مجھے اس بات کاشدت سے احساس ہے کہ ہم پچھلی سات دہائیوں سے ایک ایسی شکستہ کشی کے سوارہیں جن کے پتوارہمیشہ سے اناڑی ملاحوں کے ہاتھ میں رہے ہیں اوروہ کشتی کو کنارے پرلگانے کی بجائے خطرناک طوفانوں کے لرزہ خیزبھنورمیں پھنساکرخودراہِ فراراختیارکرلیتے ہیں اورمسافر(قوم)ان دھوکہ بازوں سےجاں بخشی کیلئے سجدوں میں مناجات میں تو مصروف رہتی ہے لیکن آگے بڑھ کران کے ہاتھوں سے پتوارچھین کراس کشتی کارخ کنارے کی طرف موڑنے کی کوئی کوشش نہیں کرتی۔ان حالات میں بڑے سوزوگدازاورچیخ وپکار کے ساتھ پچھلی کئی دہائیوں سے ہرروزاپنے کالمزمیں پوری قوت کے ساتھ ڈھول پیٹ کرسوئی ہوئی قوم کوجگانے کی کوشش کررہاہوں لیکن بعض اوقات محسوس ہوتاہے کہ یہ قوم سونے کی ایکٹنگ کر رہی ہے جس کوجگانے کیلئے اب اسرافیل کے صورکی ضرورت ہے۔
دو برس قبل لندن میں عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے تیسری دنیاکے ذمے بے تحاشہ واجب الاداقرضوں کی ادائیگی کی مشکلات کے بارے میں ایک سیمینارمنعقدکیاگیاجس میں تیسری دنیاکے29ممالک اورترقی پذیرملکوں کے پانچ ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی،مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ یہ بتانا پڑرہاہے کہ اس اجلاس میں ہمارے مقتدرحلقوں کی لاپرواہی کایہ عالم تھاکہ کوئی ایک بھی نمائندہ اس میں شامل نہیں ہوا۔اس اجلاس کالب لباب ایک فقرے میں بتاناچاہتاہوں کہ مجھے خودآئی ایم ایف کے نمائندے نے شکائتی اندازمیں یہ کہاکہ آپ کی حکومت کوکس نے روکاہے کہ وہ اس معاہدے کوقوم کے سامنے لے آئے جس پرعمران خان کی حکومت نے جن شرائط پردستخط کئے تھے لیکن اپنی حکومت کو خطرے میں دیکھ کراس نے اس معاہدے کے پرزے کردیئے۔آپ اگرتحریری معاہدوں کایہ حال کرتے ہیں توپھرہم آپ پردوبارہ اعتمادکیوں کریں۔ پاکستان کوئی عام ملک نہیں بلکہ ایک نیوکلئیرطاقت کاحامل ملک ہے اورکیادیوالیہ ہونے کی صورت میں عالمی پابندیوں کابوجھ اٹھاسکے گاجبکہ آپ کے ملک کے پچاس فیصداثاثے تو ہمارے ہاں گروی پڑے ہوئے ہیں۔آپ ہماری ویب سائٹ پرجاکران تمام معاہدوں کی تفصیلات کیوں نہیں پڑھتے جہاں ہم نے ان تمام شرائط پر آپ کے حکمرانوں کے دستخط شائع کررکھے ہیں۔یقین کریں کہ اس کی یہ گفتگوسن کرمجھ پرگھڑوں پانی پڑگیااورمیں اب تک ندامت کے بحرقلزم میں غوطے کھارہاہوں۔خدارا،اب بھی وقت ہے کہ چہرے نہیں،نظام بدلیں۔نئے اورپرانے پاکستان کے نعرے لگانے والے چہروں نے ہمیں بربادکرکے رکھ دیاہے اور اب ایک مرتبہ پھرڈوبتی کشتی کے پتوارانہی کے ہاتھوں میں تھمادیئے ہیں۔
جب بھی کوئی سرکارگڈلائف کے پنجرے کی اسیرہوئی،اس کے نتیجے میں خلقت صرف حقیرہوئی۔عوام کے سامنے اپنے تمام عیوب،ناکامیاں گزشتہ حکومت پرڈال کرجان نہیں چھڑائی جاسکتی۔صرف ماضی کے ہی تذکرے نہ کریں،عوام کے علم میں سب کچھ ہے،اب باتوں کی بجائے عمل کرکے دکھائیں،عوام کودئیے گئے ریلیف سے ہی ان کے گریف ختم ہوں گے۔انسان کے جذبات ناقابل تسخیرہوتے ہیں۔مگریہ بھی توسوچیں کہ ان کے درد کے فاصلوں کو کیسے کم کرناہے ۔فاصلے توایک ہی جسم میں دل و دماغ کے درمیان دشمنی لگادیتے ہیں۔ایسے میں دل اپنانہ دماغ حالانکہ ان کی ورکنگ ریلیشن شپ سے ہی قدم آگے بڑھتے ہیں ۔ اب اس بیمارسوچ کوذہن سے کھرچ کرنکالناہوگاکہ ان دونوں کی لڑائی میں ہمارافائدہ ہے۔سیلاب اورزلزلہ جھونپڑی اورمحلات میں کوئی لحاظ نہیں رکھتا۔سرکارکادعوی ہے کہ ہم نے ملک کودیوالیہ سے بچالیاہے۔اگریہ واقعی پاکستان پہلے سے بہترہوگیا ہے ، لوگ توتب مانیں گے۔
تمہیں ملنے سے بہترہوگیاہوں
میں صحراتھاسمندرہوگیاہوں
صحرامیں سراب بھی کسی خوبصورت خواب سے کم نہیں دکھائی دیتاجس کی مرہون منت آنکھیں امیدسے”’تربتر”رہتی ہیں۔ امید کسی حال میں بھی نہیں ٹوٹنی چاہئے بصورت دیگرانجام اس عمارت کی طرح کاہوتاہے جولمحوں میں مسمارہوجاتی ہے۔امیدکو بارود کے ساتھ ساتھ ”نمرود” سے بھی بچانا ہوتاہے کیونکہ یہ زندگی کی سب سے واضح علامت ہوتی ہے ۔ یہ وہ سورج ہے جورات کوبھی روشن رکھتاہے۔امیدٹوٹ گئی توسمجھوکہ قسمت ہی پھوٹ گئی۔اب میڈیاپراس طرح فتح کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں جیساکہ جلدہی شہداوردودھ کی نہریں بہناشروع ہوجائیں گی لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سننے کومل رہاہے کہ ملکی معیشت کے لئے سخت فیصلے کرنے پڑے ہیں۔اوپرتبدیلی آگئی ہے مگرنیچے اسی طرح کے سخت فیصلے ہوں گے؟گستاخی معاف! اس کا مطلب تویہ ہواکہ صرف چہرے ہی بدلے ہیں۔اپنے اداروں کی توقیرکاخیال نہ کیاتوکل کلاں خودبھی بے آبروہونے میں دیرنہیں لگے گی۔
جب کبھی اسلامی معیشت کانام لیاجائے توچاروں طرف سے خودساختہ معاشی ماہرین کی طرف سے غریبوں کی فلاح وبہبود کیلئے سیون اسٹارہوٹلزمیں پھولوں سے سجی میزوں پرمنرل واٹر اور قیمتی کھانوں کے بے تحاشہ اخراجات کے بعد پروگرامزکی ایک لمبی فہرست ترتیب دی جاتی ہے جس میں ایسے پلان شامل کردیئے جاتے ہیں جن سے اہل اقتدارکیلئے لوٹ مارکاایک لامتناہی سلسلہ مستورہوتاہے جبکہ حقیقتاًاسلامی معیشت کاخلاصہ تین مختصرفقروں میں بیان کیاجاسکتاہے اوراس پراگرنیک نیتی سےعملدرآمدکیاجائے تواس کے بہترین نتائج سے ملک وملت کی تقدیربدلی جاسکتی ہے۔
اسلامی معیشت کاسب سے پہلااصول یہ ہے کہ ملک کاسب سے بڑھیاآدمی معاشی اعتبارسے سب سے گھٹیازندگی گزارے جیسے کہ خلفائے راشدین عملاًایساکرتےتھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورمیں مدینہ منورہ میں مفلسین مساکین کی ایک فہرست تیارکی گئی اوران کی درجہ بندی کی گئی۔جب فہرست تیارہوگئی توسب سے پہلے نمبرپرجونام آیاجوسب سے زیادہ مفلس تھا،وہ خودخلیفہ وقت حضرت عمررضی اللہ عنہ کانام تھا۔اس کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ عوام اپنےبڑوں کودیکھ کران کے طرززندگی کواپنانےکی کوشش کرتے ہیں اوران سے برابری کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ اسی کو معیار بناتے ہیں جس سے عوام میں حرص اورلالچ بڑھتی ہے۔پیسہ جمع کرنے کی ہوس بڑھتی ہے جس کے نتیجے میں حلال وحرام جائزناجائزکی تمیزختم ہو جاتی ہے اورمعاشرے میں جھوٹ،فراڈ،رشوت،سود خوری،ذخیرہ اندوزی وغیرہ وغیرہ ساری مصیبتیں درآتی ہیں اورجب سب سے بڑھیالوگ یعنی حکمران وغیرہ سب سے نیچے والا معیار زندگی اپنائیں گے توپھرکسی بھی شخص غربت افلاس وغیرہ پرکوئی شرمندگی اوراحساس محرومی نہیں ہوتا۔
دوسرا اصول اسلامی معیشت کایہ ہے کہ دولت کوبالکل بھی کسی بھی طرح جمنے نہ دیاجائے کہ وہ کسی ایک جگہ پرجم کررہ جائے بلکہ اس کوتوڑتے رہیں تاکہ ملکی دولت پرچنداشخاص کاقبضہ نہ رہے۔لہذاسب سے پہلے موجودہ بنک کے سودی نظام کو ختم کرناہوگا۔اس کافائدہ یہ ہوگاکہ لوگ بینکوں میں پڑاساراپیسہ باہرنکال کرمارکیٹ میں لائیں گے کاروبارکریں گے،کارخانے لگائیں گے جس سے ایک توبیروزگاری ختم ہوگی دوسری طرف مقابلے کی فضا قائم ہوگی جس سے ہرکوئی اپنی چیزبہترسے بہتراورسستی سے سستی بنانے کی کوشش کرے گااوراس سے عالمی سطح پرملکی پیداوارسب سے سستی بھی ہوگی اورمعیاری بھی۔۔یہ دوکام حکومت اورحکمران طبقہ کےکرنے کے ہیں۔
تیسرااصول اسلامی معیشت کایہ ہے کہ ضرورت سے زائد چیزیں پیسہ اپنے پاس نہ رکھاجائے بلکہ اسے اللہ تعالٰی کی راہ میں اس کی مخلوق پرخرچ کرتے رہیں،اپنے رشتہ داروں ماتحتوں نوکروں پڑوسیوں پرخرچ کریں جس کے نتیجے میں وہ بھی پورے اخلاص کے ساتھ آپ کے کام کاروبارمیں مددبھی کریں گے اوراس کے بڑھنے کی تمنابھی کریں گے اوردعائیں بھی دیں گے۔ بجائے اس کے کہ وہ غربا اورمساکین سے آپ سے حسد کریں اورنقصان پہنچانے کی کوشش کریں،چوری کریں،ڈاکہ ڈالیں اور رہزنی کرکے نقصان پہنچائیں۔بس یہی اسلامی معیشت ہے اوراس کیلئے ضروری ہے کہ آپ کاموجودہ نظام مکمل طورپربدلا جائے۔آج معاشی اوراقتصادی بدحالی اورسیاسی ابتری کی وجہ صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ ہم خودبھی ہیں جوان کو بار بارآزمانے کے باوجودان پراعتبارکرتے ہیں۔