جدیدعقلیت نے کسی بھی چیزکے درست ہونے کامعیاریہ رکھاہے کہ وہ انسانی عقل میں آجائے اوراس کا تجربہ بھی ممکن ہو۔اس لاجک کے تحت مذہبی عقائد کوبھی ہدف تنقیدبنانے کارواج عام ہوتاجارہاہے چنانچہ جہاں عقیدہ توحید،رسالت،آخرت پرعقلی سوالات اٹھائے گئے ہیں وہاں اس زدمیں انبیاءکے معجزات بھی آئے ہیں۔جدیدذہن ان کی عقلی وسائنسی توجیہہ کامطالبہ رکھتاہے۔اس کوجانتے ہوئے بھی کہ سائنس کچھ ڈائمنشنز،مشاہدات وتجربات تک محدودہے، ہرحتمی سچائی،رازاورعلم سے واقف نہیں،کئی مسلم نوجوان ان عقائدکے بارے میں شکوک وشبہات کاشکارہوگئے اورکچھ مخلص مسلمانوں نے جواب دینے میں ناکامی کی وجہ سے دین کی بنیادوں پرہی انتہائی قسم کے سمجھوتے کرلئے۔عقائدکی سائنسی تفاسیرکے حق میں جائے بغیرجدیدمسلم ذہن کی اس تشکیک کودیکھتے ہوئے ان معاملات کی ایسی معقول وممکن سائنسی توجیہہ وتشریح کی ضرورت ہے جس سے ان کے خلاف عقل ہونے کے دعوے کی حقیقت واضح ہوجائے۔
معجزہ وہ خلاف عادت چیزہے جوسوال اوردعویٰ(نبوت)کے بعدظاہرہوجوہرحیثیت سے محال نہ ہواورلوگ باوجودکوشش اورتدبیرکے اس قسم کے معاملات میں پوری فہیم وبصیرت رکھتے ہوئے بھی اس کے مقابلہ سے عاجزہوں۔معجزہ کے ذریعہ چونکہ ایساواقعہ ظہورمیں آتاہے جوقوانین فطرت کی عام روش سے ہٹا ہوا ہوتاہے جس سے واضح ہوتاہے کہ مدعی نبوت رب العالمین کانمائندہ ہے جس نے اس کی صداقت ثابت کرنےکیلئےاپنی براہ راست مداخلت سے وہ واقعہ نشانی کے طورپرصادرکیاہے اگرچہ رسول کی سیرت،اخلاق،طبعی سلامت روی اورر سول کاسنایاہواپیغام خودسے دلیل ہوتاتھالیکن ہرذہن اس دلیل سے مطمئن نہیں ہوتاتھا اس لئے رسول کے ذریعے کوئی ایسا خرق عادت واقعہ پیش کیاجاتاجوکہ معلوم فطری قوانین کے مطابق ناممکن ہوتا۔یہ خرق عادت واقعات اللہ کے وجودکوثابت کرنے کیلئےپیش نہیں کئے گئے،بلکہ اصلاًرسول کورسول ہونے کی دلیل کے طورپراورضمناًرسول کی تعلیمات کے حق ہونے کی دلیل کے طورپرپیش کئے گئے ۔
سائنس کے مزعومہ دریافت کردہ قوانین سے مرعوبیت کی بناپرہمارے ہاں ایسے مفسرین قرآن نے بھی جنم لیاجنہوں نے قرآن کومعلوم سائنسی قوانین کے مطابق ثابت کرنے کے جوش میں یاتومعجزات کاسرے سے انکارہی کردیااوریاپھران کی ایسی بے سروپاتاویلات کیں کہ وہ معجزہ ہی نہ رہے۔سائنسی معلومات وقوانین کی بنیادپرمعجزات کاانکارکرنے والے شخص کی ذہنی کیفیت اس ایلین کی سی ہے جو کہیں سے ہماری زمین پرآگیاہے اورٹریفک سگنل کے سامنے کھڑا مشاہدہ کررہاہے۔چنانچہ وہ مشاہدہ کرتاہے کہ لال رنگ کی بتی جلنے پرگاڑیاں رک جاتی ہیں اورسبز بتی پرچلنے لگتی ہیں۔فرض کریں متعدددفعہ یہی مشاہدہ کرنے پراس کے ذہن میں یہ مفروضہ جنم لیتا ہے کہ”لال رنگ کی بتی گاڑی رکنے کاسبب ہے اورسبز رنگ کی بتی ان کی حرکت کاسبب”اپنے مفروضے کی مزید تحقیق کیلئے وہ شہربھرکے سگنلزکاچکرلگاتاہے اورہرجگہ واقعات کی اسی ترتیب کامشاہدہ کرنے کے بعدوہ اپنے درج بالامفروضے کودنیاکااٹل قانون مان لیتاہے۔
اب فرض کریں سڑک پراس کی ملاقات ہماری دنیا کے کسی شخص(آپ)سے ہوتی ہے اوروہ آپ کودنیاکے بارے میں اپنے دریافت کردہ قانون سے آگاہ کرتا ہے یعنی”لال بتی ہمیشہ گاڑی روک دے گی اورسبز بتی اسے چلادے گی”آپ مسکراکراسے کہتے ہیں کہ جناب لال اورسبزمیں ایساکچھ نہیں ہے جوگاڑیوں کوروکتا یاچلاتاہے بلکہ ان رنگوں میں یہ معنی وتاثیرہم انسانوں نے خودرکھے ہیں، جب تک ہم چاہتے ہیں یہ ترتیب نظرآتی رہتی ہے اورجب ہم نہیں چاہتے توہم اسے معطل کردیتے ہیں،جیسے کہ ایمبو لنس کوہم نے اس قانون سے مستثنٰی کررکھاہے مگروہ ایلین اپنی تحقیق پربضدرہتاہے،آپ کی بات پریقین نہیں کرتابلکہ الٹا آپ کوجاہل اورنادان سمجھنے لگتاہے اوردعویٰ کرتاہے کہ”دنیاکے قانون فطرت کے مطابق ہوہی نہیں سکتاکہ ایمبولینس لال بتی پرنہ رکے”۔
یہی حالت ہراس شخص کی ہے جوسائنسی مشاہدات کی بنیادپردریافت شدہ روابط کوحتمی سمجھتے ہوئے معجزات کاانکارکرتاہے۔اللہ کا نبی کہتاہے کہ یہ اشیاءبذات خودمؤثرنہیں بلکہ ان کی یہ بظاہر دکھائی دینے والی تاثیراورمعنی حکم خداوندی کی بناپرہیں،جب تک وہ چاہتا ہے یہ ربط تمہیں دکھائی دیتاہے اورجب اس کااذن نہ ہوتویہ روابط معطل ہوجاتے ہیں مگرسائنس کاماراہوا نادان انسان اللہ کی بنائی ہوئی دنیاکے بارے میں اپنے دریافت کردہ ربط کواٹل جانتے ہوئے نبی کاتمسخر اڑاتا ہے ۔دراصل یہ ساراعمل عقیدے اوراعتمادکے مابین یقین کے نازک دھاگے سے بندھاہواہے۔
اس کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص دو اونچے میناروں کے درمیان بندھی رسی پر چلنے لگا۔وہ اپنے ہاتھوں میں ایک لمبی چھڑی کو متوازن کرتے ہوئے آہستہ آہستہ چل رہاتھا۔اس نے اپنے کندھوں پراپنے اکلوتےبیٹے کوبٹھایاہواتھا۔زمین پرموجودہرشخص سانس روکے، بے حدپریشانی اورتجسس کے ساتھ اس کودیکھ رہاتھا اور اس کی سلامتی کیلئے دعائیں بھی مانگ رہاتھا۔جب وہ آہستہ آہستہ دوسرے ٹاور پرپہنچاتوہرکوئی خوشی سے اچھل رہاتھا،تماشائیوں نے اپنی نشستوں پرکھڑے ہوکرزوردارتالیوں،سیٹیوں اورپرتپاک جملوں سے اس کا استقبال کیا۔نوجوانوں کی ایک کثیر تعداداس کے گردجمع سیلفیاں لینے اورآٹوگراف لینے میں مصروف تھی۔اپنے استقبالی مجمع کوایک طرف کرتے ہوئے اچانک اس نے ہجوم سے پوچھا”کیاتم سب کولگتاہے اورمجھ پربھروسہ ہےکہ میں واپس اس طرف اپنے بچے کے ساتھ جاسکتاہوں جہاں سے میں نے اپناسفرشروع کیاتھا؟سارامجمع بیک آوازچلایا “ہاں،ہاں،آپ کے ناقابل یقین عمل اوراعتمادکودیکھ کرہم ہرقسم کی شرط لگانے کو بھی تیارہیں۔
اس نے چندلمحوں کیلئے آنکھیں بندکرکے خاموشی اختیارکرلی۔مجمع میں موت جیسی خاموشی چھاگئی۔مجمع منتظرتھاکہ اس نے اچانک خاموشی توڑتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے،کیاتم میں سے کوئی اپنے بچے کومیرے کندھے پربٹھاسکتاہے؟میں بچے کوبحفاظت دوسری طرف لے جاؤں گا۔سارےمجمع میں خاموشی چھاگئی اور سب اس سوال کوسن کردنگ رہ گئے۔کسی میں بھی ہمت نہیں تھی کہ ابھی چندلمحے قبل جس پریقین کرتےہوئے شرط لگانے کوتیارتھے،اس کوجواب دیتے:
اس نے مجمع کے خاموش چہروں اورجھکی گردنوں کودیکھ کرایک قہقہہ لگایااوریہ کہہ کرپردہ کے پیچھے غائب ہوگیا:عقیدہ ااوراعتماد میں فرق ہے۔اعتمادکیلئے آپ کومکمل طورپرہتھیارڈالنے کی ضرورت ہے۔آج کی دنیامیں ہماری یہی کمی ہے۔کیاہماراعقیدہ ہمیں یقین کی ہمت دیتاہے؟خودسے سوال کریں کہ کیاہم اللہ تعالیٰ پریقین رکھتے ہیں؟کیاہم اُس پربھروسہ کرتے ہیں؟جس دن ہم نے بھروسہ کی کامیاب منزل کوپالیاتواسی دن اغیارکی غلامی کےطوق سے نجات کاسفرشروع ہو جائے گا۔ان شاءاللہ