The Stick Of Certainty

یقین کی لاٹھی

:Share

افغانستان میں پاکستان کی مدد سے امریکا نے واحد عالمی طاقت کا تاج تو اپنے سرسجا لیا اور “ون ورلڈ” پروگرام کے تحت اب وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے ہمسایہ بننے کا حق اور دنیاکے تمام سرچشموں کامالک بننے کے خواب کی تعبیر کیلئے من مانی جارحیت پر اتر آیا جس کیلئے ایک باقاعدہ ایک منصوبہ بندی اور اپنی طاقت کے تکبر میں نائن الیون کا ڈرامہ رچایاجس کی قلعی خود امریکاکے خصوصی تحقیق کاروں نے ساری دنیاکے سامنے کھول کر رکھ دی ہے۔ درجن سے زا ئد کتب اور دو درجن سے زائد دستا ویزی فلمیں پورے ثبوتوں اورمشاہدوں سے مارکیٹ میں بھی دستیاب ہیں جن میں ایک عام قاری کے سمجھنے کیلئے قیامت کاساما ں موجود ہے کہ کس طرح امریکا میں ایک مخصوص ٹولہ نےاپنے مفادات کی خاطر تمام دنیا کے امن کو تباہ کر دیا ہے جس میں لاکھو ں بے گناہ افراد کو اب تک لقمہ اجل بنا دیا گیاہے اور”ھل من مزید”میں اور کس قدر قیمتی جانوں کا ضیاع ہوگا اورعا لم انسانیت اور کتنے برس اس خونی عذاب میں مبتلارہے گی،کوئی نہیں جانتا؟

اس خونخوارٹولے کےعزا ئم کااند ازہ لگانااب کچھ مشکل نہیں،اب توخودامریکی پالیسی سازافرادکے اقرارکے بعدان کے ارادے کھل کردنیاکے سامنے آگئے ہیں ۔امریکا کی سازش تھی کہ وہ افغانستان کا مشرقی علا قہ”مزارشریف سے لیکر کابل تک اپنے تسلط میں لائے۔اس مقصدکیلئے پہلے مرحلے میں وہ مزار شریف کی جا نب پیش قدمی کرکے رسل ورسائل کی اہم شاہراہ جو”ترمیز” سےگزرکردوشنبے تک جاتی ہے،اس پرمکمل اورمضبوط قبضہ کرلےاور اس کےبعدمقبوضہ علا قوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرکے کابل اوردوسرے اہم شہروں کی جا نب پیش قدمی اورگر فت کوممکن ہوسکےگی۔اس طرح افغانستان کے مشرقی علاقے کواپنے تسلط میں لانے کے بعدپاکستان اورازبکستان کے درمیان زمینی راستہ قائم ہوجائے گااوربحرہندسے لیکرپاکستان، افغانستان تک ازبکستان سے ہوتے ہوئے بحرخزرتک اس کی پہنچ ممکن ہوسکےگی اوریوروایشیااوربحرخزرکےعلاقے تک نہ صرف اس کا تسلط قائم ہوچکا ہو گابلکہ وہاں کے گیس وتیل کے ذخائراورمعدنیات پرمکمل کنٹرول بھی حاصل ہو جائےگا جو دنیاکے مجموعی ذ ذخائرکا50فیصدسے زائدہے۔ان کی لالچ میں اس وقت مزیداضافہ ہوگیاجب تورابوراپربمباری کے بعدخودامریکی سائنسدانوں پر انکشاف ہواکہ صرف افغانستان کے پہاڑوں میں 5ہزار بلین کی توصرف معدنیات چھپی ہوئی ہیں۔

نائن الیون کے ڈرامے سے قبل امریکانےطالبان کوکئی مرتبہ سبزباغ کے دلنشیں خواب دکھاکراپنے شیشے میں اتارنے کی کوششیں کیں لیکن جس دام پرامریکی اس خطے میں اپنی حکمرانی چاہتے تھے،وہ غیورطالبان کیلئے ممکن نہیں تھا اور اپنے وطن کی خود مختاری کے تحفظ کیلئے جن لاکھوں افغانوں نے اپنی جانیں قربان کرکے روس جیسی عالمی طاقت کو نہ صرف شکست سے دوچار کیا تھابلکہ سوویت یونین کو اب موجودہ روس میں بھی تبدیل ہونا پڑ گیا۔جب طالبان کسی طورپرراضی نہ ہوئے تو پھر امریکانے اپنی طاقت کے تکبرونخوت میں نائن الیون کا ڈرامہ رچا کرافغانستان پردھاوا بول دیا۔

افغانستان میں جنگ امریکانے شروع کی اوریہ اختیاربھی اپنے ہاتھ میں رکھاکہ کس قدرانسانوں کابے گناہ کشت وخون بہاکراس کی پیاس بجھتی ہے۔وہ اس حقیقت سے بے خبرتھا کہ اس کواپنے اوراپنے اتحادیوں کی فوجیوں کے کتنے تابوت رات کے خاموش اندھیرے میں سی ون تھرٹی کی زینت بنا کر واپس امریکا اور دیگر ممالک میں دفن کر نے ہیں بلکہ کچھ بدنصیب توایسے بھی ہیں جن کے لاشے افغانستان کے کوہساروں میں اس طرح گم ہو کر رہ گئے کہ آئندہ تاریخ میں گمنام سپاہی کے طورپران کااندراج ہوگا۔قصر سفیدکافرعون جومکمل طورپریہودیوں کے نرغے میں بہت بڑے مقاصدحاصل کرنے کی کوشش میں اس صدمے سے بھی لاعلم تھاکہ گیارہ سال کی مکمل ناکامیوں کے بعدوہ اس قدر زچ ہوجائے گا کہ افغانستان سے رخصتی کیلئے اس قدر رسوا ہو کر نکلے گا لیکن اس کا کیاعلاج کیا جائے کہ اب مالی طورپر امریکا دیولیہ کی حدوں کو چھونے کیلئے کانگرس سے مزید قرضے کی سہولتیں مانگنے پرمجبورہو گیا ہے لیکن اپنی عالمی برتری قائم رکھنے کیلئے دنیاکے امن وامان کو تاراج کرنے کیلئے سازشوں میں مصروف ہے۔

اب توسیاسی پنڈت،عا لمی مخبر،بین البراعظمی تجزیہ نگاراورمقا می دانشوربھی وحشت ناک موسموں کی داستا نیں بیان کررہے ہیں۔دنیاکے کسی بڑے اخباریارسا لے کواٹھالیں،کسی عالمی حالات حاضرہ کے ماہرکامضمون پڑھ لیں،یاپھرکسی ملکی تجزیہ نگار کی گفتگوملاحظہ کرلیں،یہ سب ایک آنے وا لے خوف اورگھروں پردستک دینے والی آفت کی نشاندہی کرتے نہیں تھکتے۔وہ جوکل تک اس مملکت خدادادپاکستان کے مطلق العنان حکمرانوں کوامریکاکا ساتھ دینے پرشاباش دیاکرتے تھے ان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پا لیسیوں کوسراہاکرتےتھےآج ان کی زبانیں بھی ایک لفظ بولتی پھرتی ہیں “ہم عالمی طا قتوں کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حلیف نہیں رہے”۔

یہ غلط فہمی ہمیں اپنے دماغ سے نکال دینی چاہئے بلکہ ہم اب بھی اس نام نہاددہشتگردی کی جنگ میں عالمی طاقتوں کا”ٹارگٹ”ہیں۔جبکہ ارض وطن پرسلالہ کا ادھارابھی باقی ہے اورندامت کے یہ داغ بھی بھول نہیں پائے کہ نیٹواورامریکی افواج نے ہماری وفاؤں کے صلے میں ہمارے ازلی دشمن بھارت کے دہشتگرد کیمپوں کی بھی پرورش کی۔اس کے ساتھ ساتھ کئی مرتبہ نیٹوافواج کی پاکستان میں گھسنے کی افواہوں کامقابلہ بھی کرناپڑااورمسلسل ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت مشرقی سرحدپرہندوبنئے کی گولہ باری کے سلسلے کوبھی دباؤکیلئے جاری رکھاگیا۔

اب ایک مرتبہ پھرپاکستان کے معاشی اورسیاسی انتشارکی بناءپر پاکستان کیلئے مختلف افواہوں کا بازار گرم ہو گیا ہے۔یہ سیاسی پشین گو ئیاں کوئی آج شروع نہیں ہوئیں۔مغرب کودیکھا جائےتو مدتوں بڑے بڑے انسٹیوٹ اورتھنک ٹینک حکومتی پیسوں اورخصوصی ما لی امدادسے میرے ملک کے مستقبل کے با رے میں اپنی ترجیحات بناتے رہے،منصوبہ بندیاں کرتے رہےاورموٹی مو ٹی رپورٹیں مرتب کر تے رہے۔کوئی2020،کوئی2015اور کوئی 2010 تک اس نازک اندام مملکت کامستقبل دیکھتارہاتوکسی نے خوبصورت نقشوں میں رنگ بھر کر اس ملک کا جغرافیہ مرتب کیا۔اسے نقشے پراپنی مرضی سے ایسے تقسیم کیا جیسے سا لگرہ کا کیک کاٹا جاتا ہے۔اپنے منصوبہ کو اپنی خواہشوں اور اپنے خوابوں کوعمل کی صورت دینے کاوقت آیا تو جوان منصوبوں اور سکرپٹ میں مرکزی کردارتھے،انہوں نے ریہرسل کےطورپراپنی اپنی لائنیں دہراناشروع کردیں۔کسی نے جغرا فیہ تبدیل ہونےکی دہمکی دی،تو کسی نے اس دہمکی پراپنی جوابی تقریرمیں سردھنا،کھل کرداد دی،لیکن وہ جنہیں آنے والے دنوں کی سنگینی کااندازہ تھاان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ان کی راتیں اضطراب اوردن بے چینی سے گزرنے لگے اورآج بھی یہی کیفیت ہے۔

وہ سیاسی تبصرہ نگارجن کوہمیشہ امریکااورمغرب کی رنگینیوں کے چھن جانے کاخوف رہتاہے،انہوں نے اس خطے میں آنے والی تبدیلی کے سامنے بند باندھنے کی اپنی سی کوششیں شروع کردی ہیں اورچین اورروس کے مقابلے میں اب بھی امریکاکی گود میں پناہ لینے میں عافیت گردانتے ہیں اورنہ ماننے کی صورت میں ایک مرتبہ پھرملک میں دہشتگردی کے سیلاب اورمشرقی سرحدوں کی جا نب سے حملے کی پشین گو ئیاں کر رہے ہیں لیکن وہ کہ جن کے بارے میں میرے رسول مخبرصادقﷺنے فرمایا تھاکہ”مومن کی فراست سے ڈرو،اس لئے کہ وہ اللہ کے نورسے دیکھ رہاہوتاہے”۔

میں برسوں سےاس سانحے سے آگاہ کررہاہوں اورمجھے اس کاکامل یقین بھی ہے کہ سب کچھ ہماری بہتری کیلئے ہونے والاہے لیکن زندگی سے محبت اور موت کاخوف رکھنے والے مجھ پرٹوٹ پڑے ہیں۔لیکن کیا کوئی سیدالانبیاﷺ کی اس حد یث کو جھٹلا سکتاہے۔ آپﷺنے فرمایا”ایساہو گا کہ دنیا کی قومیں تم سے لڑنے کیلئےاکٹھی ہو جائیں گی اورایک دوسرے کو ایسے بلا ئیں گی جیسابھوکے ایک دوسرے کوکھانے پربلاتے ہیں”۔ایک شخص نے عرض کیاکہ یہ اس لئے ہوگا کہ ہم تعداد میں کم ہوں گے اوردشمن زیادہ؟ فرمایا”نہیں،مسلمان تواس وقت بہت ہوں گےمگرایسے ہوجا ئیں گے جیسے دریاکے بہا ؤ پر پڑا ہوا کوڑا کرکٹ،دریا جدھربہتاہےادھر ہی بہہ جائے،تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہا ری ہیبت نکل جائے گی اورتم ”وہن”کاشکارہو جاؤگے”۔کسی نے پوچھاکہ”وہن” کیاہوتا ہے؟آپﷺنے فرمایاکہ”دنیا کا عشق اور راہ حق میں موت کو ناخوش جاننا اوراس سے بھاگنا”۔

میرے آقارسول مخبرصادقﷺکی صداقت پرایمان کی حدتک یقین کرنے والےجانتے ہیں کہ ہم اس بیماری کا شکار ہیں۔وہ خوف جس کو نائن الیون کےموقع پر اپنی غیرت،حمیت،وقار اور عزت و ناموس بیچ کر نکلے تھےکہ ہمارا تورابورا نہ بن جائے،آج ان بے خانماں افغانوں نے اپنی ایمانی قوت سےاس خوف کو اپنے سیاہ پہاڑوں میں دفن کرنے کی تاریخ رقم کرکے دکھا دی لیکن اس کے باوجود ہمیں فیصلہ کرتے ہوئےماتھے پرپسینہ آرہاہے اورسانس خشک ہورہی ہے۔ہم نے نائن الیون میں بغیر کسی حیل وحجت کے جو شرمناک کردار ادا کیا،وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب بن کر درد دل رکھنے والوں کو تڑپاتا رہے گا۔

فاسق کمانڈواپنے اقتدارکومضبوط کرنے کیلئے”سب سے پہلے پاکستان”کے نعرے کے پیچھے اپنی کامیابیوں کے ڈنکے بجاتارہا ،ارضِ وطن کے حصول کیلئےاس کی بنیادوں میں کتنے بے گناہوں کاخون شامل تھا،اسے تو یادتک نہ آیا لیکن اس کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنے والےشیخ رشیدنےبھی اس کی ہاں میں ہاں ملا کر قوم کو تورابورا کی دہمکیاں دیتے ہوئے ایک لمحے کیلئے شرم محسوس نہیں کی اورآج بھی ملکی سیاست میں دھڑلے سے دروغ گوئیوں کی پشین گوئیوں میں مصروف ہے۔لیکن وہ جواپنے مفادکیلئےبھوکے بھیڑیوں کی طرح ہم پرچڑھ دوڑنے کاارادہ رکھتے ہیں،واشنگٹن پوسٹ میں اپنے مضمونوں میں،اپنی رپورٹوں اورتبصروں میں ہمارامقدمہ کھول کھول کر بیان کرتے پھرتے ہیں۔

پچھلی سات دہائیوں سے پاکستان پراپنے احسانات کاتواترسے ذکرکرتے ہوئے یہ کیوں بھول گئے کہ انہی کی خاطرسیٹو سینٹومیں شراکت کی ہمیں کیاقیمت ادا کرنی پڑی؟وہ سرزمیں جہاں سے57ہزار پروازیں ہوئیں اورافغانستان کے بے گناہ اورمظلوم مسلما نوں کے جسموں کے پرخچے اڑا دیئے گئے۔چھ سو سے زیا دہ “خطرناک” افرادپکڑکردشمنوں کے حوالے کئے گئے۔اپنی افواج سے مغربی سرحدکومحفوظ بنایا گیا تاکہ عالمی طا قتیں کھل کرمسلمان افغان بھائیوں کے گلے کاٹ سکیں لیکن اس ساری مہلت میں جو میرے ملک پرگزری اس کی داستان کوئی بیان نہیں کرتا؟جامعہ حفضہ اور لال مسجد پر کیا گزری ؟ واناوزیرستان سے لیکرسوات تک اور کراچی سے لیکر بلوچستان تک گرتی تڑپتی لاشوں کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا؟لاکھوں بے گناہ بے گھرقبائلیوں کا کوئی ذکرکسی انسانی حقوق کی رپورٹ میں موجودنہیں۔وہ جو پرائی جنگ میں اپنی جان سے گئے،بے گھرہوئے،دربدرہوئے،وہ جن کےگھربموں کی زدمیں رہے،جن کے پیارے لاپتہ ہو گئے،وہ ڈومہ ڈولہ کے مدرسہ میں قرآن پڑھنے والے معصوم اوربیشتریتیم بچے جن کاتورا بورا بنا دیا گیا،ان کیلئے کسی مغربی انسا نی حقوق کی تنظیموں کے ما تھے پرآج تک شکن تک نہیں آئی،ان کیلئےدشمن افواج بھی آ جاتیں تواس سے زیادہ کیا برا کرتیں لیکن اب ان ظالموں کی مہلت ختم ہوا چاہتی ہے۔وہ جو فاسق کمانڈوکے ساتھ حکومت کے مزے اڑاتے رہے اوراس بات پرخوش تھے کہ ہماری دانشمندی نے ہمارے مال اسباب،شان وشوکت اورعیش وعشرت کوبچالیا،اب موت کاخوف اورزندگی سے محبت انہیں چین سے جینے نہیں دے رہی۔

لیکن صاحبان نظرمطمئن ہیں کہ انہیں علم ہے کہ اس قوم کےدل سے مو ت کاخوف نکالنااورراہِ حق میں جان دینے کی محبت ہی ان کاعلاج ہے۔آج سے چند سال پہلے کوئی کہتاکہ ہم کمزورہیں،امریکاطاقتورہے تومیں یقین کرلیتالیکن میرے اللہ پریقین اورموت سے محبت کی داستان افغانوں نے جس طرح رقم کرکے اس خطے سے امریکاکورسواکرکے نکالاہے،اس نے تمام سیاسی اور جنگی پنڈتوں کے تمام اندازے ملیامیٹ کردیئے۔چندبرس قبل اس کی ایک اورمثال لبنان میں اس وقت دیکھنے کو ملی جب صرف سا ڑھے تین ہزارحزب اللہ کے جانثارجن کی زبان پرصرف اللہ اکبراوردل موت کے خوف سے آزاد،انہوں نے ایک ایسی قوت کو شکست فاش دی جس کے بارے میں امریکی جنگی ماہرین کہتے ہیں کہ ہمارادفاعی نظام بھی ایساہی مضبوط ہوناچاہئے۔ان کے تین شہرخالی ہوگئے۔ان کے پانچ لاکھ لوگ بےگھرہوگئے،شکست بلکہ طاقت اورامریکاکی مکمل حمائت ومددکے باوجودذلت آمیز شکست مقدربن گئی۔

کیاکبھی ہم نے نام نہادبڑی طاقتوں کے طریقہ واردات پرغورکیاکہ کس طرح روس نےظاہرشاہ کے خلاف سردارداؤدسے کام لیااورجب روس کوایک زیادہ روس نوازحکومت کی ضرورت محسوس ہوئی توداؤدکوقتل کرکے لاوارثوں کی طرح زمین میں گاڑھ دیاگیا……جب روسی فوجیں واپس چلی گئیں توحددرجہ سفاک امریکیوں نےضیاءالحق کے بوجھ سے نجات کیلئے اپنے سفیرکو”چارے”کے طورپراستعمال کرکے سب کوزندہ جلادیا۔انہی امریکیوں نے عراق میں صدام کوایران سے جنگ کیلئے مدددی۔کویت پرقبضہ کیلئے حوصلہ دیااورپھرکردوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاراستعمال کرنےاور تباہی پھیلانے کے جرم میں ٹانگ دیاگیا اور….! میں سوچ رہا ہوں جب امریکااس خطے میں اپنا ہدف پوراکرلے گاتوہمارے سیاستدان جواپنے اقتدارکیلئے امریکاسے مددمانگ رہے ہیں،ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟شاہ ایران جیسا،ضیاء الحق جیسا،معمرقذافی جیسایاصدام جیسا……..؟

صاحبان نظرمطمئن ہیں کہ اس قوم سے موت کاخوف اترنے کے دن آرہے ہیں اورجنہیں زندگی سے محبت ہے ان کاانجام بھی قریب۔جب ایساوقت اورایسی کیفیت کسی قوم پراترتی ہے تووہ بڑی سے بڑی عالمی طاغوتی طاقتوں کاقبرستان بن جاتی ہے۔میرے رسول اکرم محمدﷺکواسی لئے تواس خطے سے ٹھنڈی ہوا آیاکرتی تھی۔

سجنو!میرے اللہ کی طاقتوں کاکوئی شریک نہیں۔ایک یقین کی توبات ہے جوبھی بڑھ کراس یقین کی لاٹھی کوپکڑلے،اسی کیلئے عصائے کلیمی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں