اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کا سب سے خطرناک پہلو یہ نہیں تھا کہ انہوں نے دو ریاستوں پر مبنی حل کو تَرک کردیا بلکہ خطرناک پہلو یہ تھا کہ انہوں نے انتہائی بے پروائی، لاتعلقی اور غیر ذمہ داری اپناتے ہوئے اس نظریے سے دستبرداری اختیار کی۔ ان کا تمسخرانہ لب و لہجہ، ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور متعلقہ مسئلے سے ان کی عیاں صَرف نظر انتہائی خطرناک نوعیت کی حامل تھی۔ انہوں نے کہا ’’میں دو ریاستوں پر مبنی حل کے علاوہ یک ریاستی حل کی طرف بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے وہ حل پسند ہے جسے دونوں فریق پسند کرتے ہیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے یہ اہم حقیقت نظرانداز کر دی کہ کس طرح اسرائیلی اور فلسطینی ایک قابل عمل مذاکرات پر تیار ہوں گے؟
اس امر میں شک ہے کہ ان کے یہ الفاظ ان کی سوچی سمجھی حکمت عملی کے عکاس ہیں۔ یہ امر بھی غیر یقینی ہے کہ ان کے یہ الفاظ ان کے عزائم کے ترجمان ہیں۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ امریکا ابھی تک دو ریاستوں پر مبنی حل کی حمایت کرتا ہے لیکن کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کے علاوہ امریکی سفارتخانے کی منتقلی کے متعلق بھی مبہم پیغام بھیجا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی، پریشان کن ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے اسرائیل کے لیے نامزد امریکی سفیر ڈیوڈ فرائیڈمین، غیر قانونی بستیوں کی مالی امداد کرچکے ہیں، انہوں نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقے ہتھیانے کی بھی حمایت کی، نیز انہوں نے تسلسل سے روشن خیال یہودیوں کے متعلق حقارت آمیز بیانات دیے ہیں، اگرچہ بعدازاں انہوں نے معذرت طلب کی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے حقائق سے بے خبری بھی بہت خطرناک ہے۔ اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کے الفاظ امریکی پالیسی کے غماز ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نے دو ریاستوں پر مبنی حل کے متعلق زبانی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چندبرس قبل جان کیری نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن معاہدے کے قیام کے لیے سرتوڑ کوشش کی ، تاکہ آنے والی نئی انتظامیہ اس صورتحال کو تحلیل نہ کر سکے لیکن جغرافیائی اور سیاسی حالات گواہ ہیں کہ واحد ریاست پر مبنی حل نہ تو یہودی اور نہ ہی جمہوری ہوسکتا ہے۔ یہ صورتحال اس امر کی بھی عکاس ہوگی کہ فلسطینیوں کو مستقل طور پر دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت حاصل ہو جائے گی اور یہ نظریہ نہ صرف فلسطینیوں سے غداری ہے بلکہ اسرائیل کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ نظریہ غلط ہوگا اور تباہ کن بھی ہوگا۔ دو مختلف قسم کے افراد، ایک دوسرے کے خلاف ہیں اور مستقبل میں ان کے اکٹھا ہونے کی کوئی امید نہیں۔
یہ کہنا غیر معمولی نوعیت کا حامل ہوگا کہ جس طرح یاہو نے کہا کہ ٹرمپ یہودیوں کے بہت بڑے حمایتی ہیں۔ ٹرمپ کی فتح کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ موجودہ دور میں نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ اور پھر یہ کہ ان کی انتظامیہ نسل پرست اور غیر ملکیوں سے نفرت پر مبنی رویہ اپنا رہی ہے، کے متعلق ان کی کیا رائے ہے تو صدر نے antisemitism کی مذمت کرنے سے انکار کردیا اور اپنی انتخابی فتح کے متعلق لایعنی باتیں کیں۔اس صورتحال کا پیشگی ادراک کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری نے پہلے تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل مخالف قرار داد منظور کی اور بعدازاں پیرس کانفرنس منعقد کی کہ دو ریاستوں پر مبنی حل میں جان ڈالی جائے، لیکن ٹرمپ قرارداد کے علاوہ اس کانفرنس کو بھی خاطر میں نہ لائے۔ لیکن اقوام متحدہ کی اس قرارداد نے کم ازکم بین الاقوامی قانون کے نفاذ کی طرف راستہ دکھایالیکن وقت نے ثابت کردیاکہ ٹرمپ کی ہٹ دھرمی نے سب کوشرمندہ کردیاہے۔
اقوام متحدہ اور عرب لیگ نے متنبہ کیا ہے کہ دو ریاستوں پر مبنی حل کا کوئی متبادل نہیں اور یورپی یونین کو بھی اس ضمن میں واضح پیغام بھیجنا چاہیے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلامرکل نے نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات منسوخ کردی ہے، اور ان کا یہ طرزِ عمل، اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی زمین ہتھیانے پر مبنی حکمت عملی کے خلاف ناراضی کا اظہار ہے۔ نیز ان کا یہ طرزعمل ایک ایسی اچھی مثال ہے کہ کس طرح عالمی قائدین معاملے کی حساس نوعیت کو محسوس کرسکتے ہیں، لیکن سابقہ برطانوی وزیراعظم تھریسامے کاطرزعمل درست نہیں تھاکہ انہوں نے جان کیری کی طرف سے شروع کی گئی کوششوں کو نیچا دکھادیاتھااوریقیناًاب وقت کاتقاضاہے کہ کسی بھی تذبذب کے بغیربرطانیہ کی طرف سے نہ صرف دوریاستوں پر مبنی حل کی حمایت بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پرمکمل عمل درآمد کی حمائت سامنے آنی چاہیے تاکہ عالمی امن کی طرف سفرشروع ہوسکے۔