تاریخ کااگرہم بغورمطالعہ کریں توپتہ چلتاہے کہ جو ثقافت یا تہذیب تمام معاملات پرچھائی ہوئی ہوتی ہے اس کے رجحانات بھی عالمی رجحانات بن کررہ جاتے ہیں۔اس وقت مغرب ہر اعتبارسے دنیاپرچھایاہواہے۔علمی،فنی،معاشی،مالیاتی اورعسکری برتری کے حامل مغرب کے اذہان پرجنگ چھائی ہوئی ہے۔یہی سبب ہے کہ دنیابھرمیں جنگ کاماحول ہے کہ ختم ہونے کانام نہیں لیتا۔ سب جانتے ہیں کہ جنگ ایک ایسی جہنم ہے جس کے ہاتھوں سب کچھ بربادہوجاتاہے لیکن اس کے باوجودپھربھی جنگ سے اس کاجی بھرتاہے نہ پیٹ۔فلموں میں،ڈراموں میں،گیمزمیں،کتابوں میں،گانوں میں ہرجگہ جنگ وجدل سے رغبت کاماحول دکھائی دے رہاہے۔ایسالگتاہے کہ جنگ مغرب کی ثقافت کاجزوِلاینفک ہوکررہ گئی ہے۔
جنگ کوپسندکرنے والی ذہنیت پیداکرنے اورپروان چڑھانے پربہت توجہ دی جارہی ہے۔عنفوان شباب ہی سے جنگ کوپسند کرنے کارجحان مغرب کے عام فردکے ذہن میں جنم لے چکاہوتاہے۔کھلونابندوقیں،ماڈل ٹینک اوربورڈگیمزجنگ کوذہنی ساخت کا اندرونی یاکلیدی حصہ بناکراس بات کاپورااہتمام کیاگیاہے کہ مغرب کے باسی زندگی بھرجنگ کواپنے نظام اورزندگی دونوں کا لازمی حصہ تصورکریں۔
آج دنیابھرمیں جنگ وجدل سے بھرپوروڈیوگیم بہت مقبول ہیں۔مغربی معاشروں سے ہٹ کربھی کروڑوں بچے یہ وڈیوگیم دیکھ دیکھ کرجنگ کواپنے مزاج میں شامل کرتے جارہے ہیں۔قتل وغارت دیکھ دیکھ کرذہن کی کیاحالت ہوجایاکرتی ہے اس کااندازہ کچھ انہی کوہوسکتاہے،جن کی پوری زندگی جنگ وجدل میں گزری ہو۔مغرب اپنی نئی نسل میں جنگ پسندی کوایک رجحان کی حیثیت سے پروان چڑھارہاہے۔نئی نسل قتل وغارت دیکھنےاورپھر سہنے کی عادی سی ہوکررہ گئی ہے۔جنگ وجدل کےماحول پر مبنی وڈیو گیم بچوں کے ذہن میں جنگ پسندی کے رجحان اورقتل وغارت سے رغبت کوکیل کی طرح ٹھونک دیتے ہیں۔
مغرب اورخاص طورپرامریکاکی ثقافت جنگ پسندی کی بنیادپرکھڑی ہے۔ان کے ادراک اورفکرپرجنگ وجدل سے رغبت اس بری طرح سوارہے کہ اب اس کے بغیرزندگی بسرکرنے کا تصوربھی محال ہے۔جنگ وجدل سے رغبت نے ان کی اقدارکی ساخت میں بھی شدیدمنفی اثرات مرتب کر دیئے ہیں۔امریکاکیلئے جنگ ایک ایسی حقیقت ہے جوکہیں اورواقع ہورہی ہو،اگرامریکا کسی جنگ میں براہِ راست شریک ہوتب جنگ اس کی سرزمین سے بہت دورلڑی جارہی ہوتی ہے۔امریکاکی بنیادی حکمت عملی یہ ہے کہ جنگ دوسروں کولڑنی چاہیے اور اس جنگ کوجاری رکھنے میں مدددینے کیلئے ہتھیارامریکی ہونی چاہئیں!امریکی سیاستدان اورووٹرہتھیاروں کے حوالے سے شدیدناپسندیدگی کااظہار کرتے ہیں مگر ریاستی ڈھانچااورپالیسی سازی کاعمل کچھ اس قسم کاہے کہ بات بنتی نہیں،دال گلتی نہیں۔
امریکاجنگ کوہوادینے کاالزام ہمیشہ دوسروں پرعائدکرتاہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگ پسندی کی ذہنیت کوعام کرنے میں خود اسی نے کلیدی کرداراداکیاہے۔امریکاہی نےاپنی پالیسیوں کی مددسے دنیابھرمیں جنگ کوہوادی ہے۔کئی خطوں کوجنگ وجدل کی دلدل میں امریکاہی نے پھنسایا ہے اوریورپ نے اس معاملے میں اس کیلئےمعاون کاکرداراداکیاہے۔اس وقت دنیابھرمیں جوخانہ جنگیاں برپاہیں ان کی غالب اکثریت کیلئے امریکی پالیسیاں اوراقدامات ذمہ دارہیں۔یورپ بھی بہت کچھ کرتاہے اورمزیدبہت کچھ کرسکتاہے مگرمغرب کے بیشتر اقدامات امریکاکی مرضی سے طے پاتے ہیں۔وہ صورتِ حال کافائدہ بھی اٹھاتاہے۔جب ایساہے تو پھرکسی بھی بڑی خرابی کی ذمہ داری بھی امریکاہی کوقبول کرنی چاہیے۔
جنگ کوایک پسندیدہ عمل کی حیثیت سے قبول کرنے کیلئےذہن تیارکرنے میں مغربی میڈیانے خاصانمایاں اوربھیانک کردارادا کیاہے۔امریکااور یورپ کے بیشترمیڈیاآؤٹ لیٹس جنگ کو ایک ایسی ناگزیرحقیقت کےطورپرپیش کرتے ہیں جوقوم قبول کرلے۔ جنگ وجدل کی کوریج کچھ اس اندازسے کی جاتی ہے کہ لوگ قتل وغارت کے مناظرکوبھی بخوشی قبول اورہضم کرلیں۔جنگ کوایک ناپسندیدہ اورتباہ کن حقیقت کی حیثیت سے پیش کرنے کی بجائے قابل قبول اوربہت حدتک کام کی چیزبناکرپیش کیاجارہا ہے۔مغربی میڈیاکی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جنگ کی کوریج دیکھتے ہوئے لوگ بے مزانہ ہوں۔
جولوگ جنگ لڑتے ہیں اوراسے بھگتتے ہیں وہ زندگی بھرکیلئےذہن اورجذبات کی سطح پرعدم توازن کاشکارہوجاتے ہیں۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنگ کسی بھی معاشرے کوکس حدتک بربادکردیتی ہے مگران کے پاس طاقت ہے نہ آواز۔وہ اگر چاہیں بھی توجنگ کے خلاف ذہن سازی نہیں کر سکتے۔ایک بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ معاشرہ ان لوگوں سے کچھ سننے کیلئےتیاربھی نہیں جوجنگ کے تباہ کن نتائج اچھی طرح جانتے ہی نہیں بلکہ بھگت بھی چکے ہیں۔عوام کسی بھی جنگ کواسی طرح دیکھتے ہیں،جس طرح وہ انہیں دکھائی جاتی ہے۔بن غازی(لیبیا)کے حوالے سے مائیکل بے نے ’’13 گھنٹے‘‘اس طورپیش کی کہ دھماکے، جوکسی بھی جنگ میں سب سے خطرناک حقیقت ہوتے ہیں،دیکھتے ہی دیکھتے کول یعنی قابل قبول ہوجاتے ہیں ۔
امریکی فوج اب بھی یہی چاہتی ہے کہ جنگ کوایک بھرپوررجحان کی حیثیت حاصل رہے۔اس مقصدکاحصول یقینی بنانے کیلئے اخبارات وجرائداور ٹی وی چینلوں کے ساتھ ساتھ بالی وڈکی فلموں سے بھی کام لیاجارہاہے۔نئے ہتھیاروں کی تیاری کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔بہت سی فلموں کے ذریعے نئے ہتھیاروں اوران کی ٹیکنالوجی کاپرچارکیاجارہا ہے ۔مقصدباقی دنیاکویہ باورکراناہے کہ اگروہ آج کی دنیامیں جیناچاہتی ہے توجدیدترین ہتھیار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ پسندی کے رجحان کوپروان بھی چڑھاناہوگا۔
امریکااوریورپ نے اب تک دفاعی ٹیکنالوجی کے نام پرانتہائی خطرناک ہتھیارتیارکرنے پرغیرمعمولی توجہ دی ہے اورپھربہت سے خطرناک ہتھیار دنیا بھرمیں فروخت بھی کئے ہیں۔امریکی فوج تواس جنون میں مبتلارہی ہے کہ اس کے پاس انتہائی خطرناک ہتھیار ہوں اوراس معاملے میں کوئی بھی اس کے پاس سے ہوکرگزرنے کی پوزیشن میں نہ ہو۔یہ ساراتماشاووٹروں کے اداکردہ ٹیکس کی مددسے برپاکیاگیاہے۔تعلیم اورصحت کے اداروں کی ضرورت ہے مگراس طرف متوجہ ہونے کی کسی کوتوفیق نہیں۔ منتخب ایوانوں میں بھی یہ نکتہ کم لوگ اٹھاتے ہیں۔سب کچھ قومی سلامتی کوبچانے کی چوکھٹ پرقربان کردیاگیاہے۔قدم قدم پر سیکیورٹی رسک کارونا روکرشہریوں کویہ باورکرایاجاتاہے کہ ان کے بنیادی مسائل کے حل کیے جانے سے کہیں اہم ملک کا برقراررہناہے،ملک ہوگاتوان کے مسائل بھی حل ہوں گے۔
ہتھیاروں کواپ گریڈکرنے اور نئے ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے تحقیق وترقی کی مدمیں خطیررقوم مختص کی جاتی ہیں۔ کوئی خطرہ سامنے ہویا ابھررہاہوتوٹھیک ورنہ نئے خطرات پیدا کرکے پروان چڑھانے سے بھی گریزنہیں کیاجاتا۔اورجیسے ہی کوئی بیرونی خطرہ ابھرتاہوامحسوس ہوتاہے، نئے ہتھیاروں کی تیاری اورپہلے سے موجودہتھیاروں کی اپ گریڈیشن کیلئے مختص کی جانے والی رقوم میں بھی اضافہ ہوجاتاہے۔
ویسے توخیرپورے یورپ کوامریکی نائن الیون کے بعدخاصے دشمن میسرآگئے ہیں مگرامریکااس معاملے میں خاص طورپر خودکفیل ہے اوران میں سے بیشترخودامریکی پالیسیوں کے پیداکردہ ہیں۔اسلحہ ساز فیکٹریوں کوچلانے کیلئے ہروقت کوئی بڑا دشمن یامخالف میکانزم موجودرکھاجاتاہے۔امریکی سیاستدان دشمنوں کی تعداد میں اضافہ دکھانے کیلئے اگرکوئی بھرپوراور حقیقی دشمن نہ ہوتو فرضی دشمن کھڑا کرنے میں مہارت رکھتے ہیں جس کیلئے دہشتگردگروپوں کی درپردہ افزائش سے گریز نہیں کیاجاتاتاکہ امریکا کیلئےدنیابھرمیں کارروائیاں کرنے کاجوازباقی رہے۔چندعشروں کے دوران امریکانے کئی دہشتگرد گروپ کھڑے کیے ہیں اوران سے بھرپورکام بھی لیاہے۔آپ نے بھی غورتوکیاہوگاکہ انتخابی مہم کے دوران وہی امیدوار سب سے زیادہ مقبولیت اورپھر کامیابی بھی حاصل کرتاہے جو ملک وقوم کے دفاع پرسب سے زیادہ زوردیتاہے۔جودفاع پرزیادہ زوردیتا ہے اسی کومحب وطن سمجھاجاتاہے۔
امریکااوریورپ میں ہتھیاروں کی صنعت کیلئےبہت سی مشکلات بھی پیداہوتی رہتی ہیں۔کسی بھی حریف میں اتنی قوت نہیں کہ امریکااوریورپ کی سر زمین پرحملہ کرے اورجنگ کووہاں تک مرتکزرکھے۔جب کسی حریف میں اتنادم ہے ہی نہیں توپھر ہتھیاروں کی صنعت چلتی رکھنے کاجوازکیا ہے ؟ بس یہی وہ نکتہ ہے جس پراہلِ مغرب غورکرنے اوراس حوالے سے عملی طور پرکچھ کرنے کیلئےتیارنہیں۔
امریکاچاہتاہے کہ بعض شرپسند گروپ مستحکم رہیں اورمیدان سے نہ بھاگیں،انہیں کسی نہ کسی طورزندہ اورتوانارکھنے پر خاطرخواہ توجہ دی جاتی ہے۔ان گروپوں ہی کے دم سے امریکا کیلئے امکانات کی دنیابھی اب تک جوان ہے۔امریکااوریورپ دونوں ہی نے دہشتگردی برپاکرکے اس سے بھرپورفائدہ اٹھایاہے۔امریکی پالیسیوں کی کوکھ سے خرابیوں نے جنم لیاہے۔ان خرابیوں کے ردعمل میں جوگروپ امریکاکے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ان کی درپردہ معاونت کرکے امریکانے یہ تاثردینے کی بھرپورکوشش کی ہے کہ اسے نادیدہ دشمن یعنی دہشتگردوں کاسامناہے۔عرب ممالک کے سیال مادے سے اکٹھی کی گئی بے پناہ دولت جوامریکی بینکوں میں ہی محفوظ تھی،اس خطیررقوم سے پہلے توامریکی اسلحہ سازی کے کارخانوں نے امریکی معیشت کوسنبھال رکھاتھاجس کیلئے خودمشرقِ وسطیٰ میں پہلے اسرائیل کاخطرہ دکھاکران ممالک کومنہ مانگی قیمت پراسلحہ خریدنے پرمجبور کیاگیا لیکن بعدازاں خودانہی ممالک کے درمیان ایسی فسادکی آگ بھڑکادی کہ اب ان کی اسلحہ سازی کی صنعت کاپہیہ دن رات تیزی سے فوائدکے پہاڑسمیٹنے میں مصروف نظرآرہاہے۔
عراق کوایک سازش کے تحت پہلے ایران کے ساتھ آٹھ سال تک ایسی جنگ میں الجھادیاگیاجس کی قیمت صرف ان دوملکوں نے نہیں بلکہ تیل سے مالا مال دوسرے پڑوسی ممالک کوبھی اس جنگ کی قیمت اداکرنی پڑی۔ابھی یہ عذاب ختم نہیں ہواتھاکہ عراق کوایک گھناؤنی چال میں پھنساکرکویت پرحملہ کروادیااورپھرسعودی عرب اورکویت کی مددکے بہانے ’’ورلڈ آرڈر‘‘کاآغازکرتے ہوئے خودباقاعدہ اس خطے میں اپنی پوری جنگی حکمت عملی کے تحت اپنی اوراتحادیوں کی افواج کے ساتھ عراق پرحملہ کرکے کویت کوواگزار کرایاگیااورخودامریکی ریکارڈکے مطابق امریکا نے جہاں کویت اور سعودی عرب سے اپنی خدمات کیلئے ان دونوں ممالک سے187/ارب ڈالروصول کیے اورعراق پرمجوزہ پابندیاں لگاکرعراق سے بھی140/ارب ڈالرخراج وصول کیاوہاں خطے کی سب سے بہترین اورجنگی وسائل سے مالامال عراقی فوج کومکمل طورپرتباہ کرکے اپنے لے پالک اسرائیل کوعراق سے لاحق خطرات سے بھی محفوظ کردیاجبکہ اسرائیل پہلے ہی عراقی ایٹمی پروگرام کوایک ایسے فضائی حملے میں تباہ کرچکاتھاجس کیلئے اس نے باقاعدہ سعودی عرب اورکویت کی اجازت سے ان ملکوں کی فضاؤں کواستعمال کیا۔
اسی پراکتفانہیں کیاگیابلکہ بعدازاں ایک سازش کے تحت عراق پرخفیہ کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کاالزام لگاکرحملہ کرکے محض اس لئے تباہ برباد کر دیاکہ عراق نے امریکی جارحیت کے بعداپنی فوج کوازسرنومنظم کرنے کیلئے روس اورچین سے عراقی تیل کے عوض کئی معاہدے کئے اورتمام ممالک سے عراقی پٹرول کی قیمت ڈالرکی بجائے یورواوردیگرکرنسیوں کی شرط رکھ دی اورعراقی تیل کے تمام ذخائرکی بیش بہادولت کاٹھیکہ امریکی کمپنیوں بالخصوص امریکی نائب صدرڈک چینی کے حوالے کردیاگیا۔صدیوں سے محفوظ عراقی تہذیب کے بڑی بے رحمی کے ساتھ پرخچے اڑادیئے گئے اور آج تک عراق اس کاخراج اداکررہاہے۔
تنازعات اورتشددمعاشروں کاحصہ ہے۔بہت سی ثقافتوں میں جنگ وجدل سے رغبت ہردورمیں رہی ہے۔آج بھی ایسی بہت سی جنگیں لڑی جارہی ہیں جن کاامریکااورمغرب سے کوئی تعلق نہیں مگرپھربھی امریکاو مغرب کاہاتھ نمایاں ہے۔امریکی اور مغربی معاشرے اپنے ہتھیارفروخت کرنے کیلئےجنگ پسندی کوفروغ دے رہے ہیں۔کئی خطوں کوسلامتی کے حوالے سے شدید اندرونی خطرات سے دوچارکردیاگیاہے۔متعددممالک کوغیر ضروری طورپرجنگ میں الجھادیاگیاہے۔افغانستان،عراق،شام،لیبیااور یمن اس کی بہت واضح مثالیں ہیں۔آج کے مغرب میں میڈیا،معیشت، سیاست،انٹرٹینمنٹ سبھی کچھ جنگ پسندی کے آغوش میں ہے، جب تک یہ رجحان ترک نہیں کیاجائے گا تب تک دنیا میں حقیقی امن کی راہ ہموار نہیں ہوسکتی۔
امریکی صدر جو بائیڈن پر غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائی روکنے کے لیے دبا ؤبڑھتا جا رہا ہے۔25سال تک امریکی محکمہ خارجہ میں عرب اسرائیل تعلقات کے مشیر کے طور پر کام کرنے والے ایرون ڈیوڈ ملر نے کہا کہ میں تباہی کے پیمانے پر دنگ ہوں، میں نے کبھی ایسا کچھ نہیں دیکھا۔اگر ایک جانب ہزاروں شہریوں کی ہلاکتوں اور خوفناک انسانی صورتحال نے امریکاکے عرب ممالک اتحادیوں کو بے چین کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب بائیڈن انتظامیہ کے اندر ہی تنقید کی سطح میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) میں ایک کھلا خط بھی جاری کیا گیا ہے۔سیاسی تقرریوں اور درجنوں سرکاری اداروں کی نمائندگی کرنے والے عملے کے ارکان کی جانب سے وائٹ ہاؤس کو ایک علیحدہ خط بھیجا گیا ہے۔کیپیٹل ہل کے عملے کی طرف سے بھی کانگریس کے اراکین کو ایک خط بھیجا گیا ہے۔
متعدد رپورٹس بتاتی ہیں کہ غزہ پر امریکی پالیسی کے خلاف احتجاج کی لہر میں سینکڑوں لوگوں نے دستخط کیے ہیں۔ یہ خدشات بہت حقیقی ہیں اور لوگ اس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ان خطوط میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ صدر بائیڈن فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کریں اور غزہ میں انسانی امداد کی اجازت دینے کے لیے اسرائیل کے ساتھ کسی حد تک سختی بھی کریں۔کچھ خطوط کا لہجہ سخت ہے اور یہ نوجوان سیاسی کارکنوں کے جذبات کی بازگشت کرتے ہیں اور بالواسطہ طور پر اسرائیل کے ناقدین اور فلسطین کے ہمدردوں کے درمیان رویوں میں نسلی فرق کو ظاہر کرتے ہیں۔یوں لگ رہاہے کہ مغربی اورامریکی عوام کے دباؤکی وجہ سے بے گناہوں کاخون رنگ لانے والاہے۔