نئی حکومت نے جونہی اقتدارسنبھالاتوبیک وقت کئی محاذ کھل گئے۔ پہلی دفعہ جب مسنداقتدارکیلئے بخوشی شیروانی زیب تن کی جاتی ہے تو اس کانشہ عجیب ہوتاہے لیکن جونہی مسائل کااانبارآپ کوگرفت میں لیتاہے توہوش ٹھکانے آنا شروع ہوجاتے ہیں اوراقتدارمیں آنے سے قبل کئے ہوئے بلندبانگ دعوےایسامحاصرہ کرتے ہیں کہ سانس لینا دوبھرہوجاتاہے۔بڑے تفاخرسے اس چیلنج کوقبول کرنے اوراگلےسودن میں ملک کی خود مختاری کاتحفظ اور ملکی تقدیر بدلنے کاپروگرام دینے کاجووعدہ کیاتھا،اب ان کاحشرنشر”یوٹرن” کودانشمندی سے تشبیہ دیکرپوراکیاجارہاہے اور وزیراعظم سے لیکرنچلی سطح تک حکومت وکابینہ کاہرفردپچھلی حکومتوں کومورد الزام اورزہراگل کرملک کی خدمت کررہے ہیں۔اندرون اوربیرونِ ملک اپنے ہی گندے کپڑے دکھاکرکاسہ گدائی پھیلایاجارہاہے جبکہ قائداعظم اوراقبال کاحوالہ دینے والے تواس راستے کو اختیارکرنے کی بجائے خود کشی کوترجیح دینے کابلندبانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے۔ وزیراعظم نے جونہی اپنے ماضی کے بیانات سے”یوٹرن”کی وضاحت کی توساری ٹیم مشترکہ کورس میں اس “یوٹرن”کے فوائدبتانے میں شب وروزمصروف ہوگئی ۔سعودی عرب،یواے ای اور چین کے کامیاب طوفانی دوروں کاتذکرہ بڑی دھوم دھام سے کیاگیابالآخراس کامیابی کےنتیجے میں بھی “یو ٹرن”میں آئی ایم ایف سے انہی کی شرائط پرسرجھکانے کاعندیہ دے دیاگیااورآئی ایم ایف نے جہاں سی پیک کی ساری تفصیلات طلب کرلیں وہاں انہوں نے مہنگائی کے بے قابوجن کی طوفانِ بدتمیزی کے ساتھ ساتھ سی پیک کی تکمیل کی برق رفتاری پرقدغن لگانے کی شرط رکھ دی ہے،گویااب جومرضی میرے صیادکی ہوگی،اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرناہوگاتاہم سودن کی تکمیل سے قبل ہی”یوٹرن”کی کثرت نے ثابت کردیاکہ”ایساتوہوتاہے ایسے کاموں میں”۔
ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی ٹیکنالوجی نے ساری دنیاکوایک “گلوبل ولیج”(Global Village)میں تبدیل کردیاہے اورکوئی بھی خبریاتبدیلی لمحوں میں دنیاکے ہرکونے میں پہنچ کراپنےردّ ِعمل کے اثرات مرتب کرناشروع کردیتی ہےگویاجب تمام معاملات جڑے ہوئے ہوں تب کسی ایک چیز کے خراب ہونے پر دوسری بہت سی چیزوں کا خراب ہو جانا بھی فطری امر ہے،اس وقت یہی ہو رہا ہے۔ امریکا اور یورپ مل کر جو کچھ کرتے ہیں وہ کئی ممالک ہی نہیں، بلکہ خطوں کو بھی ہلاکر رکھ دیتا ہے۔امریکا اور یورپ کیلئےبہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔ تبدیلیاں تو خیر پوری دنیا میں آرہی ہیں، مگر امریکا و یورپ کیلئےمعاملہ بہت اہم ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ عالمی سیاست و معیشت کا مرکز اب ایشیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ چین، جاپان، روس اور ترکی کی معیشت غیر معمولی رفتار سے مستحکم ہو رہی ہیں۔ جنوبی کوریا اور ملائیشیا وغیرہ کا استحکام بھی اس معاملے میں روشن مثال کا درجہ رکھتا ہے۔
امریکا چاہتا ہے کہ عالمی سیاست و معیشت میں اس کی فیصلہ کن حیثیت برقرار رہے۔ واحد سپر پاور ہونے کا اس نے تین عشروں کے دوران بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ یورپ نے بھی اس کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے خوب مزے لوٹے ہیں۔ اب یہ دَور رخصت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ڈھائی عشروں کے دوران چین تیزی سے ابھرا ہے، جس نے امریکا اور یورپ دونوں ہی کیلئےخطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ چینی معیشت کا فروغ تیز رفتار رہا ہے۔ چین خود بہت بڑی مارکیٹ ہے، اس لیے بہت بڑے پیمانے پر پیداواری عمل اس کیلئےہر اعتبار سے موزوں اور سودمند ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک اس معاملے میں اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ امریکا نے محسوس کرلیا ہے کہ یورپ اپنی راہ بدل رہا ہے اور ہر معاملے میں اس کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ یورپ وہی کر رہا ہے، جو عقل کا تقاضا ہے۔ یورپ کی بیشتر قوتیں افریقا اور ایشیا کے حوالے سے اپنی پالیسیاں تبدیل کرچکی ہیں۔ وہ اب سوفٹ پاور(Soft Power) پر یقین رکھتی ہیں۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ ہر معاملے کو ہارڈ پاور(Hard Power) کے ذریعے درست کرنا نہ صرف یہ کہ ممکن نہیں بلکہ بہت سی خرابیوں کی راہ بھی ہموار کرتا ہے۔
یورپ میں امریکاکاسب سے بڑااتحادی برطانیہ خودسیاسی انتشارمیں مبتلاہوگیاہے اوربریگزٹ کے معاملے پروزیراعظم ٹریزا مے کواپنے خلاف عدم اعتمادکی تحریک کاخدشہ بھی ظاہرکیاجارہاہے کیونکہ خودان کی جماعت کے24/ارکان نےاس معاملے پران کی حمائت سے ہاتھ کھینچ لیاہے۔ادھر
سابق وزیرخارجہ بورس جانسن نے اتوار کو میل آن لائن میں ایک آرٹیکل میں برطانوی وزیراعظم کے بریگزٹ منصوبے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ” انہوں نے برطانوی آئین کو خودکش جیکٹ پہنا کر اس کا ڈیٹونیٹر برسلز کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ چیکر ڈیل نے برطانیہ کیلئے دائمی سیاسی بلیک میلنگ کی راہ ہموار کر دی ہے۔ بجائے ایک فیاضانہ فری ٹریڈ ڈیل لینے کے برطانیہ”یس سر، نوسر” کہہ رہا ہے یورپی یونین برطانیہ کو دھمکا رہی ہے، اب تک مذاکرات کی ہر سطح پر برسلز نے جو چاہا وہ حاصل کیا آخر برطانیہ کا ردِّعمل اتنا کمزور کیوں ہے؟”۔بورس جانسن نے رواں برس جولائی میں اس وقت کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا جب کابینہ نے اس معاہدے کی منظوری دی تھی۔ادھربرطانوی وزیر اعظم نے انکشاف کیا ہے کہ جب ان کو الیکشن کے نتائج کا علم ہوا جس سے بات واضح ہوئی کہ وہ اکثریت کھو بیٹھیں گی تو میرے آنسو نکل آئے۔ ان کے شوہر نے ان کو خبر سنائی اور یہ خبر ان کے لیے ایک دھچکہ تھی۔میرے شوہر نے مجھے گلے سے لگایا اور میں کچھ دیر روئی کیونکہ الیکشن سے قبل کنزرویٹو جماعت کو لیبر پر 20 پوائنٹس کی برتری حاصل تھی لیکن انتخابات میں نہ صرف یہ برتری کھو دی بلکہ 22 سیٹیں بھی کھو دیں۔
اس حوالے سے چار پانچ سال کے دوران چین نے باقی دنیا سے اپنا معاشی رابطہ بہتر بناتے ہوئے”بیلٹ اینڈ روڈ” منصوبہ تیار کیا ہے۔ انہی خطوط پر چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر چین پاک اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) شروع کیا ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان کی بھرپور ترقی کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔ سی پیک کی مجموعی مالیت کم و بیش 60؍ارب ڈالرہے۔امریکا اور یورپ کیلئےسی پیک واضح طور پر خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کے خلاف پروپیگنڈا بھی تیز کردیاگیا ہے۔امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان سی پیک پر نظرثانی کرے اور جہاں تک ممکن ہوسکے، اس منصوبے کوایسابنادے کہ اس سے پاکستان میں کوئی مثبت تبدیلی آئے نہ خطے میں۔اس مقصدکے حصول کیلئےبھارت کے ساتھ ساتھ بنگلادیش کو بھی متحرک کیا گیا ہے۔ بھارت کو اس بات پر اعتراض ہے کہ سی پیک سے جڑے ہوئے منصوبے مقبوضہ کشمیر میں بھی شروع کیے جارہے ہیں، جو متنازع علاقہ ہے۔
عمران خان نے وزیر اعظم بننے سے قبل کئی بار یہ کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف یاکسی بھی عالمی ادارے سے قرضوں کا پیکیج لیناپسند نہیں کریں گے مگروزیر اعظم کا منصب سنبھالتے ہی انہوں نے اس حوالے سے بھی یو ٹرن لے لیا اور صاف کہہ دیا کہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لیےبغیر بات نہیں بنے گی کیونکہ قومی خزانے میں کچھ نہیں۔ملک کوبڑے پیمانے پرترقیاتی اقدامات کی ضرورت ہے۔آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینے کے اعلان پرعمران خان کواندرونِ ملک تو خیرتنقیدکاسامناکرناہی پڑا،بیرونی محاذپرباضابطہ مورچہ کھول لیاگیا۔امریکاکواسی موقع کی تلاش تھی۔ پاکستان کیلئےآئی ایم ایف سے قرضوں کاحصول ناگزیرہے اوردوسری طرف امریکاچاہتاہے کہ آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان پرایسی شرائط نافذ کرا دے کہ جنہیں پوراکرنے میں اس کی ساری ترقی دھری کی دھری رہ جائے۔ایک طرف چین سی پیک کے حوالے سے پہلے مرحلے میں کم و بیش 19؍ ارب ڈالر کے منصوبوں کوپایۂ تکمیل تک پہنچانے کی منزل کے بہت نزدیک ہے اور دوسری طرف عمران خان سی پیک پرنظرثانی کاعندیہ دے رہے ہیں۔یہ سب کچھ چین کیلئےغیر معمولی تشویش کاباعث ہے کیونکہ سی پیک سے متعلق تمام معاہدے ریاستی سطح پر ہوئے ہیں اور نظرثانی کے ذریعے ان میں کوئی بڑی تبدیلی غیر معمولی منفی نتائج بھی پیدا کرسکتی ہے۔
امریکا چاہتا ہے کہ سی پیک میں غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی جائے۔ اس کیلئےاس نے دو ڈھائی سال سے یہ راگ تواتر کے ساتھ الاپا ہے کہ چین نے کئی ممالک کو قرضوں کے جال میں جکڑ لیا ہے اور اب پاکستان کو بھی قرضوں کے شکنجے میں کسنا چاہتا ہے۔ امریکا کے علاوہ یورپ کے میڈیا آؤٹ لیٹس بھی سی پیک کے حوالے سے تحفظات پھیلانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ پاکستانیوں کو باور کرایا جارہا ہے کہ سی پیک کی تکمیل سے پاکستان عملاً چین کا غلام ہو جائے گا۔ چین نے بارہا وضاحت کی ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ امریکا اور یورپ نے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کو تیاری سے پہلے ہی متنازع بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
15/اکتوبر2018ء کو چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لوکانگ نے میڈیا کو بریفنگ کے دوران بتایا کہ چین آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو بیل آؤٹ پیکیج دیے جانے کے حوالے سے سی پیک اور دیگر امور کا جائزہ لینے کا حامی ہے۔ ترجمان کے مطابق پاکستان کو قرضوں کا پیکیج دینے سے قبل بہتر ہے کہ سی پیک اور پاکستانی قرضوں کا بھرپور جائزہ لیا جائے، تاہم یہ سب کچھ حقیقت پسندی کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ پاک چین تعلقات کو نقصان نہ پہنچے۔ لوکانگ نے کہا کہ سی پیک دو ممالک کے درمیان طویل مشاورت کے بعد طے پانے والا معاہدہ ہے، جسے آسانی سے ختم یا تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں کسی بھی بڑی تبدیلی کیلئےغیر معمولی دانش مندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
چینی دفتر خارجہ کی بریفنگ اس بات کا مظہر ہے کہ چین اب بھی سی پیک کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے اور اس پر نظر ثانی سے متعلق خبروں کا سنجیدگی سے نوٹس لے رہا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ سی پیک پرنظرثانی کی جائے اوراس سے جڑے تمام منصوبوں کوایسے مقام پرپہنچایاجائے جہاں یہ کسی کام کے نہ رہیں۔ یہ پاکستان کیلئےبھی بہت مشکل مرحلہ ہے۔ ایک طرف اسے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج بھی لیناہے اوردوسری طرف چین سے اپنے خصوصی تعلق کوبھی سنبھال رکھناہے۔یہ گویادودھاری تلوارسے بچنے کامعاملہ ہے۔امریکاکی مرضی بظاہریہ ہے کہ اس مرحلے پرچین اورپاکستان کے تعلقات زیادہ بارآورثابت نہ ہوں اوردونوں ممالک مل کر روس اور ترکی کے اشتراک سے ایشیا کوعالمی سیاست ومعیشت کامرکزبنانے کے حوالے سے زیادہ کامیاب نہ ہوں۔ اس مقصد کا حصول یقینی بنانے کیلئےامریکاجوکچھ کرسکتاہے وہ کررہاہے۔ایسے میں پاکستان کوثابت کرناہے کہ وہ اپنے مفادات کوزیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کیلئےکسی بھی ملک کے دباؤکوایک خاص حد تک ہی برداشت کرسکتاہے۔نئی حکومت اگر دانشمندی سے اس دباؤ سے باہرنکل آئی توممکن ہے قوم ان کے “یوٹرن”کے مسقل روّیےکومعاف کردے۔