Ukraine's Trap For Russia

روس کیلئے یوکرینی پھندہ

:Share

روسی صدرپیوٹن کوبالکل اندازہ نہیں تھاکہ یوکرین میں مداخلت اس قدرطویل اورخاصاعسکری نقصان ہونے کے باوجوداپنی مرضی کے نتائج حاصل نہ ہو سکیں گے۔یوکرین پرلشکرکشی کوڈھائی ماہ کاعرصہ ہوگیاہے اورامریکاویورپی طاقتوں کواب یقین ہورہاہے کہ اب یہ جنگ مہینوں نہیں بلکہ برسوں جاری رہ سکتی ہے۔ اگریوکرین کواسلحہ فراہم کرکے مضبوط کرنے کاعمل جاری رہاتوایسابھی ہوسکتاہے کہ روس کی طرف سے کوئی نتیجہ خیزحملہ ساری دنیاکوحیران کردے۔ امریکاومغرب کے علاوہ کئی ممالک اس جنگ کو 1979ءمیں افغانستان پرسوویت یونین کی افواج کی لشکرکشی سے مشابہ قراردے رہے ہیں اوردوسری طرف بعض مبصرین نے اسے2001ء میں افغانستان پراتحادی افواج کی لشکرکشی سے تعبیرکرنے کی کوشش کی ہے۔سوویت یونین کی فوج نے10سال کی خواری اورہزیمت کے بعدافغانستان سے نکلنے کوترجیح دی تھی جبکہ امریکانے کچھ زیادہ ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئےدوعشرے گزارنے کے بعدافغانستان سے رخت سفرباندھنے کوترجیح دی۔

سوویت افواج بھی خالی ہاتھ گئی تھیں اور امریکا کو بھی افغانستان سے کچھ نہ مل سکا۔امریکا میں بعض مبصرین اس نکتے پر ضرور دے رہے ہیں کہ یوکرین میں روسی افواج کواسی طرح پھنسادیاجائے جس طرح سوویت افواج کوافغانستان میں پھنسادیاگیاتھا۔ان مبصرین کاکہناہے کہ امریکااورنیٹوکویوکرین میں لڑنے کیلئے ویسے ہی رضاکارتیارکرنے چاہئیں جیسےافغانستان میں سوویت افواج سے لڑنے کیلئے(مجاہدین) تیارکئے گئے تھے۔فنڈنگ بھی کرنی ہے اورتربیت بھی دینی ہے ۔ یوکرین کے معاملے میں کچھ ایساہی ہوتا دکھائی دے رہاہے۔یوکرین کوامریکی صدرجوبائیڈن اوریورپی قائدین نےکئی باریقین دہانی کروائی ہے کہ اس جنگ میں خودتوکودانہیں جاسکتاتاہم اسے بھرپورامداددی جاتی رہے گی اوراس کے فوجیوں کواسلحہ کی فراہمی کے ساتھ ساتھ تربیت کاسلسلہ بھی جاری رہے گا۔

سابق امریکی سیکرٹری خارجہ ہلیری کلنٹن نے ایک حالیہ انٹرویومیں کہاہے کہ 1979ءکے آخرمیں سوویت افواج نے افغانستان پر چڑھائی کی تھی،اس کاانجام اچھانہیں نکلا بلکہ سوویت یونین کے بطن سے چھ اور ریاستیں دنیا کے نقشے پر وجود میں آ گئیں۔امریکا کی غیرمعمولی فنڈنگ اور اعلیِ درجے کی تربیت نے شدید مزاحمت یقینی بنائی اورسوویت یونین کو بے نیل ومرام واپس جانا پڑا۔سوویت افواج نے24دسمبر 1979ءکو افغانستان پر لشکرکشی کی تھی اور دس سال بعد 1989 ءمیں انہوں نے افغانستان کی سرزمین کوخیربادگھرکی راہ لی۔افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت یانظام حکومت قائم کرنے میں شدیدناکامی کے بعدسوویت یونین نے امریکا، افغانستان اور پاکستان سے ایک وسیع البنیاد معاہدہ کیا اور وہاں سےاپنے فوجی15 فروری1989ء کو واپس بلا لئے۔

امریکی صدرجوبائیڈن نےحال ہی میں اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اس طرف اشارہ کیاتھاکہ روسی سدرپوٹن کویوکرین پرلشکرکشی کی قیمت طویل مدت تک چکاناپڑے گی۔شکاگومیں سکونت پذیرمصنف بریکومارسٹیک نے امریکی صدرجوبائیڈن پرایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے لکھاہے کہ”اس وقت واشنگٹن میں کئی سُرسنائی دے رہے ہیں،ایک سُریہ بھی ہے کہ کسی نہ کسی طورروس کویوکرین کی دلدل میں پھنسادیاجائے۔ری پبلکنز،ڈیموکریٹس اور جوبائیڈن کی انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ حکام میں اکثریت کی رائے یہ ہے کہ روس کوکسی نہ کسی طورپریوکرین کی دلدل میں پھنسادیاجائے۔ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جوبائیڈن انتظامیہ گزشتہ دسمبرسےکسی نہ کسی طرح کسی بڑے مناقشےمیں پھانسنے کے حوالے سے منصوبہ سازی کرتی آئی ہے۔”

اچل کمارملہوترایوکرین کے پڑوسی جارجیااورآرمینیامیں سفیررہ چکے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ”یہ توبہت پہلے طے کرلیاگیاتھاکہ امریکا اورنیٹوکسی بھی صورت یوکرین کے معاملات میں ملوث نہیں ہوں گے یعنی یوکرین کو اپنی جنگ خود ہی لڑنی پڑے گی۔میرے نزدیک ان کی کوشش یہ ہے کہ روس کسی نہ کسی طرح یوکرین میں طویل مدتی جنگ کی دلدل میں الجھ جائے اور پھنسا رہے۔جونہی روس یوکرین کی سالمیت کیلئے خطرہ بنے تو روس پر لازمی طورپر عالمی پابندیاں عائد کر دی جائیں ۔ امریکا یورپی یونین اور نیٹو کی خواہش اورحکمتِ عملی یہ ہے کہ اس طرح روس کوعسکری اورمعاشی طورپرانتہائی کمزوراور لاغر کردیا جائے۔غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ امریکا اورمغرب میں پوٹن کوولن کے طورپرپیش کیاجارہاہے تاکہ روس کوعالمی برادری سے الگ تھلگ کردیا جائے جبکہ دوسری طرف سوشل اورمین اسٹریم میڈیاکے ذریعے ایسا ماحول تیارکیاجارہاہے کہ یوکرین کوسیاسی،سفارتی،اخلاقی،مالی اورعسکری مددملتی رہے،یوں اگرکوئی فوری حل نہ نکلے تویہ جنگ مدتوں جاری رہے اور یوکرین جنگ کامیدان بنارہے۔”

روس اور یوکرین کے مابین معاملات یوں تو ایک عرصے سے کشیدہ ہیں تاہم کشیدگی میں شدت2014ء سے پیدا ہوئی جب روس نے یوکرین سے جڑے ہوئے مشرقی کرائمیا پر حملہ کرکے اسے اپناحصہ بنا لیا۔یوکرین کومحسوس ہوا کہ اب کسی بھی وقت اس کی بھی باری آ سکتی ہے۔تب سے امریکا،یورپی یونین اور نیٹونے یوکرین کواسلحہ اورتربیت دیناشروع کردی۔یوکرین کونیٹوکارکب بنانےکاآسرا بھی دیاگیا،اوردراصل یہ آسراہی یوکرین کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوا۔امریکا اوریورپ نےخاصی ہوشیاری سے یہ ماحول تیار کیا جس میں روس زیادہ سے زیادہ الجھن محسوس کرے،مشتعل ہوکر یوکرین پر چڑھ دوڑے،اور عین امریکا اور یورپ کی منشاء اورمرضی کے مطابق روس اس جال میں پھنس گیا۔

مغربی طاقتیں اورامریکایہی چاہتے تھے،اب جبکہ روس نے یوکرین میں قدم جمالئے ہیں توامریکا،یورپی یونین اورنیٹونے فوجی مداخلت سے صاف انکارکرتے ہوئےیوکرین کی معاشی اورفوجی امداتوجاری رکھی ہوئی ہے لیکن اپنے فوجیوں اورفورسزکواس جنگ میں شریک نہیں کیا۔یوکرین کوجنگ کامیدان بنانامقصود تھا، اسے بڑی کامیابی کے ساتھ بنا لیا گیا ہے۔روس کو گھیرنےکی سوچ پروان چڑھ رہی تھی اوراب روس بہت حد تک پھنس گیاہے۔اب وہ اپنی عزت بچانے کیلئے فوری طور پر یوکرین سے نکل بھی نہیں سکتا اور نہ ہی اس جنگ کو نامکمل اسی حال میں چھوڑ سکتاہ ے جس طرح اسے افغانستان سے خالی ہاتھ نکلنا پڑا تھا۔

اسکاٹ رٹرامریکامیں روسی امورکے معروف ماہرہے اوروہ امریکی میرین کورکمانڈربھی رہ چکاہے۔اس نے بغدادمیں بھی اسلحہ انسپکٹرکی خدمات انجام دیں تھی ۔ وہ کہتا ہے کہ”امریکا اور یورپ2014ءسے یوکرین کی فوج کوتربیت فراہم کرتے آئے ہیں۔8سال میں یوکرینی فوج کی کم وبیش40بٹالین کو تربیت فراہم کی جا چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب یوکرینی فوج کو امریکی و یورپی اسلحہ استعمال کرنے میں براہِ راست کسی تربیت کی ضرورت نہیں۔ان حالات میں کیا یہ سمجھا جائے کہ امریکا اور یورپی یونین نے مل کرروس کو گھیرنے کی کوشش کی ہے؟کیا روسی قیادت کو جان بوجھ کر اشتعال دلایا گیا،کیا ایسے حالات پیدا کئے گئے جن میں روسی قیادت کومشتعل ہونا ہی تھا؟کیا روس کو یوکرین پر حملے کیلئے اکسانا کسی نظریہ سازش کے تحت تھا؟

بہت سے ماہرین کاکہناہے کہ امریکانےروس کیلئے جال اس خوبصورتی سے بناکہ وہ یوکرین میں عملی طورپر خود تو شریک نہ ہولیکن روس کو وہاں تھکا مارے۔ اس مرحلے پر روسی قیادت کو بہت سوچ سمجھ کرفیصلے کرنے ہیں۔سب سے پہلے اسے یہ یقینی بناناہ ے کہ یوکرین میں روسی افواج کا قیام مزیدطویل نہ ہو، اگر روسی افواج وہاں الجھ کررہ گئی تو پورا خطہ عدم توازن کا شکار رہے گا اور اس کے نتیجے میں درجنوں معیشتیں انتہائی نوعیت کا شکارہو جائیں گی اور ممکن ہے کہ تیسری دنیا کے کئی ممالک دیوالیہ ہو جائیں جہاں ایک مرتبہ پھر عالمی مالیاتی اداروں کی ذریعے امریکاو یورپ کو قدم جمانے کا موقع مل جائے تاکہ مستقبل میں چین کا محاصرہ کرنے میں آسانی ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں