“تم نے اس سال ٹانگوں کی زکوٰة دی”۔انہوں نے عجیب سوال پوچھا۔میں پریشان ہوکررک گیا،سامنے لندن کاخوبصورت باغ ریجنٹ پارک بکھراپڑاتھا،شام دھیرے دھیرے کھڑکیوں میں اتررہی تھی،درختوں،پھولدارپودوں کی ہریالی میں برسات کی خوشبورچی ہوئی تھی۔ہم چندلمحوں میں پارک کے اندربنے خوبصورت ٹریک پرآہستہ آہستہ چل رہے تھے،وہ مجھے جینوا سوئٹزرلینڈ کے مضافات کی شاموں کے قصے سنارہے تھے۔وہ ایک ہفتہ پہلے ایک اہم کانفرنس سے لوٹے تھے،شام بھی خوبصورت تھی،منظربھی لاجواب تھااورگفتگوبھی زندگی سے بھرپورتھی۔ہم چلتے چلتے پارک کے سب سے اونچے کونے میں پہنچ چکے تھے جہاں سے لندن شہرکاکچھ حصہ نظرآنے لگالیکن چلتے چلتے نجانے ان کے دل میں کیاآیا،وہ رکے اورایک لایعنی سوال داغ دیا”کیا تم نے اپنی آنکھوں کی زکوٰة دی ہے”؟میری خاموشی میں حیرت بھی تھی اورپریشانی بھی۔باباجی نے خوشبودارنفیس دل پذیر چھڑی سے جوتے کی نوک کریدی اورہنس کر بولے”اچھا پھرتم نے اپنے بازوؤں،ہاتھوں، آنکھوں، کانوں اورزبان کاٹیکس تودے ہی دیاہوگا۔”
میری پریشانی خوف میں بدل گئی،مجھے محسوس ہوا،باباجی کاتعلق ان لوگوں سے ہے جن کادماغ ایسے خوبصورت پارک کے اس بلند کونے پرکام کرناچھوڑ دیتاہے۔میں نے ڈرے ہوئے پرندے کی طرح آگے پیچھے دیکھا،دوردورتک کوئی بندہ بشرنہیں تھا،صرف گھنے درخت تھے،جھاڑیاں تھیں اورسامنے پارک کے قدموں میں لندن شہرتھا،وہ تھے اور میں تھا۔میری ریڑھ کی ہڈی میں کرنٹ ساسرکنے لگا،مجھے لگاوہ ابھی آگے بڑھیں گے،میری گردن دبوچیں گے اورمجھے مارکرکسی جھاڑی میں پھینک دیں گے۔وہ میری کیفیت بھانپ گئے،انہوں نے قہقہہ لگایااورآہستہ آہستہ واپس چلنے لگے۔میں بھی ذرافاصلہ رکھ کرچلنے لگا۔
“تین سال پہلے”ان کی آوازنشیب میں لڑکھڑاتی چٹان کی طرح میری سماعت سے ٹکرائی”تین سال پہلے جب ایک شخص نے مجھ سے یہ سوال پوچھاتومیرے بھی یہی احساسات تھے لیکن غورکیاتومیں نے جاناپاگل تومیں اس سوال سے پہلے تھا،تم بھی اسی نتیجے پرپہنچوگے”۔میراشک حقیقت میں بدل گیا،مجھے یقین ہوگیاکہ باباجی حقیقتاًپاگل ہوچکے ہیں۔ میں نے زندگی میں ان کے منہ سے ایسی لا یعنی اوربے سروپاباتیں کبھی نہیں سنی تھیں۔تھوڑی دیرکیلئے رکے اورآسمان کی طرف دیکھ کر بولے”دیکھو!ہم معاشرتی زندگی میں جوکچھ کماتے ہیں،حکومت اس میں سے اپناحصہ وصول کرتی ہے،یہ حصہ وہ ماحول کوپہلے سے بہتر ،پہلے سے زیادہ سازگاربنانے پرصرف کرتی ہے تاکہ ہم مزیدکماسکیں،زیادہ بہتر زندگی گزارسکیں، حکومت کے اس حصے کوہم ٹیکس کہتے ہیں۔مذہب بھی ہماری سالانہ بچتوں،ہماری کمائیوں میں سے کچھ حصہ طلب کرتا ہے،اسے زکوٰة کہتے ہیں۔ہم ہرسال ٹیکس دیتے ہیں،زکوٰةنکالتے ہیں،یہ ہمارا فرض بھی ہے اور ہماری ذمہ داری بھی،میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں”!
انہوں نے آگے بڑھ کرمیرے کندھے پرہاتھ رکھتے ہوئے اس کی تصدیق چاہی،مجھے ان کی آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی وحشت نظرآئی،میں نے فوراًہاں میں سرہلا دیا۔وہ ہنسے اورچھڑی کوتلوارکی طرح ہوامیں لہرایااورآگے چل پڑے۔ہم اپنا اصل فرض،اپنی اصل ذمہ داری بھول جاتے ہیں۔مجھے ان کی آواز جھاڑیوں سے الجھتی محسوس ہوئی،ہماری ٹانگیں ہیں،یہ قدرت کامعجزہ ہیں،بہت بڑاانعام،بہت بڑی نوازش ہیں۔میں نے لوگوں کوٹانگوں کے بغیرزندگی گزارتے بھی دیکھا،یقین کرو اس زندگی کوزندگی اورانسانوں کا انسان کہتے ہوئے دل دکھ سے اورالفاظ خون سے بھرجاتے ہیں۔ہمارے بازوہیں،ہماری زندگی کاآدھا گلاس ان کے بغیرخالی ہے،ہاتھ ہیں،ہم ان کے بغیرزندگی کوزندگی نہیں کہہ سکتے،ذراسوچو!جوشخص انگلیوں سے برف کی ٹھنڈک اورگرم کپ کی حدت محسوس نہیں کرسکتا،اس کی زندگی کتنی ادھوری،کتنی نامکمل ہے، ہماری آنکھیں ہیں۔
سامنے برٹش ٹیلی کام ٹاورکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے،دیکھواس بلندٹاورکے اوپرسے اترتی شام تک قدرت کے کتنے ہزاررنگ،کتنے لاکھ عکس ہیں،زندگی ان رنگوں اور عکسوں کے بغیرمکمل سمجھی جاسکتی ہے؟نہیں،بالکل نہیں،میں جب تک اپنی پوتی کی آنکھوں میں تیرتی چمک نہ دیکھ لوں،مجھے اپنے ہونے کااحساس ہی نہیں ہوتا۔پھولوں کے رنگ ،برسات کی اڑتی پھوار،وہ سامنے خوبصورت رنگوں سے مزین نظرآنے والی قوسِ قزاح،کروٹیں بدلتاآسمان اورجھیلوں میں لرزتے کانپتے ایک دوسرے کاتعاقب کرتے دائرے ہی میرے لئے زندگی ہیں۔یہ آنکھیں نہ ہوں توہاتھوں کورنگ ٹٹولنے پڑیں،چڑھتے سورج اور گہری ہوتی شام کے معانی ایک ہوجائیں۔ایک گھنٹے میں بارہ کھرب چالیس ارب اسی کروڑبہترلاکھ شعاعیں پھینکنے والاسورج دوملی میٹرپتلی میں غروب ہو جائے۔
ہمارے کان ہیں،ذراسنو!تمہارے کان ان سرسراہتی ہواکی درختوں سے سرگوشیاں سن رہے ہیں،پتوں کی پازیب تم سے کچھ کہہ رہی ہے،وہ دیکھوڈیزی کے پھول سے تتلی اڑی ،اس کے پروں کی سرسراہٹ سنو،اس سرسراہٹ میں زندگی ہے۔سامنے پارک کے قدموں میں بہتے شہرسے آوازیں اٹھ اٹھ کرتم تک پہنچ رہی ہیں،ذراسوچو!ایک لمحے کیلئے سوچو،یہ ساری آوازیں گونگی ہوجائیں،تمہارے کان پتھرہوجائیں،تم کچھ نہ سن سکو،تمہیں پانی تونظرآئے ، اس کے وجود سے اڑتی جھاگ بھی دکھائی دےلیکن تم ان کی آوازنہ سن سکوتوتمہاری زندگی کتنی بہری،کتنی گونگی ہو۔ادھوراہونے کاشدید احساس کہاں کہاں تمہاراراستہ روکے،لوگ تمہیں آوازکی بجائے ہاتھ لگاکرمتوجہ کریں اورتم ٹھوکروں اورٹھڈوں کوآوازسمجھواور ہماری زبان ہے،یہ زبان ہماری سوچ،ہمارے خیال کوخدوخال دیتی ہے۔انہیں ملکوتی حسن،انہیں جسم اورانہیں بدن عطا فراہم کرتی ہے۔ انہیں لفظوں،تشبیہوں اوراستعاروں کا لباس دیتی ہے۔یہ زبان نہ ہوتولفظ نہ ہوں،لفظ نہ ہوں توخیال کہیں سوچ کی گھاٹیوں ہی میں دم توڑدیں،نہ میں تمہیں کچھ کہہ سکوں اورنہ تم مجھ سے کچھ سن سکو۔اتنا کہہ کروہ خاموش ہوگئے اورآنکھیں بندکرکے نجانے کس سوچ میں ڈوب گئے!
میں ان کے خیالات کی روانی میں بہتاجارہاتھا کہ دوبارہ گویا ہوئے”یہ ٹانگیں،یہ بازو،یہ ہاتھ،یہ آنکھیں،یہ کان اوریہ زبان ہمارااصل ریزروبینک ہیں،ہماری زندگی کی ساری کمائی ،ہماری ساری پونجی اسی میں جمع ہے۔اس میں سے کوئی ایک لاکرہمیشہ کیلئے لاک ہوجائے توہماری پونجی،ہماری کمائی ضائع ہو جائے گی،ہم کنگال ہوجائیں گے،ہم مفلس اورقلاش ہوجائیں گے۔غریب وہ نہیں ہوتاجس کے پاس زادِراہ نہیں ہوتا،غریب وہ ہوتاہے جس کے پاس پاؤں نہیں ہوتے۔ اپنے ان پاؤں،ان ٹانگوں،ان بازوؤں اوران آنکھوں کا ٹیکس دو،ان کی زکوٰة نکالو۔اگرنہ نکالی توقدرت یہ ٹیکس،یہ زکوٰة اسی طرح وصول کرے گی جس طرح حکومتیں قرقی کے ذریعے وصول کیاکرتیں ہیں۔”وہ خاموش ہوگئے تو میں نے ان کی طرف دیکھا تووہ اپنامنہ دوسری طرف کرکے اپنی بہتی آنکھوں کے اشک مجھ سے چھپانے کی کوشش کررہے تھے اورمجھے یوں لگ رہا تھاجیسے کسی نے اچانک قرقی کانوٹس میرے ہاتھ میں تھمادیاہے۔
یہ ٹیکس،یہ زکوٰة دی کیسے جاتی ہے۔میں نے پہلی مرتبہ سوال کیا؟”ہاں”انہوں نے چھڑی گھمائی”سال میں ایک ویل چئیر، لکڑی کی ایک ٹانگ،ایک بازو،ایک اندھے کی آنکھوں کاآپریشن،ایک آلہ سماعت،خاموشی سے کسی سفیدپوش بیمار کے علاج کے اخراجات کی ادائیگی،کسی غریب بیوہ کی بچی کی شادی کے مصارف برداشت کرنایاپھرکسی یتیم بچے کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانا،زندگی کے اس ریزروبینک کی زکوٰة ہے اوربہت ساراشکراورڈھیرساری توبہ اس کمائی ،اس پونجی کا صدقہ”وہ خاموش ہوئے،انہوں نے کچھ سوچااورپھرآہستہ سردہوتی آوازمیں بولے”ہم کتنے بے وقوف ہیں،جودنیامیں کماتے ہیں ،اس کا ٹیکس تو ساری عمر بھرتے رہتے ہیں لیکن جودولت انعام میں ملتی ہے،جوکچھ ہمیں قدرت عطا کرتی ہے اس کا ہم شکر تک ادا نہیں کرتے۔افسوس ہمارے پاس آنکھیں ہیں،لیکن ہمیں اندھوں کا اندھا پن دکھائی نہیں دیتا،اپنے مولا کے رنگ نظر نہیں آتے!جب تمہاری آنکھیں اپنے مولا کے رنگ دیکھنے اورسمجھنے کے قابل ہوجائیں توپھر اپنے مولا کے رنگ سمیٹتے ہوئے تمہیں اپنادامن بھی تنگ نظرآئے گا۔تمہارے من کے خزانے میں ان رنگوں کی اس وقت بہتات ہوگی جب تم ان رنگوں کواپنے بہن بھائیوں میں بلاتفریق تقسیم کرنے کواپناشعاربنالوگے” ۔
فبای الائ ربکماتکذ بان…….!پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے
اے چشمِ شوق خونِ جگر لااچھال کر
سنتاہوں ان کواشکِ ندامت پسندہے