Troubles For India In The Bay Of Bengal

اِنڈیاکاخلیج بنگال میں پنگا

:Share

ہم سب جانتے ہیں کہ امریکااپنے اتحادیوں سمیت چین کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی اورعالمی منڈیوں میں اس کے بتدریج غلبے سے بہت خائف ہے اورچین کے اس بڑھتے عروج کوکسی بھی صورت میں نئی سپرپاوربننے کی اجازت نہیں دے سکتا۔چین کی ساری ترقی کاراز دراصل اس کی صنعتی ترقی اوردنیاکی منڈیوں میں ضروریات زندگی کی سستی اشیاء کی ترسیل ہے جس کی بناءپرچین اس وقت دنیاکا مینوفیکچرنگ انجن کی شکل اختیارکرچکاہے۔پچھلے چندسالوں میں اپنی اس معاشی برتری کوقائم رکھنے کیلئے سی پیک سے لیکرون روڈون بیلٹ جیسے عالمی منصوبوں کے آغازاوربھاری سرمایہ کاری سے چین کی معاشی اجارہ داری کا گراف بہت بلند ہوگیاہے جس کوروکنے کیلئے امریکانے مغرب کی مددسے چین کے خلاف گھیراتنگ کرناشروع کردیاہے۔دنیاکی 90فیصدتجارت بحری راستوں سے ہورہی ہے اوراس تجارت میں خلیج بنگال کاایک کلیدی کردارہے۔

امریکانے اس راستے کی ناکہ بندی کیلئے چین کے خلاف خطے کے ممالک پرمشتمل”کواڈ” معاہدہ کاایک بلاک تیارکیاجس میں بھارت کوبھی شامل کیاگیاہے کیونکہ بھارت نے مغرب اورامریکی مفادات کے حصول کیلئے اس خطے میں اپنی خدمات اس لئےپیش کیں کہ وہ بھی اس خطے کے تھانیداربننے کاخواب دیکھ رہا ہے اوربی جے پی اورآرایس ایس جیسی فاشسٹ جماعتیوں کایہ عقیدہ ہے کہ جن ملکوں کوبحر ہندچھوتاہے،وہ تمام ممالک عظیم اور اکھنڈبھارت کاحصہ ہیں اوران ممالک کوبھارتی مرضی ومنشاءکے مطابق اپنے امورحکومت چلانے ہوں گے۔اس سلسلے میں اپنے دوستوں کے سامنے علاقے میں اپنی برتری ثابت کرنے کیلئے کئی مرتبہ لداخ اوردوسرے کئی مقامات پرچین سے رسواہوچکاہے بلکہ اپنی انہی حرکات کی بناء پرلداخ کے کافی بڑے علاقے سے بھی ہاتھ دھوچکا ہے اوراس وقت اس سارے علاقے پرچین کی عسکری عملداری ہے اوربھارت کے وہ پڑوسی ممالک جوچندبرس پہلے تک بھارت کی راجدھانی کے تابع تھے ،اب کھل کرچین کی مددسے بھارت کوآنکھیں دکھارہے ہیں اوربڑی حدتک اپنے تجارتی مفادکوبحارت سے الگ کرچکے ہیں جس میں سری لنکا،مالدیپ ، برمااور نیپال اپنے تمام تجارتی،سیاسی اوردفاعی امورچین کے ساتھ وابستہ کرچکے ہیں۔

ان وجوہات کی بناءپربحیرہ ہندمیں چین کااب بڑھتااثرورسوخ انڈیا کیلئےایک مشکل سوال بن کرسامنے آیاہے اوراسی بڑھتے اثر کا مقابلہ کرنے کے مقصدسے پچھلے کچھ برسوں میں انڈین بحریہ نے کئی دوست ممالک کے ساتھ مل کر بحیرہ ہند میں جنگی مشقیں کی ہیں۔اسی سلسلے میں انڈیانے بحیرہ ہند کے مشرقی علاقے میں اپنی صلاحیتوں کا امتحان لینے کیلئے امریکا کی بحریہ کے ساتھ دو روزہ “پیسکیس” بحری مشقوں سے آغاز کیا۔ان مشقوں میں انڈین نیوی کے جنگی جہاز شوالِک کے ساتھ ساتھ ہیلی کاپٹروں اور طویل دوری کے سمندری گشتی ہوائی جہازوں نے امریکی بحریہ کے جہاز یو ایس ایس تھیوڈور روز ویلٹ کرئیر سٹرائیک گروپ کے ساتھ حصہ لیا۔ کیرئیرسٹرائیک گروپ ایک بہت بڑابحری بیڑا ہوتاہ ے جس میں ایک ہوائی جہاز کیرئیر اور بڑی تعداد میں جنگی جہاز اور دیگر جنگی جہاز شامل ہوتے ہیں۔

اس کے بعدانڈیانے بحیرہ ہندمیں فرانسیسی جوائینٹ فورس کمانڈررئیرایڈمرل جیک فیارڈکی قیادت میں فرانسیسی بحریہ کاایک وفد نے ممبئی میں انڈیاکی بحریہ کی مغربی کمان کے فلیگ افسر کمانڈنگ ان چیف وائس ایڈمیرل ہری کمارسے ملاقات کی جہاں سمندری سکیورٹی سے منسلک معاملات پر بحری فوجوں کے درمیان مزید تعاون اور بحر ہندکے علاقے میں سمندری سکیورٹی پرمذاکرات ہوئے۔ان اہم مذاکرات کے نتیجے میں دوطرفہ سالانہ مشقیں اپریل2021 میں منعقد ہوئیں جن میں فرانسیسی نیوی کا کیرئیر سٹرائیک گروپ شامل تھا۔ایسا پہلی بار ہواکہ ان مشقوں میں انڈین بحریہ نے خلیج بنگال میں فرانسیسی بحریہ کی قیادت میں ہونے والی”لاپیروس “جنگی مشقوں میں حصہ لیا۔اس مشق میں حصہ لینے والے ممالک میں کواڈ کے دیگرملک،جیسے کہ آسٹریلیا،جاپان اور امریکا بھی شامل تھے ۔فرانس کی قیادت میں ہونے والی اس ڈرِل میں انڈیاکی شمولیت کوایک اہم قدم قراردیتے ہوئے گویاچین کوبراہِ راست خلیج بنگال پراپنے کنٹرول کاواضح
پیغام دیاگیا۔

اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اسی سال جنوری اور فروری میں بھی انڈین بحریہ نے اپنی سب سے بڑی جنگی مشق “ٹروہیکس” کا بھی انعقاد کیاجس میں نیوی کی آپریشنل تیاریوں اورصلاحیت کاجائزہ لیاگیا۔اس میں جہازوں،آبدوزوں اورہوائی جہازوں کے ساتھ ساتھ انڈین زمینی فوج اورفضائیہ اورکوسٹ گارڈنے بھی حصہ لیا۔2020 پرہی نظرڈالیں توواضح ہوجاتاہے کہ غیرملکی بحری فوجوں کے ساتھ انڈین بحریہ کی مشقوں میں مسلسل اضافہ دراصل خلیج بنگال پراپناتسلط ظاہر کرنا مقصودتھا۔اس کے بعدنسیم البہرنامی مشق میں انڈین بحریہ کےبیاس اورسومدراجہاذوں کے ساتھ رائل نیوی آف عمان جس میں الرسخ اور الخاصب جہازوں کے ساتھ گوا میں جنگی مشق کرکے پاکستان کوبھی پیغام دیاکہ چینی اشتراک کے ساتھ سی پیک کاراستہ بھی بلاک کیاجاسکتاہے۔اس کے بعدکووڈ19 کی وباکی وجہ سے مشقیں رک گئیں لیکن ستمبر آتے آتے بحری مشقوں کاسلسلہ پھربحال ہوگیا۔ستمبر 2020 میں انڈین بحریہ اورروسی بحریہ کے درمیان دو طرفہ مشقیں خلیج بنگال میں منعقد کی گیئں۔ستمبر کے ہی مہینے میں انڈین بحریہ اورجاپان میری ٹائم سیلف ڈیفنس فورس نے بحیرہ عرب میں مشقوں میں حصہ لیا۔

انڈین بحریہ نے اکتوبر2020میں بنگلہ دیشی بحریہ کے ساتھ “بونگو ساگر2020″کے نام سے خلیج بنگال کے شمالی حصے میں جنگی مشقوں کاانعقادکیا۔ اکتوبر 2020 میں ہی انڈین بحریہ نے چین کوپیغام دیتے ہوئے اس کے اتحادی سری لنکاکی بحریہ کے ساتھ خلیج بنگال میں “سلائینیکس”نامی جنگی مشقوں میں حصہ لیا۔اس کے دوران ہی انڈیاکے ایڈوانسڈ لینڈنگ ہیلی کاپٹرکی پہلی لینڈنگ سری لنکا کے بحری جہازگجباہوپرکی گئی۔اکتوبر2020میں انڈیانے رپبلک آف سنگاپورکی بحریہ کے ساتھ بحیرہ ہندکے مشرقی حصے میں جنگی مشقیں کیں اوراس کے بعدنومبر2020میں”مالابار”کے نام سے بحیرہ ہندمیں بین الاقوامی جنگی مشقوں کا انعقاد کیاجس میں کواڈ ممالک یعنی امریکا، جاپان اورآسٹریلیا کی بحری فوجوں نے بھی حصہ لیا۔نومبرمیں ہی انڈیانے سنگاپورنیوی اوررائل تھائی لینڈ نیوی کے ساتھ بحیرہ ہندکے مشرقی حصے میں”سِٹمیکس”نامی جنگی مشقوں کاانعقادکیا۔

“انٹرآپریبلٹی”اور”بیسٹ پریکٹِس”یعنی ایک دوسرے کے ساتھ مل کرکام کرنے کی صلاحیت اورایساکرنے کے بہترین طریقے،ان دونوں میں اشتراک کے مقصد سے انڈین بحریہ نے2020میں کئی غیر ملکی بحری فوجوں کے ساتھ مشقیں منعقدکیں۔فرانسیسی بحریہ،جاپانی سمندری دفاعی دستے،امریکی بحریہ اور آسٹریلوی نیوی کے ساتھ پیسیکس جنگی مشقیں اور بحرہندکے مشرقی علاقوں اور خلیج ادن میں کی گئیں مشقیں کرنے کامقصدخلیج بنگال میں چین کوکڑاپیغام دینے کے سوااورکچھ نہیں ہوسکتا۔اس پرمستزادیہ بھی کہ انڈین بحریہ باقاعدگی سے ایک مہینے میں ایک بارمالدیپ کے خصوصی معاشی زون کی نگرانی کرتی رہی ہے اور سیشلزاورماریشئیس کے جزائرپر وہاں دوبارجہازوں اورہوائی جہازوں کوتعینات کرکے ان کی نگرانی بھی کرتی رہی ہے۔

ان تمام مشقوں کوخطے میں سب سے زیادہ چین کیلئے جواہم پیغام تھااس کاجواب چین کیلئے اب ضروری ہوگیاکیونکہ خلیج بنگال کا محاصرہ گویااس کی صنعتی و معاشی ترقی کیلئے ایک گھمبیرخطرہ ہے،اسی لئے چین کو پچھلی دہائی کی نسبت بحیرہ ہندکے علاقے میں اپنی موجودگی کئی گنابڑھانی پڑی ہے۔اس لئے انڈین بحریہ کے دفاعی تجزیہ نگاربھی چین کی موجودگی کوایک چیلنج کے طور پردیکھ رہے ہیں جس کیلئے انڈیاکوبہت ہوشیاررہناہوگاکیونکہ اب خلیج بنگال میں چین کی ناکہ بندی کا خطرہ مول لینے کیلئے انڈیاکو بڑی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہےاوربراوقت آنے پرہزاروں میل دوربیٹھے اتحادی آپ کے ساتھ بھی وہی سلوک کرسکتے ہیں جس طرح یوکرین میں اسلحہ کی ترسیل توجاری ہے لیکن اپناکوئی فوجی یاجہازبھیجنے سے ان تمام اتحادیوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں جس پر یوکرین کا صدربھی احتجاجً چیخ اٹھاہ ے۔اب یہ دیکھنا ہو گا کہ کہیں خلیج بنگال میں برتری کے زعم میں بحیرہ ہند کا علاقہ ہی ہمارے لئے کسی بڑے خطرے کاپیش خیمہ نہ بن جائے ۔

چینی بحریہ پہلی بار2008-09 میں قزاقوں کے خطرے کوروکنے کی مہم کے تحت بحیرہ ہند میں داخل ہوئی اورپھروہیں ڈٹ گئی۔گزرے برسوں میں چین نے اس بات کو یقینی بنایاہے کہ بحیرہ ہند کے ان علاقوں میں اس کی موجودگی برقراررہے جواس کیلئےسیاسی لحاظ سے اہم ہیں۔انڈیاکویہ سمجھناہوگاجس ملک کو اب تک صرف ایساپڑوسی سمجھاجاتاتھاجس کی سرحدآپ کی سرحد سے جڑی ہے،اب اس نے ایسی سمندری قربت بھی حاصل کرلی ہے کہ انڈیاکی تمام بحری حرکات وسکنات ایک پل کیلئے بھی چین کی آنکھوں سے اوجھل نہیں۔چین کےپاکستان کے ساتھ اہم سیاسی،تجارتی اورعسکری مفادات جڑے ہوئے ہیں،اس لئے پاکستان کی ایٹمی اسلحے سے لیس نیوی سےبھی چوکنارہناپڑے گا۔

یہ ایک چیلنج ہے کیونکہ یہ ایک طرح سے انڈیاکی اپنی پروفائل اورعلاقے میں انڈیا کے مفادات کوکم کرتاہے۔انڈیاکیلئےتشویش کی بات یہ ہے کہ چینی بحریہ کے بحیرہ ہندمیں نقش قدم اب جبوتی سے لیکرافریقہ تک پہنچ گئے ہیں۔چین اورایران کے درمیان حال ہی میں ایک بڑامعاہدہ طے پایاہے۔ایران میں چینی موجودگی کابھی ایک سنجیدہ مطلب ہے کیونکہ ایران انڈیاکیلئےاہم ہے اورتیل کی فراہمی کے راستوں کے حوالے سے ایران کی ایک اہمیت ہے۔چین بحیرہ ہند کے علاقے میں بحری سازو سامان کے ایک بڑے سپلائرکے طورپرابھررہاہے اوروہ پہلے سے ہی میانمار،سری لنکااورپاکستان کوفوجی سازوسامان دینے والا سب سے بڑاسپلائرہے۔پھرحال ہی میںبنگلہ دیش نے چین سے کچھ آبدوزخریدیں ہیں جس کااثرانڈیاکے بحیرہ ہند کے علاقے میں پڑ سکتا ہے۔

سوچنے کامقام یہ بھی ہے کہ کیا بھارت جیساملک جس کی70فیصدسے زیادہ آبادی غربت کی لکیرسے بھی نیچے زندگی گزارنے پرمجبورہے۔بنیادی زندگی کی سہولتوں کا تو ذکر ہی کیا جہاں آج بھی بڑے شہروں میں بھی ہزاروں افراد چھت سے محروم ہیں اور فاقوں کی نوبت سے کئی گھرانے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں،مسلسل ان جنگی مشقوں پراٹھنے والے اخراجات آخرکتنے مددگارثابت ہوئے ہیں؟یہ جنگی مشقیں مختلف ممالک کی بحری فوجوں کے درمیان بہترتعاون اور اشتراک کوبڑھانے میں مددتوکرتی ہیں لیکن اس کی لاگت اوران کی افادیت پربھی نظررکھنی ہوگی کہ اگرکوئی بحریہ مشقوں کیلئےلگاتارتعینات رہتی ہے تواس کاجہاز یا آبدوز پر کس قدرمنفی اثر پڑتا ہے۔انڈیا کو اپنے فضائی مگ طیاروں کی مسلسل تباہی سے بھی سبق لیناہو گا جس کے بعدایک خطیر رقم کی ادائیگی بحرہند میں غرق ہو گئی۔

انڈین ریٹائرڈکموڈوربھاسکرکے مطابق انڈین بحریہ کوملنے والی فنڈنگ کا فوراًجائزہ لینے کی ضرورت ہے اوراس میں فوری اضافہ کیاجاناچاہیے۔انڈیامیں یہ بحث پچھلی دوسے تین دہائیوں سے چلی آرہی ہے کہ آپ یہ امیدنہیں کرسکتے کہ دفاعی بجٹ کالگ بھگ 14فیصددے کرآپ ایک ایسی بحریہ کوبرقراررکھنے میں کامیاب ہوں گے جسے اب اتنی ساری ذمہ داریاں دی جارہی ہیں۔انڈیاکواب سیاسی سطح پر دیگرآپشنزکی تلاش کرنی چاہیے کیونکہ اب انڈیاکواڈکارکن بن چکاہے تواسے امریکاسے طویل عرصے کیلئےجنگی جہازارزاں نرخوں پرلیزپرلینے کی کوشش کرنی چاہیے۔امریکاکویہ باورکراناہوگاکہ انڈیا،آسٹریلیایاکچھ دیگرچھوٹے ممالک کے ساتھ اس طرح کام کرنااس کیلئے جہاں بہت مفیدہوگاوہاں اخراجات کے بوجھ تلے کہیں یہ بحریہ سفیدہاتھی بن کرملکی وسائل ہی نہ چٹ کرجائے کیونکہ انڈیااورچین کے درمیان سرحدپرتناؤاورجھڑپوں کے بعداب چین اورانڈیاخلیج بنگال میں ایک اورایسی جنگ کی جانب بڑھتے نظرآتے ہیں جہاں سب سے بڑاٹارگٹ انڈیاہی ہوگا۔انڈیاکوچین سے صرف عسکری خطرہ ہی لاحق نہیں بلکہ انڈیاکی صنعتی منڈی میں سستی چینی پروڈکٹس کی بھرمارآہستہ آہستہ انڈیا کی صنعت کی بندش کی وجہ بھی بن رہی ہے۔انڈیا کے بالکل پڑوس نیپال میں چینی مال کی منڈیاں قائم ہوچکی ہیں جہاں مقامی ٹیکس سے مستثنیٰ اشیاء کی بھرمار آسانی سے اسمگل ہو کر انڈیا میں پہنچ رہی ہیں جس سےانڈین خزانہ کوبھاری نقصان پہنچ رہاہے اوریہ نقصان توجنگِ میدان میں پہنچنے سے کہیں زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔

اب کی بارکشیدگی کی وجہ ایک ایسا”سپرڈیم”کی تعمیرہے جس کی دنیامیں کوئی مثال موجودنہیں ہے۔انڈیامیں کچھ لوگوں نے خدشہ ظاہرکیاہے کہ اگرچین نے انڈیا کی سرحد کے قریب اتنا بڑا ڈیم تعمیرکر لیاتو چین اسے ہتھیارکے طورپربھی استعمال کرسکتاہے۔چین نےاعلان کیاہےکہ وہ تبت سے نکلنےوالے یرلانگ ژانگبو دریا پر ایک ڈیم تعمیرکرنے کا اردہ رکھتاہ ے۔جس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت دنیا میں کسی بھی منصوبے سے زیادہ ہے۔اس کی بجلی پیداکرنے کی صلاحیت 70ہزار میگاواٹ فی گھنٹہ سے زیادہ ہے جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بجلی پیداکرنے والے تھری گورجزڈیم سے بھی تین گناہے۔چین کی کیمونسٹ پارٹی کے ترجمان گلوبل ٹائمزنے پاور کنسٹرکشن کارپوریشن آف چائنہ کے چیئرمین یان زیانگ کے حوالے سے لکھاہے کہ دنیا میں اس منصوبے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔چین کی طرف سے دریائے یرلانگ ژانگبو پر تعمیرکےاعلان کےبعد انڈیا نے محتاط رویہ اپناتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ وہ ڈیم کی تعمیرکے حوالے سے خبروں پرنظررکھے ہوئے ہے۔گویا انِڈیا کو خلیج بنگال میں پنگا بڑا مہنگا پڑاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں