انسان معاشرت کی بنیادپرزندہ رہتاہے۔لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کرچلتے ہیں اورایک دوسرے کی مددکرتے ہیں تب ہی کچھ ہوپاتااوربن پاتا ہے ۔روئے ارض پرانسان کوجوسانسیں عطاکی گئی ہیں،وہ اُسی وقت حقیقی معنوں میں بامقصدطریقے سے بروئے کارلائی جاسکتی ہیں،جب ٹھوس اورحقیقت پسندانہ بنیادپراشتراکِ عمل یقینی بنایاجائے۔کسی بھی انسان کیلئےاِس سے زیادہ کوئی بات سوہانِ روح نہیں ہوسکتی کہ اُسے الگ تھلگ رہنے پرمجبورکر دیا جائے یاوہ الگ تھلگ رہنے پرمجبور ہو۔مل جل کررہنے کی طرح تنہائی بھی انسان کیلئےبہت ضروری ہے۔شخصیت کی تشکیل وتطہیرمیں تنہائی کلیدی کردار اداکرتی ہے۔جولوگ دنیاسے دور ہوکرکچھ وقت اپنے ساتھ گزارتے ہیں وہ غوروخوض کے ذریعے اپنی خرابیوں اورخامیوں کو دورکرنے پرمتوجہ ہوتے ہیں۔
حال ہی میں کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہواہے کہ کوروناوائرس کی پیداکردہ شدیدبحرانی کیفیت کے دوران کسی بھی شخص کوالگ تھلگ رہنے کی صورت میں شدیدنفسیاتی الجھنوں کاسامناہوسکتاہے۔تنہائی اذیت دیتی ہے۔اس سے ذہنی یانفسی ہی نہیں، جسمانی الجھن بھی پیداہوتی ہے۔ماہرین کاکہنا ہے کہ تنہائی کاشکارہونے والے افرادمیں موت کاامکان دوسرے یاعام افرادکے مقابلے میں26فیصدبڑھ جاتاہے۔ماہرین نے تحقیق کے ذریعے بتایاہے کہ شدیدبھوک اورپیاس کی حالت میں جسم پرجواثرات مرتب ہوتے ہیں،ویسے ہی منفی اثرات جسم پرشدیدنوعیت کی تنہائی کی حالت میں بھی مرتب ہوتے ہیں۔کوروناوائرس کے ہاتھوں جو صورتِ حال پیداہوئی ہے اُس نے حیاتیاتی اعتبارسے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ رابطے ختم ہوجانے کی صورت طبیعت اُسی طوربگڑتی ہے،جس طوراشیائے خوردونوش کی شدیدکمی کے باعث بگڑتی ہے۔
26مارچ کومیسوچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے جدیدتحقیق کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ جاری کی ہے،جس میں کہاگیا ہے کہ بھوک اورتنہائی میں تحریک اورصِلے کے حوالے سے خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔اشیائے خوردونوش کی طرح رابطے بھی انسان کی انتہائی بنیادی ضرورت ہیں۔ جس طرح انسان کھائے پیے بغیرڈھنگ سے جی نہیں سکتابالکل اُسی طور وہ رابطوں کے بغیربھی ادھورے پن کاشکاررہتاہے اوراِس کیفیت کے اُس کی نفسی ساخت پرشدیدمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں
کوروناوائرس کے ہاتھوں پیداہونے والی صورتِ حال نے دنیابھرمیں کروڑوں افرادکوالگ تھلگ زندگی بسرکرنے پرمجبورکیاہے۔ اس وقت کروڑوں افرادتنہائی کاشکارہیں۔کم وبیش ہرملک میں کروڑوں افرادمکمل تنہائی پرمبنی زندگی بسرنہ کررہے ہوں تب بھی محدودزندگی توبسرکرہی رہے ہیں۔ماہرین نے جس اسٹڈی سے متعلق ابتدائی رپورٹ جاری کی ہے،وہ تین برس قبل شروع کی گئی تھی۔لیویاٹومووا،ریبیکاساگزے اوران کے ساتھیوں نے اس نکتے پرتحقیق کی ہے کہ تنہائی سے انسان کاذہن کس حدتک متاثرہوتا ہے۔یونیورسٹی آف شکاگوکے ماہرِنفسیات آنجہانی جان کیسیوپونے تنہائی کے بارے میں غیرمعمولی تحقیق کی ہے۔
عمومی حالات میں تنہائی مسلط نہیں ہوتی۔جیلوں میں بھی تنہائی چند افراد کیلئےہوتی ہے۔بہت بڑے پیمانے پراور شدید پریشان کن تنہائی مخصوص حالات کانتیجہ ہوتی ہے۔ماہرین نے جبری تنہائی کے بارے میں بھی سوچا تھااوریہ بھی کہ ایسا بھلاکیوں ہوگا؟ تب اُن کے ذہن میں کورونا وائرس جیسی کسی وباکاتصورنہ تھااورپھر کوروناوائرس نمودارہوگیا۔
The War for Kindness: Building Empathy in a Fractured World”دی وارفارکائنڈنیس:بلڈنگ ایمپیتھی اِن
اے فریکچرڈ ورلڈ‘‘کے مصنف (اسٹینفرڈیونیورسٹی کے نفسیات داں)جمیل ذکی کہتے ہیں کہ غذاکی کمی سے ہمارے جسم میں جوکچھ ہوتاہے وہی کچھ تنہائی کے ہاتھوں بھی ہوتاہے۔تنہائی جسم وجاں کی توانائی نچوڑ لیتی ہے۔اس تحقیق سے کروڑوں افرادکوسکون کاسانس لینے اورکچھ سمجھنے کاموقع ملے گا۔
اس مطالعے میں40 رضاکاروں نے حصہ لیا۔انہیں کھانے پینے کی اشیاسے دوررکھ کردس دس گھنٹے گزارنے کوکہاگیااورپھرتنہا رہنے کوبھی کہاگیا۔ماہرین کہتے ہیں کہ حقیقی تنہائی پیداکرنابھی مسئلہ ہے۔بہت سے لوگ بھیڑمیں بھی تنہاہوتے ہیں اور بہت سوں کایہ حال ہے کہ تنہائی سے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ صبح سے شام تک ایسی حالت پیداکی گئی کہ چند ایک ناول پڑھنے کے سوا کسی بھی چیزکی کوئی گنجائش نہ تھی۔ناول کے کرداربھی تنہائی کے ساتھی ثابت ہو سکتے ہیں۔بھوک اورپیاس کی حالت میں دس گھنٹے گزارنے کے دوران صرف پانی پینے کی اجازت دی گئی۔دونوں حالتوں میں دماغ کے ریسپانس کاجائزہ لیاگیا۔دماغ کاوسطی حصہ’’سبسٹینشیانگرا‘‘کہلاتاہے جس کاتعلق تحریک اورطلب سے ہے۔محققین نے اندازہ لگایاہے کہ دونوں حالتوں(بھوک اور پیاس کی شدت اورتنہائی)میں دماغ یکساں شدت سے ردِعمل ظاہرکرتاہے۔بھوک کی حالت میں جذبات زیادہ شدیدتھے۔اندازہ لگایاگیاکہ دونوں حالتوں میں معاملات شدید اذیت کے رہے۔تحقیق سے یہ نتیجہ اخذکیاگیاکہ سماجی رابطے بھی انتہائی بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں۔
سوال یہ نہیں ہے کہ کوروناوائرس کے پھیلاؤسے پیداہونے والی صورتِ حال میں سماجی رابطوں کاکیابنے گا۔اس وائرس کے پھیلنے سے پہلے بھی یہ سوال گردش کررہاتھاکہ سوشل میڈیاسے سماجی رابطوں کی ضرورت پوری ہوتی ہے یانہیں۔مغربی معاشروں میں سوشل میڈیاکوحقیقی سماجی رابطوں کے نعم البدل کے طورپراپنالیاگیاہے۔اس کے نتیجے میں خرابیاں زیادہ پیدا ہوئی ہیں۔جب لوگ ایک دوسرے سے ملنے سے گریزکرتے ہیں توذہن محدود ہوتا چلاجاتاہے۔دل ونظرمیں وہ اپنائیت اوروہ بات نہیں رہتی جسے زندگی کی اصل کہیے۔ساگزے اورٹوموواکواس حوالے سے فنڈنگ نہیں مل سکتی تھی مگر اب شاید مل جائے۔ٹومووا نے یونیورسٹی آف کیمبرج کے ساتھ مل کراب اس موضوع پرتحقیق کی تیاری شروع کردی ہے کہ کورونا وائرس کے ہاتھوں نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے دوران سوشل میڈیانے ہماری حقیقی ضرورت پوری کی ہے یانہیں۔اس کیفیت کے حقیقی اثرات کا اندازہ ہمیں بیس سال بعدہوگاجب اس حوالے سے وسیع تحقیق ہوگی۔