بحرین اوراسرائیل کے حکام نے ایک”مشترکہ بیان”پردستخط کرنے کےبعدمکمل سفارتی تعلقات کی بحالی کااعلان کردیاہے۔امریکا کی زیرسرپرستی طے پانے والے معاہدے پربحرین کے دارالحکومت منامہ میں دستخط کے بعدبحرین اب مشرق وسطیٰ کاچوتھاملک بن گیاہے جس نے1948میں قائم ہونے والے ملک اسرائیل کوباقاعدہ طورپرتسلیم کرلیاہے۔بحرین سے قبل متحدہ عرب امارات، مصراوراُردن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرچکے ہیں۔فلسطینیوں نے اس سفارتی اقدام کی سخت محالفت کرتے ہوئے اسے”پیٹ میں چھرا گھونپنے”سے تشبیہ دی ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے بیشتر عرب ممالک نے اسرائیل کابائیکاٹ کررکھا تھااوران ممالک کاموقف تھاکہ وہ صرف اسی صورت میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کریں گے جب فلسطین سے متعلق تنازع حل ہوجائے گا۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان دستاویزات میں اسرائیل اورفلسطین کے مسئلے سے متعلق کوئی حوالہ شامل نہیں کیاگیاہے۔اسرائیل کی مذاکراتی ٹیم سعودی فضائی حدودسے گزرتی ہوئی بحرین پہنچی جس کی خصوصی اجازت سعودی حکام کی جانب سے دی گئی تھی ۔ کیایہ اتفاق ہے کہ فلائٹ 973 بحرین کےانٹرنیشنل ڈائلنگ کوڈ 973سے مطابقت رکھتی تھی۔
اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدۂ ابراہیمی بھیانک صہیونی واسرائیلی حقیقت اورمذہبی وبرادرانہ اختلافات کودوبارہ لکھنے کی تازہ ترین کاوش ہے۔ٹرمپ نے حال ہی میں اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات قائم کرائے ہیں۔اس حوالے سے13/اگست کوطے پانے والے دوطرفہ معاہدے کو”دی ابراہم اکارڈ”(معاہدۂ ابراہیمی)کانام دیاگیاہے۔اس موقع پرصدرٹرمپ نے فخرسے اعلان کیاکہ متحدہ عرب امارات کے مسلمان اب(مقبوضہ)بیت المقدس کی تاریخی مسجد اقصیٰ میں بھی نمازپڑھ سکتے ہیں جومسلمانوں کیلئےتیسرا مقدس ترین مقام ہے۔
ٹرمپ نے معاہدۂ ابراہیمی کے ذریعے اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات قائم کراکے کوئی نیایاانوکھاکام نہیں کیا،1978ءاور1979 ءمیں اس وقت کے امریکی صدرجمی کارٹرنےمصرکواسرائیل کاوجود تسلیم کرنے پرراضی کیاتھااوراس سلسلے میں کیمپ ڈیوڈمعاہدے پر اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم مناہم بیگن اورمصرکے صدرانورسادات نے دستخط کیے تھے۔اُس موقع پرجمی کارٹرنے کہاتھا’’اچھاہے کہ اب ہم جنگ کوایک طرف رکھ دیں۔آئیے،ہم ابراہیم علیہ السلام کے بچوں کونوازیں جومشرقِ وسطیٰ میں جامع امن کیلئےترس رہے ہیں۔ ٓئیے،اب ہم مکمل انسان،مکمل پڑوسی اورمکمل بہن بھائی بننے کی حقیقت سے لطف اندوزوسرفرازہوں‘‘۔
1993ءمیںامریکی ایوانِ صدرمیں اوسلومعاہدے پرفلسطینی لیڈریاسرعرفات اوراس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم یزاک رابن کی طرف سے دستخط کیے جانے کے موقع پرامریکی صدربل کلنٹن نےکہاتھا’’اس موقع پرہمیں یادکرناچاہیے کہ اب تمہاری سرزمین پرتشددکی چیخ سنائی نہیں دے گی اورنہ ہی تمہاری سرحدوں کے اندرتباہی وبربادی ہوگی۔ابراہیم علیہ السلام کے بچے،اوراسحاق و اسماعیل علیہم السلام کی اولادیں،مل کرایک نئے جرأت مندانہ سفرپرنکلے ہیں۔آج ہم دل اورروح کی گہرائیوں سے دونوں کومبارک باددیتے ہوئے مکمل سلامتی کی نویدسناتے ہیں‘‘۔
مگر1994ءمیں امریکاہی کی وساطت سے اسرائیل اوراردن کے درمیان تعلقات معمول پرلائے جانے کےمعاہدے پردستخط کے وقت بل کلنٹن نے ابراہیم علیہ السلام کاحوالہ نہیں دیاتاہم یہ ضرورکہاکہ’’ایک نسل کے اس امن کے طلوع ہونے کے وقت اس قدیم مقام پر ہم تاریخ کی عظمت کے ساتھ ساتھ اسرائیلیوں اوراردنیوں کے مذہب کابھی جشن منارہے ہیں۔‘‘ساتھ ہی ساتھ انہوں نے قرآن کی آیات اوریہودیت کی مقدس کتب کے حوالے بھی دیے تھے۔بل کلنٹن نے ضمنی طورپرابراہیم علیہ السلام کاذکرکیاتھاجس پراردن کے شاہ حسین نے کہاتھا’’جب تک ہم زندہ ہیں تب تک اس دن کویادرکھیں گے اوراردنیوں،اسرائیلیوں،عربوں،فلسطینیوں اورابراہیم علیہ السلام کی تمام اولاداوراُن کی آنے والی نسلیں اس دن کو یاد رکھیں گی‘‘۔بعدمیں جب شاہ حسین اوراسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے درمیان1997ءمیں اختلافات نے شدت اختیارکی توشاہ حسین نے ابراہیم علیہ السلام کاحوالہ دیتے ہوئے اُنہیں لکھا’’سب سے تکلیف دہ حقیقت مجھ پراس نکتے کامنکشف ہوناہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی تمام اولادکے درمیان حتمی نوعیت کی مفاہمت کے قیام کے فریضے سے سبکدوش ہونے کیلئےمیں آپ کواپنے ساتھ نہیں پارہاہوں‘‘۔
ابراہیم علیہ السلام کاحوالہ دیے جانے کاتعلق چندبرسوں کے دوران مغرب میں پروٹسٹنٹ اوراستشراقیت پسندحلقوں کی وضع کردہ اصطلاح ’’ابراہیمی مذاہب‘‘سے ہے،جوتین توحیدی مذاہب کوبیان کرنے کیلئےہے جبکہ اس میں مسلمانوں کوغلط طورپرشامل کیاگیاہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی روایات میں بھی ابراہیم علیہ السلام کاغیرمعمولی مقام ہے تاہم’’ابراہیمی مذاہب‘‘کی اصطلاح نئی ہے۔یہ اصطلاح عربی کے علاوہ عبرانی میں بھی غیرمعروف اورنامانوس ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ انگریزی اصطلاح کا ترجمہ کردیاجاتاہے۔
ابراہیم علیہ السلام کاحوالہ صرف اس لیے دیاجارہاہے کہ یورپ کی پروردہ صہیونیت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی سرزمین پرقبضہ کرکے اسرائیل کی شکل میں صہیونی ریاست کے قیام اوراِسے یہودیوں کی نوآبادی میں تبدیل کرنے کے عمل کومذہبی کاوش کے طورپردکھایاجائے تاکہ کوئی اس قبیح فعل کویورپی نوآبادیاتی نظام کاجُزیاتسلسل نہ سمجھے اوریہ کہ یورپی نوآبادیاتی نظام کے خلاف فلسطینیوں اورعربوں کی جدوجہدمسلمانوں اوریہودیوں کے خلاف مذہب کی لڑائی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ فلسطین پریہودیوں کے قبضے کے خلاف لڑائی میں مقامی عیسائی بھی مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ لڑے ہیں۔یہ حقیقت بھی جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ یہودی بالعموم اوریہودیوں کی تنظیمیں(آرتھوڈوکس اوراصلاح پسند یہودیت)بالخصوص1880ءاور1890ءمیں صہیونیت کے قیام سے دوسری جنگِ عظیم تک اِس کے خلاف رہی ہیں۔
یہاں یہ نکتہ فراموش نہیں کیاجاناچاہیے کہ صہیونی پروپیگنڈا،جس نے پروٹسٹنٹ اوریہودی مخالف پروٹسٹنٹ مؤقف کوقبول کیاکہ یورپ کے یہودی یورپی نہیں بلکہ قدیم فلسطین میں آبادعبرانیوں کی اولادہیں،یہ بات پیش کی جاتی رہی ہے کہ یورپی یہودیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی سرزمین کونوآبادی میں تبدیل کرنادراصل فرزندانِ زمین کی واپسی ہے اور یہ کہ مقامی فلسطینی درحقیقت نوآبادیاتی قوت ہیں۔یہ فی نفسہٖ کوئی اصل تصورنہیں۔
الجزائرپرقابض ہوکروہاں نوآبادی قائم کرنے والے سفید فام فرانسیسیوں نے بھی دعویٰ کیاتھاکہ وہ الجزائرکے اصل باشندے ہیں،جس پراُن کے رومن آباءنے حکومت کی تھی اوریہ کہ الجزائرپراُن کاقابض ہوجانارومن سلطنت کوواپس لینے کے عمل کے سواکچھ نہیں!صہیونیت کوتسلیم کرلینا دراصل اس امرسے اتفاق کرلیناہے کہ اس کی نوآبادیاتی حیثیت چھپ جائے تاکہ اس کے خلاف کسی بھی طرح کی مزاحمت کویہودیوں کےخلاف نفرت وتعصب کے طورپرپیش کیاجاسکے۔فرانسیسی مصنف لوئی برٹرانڈ(Louis Bertrand)نے الجزائرپریورپی نوآبادیاتی نظام کی یلغاراورقبضے کوبالکل درست قراردیتے ہوئے لکھاتھاکہ شمالی افریقا میں رومن سلطنت کاورثہ واپس لیاگیاہے اوریہ کہ جوزمین واپس لی گئی ہے وہ ہراعتبارسے فرانسیسیوں کاحق ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کے حوالے دے کر دراصل صہیونیت کی نوآبادیاتی نوعیت کوچھپایاجارہاہے اوریہ کہ دنیاکے سامنے یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے کہ اسرائیلیوں کے خلاف جوجنگ جاری ہے وہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف نہیں بلکہ ایک ہی سلسلۂ مذہب کے ماننے والے ’’ابراہیمی‘‘بھائیوں کاآپس کاجھگڑاہے۔ جن عرب رہنماؤں نے صہیونیت کوقبول کیاہے وہ بھی اس نکتےسے متفق ہیں کہ صہیونیت کی نوآبادیاتی نوعیت کوچھپایاجائے تاکہ یہودیوں کےخلاف تعصب کومذہبی بنیادپرہونے والی لڑائی کی حیثیت سے پیش کیاجاسکے اوریہ بھی ثابت کیاجاسکے کہ جوکچھ فلسطینی کررہے ہیں وہ دراصل ابراہیم کے خداکی عطاکردہ عطیۂ اخوت کے منافی ہے،کفرانِ نعمت ہے۔سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اوربحرین کی جانب سے دوعشروں کے دوران بین المذاہب مکالمے اوررواداری کے نام پرجوکچھ بھی کیاجاتارہاہے وہ دراصل صہیونیت کی نوآبادیاتی تاریخ کومذہبی تنازع کی حیثیت سے پیش کرنے کی جامع کوششوں کاکلیدی جُزہے۔
چلیے ہم صہیونی نوآبادیاتی کاوشوں کومذہی لڑائی اور’’برادرانہ چشمک‘‘قراردینے کی کوششوں کوایک طرف ہٹائیں اورابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دیے جانے کی کشش کاجائزہ لیں۔آئیے ہم یہ بھی فرض کرلیں کہ امریکاکے استعماری قائدین اورعرب دنیاکے غیرمنتخب آمربھی فلسطین کے سوال پرکوئی حقیقی تصفیہ ممکن بنانے کی کوشش میں ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان حقیقی اخوت قائم کرناچاہتے ہیں۔فلسطین کے الجھے ہوئے مسئلے کومستقل بنیادپرحل کرنے کے عمل میں جوکچھ بھی کیاجارہاہے اُس سے قطعِ نظرابراہیم علیہ السلام کاحوالہ دیاجانابجائے خود کسی اورحقیقت کاغمّازہے۔
اگرہم یہ فرض کربھی لیں کہ فلسطین کے مسئلے کواُس کی سیاسی پیچیدگیوں سے پاک کرکے ابراہیمی مذاہب کے ماننے والوں میں حقیقی اخوت پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے تب بھی یہ سب کچھ اُسی وقت بامعنی ہوسکتاہے جب متعلقہ رسوم وروایات،مذہبی رسوم اورثقافت کونظر اندازنہ کیاجائے۔ایسی کسی بھی صورت میں تینوں ابراہیمی مذاہب کوجوڑنے والے عوامل کی کشش بڑھانے سے متعلق کوششوں سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ ان مذاہب کے درمیان بے بنیادسیاسی تنازع کھڑاہواتھااوریہ کہ مختلف مقاصد کے حصول کیلئےاس قضیے سے خوب فائدہ اٹھایاگیاجبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے حوالے کی کشش کے معاملے میں جوکچھ اِس کے برعکس ہے وہی درست ہے۔
اس حقیقت سے کون انکارکرسکتاہے کہ فلسطینیوں اوراسرائیلیوں کے درمیان جتنابھی جھگڑاہے وہ زمین پرقبضے کے حوالے سے ہے۔اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین سے باہرآبادیہودی اورفلسطینیوں کے درمیان کوئی تنازع نہیں پایاجاتا۔نسل پرست جنوبی افریقاکے دورمیں بھی ایساہی تھا۔جنوبی افریقامیں نسل پرست سفیدفام اقلیت نے سیاسی،معاشی اورعسکری اعتبارسے غیرمعمولی استحکام پاکر مقامی سیاہ فام آبادی کوغلام بنارکھاتھا جبکہ جنوبی افریقاکی حدودسے باہرسفیدفام اورسیاہ فام نسلوں کے درمیان ایساکوئی تنازع نہیں پایاجاتاتھا۔
عرب دنیایامشرق وسطیٰ میں مسلمان،عیسائی اوریہودی صدیوں سے ساتھ رہ رہے ہیں.ان کے درمیان جوتعلقات ہیں ان کی نوعیت فلسطینیوں کی سرزمین پرقبضہ کرنے والے یہودیوں سے اُن کے تعلقات کی نوعیت سے بہت مختلف ہے۔فلسطین سے ہٹ کرخطے میں کہیں بھی آبادعرب نسل کے مسلمان،عیسائی اوریہودی ایک دوسرے کونفرت یاتعصب کی نظرسے نہیں دیکھتے۔فلسطینیوں کی نظرمیں یورپی نسل کے یہودیوں کو نوآباد یاتی قوت کہاجاسکتاہے،تمام یہودیوں کونہیں۔
فلسطین کے خطے کی نوآبادیاتی حقیقت کے تناظرمیں ابراہیم علیہ السلام کاحوالے دے کرمعاملات کوکچھ کاکچھ دکھانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔زمینی حقیقت یہودیوں یاصہیونیوں کے پروپیگنڈے سے بہت مختلف ہے۔یورپ سے آکرفلسطین پرقابض ہوجانے والے نوآبادیت پسند یہودیوں کومقامی باشندوں کادرجہ دلاکرقابلِ قبول بناناکسی بھی سطح پرممکن نہیں ہوسکتا۔فلسطینی علاقوں پر قبضے کاعمل1880ءکے عشرے میں شروع ہواتھا۔صہیونیوں کی نوآبادیاتی حیثیت کودنیاکی نگاہوں سے چھپانے اورفلسطینیوں کی مزاحمت کوقومیتوں کے جھگڑے کے طورپر پیش کرنے کی کوششیں1930ءکے عشرے سے کی جارہی ہیں۔اٹھارہویں صدی میں یورپ کے عیسائیوں نے Semites کی اصطلاح وضع کی تھی ،جس میں یہودیوں کے ساتھ مسلمان بھی شامل تھے۔صہیونیوں نے فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی کومحض تنازع کے طورپر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے تاکہ اسے الجزائر،کینیایازمبابوے کے لوگوں کی جدوجہدِآزادی سے مماثل قرارنہ دیاجاسکے۔
چندعرب قائدین نے صہیونیت کوقبول کرلیاہے مگرفلسطینی اپنی تحریک ختم کرنے کیلئےتیارنہیں۔وہ مزاحمت کی راہ پرگامزن رہنا چاہتے ہیں۔وہ اپنی زمین پرصہیونیوں کے قبضے کوکسی بھی نبی کے نام پرکچھ اورقرار دینے کی ہرکوشش کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیواربننے کیلئےتیارہیں۔