The wisdom of the intellect, the wonder of love

عقل کی عیاری ،عشق کی حیرانی

:Share

جس زمین پربدکاری ہوگی،پھروہ زمین اس بدترگناہ سے پاک ہونے کی دعائیں مانگتی ہے اوروہ تبدیلی چاہے عذاب کی صورت میں ہو، کسی وباکی صورت میں ہو،کوئی سیلاب ان بستیوں کو بہالے جائے،اس کوپھرروکانہیں جاسکتا۔ابھی کل کی بات ہے،اللہ نے اپنی فوج کاایک انتہائی چھوٹاسپاہی جس کوخوردبین کے بغیردیکھناممکن نہیں،کروناکی شکل میں زمین پراتاردیا۔وہ جوسائنس کے کمالات پربڑانازرکھتے ہیں،بڑے تکبرسیخودکوسپرپاورکہتے ہوئے دنیاکومنٹوں میں نیست ونابودکرنے کی دہمکیاں دیتے تھے،میرے رب کے اس ادنی سپاہی نے ان سب متکبر طاقتوں کوخاک چاٹنے پرمجبورکردیااورپھرایسامجبورکردیاکہ خود اپنے خاندان کے وہ افرادجویہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم تمہارے بغیرزندہ نہیں رہ سکتے ،جونہی کروناکاٹیسٹ پازیٹوآیا،اسے یاتوفوری ہسپتال روانہ کردیا یاپھر گھرمیں الگ تھلگ کردیااورکوئی اس کے قریب پھٹکنے کی جرات نہیں کرتاتھا۔فلک نے یہ مناظربھی دیکھے کہ اپنی بیہودہ طاقت کے زعم میں مسلم خواتین کے سروں سے پردہ ختم کرنے والے خودمنہ چھپانے پرمجبورہوگئے،الامان الحفیظ!

یہ لاء آف نیچرہے،یہ عدالت کافیصلہ نہیں ہے،یہ فطرت کافیصلہ ہے۔اس زمین پرقدرت کے دوقانون ہیں،ایک فطرت ہے اوردوسری شریعت،شریعت میں رحم ہے مگرفطرت اس کے بالکل برعکس ہے،فطرت میں رحم بالکل نہیں۔جودنیامیں کروگے ویسابھروگے۔یہ قانون فطرت ہے کہ باپ کو گالیاں دوگے،بیٹا تمہیں اس سے زیادہ گالیاں دے گا،ماں کو گھر سے نکالوگے،بڑابیٹاتمہیں بے عزت کرکے گھرسے نکالے گا۔یہ لاء آف نیچرہے۔شراب پیوگے توخطرناک جسمانی وروحانی بیماریوں میں ضرورمبتلاہوگے،گردے فیل ہوں گے۔ یہ ناممکن ہے کہ آدمی شراب یااور کوئی قبیح نشہ کرے اوراس کے بعدصحت مندرہے۔ یادرکھیں کہ فطرت کے اندربخشش نہیں ہے،رحم نہیں ہے لیکن شریعت کے اندرگنجائش موجود ہے۔ اللہ چاہے توہماری توبہ استغفارقبول کرکے ہماری بخشش فرمادیں لیکن لاء آف نیچر میں ممکن نہیں۔ دنیا اس بات کی گواہ ہے کہ اس دھرتی پرموجوددوسب سے بڑے اورعظیم گھر حرمین کوبھی بندکرناپڑگیا نیویارک، لندن اورپیرس کی مشہورسڑکوں پرویرانیوں نے ایسے ڈیرے ڈالے کہ تاریخ نے دہائی دیناشروع کردی۔

اگرکوئی قوم قبیلہ خاندان غافل ہے، سست ہے،جاہل ہے توسمجھ لیں کہ وقت اس سے انتقام لے گاکیونکہ زمین سستی کوگوارہ نہیں کرتی،وہ تمام پودے سوکھ جاتے ہیں جوسستی سے پروان چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔وہ درخت سوکھ جاتے ہیں جومفید نہیں ہوتے۔وہ جانوردرخت اوردیگر نباتات باقی نہیں رہیں گے جومفید نہیں ہیں وہ دائماصوف کی طرح مٹ جائیں گے۔ یہاں پھل داردرختوں کی دیکھ بھال اورپرورش کی جاتی ہے،انہی جانوروں کی افزائش کی جاتی ہے جن سے سے فائدہ موصول ہوتاہے،یہ لا آف نیچر ہے کہ اس دنیامیں وہی جئے گاجوکام کرکے اپنامفیدہوناثابت کرے گا۔جس کے بازو ں میں محنت کی سکت ہوگی ، وہی جئے گا۔یادرکھیں !ناکارہ سروں پرتاج نہیں سجائے جاتے، اگر غلطی سے کسی ناکارہ سرپرایساتاج آ جائے توجلد ہی تاج سمیت اس دھرتی کے بوجھ کوسنگلاخ زمین اپنے پیٹ میں دباکراس کی ہڈیوں کوبھی خاک اوربے نشان بنادیتی ہے بلکہ پیس کرپاؤڈربنادیتی ہیں۔اوریہ بھی یادرکھیں کہ کاٹنے والے قدم کبھی تخت پر براجمان نہیں ہواکرتے۔مارکیٹیں ان کے ہاتھوں میں نہیں ہوتیں جورات گیارہ اوربارہ بجے تک اپنی دوکانوں پر اونگھتے رہتے ہیں،یہ دنیابڑی خطرناک ہے، یہاں انتقامی کاروائیاںعروج پر ہیں،یہاں غفلت کی سزاموت ہے۔

مشہورروسی دانشوراورناول نگارٹالسٹائی کاشہرہ آفاق ناول”واراینڈپیس”پڑھنے کاموقع ملا۔اس ناول میں جہاں بہت سی باتیں خالص باطنی وروحانی تعبیرات پرمبنی ہیں،وہی اس کامتصوفانہ جملہ:”ہم صرف اتناجان سکتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے،یہ انسانی عقل کی معراج ہے”۔اپنی اناکے بت کوایک طرف رکھےبغیرعقل کی محدودفطرت نظرنہیں آتی اوریہ ایمان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔کیوں یہ جملہ باربارسننے کوملتاہے کہ سادہ لوگ ایمان کےبڑے پکے ہوتے ہیں۔کبھی سوچابھی ہے کہ ان کاایمان کیوں اتنامضبوط ہوتا ہے؟صرف اس لیے کہ انہوں نے کوئی بہت مضبوط اناکے بت نہیں بنارکھے ہوتے اورفطرت کے قریب رہنے سے عقل کی محدودیت کاادراک ہوتاہے۔ایمان کیلئے علم کی ضرورت نہیں ہوتی۔کون کہتاہے کہ عالم ہونے سے ایمان مضبوط ہوتا ہے؟کیااسلامی تاریخ میں سارے عالم مظبوط ایمان والے لوگ تھے؟اب اس بحث میں کاہے کوپڑنا۔ ایمان جھوٹی انا کے بت کوپاش پاش کرنے سے مضبوط ہوتا ہے۔وہ جسے مولاناروم کہتے ہیں کہ بیٹا”عقل کی عیاری کوبیچ اورعشق کی حیرانی کوخرید”۔جہاں حیرانی کے میدان شروع ہوتے ہیں وہی سے ذات حق کے عرفان کاآغازہوتاہے۔

میرا اللہ سائیں کوئی آسمان پربیٹھا(معاذاللہ)بوڑھاآدمی نہیں ہے جوہرلمحہ آدم کےبیٹے پرصرف اس لیے نگاہ رکھے ہے کہ کب یہ غفلت کرے اور کب وہ اسے اس کی سزامیں دوزخ میں ڈال دے یاغفلت نہ کرے اوروہ اس پرجنت کے باغ کادروازہ ہوامیں اڑتے وجود(ملائکہ )سے کھلواکراس کوجزاکے طورپراس میں داخل کردے۔نہ ہی میرااللہ سائیں (معاذاللہ)کوئی سانتاکلازہے جوآپ کی احمقانہ”خواہشات کی فہرست”کوپوراکرتاپھررہاہو۔میرا اللہ سائیں تواس کائنات کا،اس”کاسموس”کاخالق ہے،وہ جس کی رحمت نے اپنی لپیٹ میں ہرایک مخلوق کولے رکھاہے،ہردل کو تھام رکھاہے،وہ جس کے ہاتھ میں میرے ہرزخم میرے ہردردکی شفاہے۔وہ جس کاچہرہ ،میں جہاں نگاہ دوڑاتاہوں، دیکھتا ہوں۔وہ جوہروقت میرے ساتھ رہتاہے ۔وہ جس کے حضورمیں اپنی کمیوں کوتاہیوں پرمعافی مانگنے میں سست ہوجاتاہوں مگروہ جومجھے بخشنے اورمیری ستاری کرنے میں ہمیشہ جلدی کرتاہے۔میرارب تووہ ہے جوبہت ہی غفور ہے، میرارب تووہ ہے جوستارہے۔میرارب وہ ہے جس کے سامنے جھک جاؤں تودنیاکی تمام بلندیاں میرے قدموں میں آن گرتی ہیں۔

چشم فلک نے پہلی بار یہ بھی دیکھا کہ نیویارک کی مشہورِ زمانہ اور مصروف ترین سڑک جو بالکل ایسی ویرانی کامنظر پیش کر رہی تھی گویا کبھی یہاں کسی کا گزرہی نہیں ہوا، ایک آدمی گڑگڑا کر دنیا کی تمام سفاک اور انسانیت کش حکومتوں سے مطالبہ کر رہا تھا کہ اب بھی توبہ کر لو وگرنہ عبرت کا نشان بنا دیئے جاؤ گے۔ کس قدر کریم اور رحیم رب ہے کہ اس نے اتنی بڑی آزمائش میں ہم سب گناہ گاروں کی دعائیں قبول کرکے ہمیں کسی دائمی عذاب سے نجات دے دی لیکن خبردار! میرا رب وعدہ خلافی پر پہلے سے زیادہ سنگین سزا دینے پر مکمل قادر ہے.میرا رب تورحیم ہے،کریم ہے،رحمٰن ہے۔آپ کویہ خبرہوکہ رحمٰن تومبالغہ کاصیغہ ہے کہ اس قدررحم کرنے والاکہ وہ خوداعلان کرتاہے کہ اگرزمین وآسمان کے درمیان جوخلا ہے، اسے تو معصیت اوراپنے گناہوں سے بھربھی دے جوممکن نہیں لیکن میرے لئے یہ ممکن ہے کہ میں نہ صرف معاف کردوں بلکہ اسے حسنات سے بھردوں ،اگرتواخلاص سے توبہ کرلے ۔میرا رحمٰن رب بندے کو اپنی رحمتوں سے شرابورکہتے ہوئے یہ بھی وعدہ فرماتاہے کہ اگرتیرے گناہ ریت کے ذروں اورسمندرکے جھاگ سے بھی زیادہ ہوں تومیرے لئے تجھے معاف کردیناکوئی مشکل نہیں لیکن شرط یہ ہے کہ تواپنی خطاؤں پرنادم ہوکراستغفار کرکے میرے دامن میں پناہ مانگ لے :
رحمت یہ چاہتی ہے کہ اپنی زباں سے
کہہ دے گناہ گارکہ تقصیرہوگئی

اوررحیم کامختصرترین معنی یہ ہے کہ جس سے نہ مانگاجائے ، تواسے غصہ آئے گویا ہمیں توہروقت صرف اپنے اللہ سے مانگنے کاحکم دیاگیا ہے۔بھلااللہ سائیں سے بڑھ کرکون دلوں کابھید جانتاہے،وہ توایساعطاکرنے والاکہ اس کے بعدکسی اورکی احتیاج باقی نہیں رہتی اوروہ کسی کوبالکل نہیں بتاتالیکن اس کے برعکس انسان کے آگے ہاتھ پھیلانے والاساری دنیاکے سامنے صدامحتاج،ذلیل ورسواہوجاتاہے اوراس کی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ تمام خزائن کامالک میرارب ہے لیکن اس کے باوجوداوفوبالعہدکی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئی ایم ایف اوردیگراداروں سے اپنے قرضوں کے سودکی ادائیگی کیلئے بھی کشکول تھامے سربسجودہیں تواس کی سزاتومل کررہے گی۔

بی بی رابعہ بصری نے کیاہی خوب ارشاد فرمایا:صالح تمہیں کس نے کہاکہ کبھی اللہ کادروازہ بھی بندہوتاہے۔اللہ کا دروازہ توہمیشہ کھلارہتاہے۔میرااللہ سائیں تووہ ہے جس کادروازہ کھلارہتا ہے،وہ جومیراغفوروستارہے۔اس سمیع کے سامنے فریاد کرنے میں جھجک کیسی،جوالبصیرہے اوراس کے سامنے جھوٹ کیسا،جوالعلیم ہے ۔میرااللہ سائیں وہ قدیرہے جسے چاہے عزت بخش دے جسے چاہے ذلت۔ماہِ رمضان الکریم کاآغازہوگیاہے،اللہ سے خوب مانگنے کابڑازبردست مہینہ ہے، توبہ استغفارکے ساتھ ساتھ غزہ اورکشمیرکے علاوہ امت مسلمہ کے مصائب دورکرنے کی گڑگڑاکردعائیں مانگیں۔ہچکولے کھاتاپاکستان بھی آپ کی عملی دعاؤں کامنتظرہے کہ اس کی تخلیق بھی رمضان کریم کی27ویں،انتہائی مبارک شب کوہوئی تھی۔

اگرمیری کوئی بات گراں گزرے تواس کیلئے معذرت………کبھی کبھارچھوٹامنہ اوربڑی بات سرزدہوجاتی ہے اوریہ مختصرتحریرآپ کے سامنے رکھ دی ہے کہ” شائدترے دل میں اتر جائے میری بات”۔سلامت رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں