یہ ۱۸۳۸ء کی بات ہے، ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ آکلینڈ کو افغانستان کے حوالے سے اب ایک اہم فیصلہ کرنا تھا۔ روس کے ساتھ جاری تجارتی مخاصمت میں ایسٹ انڈیاکمپنی پچھڑنے لگی تھی اوراس صورتحال میں تبدیلی کیلئےضروری تھا کہ افغانستان میں اپنی پوزیشن کومضبوط کیاجائے۔ کابل کابارکزئی حکمران،امیردوست محمد خان، برطانوی مفادات کیلئےمعاون ثابت نہیں ہورہا تھا۔ اس کی پنجاب کے حکمران رنجیت سنگھ کے ساتھ پشاور کے علاقے پر سخت کشمکش جاری تھی اور رنجیت سنگھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کا حلیف تھا۔ دونوں سے بیک وقت دوستی رکھنا ناممکن ہو رہا تھا۔ رنجیت سنگھ کو ناراض کرنے کا مطلب افغانستان تک براہ راست رسائی میں ایک بڑا تعطل ہوتا جبکہ کابل آسان ہدف تھا کیونکہ وہاں پر اندرونی خلفشار کی وجہ سے استحکام کا شدید فقدان تھا۔
صورتحال کو دیکھتے ہوئے گورنرجنرل نے افغانستان پر حملہ کرنے کافیصلہ کرلیا۔ہدف یہ تھا کہ وہاں پر حکمران کی تبدیلی عمل میں لاکر روس کے مقابلے میں اپنی پوزیشن بہتربنائی جائے۔لارڈآکلینڈنے اس ضمن میں’’شملہ فرمان‘‘ جاری کردیااورافغانستان پرحملے کی تیاری شروع ہوگئی۔ بنیاد یہ بتائی گئی کہ دوست محمد خان روسی مفادات کیلئےکام کررہاہے اوراس کی سرکوبی ضروری ہے۔ رنجیت سنگھ سے رابطہ کیا گیا، اس نے حملہ میں ساتھ دینے کی حامی بھر لی لیکن ساتھ ہی دو شرائط بھی عائد کردیں۔ اوّل یہ کہ اس کی افواج کابل پر حملہ میں توساتھ دیں گی لیکن وہ وہاں پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئےٹھہریں گی نہیں ۔ دوسرا برطانوی فوج کو پنجاب سے گزر کر افغانستان جانے کی اجازت نہیں ہوگی،اس کیلئےانہیں کوئی اور راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ برطانیہ نے کچھ ردّوکد کے بعد یہ دونوں شرائط مان لیں کیونکہ اس اہم معرکہ کیلئےوہ رنجیت سنگھ کی فوجی مدد سے ہاتھ دھونا نہیں چاہتے تھے۔
اب مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ افواج اور ساز و سامان کی نقل و حرکت کیلئےکون سا راستہ اختیار کیا جائے۔ فوجی منصوبہ سازوں نے فیصلہ کیا کہ رنجیت سنگھ کی فوج درہ خیبر سے حملہ آور ہو گی اور برطانوی دستہ درہ بولان کے راستے افغانستان میں داخل ہوگا اور سندھ سے گزر کر وادی بولان پہنچا جائے گا۔ سندھ میں اس وقت تالپور خاندان حکمران تھا۔ان کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی نے فوری طورپر’’دائمی دوستی‘‘ کامعاہدہ کیااورساتھ ہی اپنی فوج کیلئےراہداری مانگ لی ،جو انہیں فوراً ہی دے دی گئی۔بہرحال، طے شدہ پلان کے مطابق دونوں اطراف سے افغانستان پر حملہ ہوا اور ناقابل یقین سرعت سے حملہ آور افواج کابل تک جاپہنچیں۔ دوست محمد خان کی حکومت ختم ہو گئی اور اگست ۱۸۳۹ء میں کابل کا تخت شاہ شجاع کے حوالے کر دیا گیا۔ ۱۸۴۰ء میں دوست محمد خان نے خودکوایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کردیااوراسے ایک قیدی کی حیثیت میں ہندوستان بھیج دیا گیا۔
اب کہانی کا اگلا موڑ آتا ہے۔ دنیا کی جنگی تاریخ میں ایک جنرل ایسا ہے جس نے بہت سی جنگوں میں فاتح کا کردار ادا کیا تاہم اس کا ذکر کچھ خاص کیا نہیں جاتا۔ وہ جنرل ہے ’’موسمِ سرما‘‘ نپولین اور ہٹلر کو روس میں اسی جنرل نے اصل شکست دی۔ برطانیہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہونے جا رہا تھا۔ دسمبر ۱۸۴۱ء میں دوست محمد کے بیٹے وزیر محمد اکبر خان نے کابل میں حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا اور وہاں پر تعینات برطانوی نمائندہ (فی الواقع اصل حکمران) ولیم مکاہٹن کو قتل کردیا۔ یہ بغاوت تیزی سے پھیل گئی، ایک ماہ کے اندر برطانوی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور انہوں نے جلال آباد کی طرف پسپائی کا سفر شروع کیا۔ یہ سفر برطانوی فوجی تاریخ کا بھیانک ترین باب ثابت ہوا۔ کابل سے نکلے۱۶۵۰۰؍نفوس میں سے صرف ایک،ڈاکٹرولیم برائڈن زندہ سلامت جلال آبادپہنچ سکے۔باقی سب کودشوار گزار راستوں اورسخت موسم نے لاچارکر دیااور حملہ آوروں نے انہیں چُن چُن کرقتل کردیا۔ستم ظریفی دیکھیےکہ اس جنگ کے بعدکابل کاتخت پھرسے دوست محمدخان کومل گیا اور تمام تر تباہی کے بعد صورتحال پھر جوں کی توں ہوگئی۔
مندرجہ بالا معرکہ کو’’پہلی افغان‘‘جنگ کہاجاتاہے۔ اس جنگ میں اتنی بڑی ہزیمت ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئےبہت پریشانی کا سبب تھی۔ اگر یہ ایک مثال بن جاتی تو ہندوستان پرقبضہ اورایک برترفوجی طاقت ہونے کاتاثر،دونوں ہی خطرات کا شکار ہو سکتے تھے۔ اس لیے اپنا رعب برقرار رکھنے کیلئےکوئی جنگ جلد ازجلد جیتنا ازحد ضروری تھا۔بڑی طاقتوں کی نفسیات بھی بلی کی طرح ہوتی ہیں۔جب پاؤں جلتے ہیں تواپنوں کو ہی پاؤں تلے دے کر بچاؤ کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب کہ قرعہ فال ’’دائمی دوستی‘‘والے تالپورخاندان اورسندھ کی سرزمین کے نام نکلا۔ چارلس نیپیئر کی سربراہی میں فوج سندھ کی جانب روانہ کی گئی۔ اس وقت کے حکمران میر ناصر خان تالپور نے چارلس نیپیئر سے مذاکرات کیے اوراس کی لگ بھگ تمام شرائط تسلیم کرلیں۔ یہ طے ہوا کہ نیپیئر اپنی افواج کو پیچھے ہٹالے گا۔اس نے ایسا کرنے کاحکم بھی دے دیا لیکن پھرپلٹ کرحملہ کردیااورفروری ۱۸۴۳ء میں’’میانی‘‘کے مقام پردونوں فوجوں کاٹکراؤ ہوااورانگریزی افواج نے فیصلہ کن فتح حاصل کرلی۔ پورے سندھ پربرطانیہ کا قبضہ ہوگیاجو قیامِ پاکستان تک جاری رہا۔
کہاجاتا ہے کہ افغانستان کو سمجھنے کیلئےپہلی افغان جنگ کو دیکھ لینا کافی رہتا ہے۔ اس کے بعد کے تمام معرکے قریباً اسی کا’’ایکشن ری پلے‘‘ ثابت ہوتے آئے ہیں۔ بیرونی جارحیت کیلئےکسی ’’مناسب‘‘ سی وجہ کی تشکیل، جارحیت کا ارتکاب ،جارح کی تیزی سے کامیابی،پھراس کے خلاف بغاوت اوربالآخر تھکے ہارے جارح کی واپسی۔ یہی نہیں۔ اس میں سندھ اور تالپوروں والی تاریخ بھی دہرائی جاتی ہے۔
وہ برطانیہ کا معاملہ تھا۔ اب معاملہ امریکا سے ہے،یہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ انہوں نے تو جنگ ہارنے کے بعد اپنے حلیفوں پر حملہ کیا تھا، امریکا نے تو سوویت یونین کے خلاف جنگ جیتنے کے فوراً بعد پہلی پابندیاں اپنے حلیف پاکستان پر لگائی تھیں جبکہ اس وقت تو اسے افغانستان میں ایک عبرتناک شکست کاسامناہے، اب وہ کیوں نہ پاکستان پراپناغصہ نکالے گا؟ پاکستان نے ۲۰۰۱ء میں جب امریکاکاساتھ دینے کا فیصلے کیاتووہ دراصل امریکاکاساتھ نہیں تھا،وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کے پریشرسے مجبورتھا،جسے عوامی جمہوریہ چین نے پیش کیااوراسے سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ممبران کی پوری حمایت حاصل تھی۔ تاہم اس وقت کئی پاکستانی سیاسی تجزیہ نگاروں نے امریکاکی سابقہ تاریخ کے پیش نظرجنرل مشرف کوبہت سمجھایاکہ ایک دن یہ بات اقوام متحدہ کے بجائے اس کے اورامریکا کے درمیان قضیہ بن کر سمٹ آئے گی لیکن ڈکٹیٹر اپنے اقتدارکودوام بخشنے کیلئے ایک ہی فون کال پرامریکاکی ساری شرائط کے سامنے ڈھیرہوگیااورامریکاکوپاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جس کے نتیجے میں پاکستان اب تک ۱۱۰/ارب ڈالر کے نقصان کے ساتھ ساتھ ۷۰ہزارسے زائدپاکستانی جانیں قربان کرچکاہے اوروہ دن بالآخرآگیاکہ آج قصرسفیدکافرعون افغانستان میں بری طرح شکست کھانے کے بعدپاکستان کوبھی اپنی ہزیمت کاذمہ دارٹھہرارہاہے۔ چارسال پہلے “ضرب عضب “آپریشن شروع کرنے کے بعدیہ فیصلہ کیاگیااب پاکستان اپنی سلامتی کیلئےاپنے تمام آپشنزامریکاکے حوالے نہیں کرے گاجوکہ اس کاجائزحق ہے۔
آج پوزیشن یہ ہے کہ نہ وہ چین امریکا کے ساتھ کھڑا ہے، جس نے سلامتی کونسل کی قرارداد ڈرافٹ کی اور نہ ہی روس امریکا کے ساتھ ہے، جس نے سلالہ حملے کے بعد امریکا کیلئےشمالی کوریڈور فراہم کیا۔ اب حلیف بھی بدل چکے ہیں اور حریف بھی۔ امریکا کا بے بھاؤ تاؤ یہ بتانا ہے کہ وہ ہزیمت کے اعلان سے پہلے پاکستان کو زَک پہنچانے پر آمادہ ہے، تاکہ اس کی مجروح انا کی تسکین ہوسکے۔ لیکن امریکا کیلئےیہ سب براہ راست کرنااگرناممکن نہیں توآسان بھی نہیں ہے۔ امریکا کی کوشش ہے کہ ایک پنتھ دو کاج کا معاملہ کیا جائے اور پاکستان کو بھارت سے یہ نقصان پہنچے تاکہ پاکستان کی سبکی بھی ہو اور بھارت کو علاقائی سپر پاور کا باقاعدہ درجہ بھی حاصل ہو جائے۔ یہ چین کو محدود کرنے کی پالیسی کا اہم ترین حصہ بھی ہے۔
قصرسفیدنے اپنے پہلے سٹیٹ خطاب میں افغانستان میں طالبان کوکھلی دہمکیوں سے ایک مرتبہ پھرخوفزدہ کرنے کی کوشش کی جس میں بین السطور پاکستان کیلئے بھی اہم پیغامات موجودتھے۔یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی افغانستان کے حوالے سے جارحانہ حکمتِ عملی کے بعد پینٹاگون نے پہلی دفعہ امریکی فوج کے خصوصی دستوں کی جانب سے کیے گئے آپریشنز کی تفصیلات جاری کی ہیں۔ جس میں ٹرمپ کے آنے کے بعد طالبان، حقانی نیٹ ورک اور داعش پر حملوں کی تعداد میں اضافہ توضرورہوا ہے لیکن کسی کامیابی کاتذکرہ نہ کرسکے۔
پینٹاگون کی جانب سے جاری کی جانے والی ششماہی رپوٹ کے مطابق یکم جون سے لے کر ۲۴ نومبر تک امریکی جوائنٹ اسپیشل آپریشنز ٹاسک فورس برائے افغانستان (JSOTF) نے’’۲۱۷۵‘‘زمینی آپریشن کیے،جن میں افغانستان کے فوجی کمانڈو بھی ساتھ رہے۔
اگرچہ اعدادوشمارمیں ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کا واضح عکس دکھائی دیتا ہے ،جس کے تحت انھوں نے مقامی کمانڈروں کو کارروائیاں کرنے کے حوالے سے کافی حد تک خود مختاری دی تھی،لیکن ان اعدادوشمار کے ذریعے آپریشنز کی کامیابی، ان کے اثرات اور ان کی نوعیت کا موازنہ کرنے کے بعدتصویر انتہائی بھیانک شکست کاپتہ دیتی ہے۔۱۵ دسمبر کوکانگریس کے سامنے پیش کی گئی اس تازہ ترین رپوٹ میں کہاگیا ہے کہ امریکی خصوصی فوج کے دستوں نے افغانستان میں انسداد دہشت گردی کیلئےجو آپریشن کیے ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ داعش کے خلاف ۴۲۰ زمینی آپریشن کیے گئے جبکہ ۲۱۴ فضائی حملےکیے گئے ،جس کے نتیجے میں داعش سے تعلق رکھنے والے ۱۷۴؍لوگ مارے گئے۔ان میں عراق اورشامی داعش کے سربراہ ابو سعید بھی شامل ہیں ۔جن کی موت کا ذکر۱۱؍جولائی کو پینٹاگون کی ترجمان Dana W. White نے بھی اپنے بیان میں کیا تھا۔ان کو کنڑ میں موجود اس گروہ کے ہیڈ کواٹر میں مارا گیا۔
۲۔ طالبان کے خلاف ۱۶۴۴؍زمینی اور۱۸۱؍فضائی حملے کیے گئے،جن میں۲۲۰ عسکریت پسند مارے گئے۔
۳۔ حقانی نیٹ ورک کے خلاف ۶۸ زمینی اور۲۸ فضائی کارروائیاں کی گئیں ،جن کے نتیجے میں۳۴؍افرادہلاک ہوئے۔
۴۔ دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف ۴۳؍آپریشن کیے گئے،جن کے نتیجے میں ۳۶؍افرادمارے گئے۔
اس رپورٹ میں حملوں کے نتیجے میں مارے جانے والے بے گناہ افراد کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا، جن کے بارے میں خودامریکااورمغرب میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے دور صدارت میں بے گناہ افراد کی ہلاکت میں خطرناک حدتک اضافہ ہوا ہے۔
Kenneth Katzman جو کہ کانگریشنل ریسرچ سروس کے تجزیہ نگار ہیں اور افغانستان کے حوالے سے خصوصی تجربہ رکھتے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ اس رپورٹ کو شائع کرنے کا مقصد بھی یہی لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں اپنائی گئی جارحانہ پالیسی کاثبوت دیاجاسکے کہ ٹرمپ اس جنگ کو روکنےکی بجائے جیتنا چاہتے ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل متضادہیں۔
Katzman کا یہ بھی کہنا ہے کہ بظاہریہ طالبان کیلئےبھی ایک اشارہ ہے کہ وہ مستقبل قریب میں کوئی فوجی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ پُرامن طریقے سے مذاکرات پر راضی ہو جائیں لیکن طالبان نے حالیہ جارحانہ حملوں میں اضافہ کرکے ٹرمپ کومزیدزچ کردیاہے ۔۲۰۰ فوجیوں پر مشتمل اسپیشل آپریشن ٹاسک فورس میں ۱۲۰۰؍فوجی وہ بھی ہیں جن کوہرطرح کے حالات سے نمٹنے کی خصوصی تربیت دی گئی ہے۔ اس فورس کے ترجمان میجر انتھونی کا کہنا ہے کہ اس فورس میں مختلف مشیر اور دیگر ماہرین بھی شامل ہیں اور یہ فورس افغانستان میں تعینات ۱۴۰۰۰؍فوجیوں میں سے ہی ہے۔یہ اسپیشل آپریشن ٹاسک فورس افغان فوج کے کمانڈو یونٹ کی خصوصی تربیت پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اس مقامی فوج کی اہلیت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکے۔
ایئر فورس کے کرنل مائیکل اینڈریو جو کہ پینٹاگون کے ترجمان ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ سال ہماری فوج اور خاص کر کمانڈو یونٹ کیلئےنہایت اہم تھا، اسی لیے اس کے اعدادوشمار پیش کیے گئے ہیں۔ امریکی کمانڈوز نے افغان فوج کے ساتھ مل کر اور ان کی مدد کیلئےبہت سے آپریشن کیے لیکن کیاوجہ ہے کہ ان جاری آپریشنزکے باوجود طالبان جب اورجہاں چاہیں اپنا طاقتوراورنڈروجودثابت کرنے میں اب تک کامیاب نظرآرہے ہیں ۔
ان حالات میں پاکستان کو اب اور بھی زیادہ چوکنا رہنا ہوگا، بالخصوص بھارت کے حوالے سےٹرائیکانے اس خطے میں اپنی ہزیمت سے نجات پانے اوربرتری حاصل کرنے کیلئے ایک خوفناک راستے پرعملدرآمدکافیصلہ کرلیاہے۔ پاکستانی میڈیا کو ایسی کسی بھی جعلی خبروں کو سرخیوں میں جگہ دینے سے گریز کرنا ہوگا جس میں بھارت میں کسی عسکریت پسند حملے کا ذکر ہو، نہ ہی ایسا کرنے والوں کے بارے میں بغیرکسی تحقیق کے کچھ لکھاجائے جس طرح کی غلطی ممبئی حملے کےوقت کی گئی۔ شنیدہے کہ بھارت اپنے کسی ہوائی جہاز کے اغواء یاپٹھانکوٹ جیسا ڈراماضرورکرے گا تاکہ اسے امریکا کی شہہ پرمغربی ممالک کی حمائت حاصل کرکے کسی فوجی اقدام کاجوازمل سکے۔ اگرہم اس حوالے سے نہیں چوکے توبھارت کیلئے کچھ کرنا بہت مشکل ہوگا،نیزدہشگردانہ کارروائی کے خلاف نیوکلیئر تنصیبات کی حفاظتی پیش بندی بھی نہایت اہم ہے۔
پاکستان کیلئےیہ صورتحال غیر متوقع نہیں۔ تاہم یہ افسوس ضرور ہے کہ ہم اپنی غیر سنجیدگی کے باعث خود کو معاشی طور پر مضبوط نہ کرسکے اور نہ ہی سیاسی طور پر مستحکم۔ اب بھی وقت ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کیلئے موجودہ ہارس ٹریڈنگ کا مکروہ دھندہ ختم کرکے اپنے اقتدارکومستحکم کرنے کی بجائے سیاسی استحکام کو موقع دیاجائے جس کیلئے عدلیہ پرلفظی جنگ سے فوری گریز کرناہوگا۔ یاد رہے، تالپوروں کی شکست میں یہ ایک بہت بڑاعنصرتھا۔