Time To Do Something

کچھ کرنے کاوقت

:Share

اگرکوئی یہ جانناچاہتاہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی میں کس عامل نے اہم ترین کرداراداکیاہے یامستقبل میں کون سی اقوام زیادہ کامیاب رہیں گی تواُسے اس سلسلے میں آبادی سے بڑھ کرکسی بھی چیزمیں مبادیات نہیں مل سکتے۔گزشتہ50برس کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ آبادی کاتَنَوّع ہی کسی بھی قوم کی ترقی میں کلیدی کرداراداکرتاہے،چین اس کی واضح ترین مثال ہے۔اس نے اپنی غیر معمولی آبادی کے نوجوانوں کوتعلیم وتربیت سے آراستہ کیااورایک ایسی ورک فورس تیار کی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیاکوحیران کردیا۔پورے چین نے باقی دنیاکیلئےفیکٹری کی حیثیت اختیار کرلی۔

آج ماہرین یہ پیش گوئی کررہے ہیں کہ آنے والے عشروں میں چین کی معاشی نمومیں کمی آتی جائے گی۔اس کاسبب یہ نہیں ہے کہ چینی معیشت اب پختہ ہوچکی ہے اوراس میں مزیدنموکی گنجائش نہیں رہی بلکہ چینی آبادی میں بڑی عمروالوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور یہ بڑھتی تعداد بہت سے معاملات پراپنے اثرات مرتب کرکے رہتی ہے۔چین کے ٹیک آف کے دورمیں جوسرمایہ کاری کی گئی تھی اُس پرشرحِ منافع برقراررکھنے کیلئےدرکارتربیت یافتہ مستعد ورک فورس اورسستا سرمایہ بھی دستیاب نہیں۔

جس دورمیں چین نے غیرمعمولی رفتارسے ترقی کی اُسی دورمیں اُس کے بالکل برعکس معاملات جاپان،امریکااوریورپ میں دیکھے جا سکتے ہیں جہاں آبادی میں کام کرنے والوں کی تعدادگھٹ گئی اوربچوں،بوڑھوں کی تعدادبڑھی۔جاپان کی ورک فورس میں کمی آئی اور معمرافرادکی تعدادبڑھتی گئی۔امریکامیں بھی کچھ ایساہی ہوا۔یورپی ممالک کامسئلہ اِس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔وہاں آبادی میں اضافے کی رفتارخطرناک حدتک کم ہے۔معمرافرادمزیدریٹائرمنٹ کی طرف جارہے ہیں جبکہ بچوں کی تعدادکم ہونے کے باعث ورک فورس میں نوجوانوں کوشامل کرنے کامعاملہ راستے میں اٹک کررہ گیاہے۔ ایسے ممالک میں نئی نسل سے تعلق رکھنے والوں کی تعدادگھٹ گئی ہے اوربچوں،بوڑھوں کی نگہداشت کے مراکزبھی تیزی سےکم ہورہے ہیں۔

آبادی کے حوالے سے تاریخی اعتبارسے اہمیت کی حامل ایک اورکہانی کاجنم ہونے والاہے مگردنیاکواس کاکچھ زیادہ اندازہ نہیں۔یہ عظیم ترین تبدیلی افریقامیں رونما ہو گی اوریہ محض قیاس آرائی کامعاملہ نہیں کیونکہ جوکچھ ہوناہے اُس کے آثارنمایاں ہوچکے ہیں۔کسی بھی ملک کی آبادی کوڈھنگ سے بروئے کارلانے کیلئےاُسے کوئی واضح سمت دیناپڑتی ہے،اُس کے سامنے کوئی بڑامقصدرکھنا پڑتاہے۔چین نے بھی یہی کیااورجاپان نے بھی یہی کیاتھا۔آبادی کوبروئے کارلانے اوراُسے قومی تعمیر میں کلیدی کرداراداکرنے کے قابل بنانے کیلئے جامع اوربے داغ پالیسی اورحکمتِ عملی تیارکرناپڑتی ہے۔

افریقامیں آبادی میں اضافے اورفی عورت زچگی کی شرح بہت زیادہ ہے۔اس وقت پورے برِاعظم کی آبادی ایک ارب40کروڑہے۔اقوام متحدہ کے شعبے پاپولیشن ڈویژن نے ماہرین کی آراکی روشنی میں پیشگوئی کی ہے کہ اگرمعاملات یونہی رہے تورواں صدی کے آخر تک افریقا کی آبادی ساڑھے چارارب ہوچکی ہوگی ۔افریقاکی آبادی میں ایک طرف اضافہ ہورہاہے،یعنی بچوں اورلڑکپن کی حدودمیں قدم رکھنے والوں کی تعدادبڑھ رہی ہے اوردوسری طرف ریٹائرمنٹ کی عمرکو پہنچنے والوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔

افریقاکے حوالے سے سوچناانتہائی تکلیف دہ ہے۔اس برِاعظم کی ترقی کے امکانات انتہائی محدودہیں ۔ایسے ممالک بھی ہیں جن کی آبادی میں اضافہ ہورہاہے جبکہ وہ سیاسی عدم استحکام سے دوچارہیں، خشکی سے گھرے ہوئے ہیں،صحرائی علاقے وسعت اختیارکررہے ہیں اورزرخیززمین کارقبہ گھٹتاجارہاہے۔نائیجیریا،مالی اور چاڈنمایاں میں غربت انتہاکوپہنچ چکی ہے۔آبادی کے تنوع کے اعتبارسے جس ملک پرسب سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے وہ نائیجیریاہے۔نائیجیریاکی آبادی20 کروڑ
سے زائدہے۔یہ آبادی کے لحاظ سے افریقاکاسب سے بڑا ملک ہے اوراس کا مجموعی رقبہ امریکی ریاست ٹیکساس کے رقبے سے محض ایک تہائی زیادہ ہے ۔ آبادی سے متعلق اقوام متحدہ کے شعبے نے پیشگوئی کی ہے کہ رواں صدی کے آخرتک نائیجیریاکی آبادی کم وبیش70کروڑ ہوچکی ہوگی۔تب اس محدودرقبے والے ملک کاکیابنے گا؟

چین نے تواپنی آبادی کی نئی نسل کوڈھنگ سے بروئے کارلانے میں کامیاب ہوگیاہےمگرنائیجیریا میں ایسا کچھ بھی نہیں۔کسی بھی ملک کیلئےحقیقی سرمایہ نوجوان ہوتے ہیں۔نائیجیریامیں ایک طرف توشدیدسیاسی عدم استحکام اوردوسری طرف اشرافیہ بھی نااہل ہے یعنی ملک کے وسائل کو ڈھنگ سے بروئے کارلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔اس کانتیجہ یہ برآمد ہواہے کہ لاکھوں نوجوان کالج کی سطح کی تعلیم مکمل کرلینے کے باوجودبہترروزگارسے محروم ہیں اوربہتر مستقبل کیلئےملک سے باہرجانااُن کی مجبوری بن چکاہے۔آبادی کےحوالے سے نائیجیریا کو جس صورتِ حال کاسامناہے وہ ایک بڑے اورخطرناک بحران کی نشاندہی کرتی ہے۔سیاسی عدم استحکام کے باعث ملک کے کئی حصے اس قدربگڑے اوربپھرے ہوئے ہیں کہ اُن پرحکمرانی محض خواب ہوکررہ گئی ہے۔نائیجیریا میں36 (صوبے)ہیں۔ “دی نیو ہیومینیٹیرینز” کے مطابق ان میں سے ایک کے سواتمام ریاستوں میں معاملات کوکنٹرول کرنے کیلئےفوج تعینات کی جاچکی ہے۔

نائیجیریاایک ایساملک ہے جوپُرعزم،محنتی اورمستعد ورک فورس تیارکرنے کے حوالے سے معروف رہاہے مگرآزادی کے بعدسے اس ملک میں تیل کی دولت کو زیادہ سے زیادہ ہتھیانے کیلئےگروہوں میں چپقلش ہوتی رہی ہے۔باقی تمام امورکو یکسرنظرانداز کردیاگیاہے۔ نائیجیریامیں آبادی کوبروئے کارلانے پرکبھی توجہ نہیں دی گئی۔ملک کی آبادی کابڑاحصہ زراعت پرمنحصرہے مگرزراعت کوبھی جدید دورکے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پرتوجہ نہیں دی گئی۔نئی نسل کواعلیٰ تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے کامعاملہ بھی سردخانے میں ڈالا جاتارہاہے اورملک میں صنعتی عمل بھی کبھی اُس طرح شروع نہیں کیاگیاجس طرح شروع کیاجاناچاہیے تھا۔عشروں کی غفلت اورنااہلی کا نتیجہ بھگتنے کاوقت آگیاہے۔کوروناوباکے باعث پوری دنیامیں معیشتیں خرابی سے دوچارہیں۔عالمی معیشت کی خرابی نائیجیریا پر بھی اثر اندازہوئے بغیرنہیں رہے گی۔حالات اُس موڑکی طرف رواں ہیں جہاں تیل پیداکرنے والے غریب وپسماندہ ممالک کیلئےمعاملات انتہائی ناموافق ہوں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ حتمی تجزیے میں ہوگاکیا۔سیدھی سی بات ہے،اگرمعاملات کویونہی بگڑنے دیاگیاتونائیجیریاجیسے ممالک شکست و ریخت کے خوفناک مرحلے سے گزریں گے۔دنیاکومل کرافریقاکو بڑی تباہی سے بچانے کیلئےآگے بڑھناچاہیے۔اس کیلئےلازم ہے کہ گھانااورروانڈاجیسے چھوٹے اوربے وقعت ممالک سے جُڑکر حالات درست کرنے کے نام پردنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بجائے نائیجیریا،کانگو،ایتھوپیااورسوڈان جیسے بڑی آبادی والے ممالک کوایک پلیٹ فارم پرلاکر ایسی جامع حکمتِ عملی تیارکی جائے جوپورے برِاعظم کے بھلے کیلئےہو۔ یہ ظاہرکرنے کی کوشش نہ کی جائے کہ افریقاکے معاملات سے باقی دنیا کا کوئی تعلق نہیں۔ کچھ کرنے کاوقت یہی ہے۔ نائجیریاکے حالات کے سامنے رکھتے ہوئے ذراپاکستان کابھی تجزیہ کرلیں کہ اس وقت اقتدارکی جنگ ہمیں کس تباہی کی طرف لیجارہی ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں