شامی خانہ جنگی:اک نیاموڑ

:Share

فروری کے شروع میں شام کے شمالی مغربی صوبے ادلب میں شام کی سرکاری فوج کی بمباری میں ترک فوج کے چھ فوجی ہلاک اورنوزخمی ہوگئے تھے جس کے جواب میں ترک فوج کی بمباری میں شامی فوج کے35فوجی ہلاک ہوگئے۔صدر اردوگان کے مطابق جوبھی ہمارے عزم اوراستقامت کوآزمانے کی کوشش کرے گاان کوبہت جلداپنی غلطی کااحساس ہوجائے گا۔اردگان نے روس کوبھی خبردارکیاکہ وہ دمشق اورانقراکے درمیان معاملات میں مداخلت نہ کرے اورترکی کے راستے میں نہ آئے۔ترکی یہ کہہ چکاہے کہ اس کے فوجی ادلب میں لڑائی روکنے کیلئے موجودہیں اوروہ ان جگہوں کے بارے میں جہاں یہ فوجی موجودہیں آگاہ کرچکاہے۔انہوں نے خبرداربھی کیاکہ ترکی کے فوجیوں کوکسی بھی طرح کاکوئی خطرہ لاحق ہواتوترکی اس کا بھرپورجواب دے گا۔

ادلب کوباغیوں کے قبضے سے چھڑانے کیلئے شام اورروس کی افواج کی کاروائیاں سے بچنے کیلئے اس علاقے سے لاکھوں لوگ اپناگھربارچھوڑکرجانے پر مجبور ہوگئے جبکہ بشارالاسد کی حکومت کے قریبی اتحادی روس اورترکی نے2017 میں ادلب میں فوج کوکم کرنے کیلئے ایک معاہدہ کیاتھالیکن اس کی خلاف ورزیاں اکثرکی جاتی رہی ہیں۔ادھرشام کی ثنانیوز ایجنسی نے کہا ہے کہ شامی فوج کو کسی قسم کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوااور شامی فوج کاادلب صوبے میں آپریشن معمول کے مطابق جاری ہے اوروہ اس علاقے میں دیہات اورقصبوں سے باغیوں کو بیدخل کررہے ہیں۔

اس واقعے کے بعدشام اورترکی کی حکومت کے تعلقات میں تناؤمیں اضافہ کی وجہ سے روس اورترکی کے باہمی تعلقات پربرا اثرپڑناشروع ہوگیا۔ترکی نے شام کی خانہ جنگی کے آغازمیں بشارکی حکومت کوگرانے کیلئے باغیوں کاپیسہ اوراسلحہ فراہم کیالیکن جب صورتحال نے پلٹاکھایااوربشارالاسدکوحکومت سے علیحدہ کرناممکن نظرنہیں آیاتو اردوگان نے شام میں ترکی کے دفاعی اورسیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے بہترین راستہ اختیارکرتے ہوئے اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے دمشق اور ماسکو کے ساتھ تعلقات بہترکرنے کی کوششیں شروع کر دیں ہیں۔ترکی میں اس وقت35لاکھ شامی مہاجرین موجودہیں اوراردوگان نے کہاہے کہ ان کا ملک مزید مہاجرین کابوجھ اٹھانے کامتحمل نہیں ہوسکتا۔

ادھرکروناوباکی وجہ سے خطے میں موجودعرب ممالک کی شام میں اپنی دلچسپی سے منہ موڑنے اور ترکی کے مصالحانہ کردار کے بعداب شام میں خانہ جنگی اپنے اختتام کوپہنچ رہی ہے اورصدربشارالاسد کی حکومت بڑی حدتک اس جنگ میں کامیاب ہوچکی ہے۔مستقبل قریب میں توحکومت کی باگ ڈوربشار کے ہاتھ میں ہی ہوگی۔ دریں اثناٹرمپ انتظامیہ مارچ 2019 میں امریکی فوج اورکرد اتحادیوںکے ساتھ مل کرجنوب مشرقی شام کے آخری حصے کو داعش کے قبضے سے آزاد کروانے کی خوشخبری سنارہی تھی تاہم مشرقی شام میں داعش کاخاتمہ اس بات کی علامت نہیں ہے کہ شام کاتنازع حل ہوگیاہے۔ملک میں مختلف حصوں پرقبضے کی جنگ تین مراحل پرمشتمل تھی ۔ پہلے مرحلے میں اسدحکومت نے ایران اور روس کی مددسے ملک کے جنوبی حصے میں، جہاں کی آبادی بھی زیادہ ہے،اپناکنٹرول مستحکم کرلیاہے۔بشارحکومت ملک کے بقیہ دوحصوں کاکنٹرول حاصل کرنے کاارادہ رکھتی ہے،جوکہ فی الحال حزب اختلاف کی مسلح ملیشیا کے کنٹرول میں ہیں جنہیں غیرملکی حمایت حاصل ہے۔ملک کے شمال مغربی علاقے میں حکومت اورحزب اختلاف کے درمیان فائربندی کے معاہدے کی نگرانی ترک فوج کررہی ہے اورلگتایہ ہے کہ شامی حکومت یہاں(ادلب میں)بھی قبضے کے حصول کیلئے روسی فوج کی مددسے آپریشن کاآغازکردے گی،جس کے نتیجے میں ایک دفعہ پھرلوگوں کی بڑی تعدادکونقل مکانی پرمجبورہونا پڑے گا۔

مشرقی شام میں کرداورعرب گروپ امریکی فوج کی مددسے زیرقبضہ علاقے کاانتظام چلارہے ہیں اوراس علاقے کوامریکانے نو فلائی زو ن قراردیا ہے جس سے اس گروہ کومزید مدد ملتی ہے ، یادرہے کہ اس علاقے کوکردوں نے داعش سے آزاد کروایا تھا۔ٹرمپ کی طرف سے2018کے آخرمیں شام سے انخلا کے اعلان نے کردوں کواس بات پرمجبورکیاکہ وہ بشار حکومت سے مذاکرات کریں تاکہ امریکی فوج کے نکلنے کے بعدمشرقی شام کے اس علاقے میں شامی فوج کی تعیناتی ممکن بنائی جاسکے ۔ امریکی فوج کے انخلا کے بعد شامی حکومت یہاں بھی مقامی گروہوں کے ساتھ مل کراپناکنٹرول قائم کرلے گی۔ شامی حکومت اور اس کے اتحادی کسی بھی صورت میں ملک کی تقسیم کوقبول نہیں کریں گے۔یہ اپنی کوششیں جاری رکھیں گے کہ امریکی اورترک فوج کے کنٹرول میں موجود علاقوں میں بھی مرکزی حکومت کی رٹ قائم کی جائے۔

شامی تنازعے کامستقل حل ان زونزکے مستقبل کے حوالے سے مذاکرات میں پوشید ہ ہے اوران مذاکرات میں شامی حکومت اپنی رٹ قائم کرنے کے بدلے میں روس،ترکی اور حزب اختلاف کے گروہوں کی شرائط کوقبول کرے گی۔ اس عمل کومکمل ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، تاہم لڑائی اورتشدد کی لہربرقرار رہے گی البتہ اس میں پہلے کی سی تیزی نہیں رہے گی ۔دمشق حکومت اس بات کی اہلیت رکھتی ہے کہ وہ تمام علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لے لیکن اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ تباہ شدہ معیشت کو دوبارہ پٹری پرلاسکے۔ آنے والے سالوں میں مغربی پابندیوں،فنڈکی کمی اورتباہ شدہ علاقوں کی تعمیرنوجیسے چیلنجوں سے نمٹناشامی حکومت کیلئے مشکل ہوگا اوراس کے ساتھ ساتھ انتہاپسندوں کے حملے بھی وقتاًفوقتاًجاری رہیں گے جس کے نتیجے میں پچاس لاکھ شامی مہاجرین کوشام واپس آنے پربھی نامناسب حالات کاسامنا کرناپڑے گااورشامی حکومت مستقبل میں بھی کمزورریاست کے طور پرہی دنیاکے نقشے پرموجود رہے گی اوریہی صہیونی اسرائیل کامنصوبہ ہے۔

تیونس اورمصرمیں کامیاب عوامی مزاحمت کودیکھتے ہوئے مارچ میں شام کے عوام نے بھی حکومت کے ظلم وزیادتی اور بدعنوانی کے خلاف مظاہرے شروع کردیے ہیں۔ چندایک واقعات کے علاوہ مجموعی طورپرمظاہرے پرامن طریقے سے جاری تھے ۔شامی حکومت نے مظاہرین کوگرفتارکرناشروع کیااورمظاہرین پرتشدد کاآغاز کر دیا،جس سے مظاہروں کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔حکومت کے جارحانہ ردعمل نے تنازع کوہوادی اورریاست کے اس طرزِعمل نے ملک کوخانہ جنگی کی طرف دھکیل دیا۔مصراورتیونس میں عرب بہار کے نتائج شام میں خانہ جنگی کی بڑی وجہ بنے۔اس کے علاوہ2006ء سے2010تک شام میں آنے والے قحط پرشامی حکومت کے اقدامات کے خلاف غم وغصہ بھی ایک بڑی وجہ بنا۔ 2011 ء کے موسم گرما میں دمشق کے مضافاتی علاقوں میں مظاہرے شروع ہوئے۔ بڑے شہروں کے گردرہنے والے غریب لوگوں کی جانب سے مظاہروں میں شرکت یقینی تھی۔

2011ءکے موسم سرماتک مظاہرین اورباغی بہت سے شہراوردیہی علاقوں پرقبضہ کرچکے تھے جس کاجواب شامی حکومت بھی ٹینکوں اورجہازوں کے ذریعے دے رہی تھی اورآنے والے مہینوں میں اس لڑائی نے پورے ملک کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس کے ساتھ ہی تنازع کی نوعیت بھی تبدیل ہوتی چلی گئی،وہ لڑائی جو حکومت کے احتساب کیلئے لڑی جارہی تھی ،وہ تبدیل ہوکرطاقت کے حصول کی جنگ میں تبدیل ہوگئی۔اس لڑائی میں فرقہ واریت کاعنصربڑھتاچلاگیاکیونکہ حزب اختلاف کی جانب سے لڑنے والوں میں سنییوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتاجارہاتھا۔2012میں حاصل ہونے والی ابتدائی کامیابیوں کے بعدحزب اختلاف کواسلحہ اوردیگروسائل کی کمی کاسامناکرناپڑاجس سے ان کی کامیابیوں کا سفربھی رک گیااورمذاکرات کی راہ ہموار ہونے لگی۔2013تا2015شامی حکومت اور مسلح حزب اختلاف میں زیرقبضہ علاقوں کاتبادلہ نہ ہونے کے برابررہا۔

مغربی حکومتوں کوشام میں ہونے والی خوںریزی نے حیران کردیا۔ پھرانہیں یہ خوف لاحق ہواکہ اس خانہ جنگی سے حزب اختلاف کی تنظیموں میں انتہا پسندی بڑھنے کاشدیدخطرہ پید ا ہو گیاہے۔اس صورتحال کوپیش نظررکھتے ہوئے انہوں نے ایک متحدہ قومی حکومت کامنصوبہ پیش کیااوراسی سلسلے میں ترکی اور چندخلیجی ممالک کی مددسے حزب اختلاف کی تنظیموں کو محدودامدادکی فراہمی بھی شروع کردی تاکہ بشارکومذاکرات کی میز پرلایاجاسکے۔اس کےساتھ ہی ایران نے بھی ہزاروں غیرملکی شیعہ عسکریت پسندوں کوبشارحکومت کی مدد کیلئے شام کے محاذپراتاردیا۔2015میں روس نے کمزور ہوتی بشار حکومت کی مدد کیلئے فضائی آپریشن کاآغازکردیا۔

2011ءتک مغرب کاموقف تھاکہ شام کے مسئلے کاغیر فوجی حل تلاش کیاجائے لیکن یہ حکمت عملی ناکام ہوگئی۔یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا اگر دونوں فریقین ایک جیسی طاقت رکھتے ہوں۔امریکااوراس کے اتحادیوں نے بشارکی مخالفت توکی لیکن ایران اورروس کامقابلہ کرنے سے انکارکردیا جس کی وجہ سے طاقت کا توازن بشار کے حق میں ہوتاچلاگیا۔ فوجی مداخلت کی دھمکی کے بغیربشارحکومت کومذاکرات کی میزپرلانے کی امریکی حکمت عملی بری طرح سے ناکام ہوئی۔اس کے مقابلے میں شامی فوج نے ایرانی ملیشیاکی زمینی مدد اورروسی فضائیہ کی مددسے نہ صرف جنوبی شام کے علاقوں کو دوبارہ اپنے قبضے میں لینا شروع کردیابلکہ حزب اختلاف کے کمزورہوتے گروہوں کوکافی پیچھے دھکیل دیا۔واشنگٹن اس صورت حال سے لاتعلق ہوگیاتھا،پھر 2014میں امریکاکی توجہ کامرکزداعش بن گئی جومشرقی شام اورجنوبی عراق کے بڑے علاقے پرقبضہ کرچکی تھی۔

تنازع کے آغازسے ہی شامی حکومت نے مرکزی کرداراداکیاہے۔اسے نسبتامنظم کمانڈاوربہترانفراسٹرکچرکی مددحاصل رہی ہے اورآج کے دن تک اس نے ریاست کی حیثیت سے کام کیاہے اگرچہ جنگ کی وجہ سے حکومت کافی کمزورہوچکی ہے۔ بشارالاسدکواپنی فوج اورچاربے رحم خفیہ ایجنسیوں کی مستقل مدد حاصل رہی ہے۔بشارنے مسلسل اس بات پر زوردیاہے کہ تمام بڑے اداروں کاکنٹرول اپنے پاس رکھے اورحزب اختلاف کے ساتھ کسی بھی قسم کے اختیارات کی تقسیم کویکسر مسترد کیاہے۔اس کے علاوہ انہوں نے حزب اختلاف کے کنٹرول میں چلے جانے والے علاقوں کے دوبارہ حصول کیلئے مستقل جدوجہد جاری رکھی۔ شامی حکومت کاانحصاراپنے اتحادی روس اورایران پرہے اوراس نے اس بات کابھی اشارہ دیاہے کہ دونوں ممالک کی فوجیں طویل مدت کیلئے شام میں رہیں گی تاہم دمشق اکثرامدادکے معاملے میں ڈالے جانے والے روسی دباؤکو مسترد کرکے اپنی حیثیت کااعلان کرتاہے۔اسی طرح وہ اکثرایران کوکھلے عام تنقید کانشانہ بناتاہے اوریہ احساس دلاتاہے کہ وہ ابھی بھی اپنی الگ حیثیت رکھتاہے۔شامی حکومت میدان جنگ میں تواتنی مضبوط ہے کہ اسے میدانِ جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی لیکن مستقل جنگ لڑنے کی وجہ سے نہ صرف افرادی قوت کی کمی کاشکارہوگئی ہے بلکہ مالی حالات بھی بہت خراب ہیں۔ افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے حکومت نے مقامی قبائلی سرداروں اورجنگجوں سے بھی مددحاصل کی،جنہوں نے حکومت کی مدد کے بدلے میں اپنے علاقوں میں کھلے عام اسمگلنگ اور لوٹ مارشروع کردی۔

شامی حکومت نے جنوبی اورمشرقی شام میں کسی حدتک اپنی جنگی حکمت عملی اورروسی اورایرانی مددسے اپنی سبقت برقراررکھی۔دمشق نے ماسکوکی مدد سے مقامی مخالفین سے کامیاب مذاکرات کیے،جن میں درحقیقت یہ طے پایاکہ یہ ہتھیار ڈالیں گے۔زیادہ آبادی والے شہروں پرحکومت نے اپناکنٹرول مضبوط کرلیا، ان شہروں میں دمشق،الیپو،حمص، لتاکیا اور حماص وغیرہ شامل ہیں۔شامی حکومت نے اس دوران اپنے غیرملکی اتحادی اورکاروباری افراد کے ذریعے دیگرعرب ریاستوں سے بھی تعلقات بہترکرنے کی کوششیں جاری رکھیں ۔ اس کے علاوہ شامی حکومت نے پچاس لاکھ مہاجرین کو واپس لانے کیلئے جارحانہ کوششیں کرنے کے بجائے اپنے وفادارکاروباری افرادکوزمینیں الاٹ کرنے پراپنی توجہ مرکوزرکھی تاکہ وہ اپنے کاروبارمیں اضافہ کرسکیں۔شام کے تنازع کے حل میں حکومت اورحزب اختلاف کی باہمی شرائط اورمعاہدہ ہی کارفرمانہ ہوگابلکہ اپنے اپنے مفادات رکھنے والی علاقائی اور عالمی طاقتوں کی مداخلت اوراس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی بھی اپنا کرداراداکرے گی تاہم خطے میں اسرائیل وامریکااپنے مقاصدحاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اورروس کوبھی ان مفادات میں بالآخرایک معمولی حصہ دیکرخاموش کردیاگیاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں