا، جزائرنیوزی لینڈاورکئی دیگر خطے جن اقوام کامسکن ہیں وہ یہی یورپی اقوام ہیں جوہمارے اسلامی مصادرمیں”روم یابنی الاصفر”کے نام سے جانی جاتی رہی ہیں اورجوکہ یورپی تاریخ،یورپی نفسیات،یورپی عصبیت اوریورپی روایات لئے،بمع بائبل و صلیب،آج یہاں مالکوں کی طرح براجمان ہیں!

خداکاشکرکیجئے کہ تب خلافت تھی اوراسی وجہ سے ہماراذکرتاریخ کے اندر”ریڈانڈین اقوام”کی طرزپرنہیں ہوتاالبتہ”تہذیب”کی دعویدار ان اقوام کی نظر میں کوئی بھی غیرقوم،جوایک زرخیزملک رکھتی ہواورقدرتی وسائل سے لبریزسرزمین کی مالک ہو،صرف اورصرف ’’ریڈ انڈین‘‘کے طورپردیکھی جاتی ہے!اپنے گھروں کے پھاٹک کھولنے والوں کو”تہذیب”کے ان نام لیواؤں کی خیرسگالی بالآخرکتنی مہنگی پڑتی ہے،اس کیلئے ان اقوام کی تاریخ پڑھیے جوبڑی حدتک اب صرف “تاریخ” میں ہی ملتی ہیں اورخاصی حدتک اب صرف ’’انتھروپالوجی‘‘کاموضوع ہیں!

ایک باعزت تاریخ رکھنے کیلئے آپ کوایسے آباءسے نسبت چاہیے جواپنی آئندہ نسلوں کیلئے اپنی میراث کاتحفظ یقینی بنانے کے معاملہ میں آخری حدتک بے لحاظ ہوں اورجوکسی کی’’آؤ بھگت‘‘میں فراخدلی کی اس حدتک چلے جانے کے روادارنہ ہوں کہ بالآخراپناگھربھی باہروالوں کے حوالے کربیٹھیں،جہاں ان کی اپنی نسلیں پھراگررہنے کی’’اجازت‘‘پائیں بھی تو’’کرایہ دار‘‘بن کر!

البتہ آج ہم اپنی آنے والی نسلوں کیلئے کس قسم کے’’آباء‘‘ثابت ہورہے ہیں اوراپنی نسلوں تک ان کی امانت بحفاظت پہنچانے کاکیاانتظام کررہے ہیں،جہاں ہمارے روشن خیال اس حد تک چلے جانے پرتیارہیں کہ ان بن بلائے مہمانوں کیلئے ملکوں کے نہیں ذہنوں کے پھاٹک تک چوپٹ کھول دیں …. آج کی اس جنگ میں،جس کوتہذیبوں کی جنگ کہاجاتاہے،ہم اپنے وجودکے تحفظ کیلئے کیاپوزیشن لیتے ہیں،ریڈ انڈینز کی تاریخ خصوصًاریڈانڈینزکے گورے،پس”اقوام ’مہمانوں‘ کی تاریخ پڑھتے ہوئے،ایک نظراس پہلوسے ڈالنابھی ہرگزنہ بھولئے گا،روم“کوان کے دین،تاریخ اورتہذیب سمیت شناخت کرناہوتوآج وہ یورپ تک محدودنہیں۔ملتِ روم یقیناًاس سے بڑھ کراب امریکاسے آسٹریلیاتک جاتی ہے۔

اپنے بہت سے تاریخی خصائص،اپنی تاریخی وابستگی اوراپنی تاریخی دشمنی ان اقوام کوآج تک نہیں بھولی۔افغانستان میں ہم پرچڑھ آنے والی فوجوں میں”ملتِ روم “ کی کسی قوم کاجھنڈاآج آپ مفقودنہ پائیں گے۔چاہے علامتی طورپرچندفوجی بھیجے مگر”مقدس جنگوں”میں شمولیت کے تمغہ سے محروم رہ جانا”بنی الاصفر ” کی کسی قوم کوآج اس”سیکولر”دورمیں بھی قبول نہیں(سیکولرزم کی یہ احمقانہ قسم صرف ہمارے لئے ہے!)البتہ ان کی ان”مقدس جنگوں”جن کادوسرانام صلیبی جنگیں ہیں،کے بالمقابل کتنے”مسلم ملک”ہیں جو”علامتی” طورپرہی یہاں اپنے پائے جانے کاثبوت دے لیں؟ان صلیبی پھریروں کے مدمقابل آناتوخیردل گردے کی بات ہے،کتنے مسلم ملک ہیں جو اپنی”اللہ اکبر“کی نعرہ بردارافواج کوان صلیبیوں کے شانہ بشانہ”مسلم باغیوں”کی گوشمالی کیلئے چاک وچوبندرکھے ہوئے نہیں؟ “معزز” مہمانوں کااتناخیرمقدم توہمارے ایمان فروش پہلی صلیبی جنگوں کے موقعہ پرنہ کرپائے تھے۔

کہاں خلافت جوان اچکوں کودورسے ماربھگایاکرتی تھی اورکہاں آج کے یہ قومی راجواڑے جوان صلیبی پھریروں کے نیچ پیادوں میں نام درج کروانے کیلئے اوران کے رتھوں کی راہ سے”رکاوٹیں”ہٹانے کیلئے کسی بھی قربانی سے ہرگزدریغ نہ کرنے کاعزم بارباریوں دہراتے ہیں جیسے ایک مخلص عبادت گزاراپنے صبح شام کے اذکارکرتاہے!دینِ محمدکے خلاف صلیب کی جنگ کو”اپنی جنگ”کہتے ہوئے کیسایہ ایک”تحفظ”محسوس کرتے ہیں اورایمان کی سرحدوں کی حفاظت پہ آمادہ مجاہدوں کوبرے سے برے القاب دینے میں اپنے آقاؤں تک کوپیچھے چھوڑدینے کیلئے کس قدربے چین نظرآتے ہیں!

ابھی ہمارے کچھ نکتہ وروں کواصرارہے کہ ان راجواڑوں کواب”خلافت”اور”دارالاسلام”اور”یواین”سے منظوریافتہ”آئی ایم ایف”کے”الجماعۃ” ہی کا قائم مقام جانا جائے اورامتِ مسلمہ کوبقیہ عمربس اب اسی باجگزار انتظام پر قناعت کروائی جائے کہ ان کے خیال میں اللہ کااس امت کے ساتھ وعدۂ نصرت(اس شرط پرکہ خودیہ اللہ کی نصرت پہ آمادہ ہو)بس ایک ہی بارکیلئے تھا،جس کی میعادان کے بقول اب ہمیشہ کیلئےختم ہو چکی ہےاوراب امریکن ایمپائروہ سب کینہ وبغض جو تاریخی طورپرملتِ روم ہمارے ساتھ رکھے رہی ہے اور جس کوکہ وہ اپنامقدس ترین ورثہ جانتی ہے اوراس کے نام پراپنی”مقدس جنگیں”کھڑی کرتی آئی ہے…. مغرب کی سیادت کا پرچم یورپ سے امریکامنتقل ہواتواس کے ساتھ ہی وہ سب کاسب کینہ وبغض بھی یورپ سے”قیادت ہائے متحدہ امریکا”کومنتقل ہوگیا جو مغرب کے ہاں نسل درنسل چلاآتارہاتھا۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا….ملتِ روم کایہ وہ فرزندہے جس سے کوئی اورچوک ہویانہ ہو،مسلمانوں کے ہردشمن کودوست اورہردوست کودشمن سمجھنے میں کبھی ایک باربھی چوک نہیں ہوپاتی۔مسلمانوں کاکوئی ایک مفادایسانہ ہوگاجس کوزک پہنچانامغرب کے اس”پرچم” بردارکوکبھی بھول گیاہو۔جنرل اسمبلی سے لیکر سلامتی کونسل تک اورنیٹوسے لیکرورلڈبینک اورآئی ایم ایف تک،ہرجگہ اورہرفورم پر مسلمانوں کی تباہی کاہرمنصوبہ اورہرسارش اس کی کھلی تائیداورحمایت پاتی ہے۔اسرائیل سے لیکربھارت تک اوراتھیوپیاوجنوبی سوڈان سے لیکرفلپائن کے صلیبیوں اورمشرقی تیمورکے باغیوں تک مسلمانوں سے برسرِپیکارہرسرکش اور ہرغاصب اس کو”مظلومیت”کی داستان نظرآتارہااورفلسطین سے کشمیر تک اوراریٹریاوصومالیہ سے چیچنیا،مسلم تھائی لینڈاورمسلم فلپائن تک ہرنہتی مسلم قوم اس کو”دہشتگرد” اور “عالمی امن کیلئے شدیدخطرہ”دکھائی دیتی رہی۔

ملتِ روم کے اس حالیہ”نقیب”کی حقیقتِ حال ہماری آنکھوں سے اوجھل رہی توکچھ اس لئے بھی کہ اس کی اصل حقیقت پر”کمیونزم کے خلاف جنگ نے ایک وقتی ساپردہ تان دیاتھا۔البتہ اس کااصل چہرہ کوئی ہے تووہی جس سے دنیا”کمیونزم کے سقوط کے بعد”اب واقف ہو رہی ہے،اورجس میں،سوائے اسلام کے خلاف اندھی نفرت اوربغض کے،کوئی دوسرانقش نظرتک نہیں آتا۔بے شک کمیونزم ایک بڑااورفوری خطرہ تھااوراس کے خلاف عالم اسلام نے جو اقدامات کئےوہ بے حدضروری تھے اوربے شک”روس”بھی اصل میں توملتِ روم کے ہاں سے ہی ابھرآنے والاایک”سینگ”رہاہے،اس کے باوجود”بنی الاصفر” (گوری اقوام)کاتاریخی ورثہ سارے کاسارابلاکم وکاست “امیریکن ایمپائر”ہی کومنتقل ہواہے اورملتِ روم کے سب تاریخی خصائص بدرجۂ اتم اسی عالمی طاقت کے حصے میں آئے ہیں جوکہ جغرافیائی طورپرضروربحراوقیانوس کے پاربیٹھی ہے مگرعملاًاس کی فوجیں اورطیارہ ومیزائل برداربحری بیڑے اس وقت سات سمندروں اور سات براعظموں کاگشت کرتے پھررہے ہیں اورپوری دنیاخصوصاًعالم اسلام کواپنی جکڑمیں رکھنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زورلگائے ہوئے ہیں۔

چنانچہ یہ ایک طبعی بات تھی کہ کمیونزم سے نمٹنے کا”عبوری دور”گزارتے ہی یہ معاملہ وہیں پرآرہتاجہاں پریہ پچھلے چودہ سوسال سے ہے اور یہ کہ جس جگہ پریہ لوگ “عالمی جنگوں”کے چھڑجانے کے باعث ہمیں چھوڑکرگھرجانے پرمجبور ہوئے تھے اوراس کے ساتھ ہی پھرروس کے ساتھ چھڑجانے والی ان کی سرد جنگ نے ہمارے کچھ عشرے نکلوادئیے تھے جس سے ہمیں اپنی صفیں درست کر لینے کاکچھ تھوڑاساموقع ہاتھ آگیاتھا…طبعی بات تھی کہ”روس”وغیرہ سے فارغ ہوتے ہی یہ ہمیں وہیں سے آکرپھردبوچ لیں اورعالم اسلام کے اندراپنے اسی ایجنڈے کی تکمیل پرازسرنوجت جائیں جس میں کچھ مجبوریوں کے باعث کوئی صدی بھرکا تعطل آگیاتھااورجس میں سرفہرست اس بات کویقینی بناناہے کہ ہمارے تہذیبی خدوخال مسخ ہوکررہ جائیں،اپنی فکری اورتاریخی بنیادوں کے ساتھ ہمارارشتہ نام کو بھی باقی نہ رہے اورپھرخصوصاًیہ کہ”خلافت“کاامکان اس امت کے اندراب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے کیونکہ”خلافت“ایک “ڈراؤناخواب”ہے جو آج اگرقائم ہوجاتی ہے توان کوڈرہے کہ کمزورقوموں کے وسائل ہڑپ کرنے اور”تیسری دنیا”کے اندرلوٹ مچانے کی آزادیاں تورہ گئیں ایک طرف،یہ ”خلافت “ان کوبحراوقیانوس کے دوسرے پارچھوڑکرآئے گی،وہ بھی اگریہ ان کے ساتھ”پوراپورا حساب”کرنے پرنہ آئی ورنہ”خطرہ”اس سے بھی کہیں بڑا ہے۔

”خلافت“چونکہ ایک ایساادارہ ہے جوایمان اورجہادکی ایک خاص فضامیں قائم ہوتاہے اورمسلم معاشروں کے،اسلامی تربیت اورتہذیبی پختگی کی ایک خاص سطح کی عکاسی کرتاہے،لہٰذا”خلافت“کے قیام کاامکان ختم کردینے کاراستہ صرف اورصرف یہاں سے گزرتاہے کہ اس امت کے اندرایمان،عقیدہ،علم اورتربیت کے سب سوتے خشک کردئیے جائیں،اس امت کوقرآن کانام تک بھول جائے اور”جہاد“کا لفظ تومسلمانوں کی قاموس سے ہی خارج کردیاجائے کیونکہ جب بھی”ایمان، عقیدہ،علم اور تربیت“ کے عمل نے”جہاد”کوجنم دیااوریہ واقعہ امت میں کسی بڑی سطح پررونماہونے لگا”خلافت“کے سوااس کی طبعی منزل تب کوئی ہوسکتی ہے اورنہ کسی مسلمان کے ذہن میں اس کے سواکوئی بات فٹ بیٹھتی ہے۔کیایہ بات ان کیلئےپریشان کن نہیں کہ دین کی طرف آنے والاایک معمولی فہم کامالک مسلمان بھی”خلافت“کے سوال پربہت جلدپہنچ جاتاہے اور”تاریخ“پڑھنے والاتوہرشخص یہ پوچھنے بیٹھ جاتاہے کہ آخریہ”خلافت“کیاچیزتھی؟

آج ہمارے مدرسوں اورتعلیمی نظاموں کی بابت اس قدرگہری تشویش اسی”خوف”کی علامت ہے اوراس کوکسی چھوٹے سیاق میں لینا میں ہماری ایک بڑی غلطی ہوگی۔بعیدنہیں ہمارے”تعلیمی نصاب”کسی وقت ان کی جنگوں یاکم ازکم ان کی پابندیوں کی بنیادبن جائیں۔ علاوہ ازیں میڈیاخصوصاًٹی وی کے نجی چینل اپنی تہذیبی جہتوں کے لحاظ سے قریب قریب آج یہاں یہودی ایجنڈے کاہی دوسرانام ہیں، جس پران کی محنت اس وقت دیدنی ہے۔یہاں تک کہ یہاں کے زیادہ مقبول چینلوں پر”اسلام”کے نام پردی جانے والی تفیہم بڑی حدتک انہی کے مقاصدپورے کرتی ہے خواہ وہ حقیقتِ دین کومسخ کرنے اوراس امت کواس کے علمی وفکری مسلمات سے محروم اورقرونِ سلف سے برگشتہ کرنے کے معاملہ میں ہوخواہ بے دینی کواسلام کے”دلائل”سے لیس کرنے کے معاملے میں ، خواہ مسلمانوں کے اندر ”امت“کا تصورختم کرنے کے موضوع پر،خواہ”رواداری”کے باطل مفہومات پڑھانے،ولاءوبراءکے عقیدہ کاخاتمہ کروانے بلکہ وحدتِ ادیان کی راہ ہموارکرنے کے معاملہ میں،اورخواہ”جہاد“کو”اسلام سے انحراف ثابت کرنے کے”شرعی دلائل”دلوانے کے معاملہ میں …. اسلام کایہ “جدید ایڈیشن”عین وہ مقاصدپورے کرتاہے جومسلمانوں کواپنی ایک اجتماعی قوت وجودمیں لانے سے ہرقیمت پرروک دینے کا عمل یقینی بنائیں۔سب جانتے ہیں مسلمانوں کی ایک اجتماعی قوت کے وجودمیں آنے کاہی دوسرانام”خلافت“ہے۔

چنداچھی کوششوں کوچھوڑکر،باقی سب کچھ جو”میڈیا”کے نرسنگے میں اس وقت پھونکاجارہاہے وہ اسی ایجنڈے کاحصہ ہے جوایک خاص شیطانی منصوبہ بندی اورکمال تیزرفتاری کے ساتھ یہاں آگے بڑھایاجارہاہے۔جتناان لوگوں کے پاس وقت کم ہے،اس کے پیشِ نظر یہ کہاجاسکتاہے کہ عنقریب یہاں بڑے انقلابی لئے جائیں گے۔اب وہ وقت نہیں کہ مسلمانوں کے”جذبات”کاخیال کرتے ہوئے اپنے کام کویہ بلاضرورت مؤخرکرتے جائیں اورعشروں کے حساب سے وقت مزید”ضائع”کریں بہرحال میڈیاکے اندراگرہماری اسلامی قوتیں ایک بھرپورایجنڈالے کرآگے آتی ہیں تویہ ایک زبردست اوربروقت کام ہوگا، خصوصاً جبکہ ان کوسننے کیلئے زمین آج جس قدرتیارہے اتنی اس سے پہلے شایدکبھی نہ تھی۔حقیقت تویہ ہے دنیاآج امریکاکوسننے کیلئے نہیں بیٹھی بلکہ اسلام کوسننے کی منتظر ہے کیونکہ اس عالمی دورمیں عالمی بساط سے ظالموں کاپسپاہوناٹھہرگیاہے۔

امریکاکے معروف مفکرفرانسس فوکویامانے کمیونزم کے سقوط پربغلیں بجاتے ہوئے کچھ عرصہ پہلے”تہذیبوں کاتصادم”کے عنوان سے ایک تصنیف شائع کی تھی اورجس کے بعدسیموئیل ہنٹگٹن کی کتاب”تاریخ کااختتام”شائع ہوئی جو مغرب میں اس موضوع پر ایک غیر معمولی مقبولیت پاچکی ہیں۔فرانسس فوکویاما نے سوویت یونین کے بالمقابل امریکی جیت پرجوشیخی بگھاری،اس کالب لباب کچھ یوں تھا:

مغربی ڈیموکریسی جیت چکی ہے۔جودراصل امریکااورمغرب کی جیت ہے۔دنیاکے پاس مزیدانتظار کیلئے اب اورکچھ نہیں رہ گیا۔دنیاکو جوکچھ”نیا”دیکھناتھاوہ دیکھ چکی یعنی مارکسزم کاخاتمہ،سوویت یونین کاٹوٹ کربکھرنا،اورآزادلبرل ڈیموکریسی کادنیامیں چہاروانگ شہرہ۔ یعنی یہ ڈیموکریسی اب مشرقی بلاک کے ان ملکوں میں بھی اپنالوہامنوارہی ہے جوکمیونزم کے نظام میں جکڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ اب تاریخ کادروازہ بندہوتاہے،آج کے بعداب اورکچھ”نیا”نہیں ہونے والا۔ اگرکچھ ہوگاتو یہی کہ اسی نظام میں کہیں کہیں معمولی اصلاحات اورتبدیلیاں کی جاتی رہیں”!

فوکویاماکی اس تصنیف کے جواب میں کوئی ایک عشرہ پیشتریہ لکھاتھا:
٭کمیونزم کو78سال سے زیادہ عمربھی نصیب نہ ہوئی۔یہ عرصہ جو کہ ایک عام انسان کےلئے تومناسب عمرہے مگرایک ملک یاایک امت یاایک نظریے کیلئے
ہرگزنہیں۔ویسے ہی شفلنجر کی مغرب کے انحطاط کی پیشین گوئی ہے۔

امریکانے عالمی منظر نامے پرایک غیرمعمولی سرعت سے ظہورکیاہے۔بطورعالمی طاقت اورعالمی قیادت،امریکاصرف دوسری عالمی جنگ کے بعدجاناجانے لگا ہے یعنی اس لحاظ سے اس کی عمرابھی پچاس ساٹھ سال سے زیادہ نہیں بنتی جس کے دوران یہ عالمی پولیس مین بن بیٹھاہے۔ امریکاایک غیرمعمولی تیزی سے اوپرآیاہے۔ اس لیے یہ حیرت انگیزنہ ہوگاکہ امریکانیچے بھی اسی تیزی سے جائےجیساکہ بعض تحقیقات اورتجزیے یہ امکان ظاہرکربھی رہے ہیں اوربالخصوص امریکاکی دھاک کاسورج تواسی دن غروب ہوگیا جب اس کودنیابھرمیں نے اپنی ہزیمت کے ساتھ افغانستان سے انخلاء کااعلان کرناپڑا۔

مزید برآں،کمیونزم کے دریابردہوجانے کے ساتھ ہی عالم اسلام میں کمیونزم کی دم چھلہ حکومتیں بھی دھڑام سے گرگئی تھیں۔کمیونسٹ پاریٹاں،کمیونسٹ مفکر، کمیونسٹ عناصرسب روپوش ہوئے اوراکثرتومغرب کی جھولی میں جاگرے تھے چنانچہ آج ان سب لوگوں کو خبردارکرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے اپناوجود مغرب کے وجودسے وابستہ کرلیاہے،جن کی سیاست کی سب گرہیں اب مغرب سے کھلتی ہیں،جن کی اقتصادکی سب تاریں اب مغرب سے ہلتی ہیں،جن کے سب فیصلے مغرب کے فیصلوں کے زیرنگیں بلکہ مغرب کے زیرفرمائش ہوتے ہیں اورجوکہ مغرب سے بھی بڑھ کرمغربی ہیں اورجوکہ عالم اسلام اوراقوام اسلام پر خود مغرب سے بھی بڑھ کربوجھ بن چکے ہیں….ان سب کوہم اللہ تعالی کایہ فرمان سناکرخبردارکردیناچاہتے ہیں:

پس تم دیکھتے ہوجن لوگوں کے دلوں میں(نفاق کا)مرض ہے تم ان کودیکھوگے کہ آج وہ اُن(یہودونصاریٰ)سے(تعلقات بنانے)دوڑدوڑ کے ملے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ ہم پرکوئی براوقت نہ آن پڑے۔مگربعیدنہیں کہ اللہ جب(مسلمانوں کو)فیصلہ کن فتح بخشے گایااپنی طرف سے کوئی اوربات ظاہر
کرے گاتویہ لوگ اپنی اس(سازباز)پرجسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں،نادم ہوں گے۔(المائدۃ:52)

ان سبھی لوگوں کو،بلکہ سب مسلمانوں کو،خبردارکردینے کی ضرورت ہے کہ انسانیت کے سامنے اللہ کی پناہ میں آجانے کے سواکوئی چارہ نہیں رہ گیااوریہ کہ انسانیت کے سامنے اس”اسلامی حل”اور”اسلامی متبادل”میں پناہ پالینے کے سواکوئی جائے فرارنہیں جورب العالمین نے واجب ٹھہرایاہے اوریہ کہ اس سے افراد کیلئے کوئی جائے رفتن ہے اورنہ حکومتوں کیلئے۔

٭روئے زمین پرایک مسلمان ہی ہیں جودنیاکومتبادل دینے پرقدرت رکھتے ہیں….اوروہ اس دین اورمنہج کی صورت میں جواللہ کے ہاں سے نازل شدہ ہے چنانچہ ایک مسلمان ہی ہیں جو اسلامی عدل کی بنیاد پراقوام عالم کاایک نظام قائم کرسکتے ہیں،اقتصادکی الجھی گتھیاں صرف مسلمان سلجھاسکتے ہیں،سودکاشرعی متبادل صرف انہی کے پاس ہے،مشرق اورمغرب کے سب معاشرے جس ہولناک فساداور انحطاط کاشکارہوچکے ہیں اسلام کے پیروکارہی انہیں اس سے نجات دلاسکتے ہیں، خانگی نظام کی تباہی کاحل صرف ان کے پاس ہے، نوجوان جس طرح تباہ ہورہے ہیں ان کوراہ راست پرلے آناصرف اہل اسلام کیلئے ممکن ہے اورپھرسب سے بڑھ کریہ کہ مسلمانوں کے پاس وہ نظریہ ہے جوانسان کے قلب وذہن اورفکروشعورکویقین اوراطمینان سے سرشارکرتاہے اورجس سے انحراف اختیارکرلینے پر انسانی ذہن کرب واندیشہ اورسرگردانی کاشکارہوجاتاہے۔

مسلمان اِن سبھی خزانوں کے مالک ہیں اورانہی کایہ فرض بنتاہے کہ وہ ان کوعملی طورپراورواقعاتی اندازمیں بھی دنیاکوپیش کرکے دکھائیں اورنظریاتی تحقیقات کی صورت میں بھی مگرصورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اپنے عیوب نے اسلام کے ان سب حسین پہلوؤں کوچھپارکھاہے۔مسلمانوں کی علمی پسماندگی،دینی غفلت ،دعوت الی اللہ کے فریضہ کوطاق نسیاں میں رکھ دینا،آپس میں تفرقہ،اختلاف اور پھرمغرب کے پیچھے چل پڑنا….ان سب باتوں نے مغرب کویہ باور کرادیاہے کہ مسلمانوں کے پاس دنیاکو دینے کیلئے واقعی کچھ نہیں۔ کیونکہ اگران کے اپنے پاس کچھ ہوتاتوآج یہ خودفکرمغرب کے ٹکروں پرنہ پل رہے ہوتے اورنہ ہی یہ سرتا پیرمغرب کے مقلداور مغربی تہذیب کے خوشہ چین ہوتے۔

٭یہ موضوع اس لیے بھی اٹھاناضروری ہے کہ ان اسلامی مفادات کاتحفظ ممکن ہوسکے جوکسی وجہ سے مغرب کے ساتھ وابستہ کرا دئیے گئے ہیں چاہے وہ مسلمانوں کے اقتصادی مفادات ہوں یاسیاسی،انتظامی،ابلاغی یاتعلیمی۔مسلمانوں کوپوری طرح اس گڑھے کا ادراک ہوجاناچاہیے جس میں گرنے کیلئے مغرب سرپٹ بھاگ رہاہے۔یہ ادراک ہوگاتوہی وہ مغرب کے ساتھ بھاگتے رہنے یااس کے نرغے میں آئے رہنے سے چھٹکاراپاسکتے ہیں۔

٭اس مضمون کواس لیے بھی چھونااشدضروری کہ یہ اللہ کے اس فرمان کاتقاضاہے:
اورسچے مومنوں(کاحال اس وقت یہ تھاکہ)جب انہوں نے حملہ آورلشکروں کودیکھاتوپکاراٹھے کہ یہ وہی چیزہے جس کا اللہ اوراس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیاتھا،اللہ اوراس کے رسول کی بات بالکل سچی تھی۔(الاحزاب :22)

غزوۂ احزاب میں سچے مسلمانوں نے اپنے دین کی حقانیت اوراپنے روشن مستقبل پریقین کااظہاریونہی خطرات کی آندھیوں اوراندیشوں کے طوفان کے مدمقابل کھڑے ہوکرکیاتھا۔میں بھی پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہناچاہتاہوں کہ امریکابھی قانونِ ربّانی کے نرغے میں اسی طرح آئے گابلکہ یورپ اورمغرب بھی اسی طرح اللہ کے فطری قانون کی زدمیں آئیں گےجس طرح اورلوگ اس کی زدمیں آتے رہے ہیں اورایسابہت جلد ہوگا۔”ایساجلدہوگا”سےیہ مطلب نہیں کہ مغرب کے اوندھاہوکرگرپڑنے کی خبرسننے کیلئے آپ اپنے ریڈیو کی سوئی گھماناشروع کردیں یااپنے ٹی وی کے ریموٹ کوبے تحاشہ استعمال میں لے آئیں۔اللہ کی فوج کے ایک ادنیٰ سے سپاہی کرونانے جوقیامت مچارکھی ہے،ابھی تک تواس سے نجات نہیں مل پائی۔یادرکھیں کہ قوموں کی زندگی میں سال لمحوں کی طرح گزراکرتے ہیں۔یہ لوگ عذاب کیلئے جلدی مچارہے ہیں۔اللہ ہرگزاپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا،مگرتیرے رب کے ہاں کاایک دن تمہار ے شمار کے ہزاربرس کے برابرہواکرتاہے۔(الحج:47)

٭آج جوسقوطِ مغرب کی بات کرتاہے وہ ایساہی ہے جوکسی بت کے حصے بخرے کرکے اس کی پوجاکرنے والوں پراس بت کی حقیقت واضح کرتاہے کہ یہ تومحض بے حس وحرکت بت ہے جونفع یانقصان پہچانے کی سکت سے عاری ہے جبکہ مسلمانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد ابھی تک مغرب کے طلسم میں گرفتارہے اور مغرب سے منفردرہنے کی سکت سے عاری۔

ایک وقت تھاجب مغربی طرززندگی کی جانب دیکھ کرلوگوں کی نظریں خیرہ ہوجایاکرتی تھیں۔اس کی تہذیب کی طرف یوں دیکھاجاتاتھا جیسے یہ دنیاکی سب سے اعلیٰ تہذیب ہے۔اس کی قوت کی جانب یوں دیکھاجاتاتھاجیسے ہمیشہ اسی کوغالب رہناہے اوراس کی ترقی یوں لگتی تھی گویایہ لازوال ہو۔یہ وہ وقت تھاجب اس کے سقوط اورانحطاط کی بات تک کی کہیں گنجائش نہ تھی۔بہت ہی تھوڑے اہل بصیرت تھے جن کی نگاہیں اس کی چکاچوندسے آگے گزرکراوراس کے فکری حصارسے آزادہوکراس کے پیچھے چھپی حقیقت صاف دیکھ سکتی تھیں۔سیدقطبؒ کاشماربھی انہی اہل بصیرت میں ہوتاہے جنہوں نے ایک زمانہ پیشتراپنامشہورعام مقالہ “انتہیٰ دورُالرجل الأبیض” یعنی “گورے انسان کادورختم ہوا”تحریرکیاتھااوراس وقت مغربی تہذیب کے قربِ انہدام ہونے کااعلان کرتے ہوئے مسلمانوں کویہ احساس دلانے کی کوشش کی تھی کہ اب آئندہ متبادل وہ بنیں اوراسلام کی صورت میں دنیاکواس بدبختی سے نجات کیلئے حل پیش کریں۔

٭اورتواورمغربی ڈیموکریسی کی بعض اشکال ہی بعض ماہرین سیاست کوامریکاکی سلامتی کیلئے ایک خطرہ بنتادکھائی دے رہی ہیں۔ چنانچہ امریکاکے قومی سلامتی کے ایک سابقہ مشیربرزنسکی اپنی کتاب “برتری کے دائرے سے پرے”میں لکھتاہے:

کمیونزم کے بعدوجودمیں آنے والی دنیاایک خطرناک،پریشان اورکشیدہ دنیاہے۔ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان خطرات کا ادراک کرلیں جومغربی ڈیمو کریسی سے جنم لے سکتے ہیں کیونکہ امریکامیں اس سے ایک طرح کی بے قیداورمادرپدرآزادروش پیداہوگی جہاں ہربات جائزہوگی اورہرچیزکی اجازت۔جس کے نتیجے میں افرادکے مفادات آپس میں ٹکرائیں گے اوریہ صورتحال شخصی انانیت میں بہت بڑے اضافے کاباعث بنے گی اوراس سے معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی بڑھے گااورایک بڑے خطرے کی گنجائش بھی۔یہ ایک ایسی دنیاہے جوکمیونزم کے فلاپ ہوجانے کے بعد،اپنے رونماہونے کیلئے،بری طرح جوش کھا رہی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ برزنسکی نے لگ بھگ1987ہی میں کمیونزم کے سقوط کی پیشین گوئی کردی تھی جیسا کہ اس کی کتاب ”سقوط عظیم“سے ظاہرہوتاہے۔

اپنی بعض گزشتہ تحریروں میں ذکرکرچکاہوں(روزِغضب ،زوالِ اسرائیل پرانبیاءکی بشارتیں،توراتی صحیفوں کی اپنی شہادت)بظاہرکئی ایک المیے اورسانحے ہیں مگروہ ایک ایسے اسٹیج کی راہ ہموارکررہے ہیں جودنیاکیلئےبے حدحیران کن ہے۔قریب ہے کہ زمین کے سینے پرچڑھ بیٹھنے والی کئی ایک جابر قوتوں کے اب کسی بھی وقت گھٹنے لگ جائیں،جس کے ساتھ ہی ظلم اورنظامِ سرمایہ داری کے پنجوں میں سسکتاعالمی توازن ایک نیارخ اختیارکرلے۔استحصالی نظام کی جس چٹان سے ٹکرا کرسوشلزم اورکمیونزم پاش پاش ہوکرزمیں بوس ہوچکے ہیں،تکبرکے ایسے ہی آتش فشاں میں یہ بھی جل کرراکھ ہوجائیں گے۔

توبہ کرنے والے،عبادت کرنے والے،حمد کرنے والے،روزہ رکھنے والے،رکوع کرنے والے،سجدہ کرنے والے،نیک کاموں کاامر کرنے والے،بری باتوں سے منع کرنے والے،اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے،(یہی مومن لوگ ہیں)اوراے پیغمبرمومنوں کو(بہشت کی) خوش خبری سنادو۔توبہ:112

پورے جہان کوچھوڑکراورکوئی ڈیڑھ دوسوملکوں کوبیچ سے نظراندازکرتے ہوئے،سات سمندرپاربیٹھے ایک”دوردرازملک”ہی کے خلاف مراکش سے لیکر انڈونیشیا تک آج اسلامی جذبہ ایک لاوے کی طرح کھول رہاہے،توکیااس کی کوئی بھی”وجہ”نہیں؟یہ ساری جنگ اور مزاحمت جواسلامی دنیاکاآج کاقابل ذکرترین واقعہ بن چکی بلکہ زمانے بھرکاموضوع بن گئی ہے،اسی وجہ سے توہے کہ ملتِ روم کایہ بے قابوسینگ تاریخ کی ایک بدترین ہڑبونگ مچاتے ہوئے ہمارے گھروں میں گھس آیااور ہمارے فکری ومادی وجودہی کے درپے ہواہے۔ امریکی کارپردازاگراپنے آپ کوملتِ روم کی اس خدمت سے سبکدوش کرلیتے ہیں جس کی روسے ان کوایک چودہ صدیاں پرانی دشمنی نبھانااوراسلام کے خلاف”بنی الاصفر”کی قدیم سے جاری اس جنگ میں قیادت کاباقاعدہ علم اٹھاکرچلنا ہے…. توہماری بھی اوّلین ترجیح ان کواپناہدف بنارکھنانہیں ہوگا۔ہم اپنے کام سے کام رکھیں،اسی بات سے مشروط ہوسکتاہے کہ اٹلانٹک پارکے ایک ملک کی انتظامیہ بھی اپنے ہی کام سے کام رکھے۔

اس نئے منظر نامے میں،جہاں ہرامت،ہرمعاشرہ اورہرنظریہ دیوالیہ ہوجانے کی آخری حدکوچھوچکااورباطل کے بیشترزنگ آلودڈھانچے ڈھ جانے کوآپ سے آپ تیاربیٹھے ہیں،اورجہاں دنیابڑی ہونے کے باوجودسمٹ کرایک بستی بن گئی ہے…. اس نئے منظرنامے میں اسلام کی پیش قدمی کیلئے کون کون سے افق سامنے آنے والے ہیں کہ جن کا تصوربھی ابھی لوگوں کیلئے شایدممکن نہیں،آنے والے اس مرحلے کی بابت جاننے کی سب سے دلچسپ اورسب سے خوبصورت بات دراصل یہی ہے،اورہمارے اس سارے صبراورمحنت اوراستقامت کو مہمیزدیے رکھنے کااصل باعث بھی بس یہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں