ترک سعودی:نیابحران

:Share

ترکی اور سعودی عرب کے درمیان ایک نیابحران جنم لے رہاہے،اور شاید یہ تنازع ماضی میں ہونے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے بھی زیادہ سخت اور نقصان دہ ثابت ہو۔ترکی People’s protection unit (YPG) کو کردستان ورکر پارٹی (PKK) کی ایک شامی شاخ سمجھتاہے، جوان کی نظرمیں ایک دہشتگردگروہ اوران کے امن کیلئے خطرہ ہے اوریہی بحران کی وجہ ہے۔ ترکی کا بنیادی مقصد اب YPG کی موجودگی کا شمالی شام سے مکمل طورپرخاتمہ کرناہے،اسی سلسلے میں ترکی اب تک دو بڑے فوجی حملے بھی کرچکا ہے اوراب تیسرے کی تیاری کررہا ہےمگر سعودی عرب اسی YPG کے ساتھ اپنے تعلقات کومضبوط کررہاہےاوراُس کی اس کوشش میں اس کے اتحادی متحدہ عرب امارات اورمصر بھی شامل ہیں۔
ترکی اور سعودیہ کے تعلقات پہلے کی طرح بہتر ہو سکتے ہیں، جیسے کہ 2000ء میں تھے۔ 2010ء میں سلطنت کی طرف سے اُس وقت کے وزیرِ اعظم طیب اردگان کو اسلام کی خدمت کرنے پرملک کے سب سے بڑے اعزاز’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘سے نوازاگیامگرجب عرب میں حکومت مخالف مظاہروں کاآغازہواتودونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کوآہستہ آہستہ اور منظم طریقے سے خراب کیا گیا۔ ترکی نے پوری صورتحال کاپُرجوش طریقے سے مقابلہ کیااور اپنی کوششوں کے ذریعے مصر کے ساتھ تعلقات کوبہترکیاجس کے صدر اخوان المسلمو ن کے محمد مرسی تھے مگر سعودیہ نے اُس وقت احتیاط سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔سعودی حکمرانوں کویہ ڈرتھاکہ عرب میں ہونے والی بغاوت کہیں اسلام پسندوں اوردیگراپوزیشن گروہوں کومزید مضبوط نہ کردےاوروہ اس لیے بھی فکرمند تھے کہ اخوان المسلمو ن کی مبینہ ایران ہمدردیاں کہیں سلطنت میں توازن کو قائم کرنے کی کوشش کو کمزور نہ کردیں۔
سعودی عرب نے ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کسی نہ کسی طرح قائم رکھے بلکہ جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شام کی دلدل میں بھی کودنے کا فیصلہ کرلیا، تاکہ شام میں بشارالاسد کی حکومت کو ختم کیا جا سکے۔جبکہ 2013ء میں مصر میں ہونے والی فوجی بغاوت پر دونوں ممالک کا مؤ قف بالکل مختلف ہےمگر اس کے باوجوددونوں ملکوں نے شام میں تعاون جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جیسا کہ اپریل 2015ء میں دونوں کی مددسے’’جیش الفتح‘‘کاقیام عمل میں آیاجوکہ سنی اسلام پسند باغی گروہوں کااتحادتھاجس نے آنے والے مہینوں میں حکومت کے خلاف شمالی اورجنوبی حصے میں اہم کامیابیاں حاصل کی۔
جیش الفتح کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے، روس نے ستمبر 2015ء میں شام میں براہِ راست فوجی مداخلت کا آغاز کردیا۔ جس نے حتمی طور پر طاقت کا توازن حکومت کی طرف منتقل کردیا۔ شام میں روس کی مداخلت نے جغرافیائی سیاست اور منظرنامے کو بالکل تبدیل کر کے رکھ دیا، کیونکہ اب سعودی عرب کی دلچسپی اسد حکومت کو ختم کرنے میں نہیں رہی اور ترکی کی توجہ شمالی شام میں YPG کی بڑھتی ہوئی تعداد پر مرکوز ہے۔
ترکی سعودی عرب تعلقات میں سب سے نازک مرحلہ جون 2017ء میں آیا، جب سعودیہ اور اُس کے ساتھ مصر،بحرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور کافی سخت اقدامات کیے گئے اور مکمل طور پر ناکہ بندی کردی گئی۔اس بحران کے دوران ترکی نے مکمل طور پر قطر کا ساتھ دیا،کھانے پینے کا سامان بھیجا گیا تاکہ کسی قسم کی غذائی قلت نہ ہواورسب سے اہم یہ کہ اپنی افواج کوقطرمیں تعینات کردیا گیا۔ ترکی کاقطرنوازمؤقف سعودی عرب اور اُس کے اتحادیوں کیلئے پریشانی کاباعث بن رہاتھا۔اسی لیے اس بحران کوختم کرنے کیلئے کیےگئے مطالبے میں ترک فوج کی چوکیوں کے خاتمے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
سعودی عرب نے بہت جلداپناردِّعمل ظاہرکر دیا۔ بحران شروع ہونے کے پانچ دن بعد ہی ترکی کے ایک حکومت نواز اخبار Yeni Safak نے اطلاع دی کہ سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات نے YPG کےساتھ ایک خفیہ ملاقات کی ہے۔اخبار میں شائع ہونے والی تصویرسے پتاچلتا ہے کہ یہ ملاقات ایک دفترمیں ہوئی جہاں پرعبداللہ اوکلان کی تصویردیوارپرموجود تھی جو کہ کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے بانی ہیں اور اس وقت ترکی کی ایک جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
آنے والے مہینوں میں بات مزید آگے بڑھی۔جیسے کہ اکتوبر2017ء میں سعودی وزیربرائے خلیجی امورتمرالسبحان نے YPG کی نگرانی میں Brett McGurk کے ساتھ Raqqa شہر کا دورہ کیا، جو کہ اُس وقت امریکا کی طرف سے داعش کے خلاف ہونے والے اتحاد کے خصوصی نائب بناکر بھیجے گئے تھے تاکہ شہرکی تعمیرِنوکے حوالے سے بات چیت ہوسکے۔ایک سال سے کم عرصے کے دوران ہی، اگست 2018ء میں سعودی عرب نے اُن علاقوں کی تعمیراتی منصوبوں کیلئے سو ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا جو کہ پہلے داعش کے قبضے میں تھے مگر اب YPG کی نگرانی میں ہیں، اور اکتوبر 2018 تک مکمل ادائیگی کر دی گئی۔
مالی اوراقتصادی تعلقات کے علاوہ،سعودی عرب اور اِس کے اتحادی YPG کے ساتھ عسکری معاونت کیلئے تیارنظر آتے ہیں۔ اس وقت ترک ذرائع ابلاغ پراس قسم کی کافی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے فوجی حکام اور YPG کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان ملاقاتوں کے کیا نتائج نکلتے ہیں یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ لیکن ترکی اور اس کا ذرائع ابلاغ تمام صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ جس کے نتیجے میں اس وقت ترکی میں سعودی عرب مخالف جذبات شدت اختیارکرگئے ہیں اورشاید مستقبل قریب میں اس میں مزید اضافہ ہو۔اور اب یہ کوئی حیرت کی بات نہیں رہی کہ حکومت نوازکالم نگارسعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو واضح طورپرترکی کادشمن قراردے رہے ہیں۔
یقیناً2018ء ترکی اورسعودی عرب تعلقات کیلئے ایک مشکل سال تھامگرشاید 2019ءمزیدبدترہو۔اگر ابھی کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے توموجودہ صورتحال یہ بات ظاہرکررہی ہے کہ دو طرفہ بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں