The Sun Of Tears | Rise very Soon

آنسوؤں کاسورج

:Share

جس کے پاس یقین کی دولت ہواس سے بڑا کوئی خوش نصیب نہیں ہوتا۔صرف یقین نہیں،یقین محکم…..! اس طرح کا یقین کہ چاہے کچھ ہو جائے، دنیا ادھرسے ادھرہوجائے،سورج نکلے گااورنکلے گابھی مشرق سے۔یہ ظلمت شب ختم ہوگی،اندھیراختم ہوگا،ان ظالموں کی پسپائی ہوگی اورسچ کی کرنیں ان کو نگل لیں گی…… دراصل یہی ہے اسرارکائنات جس پرفکرکرنے کی دعوت دی گئی ہے،تدبرکرنے کاحکم دیاگیا ہے۔یقین کامل ہوتوکشتی کتنی ہی شکستہ کیوں نہ ہوبالآخرکنارے پرلگ ہی جاتی ہے چاہے چاروں طرف سونامی جیسے طوفانوں نے گھیررکھاہولیکن وہ جواپنے تکبراورغرورکے ٹائی ٹینک پربڑے نازاں ہوتے ہیں ان کی تباہی اوربربادی کاعبرتناک منظربھی تاریخ کے اوراق میں موجودرہتاہے تاکہ کوئی ان سے سبق سیکھ سکے۔

ہم اپنی زندگی میں بھی اس کے مظاہردیکھتے ہیں۔آپ کہتے ہیں ناں کہ فلاں جان تودیدے گالیکن میرا اعتمادنہیں توڑے گا،مجھے اس پرپورایقین ہے لیکن اکثریہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتے لیکن ایسابھی نا ممکن نہیں۔یہ انسانوں کی بستی ہے،ہر طرح کے لوگ ہیں یہاں۔بدلتے موسم کی طرح بدلتے لوگ،گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے لوگ!منہ پرمکرجانے والے لوگ!لاکھ کہیں آپ نے یہ کہاتھا…کہیں گے نہیں، بالکل نہیں!”نہیں نہیں آپ سمجھے نہیں، میں نے یہ نہیں کہا۔پھروقت کامنہ زوراوربے قابوگھوڑاانہیں بے بس کردیتاہے توپھرشرمندہ ہونے کی بجائےدھڑلے سے کہتے ہیں کہ”یوٹرن”قومی مفادات کیلئے ناگزیر ہیں جبکہ اسی ملک میں یہ بھی سننے کوملاکہ”تحریری معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں،ایک کاغذکاٹکڑاہی توہے اورپھریہ کون ساقرآن وحدیث ہے؟آپ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ حلف اٹھاناتوکوئی بات ہی نہیں،کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے یہاں!

لیکن یہ ڈاکٹرعافیہ کہ بہن ڈاکٹرفوزیہ کس مٹی کی بنی ہوئی ہے کہ مسلسل کئی سالوں سے اپنے آنسؤوں کا ڈھول ہرمحاذپرپیٹ رہی ہے۔یہ اکیلی منزل کے حصول پرنکلی لیکن اب ایک ایسے قافلے کی میر کارواں بن گئی ہے کہ اس کوجھٹلانے والے پریشان وپشیماں ہیں۔کراچی سے لیکراسلام آباد کی سڑکیں، پارلیمنٹ کے ارکان اورمیڈیابھی اس کی ہمت کوسلام پیش کررہے ہیں۔آپ میں اخلاص ہوتوقسمیں کھانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔بس نیت خالص رکھو،کسی توقع کی امید مت رکھو، ہر شے سے بے نیاز! اگر آپ اخلاص نیت سے کام کرتے ہیں اور منزل پر پہنچنے سے قاصر ہیں یا مفادپرست اسے بگاڑ بھی دیں لیکن اندر سے آوازآتی رہتی ہے کہ میں نے توبہت اخلاص سے یہ کام کیاتھااس کے نہ ہونے میں بھی کوئی اللہ کی مرضی ہوگی،کوئی پچھتاوانہیں ہوتا،اور اگر آپ نے بری نیت سے کوئی اچھاکام کیاہے اوروہ بارآور بھی ہوگیا،پھل پھول دینے لگ گیا،واہ واہ بھی ہو نے لگی لیکن اندرسے آواز پیچھا نہیں چھوڑتی،،کام تو ٹھیک ہوگیا لیکن نیت توٹھیک نہیں تھی ناں،باہرکی واہ واہ سے کیالینا،اندرسے سرشارہونا چاہئے۔
باہرسے بنجرہوں لیکن اندرسے شاداب
بس یہ ہے اصل،اورکچھ نہیں!

ایک چھوٹاساگاؤں تھا،لوگوں نے گائے بھینسیں پالی ہوئی تھیں اوران کادودھ شہرمیں آکربیچاکرتے تھے۔ شہراورگاؤں کے درمیاں ایک بڑی پرزورندی تھی ۔سب گوالوں کے پاس اپنی اپنی مضبوط کشتیاں تھیں اوروہ صبح سویرے ہی شہرکارخ کرکے دودھ فروخت کرکے گھرلوٹ آتے تھے مگران میں ایک ایسا بھی تھاجس کے پاس غربت کی بناءپرکوئی سواری نہیں تھی اوروہ دوسروں کے رحم وکرم پرتھا۔اگر کسی کواس غریب پرترس آجاتاتواپنے ساتھ کشتی پرسوارہونے کی اجازت دے دیتاوگرنہ اکثردھتکاردیا جاتا۔

اپنی اس غربت کے ہاتھوں بہت پریشان تھا۔ایک دن اسے کسی نے شہرمیں ایک باباجی کاپتہ دیا،اپنی قسمت آزمائی کیلئے وہاں پہنچا،روتے ہوئے اپنی بپتا سنائی، بابا جی نے مذاق میں کہہ دیا “تجھے اللہ پر یقین ہے ناں؟”تو وہ غریب فوری بولا “جی!پکا یقین ہے”تو بابا جی بولے کہ آئندہ ندی کے اس کنارے آنکھیں بند کرکے اللہ کو یاد کرنا، ندی تمہیں خود ہی دوسرے کنارے پہنچا دے گی اور اسی طرح واپسی کا سفر بھی طے کر لینا”۔دوسرے دن وہ ندی پر پہنچا اور بابا جی کے بتائے ہوئے طریقہ پرعمل کیا،آنکھیں بندکی اورجب کھولیں توندی کے دوسرے کنارے پرتھا۔بہت خوش ہوا وہ۔ اب تواس کامعمول تھا کہ ندی پر آتا، آنکھیں بند کرتا اور پا ر چلا جاتا۔رب نے برکت دی اوراس کاکام چل نکلا۔

ایک دن اسے خیال آیاکہ میں بھی کس قدرخودغرض ہوں،جس نے مجھے یہ راہ دکھائی میں اسے توبھول ہی گیا۔یہ خیال آتے ہی سارے کام کاج چھوڑکرانہی باباجی کے پاس پہنچا جو اپنے چیلوں کے درمیاں گپ شپ میں مصروف تھے۔سلام کیا اور ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔باباجی پہلے تو نظریں چراتے رہے لیکن پوچھ لیا کہ کیسے آئے ہو۔اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے بابا جی کو تمام چیلوں سمیت گھر میں کھانے کی دعوت دی جو بابا جی نے فوری قبول کرلی ۔ بابا جی اپنے مریدوں کے ساتھ اس غریب کے گھرجانے کیلئے جب ندی کے کنارے پہنچے تووہ وہاں ان سب کے استقبال کیلئے موجودتھا۔بہت خوش ہوا وہ، باباجی سے کہا: چلئے آئیے، تو بابا جی بولے کہ میاں کشتی کہاں ہے؟تب وہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ بابا جی آنکھیں بند کیجئے اوراللہ کانام یادکریں توندی آپ کوخود ہی دوسرے کنارے پر پہنچا دے گی۔اس نے آنکھیں بند کیں اور دوسرے کنارے جب پہنچا تو دیکھا کہ بابا جی ابھی دوسرے کنارے پر ہی کھڑے ہیں۔اس نے بلند آواز سے بابا جی کو جب پکارا تو بابا جی نے بڑے غصے سے سے کہا کہ تم نے ہمیں ندی میں غرق ہونے کو بلایا ہے؟ تجھے تمہارا یقین مبارک!

میں اپنے ارد گردعجیب سے حالات دیکھ رہاہوں۔عجیب عجیب سے لیکچرسن رہاہوں لیکن ان سے ہوکچھ بھی نہیں رہا….بس شوربڑھ رہاہے اورسماعت متاثر ہورہی ہے اورکچھ بھی نہیں……اس لئے کہ سچائی کیلئے زبان صادق کاہونابہت ضروری ہے۔مجبورومقہورفوزیہ اورہمنواہرجگہ اس امید پر دہائی دے رہے ہیں کہ شائدان پتھروں میں کوئی سوراخ ہوسکے۔ہرکوئی اس کوجھوٹی تسلی دیکراس کے زخموں سے کھیل رہاہے۔اقتدارکے ایوانوں میں بیٹھےافراد میڈیا کے سامنے آنکھیں چرارہے ہیں۔مجھے لگتاہے کہ ہمیں بے یقین رہبروں نے گھیرلیاہے،چاروں طرف جعلی پن……..یہ بے یقین رہبرایسی باتیں کررہے ہیں جن پر ان کو خود بھی یقین نہیں ہے۔یہی مسئلہ ہے ہمارا۔

میرے رب!ہمیں وہ رہبردے جسے اپنے کہے پریقین کامل ہو،یہ طوفان بلاخیزہماراکچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا۔بس ضرورت ہے یقین کامل کی،اور ہم سب اتنا تو جانتے ہیں ناں کہ کل کا سورج ضرور طلوع ہوگا،اورہوگابھی مشرق سے،آپ یقین رکھئے یہ جوچاروں طرف اندھیراہے ناں گھپ اندھیرا …… یہ تو ایک جگنو جتنی روشنی کامقابلہ بھی نہیں کرسکتا،ضرورطلوع ہوگاسورج اورپسپاہوگایہ اندھیرا……..!تم اپنے آنسوؤں کاسورج اس یقین کے ساتھ جلائے رکھوکہ انہی چراغوں سے اب ایسی روشنی ہوگی کہ اندھیرے اب کبھی لوٹ کرواپس نہ آئیں گے۔اندھیروں کے سفیراورابلیس کے گماشتے اپنے انجام کوپہنچ رہے ہیں ،ان کے دیئے ایک ایک کرکے بجھ رہے ہیں۔کچھ بھی نہیں رہے گا،بس نام رہے گا میرے رب کا!

اپنا تبصرہ بھیجیں