The Sign Of Loyalty

نشانِ وفا

:Share

اخبارمیں میرامضمون ”مجھے بتاتوسہی”شائع ہونے کے بعد مقبوضہ کشمیرمیں مقیم ایک بہت ہی عزیزرفیق جن کی برسوں سے کوئی اطلاع نہیں تھی ان کے ظہور ہونے کی اطلاع پردل کی ایک عجیب کیفیت ہوگئی ہے۔ان کی خواہش اورمجبوریوں کی بنا پران کے نام وپیغام کومنظرعام پرلانے سے گریزکرتے ہوئے ان کے مراسلہ کاجواب تحریرکررہاہوں۔

ایک مدت کے بعدآپ کی شگفتہ وفکرانگیزتحریرپڑھنے کوملی۔مجھے آپ سے یہی گماں تھاکہ وہ ہاتھ جوبرسوں سے انسان کے اجسام کا پوسٹ مارٹم اورقصابوں جیسا کام کرکے انسانوں کوراحت پہنچارہاہے یقیناایک دن انسان کی روح کی آسودگی کیلئے اس سے بڑھ کرکسی اعلی اورارفع مقاصد کیلئے اپنی زندگی کارخ متعین کرے گا۔ الحمداللہ آپ نے بروقت مستحسن قدم اٹھایااوریہ وقت کی ضرورت بھی تھی حالانکہ فون پرکئی دفعہ ان معاملات پرآپ سے بحث بھی ہوئی تھی ،بحث میں کتنی ہی باتیں ،کتنی ہی الجھنیں اورکتنے ہی مسائل بیان ہوتے تھے۔اس بحث میں ہم دونوں اپنے دل دماغ کی کتنی ہی تصویریں بلکہ تصویروں کاپوراالبم ایک دوسرے کے حوالے کردیتے تھے،پھرہرتصویرکے ہرپہلوپربامقصدبات ہوتی تھی لیکن وسائل اورافرادی قوت پرآکرہمیں یہ تمام تصویریں نامکمل اورادھوری نظرآتی تھیں اورہم جوایک دوسرے کے ساتھ بہت فلسفیانہ باتیں کرتے تھکتے نہیں تھے،رنج والم کی بہت سے داستانیں اشاروں میں بیان کرتے تھے،اپنے ہی فلسفے سے شکست کھاکراگلے دن کیلئے تیاری کرتے تھے کیونکہ یہ سارااندازِ فکرایک خالص رضائے الہی کے حصول کیلئے ہوتاتھا،اس لئے ناامیدی قریب بھی نہیں پھٹکتی تھی کیونکہ اس بات کاہم دونوں کوعلم تھاکہ مہلتِ زندگی پرچہ دینے کاوقت ہے ،دنیاکمرہ امتحان ہے،مالکِ کائنات خودممتحن ہے اور اقامتِ دین کانصب العین پرچہ امتحان ہے اوریہ پرچہ مومن کے ایمان کی کسوٹی ہے نہ کہ اس کاقیام مطلوب ِ مشیت ہے۔لیکن اس خطے میں آپ نے جہاں انداز فکرمیں تبدیلی پیدا کی ہے وہاں آپ نے مجھے مغرب کی آسائش زدہ زندگی سے تائب ہونے کی تلقین کرتے ہوئے واپس آنے کی نصیحت فرمائی ہے۔

یہاں مجھے معمولی سااختلاف کرنے کی اجازت دیں۔آپ بھی کویت آمد سے پہلے کشمیرسے دہلی کی طرف تشریف لائے تھے جو کہ ہندوستان کامغرب کی طرف کھلنے والادروازہ ہے،جس طرح پاکستان کاشہرکراچی واسلام آباد مغربی تہذیب کے داخلے کے سب سے پہلے مستقرہیں۔ بلاشبہ ہماراقبلہ بھی مغرب کی طرف ہے اوران لوگوں کابھی جو”مغرب” کے پجاری ہیں لیکن فرق اتناہے کہ ہم”رب المغربین”کی عطاکردہ تہذیب کے پیروکارہیں اوروہاں کے بسنے والوں کی اکثریت مغربی تہذیب کی گرویدہ ہے۔اس مغرب کی جہاں سائنس نے مشینیں بنابناکر افکاروخیالات کی سادہ فضاکودھواں دارکررکھاہے۔اب یورپ سے جوبھی جہازجاتاہے معلوم ہوتاہے کہ مغربی تہذیب کاجس قدرگندہ مال درآمد کرکے لاتاہے بلندآشیاں لوگ سب سے پہلے اس میں سے اپناحصہ وصول کرتے ہیں اوراس درآمدکی ہرکھیپ میں کچھ نہ کچھ نیامال آہی جاتا ہے۔دین ومذہب کی طرف شکوک وشبہات،ریب وتذبذب کاطرزِعمل،ظاہری چمک دمک پرجان دینامعاشرتی زندگی میں مختلف حدود وقیودسے بیزاری،مذہب سے جان چھڑانے کارحجان،عورتوں کی مساوات کا بناوٹی اورنظرفریب نعرہ!غرضیکہ کیاکچھ ہے جو مغرب (یورپ وامریکا)سے برآمدہوکردہلی واسلام آبادپہنچتاہے۔

اس سارے انبارژولیدگی میں جودل ودماغ میں کانٹے چبھ جاتے ہیں،اب اس سے پہلے کہ یہ کانٹے نکلیں اورزخم مندمل ہوکرقلب ونظرکی صحت بحال ہوکچھ دوسرے کانٹے آکردل ودماغ کومجروح کردیتے ہیں اورایک سخت عذاب تشکیک میں مبتلاکردیتے ہیں اوریہ سارا مشاہدہ شدت سے ارضِ مملکتِ خداداد میں پچھلی کئی دہائیوں سے دیکھنے کوکچھ زیادہ ہی مل رہاہے۔ مسلمان عورت جس کاطرہ عظمت عصمت وحیاتھا،اب بازاروں میں ولائتی سامان نمائش کی طرح بے باکی وبے حجابی کااشتہاربن کرگھس آئی ہے۔فیشن شوکے نام پرکیٹ واک کے اجتماعات میں ہوس بھری نظریں کھلے عام اپنی پسندوناپسندکاپروانہ جاری کرکے اپنی راتوں کورنگین بنانے کاذریعہ بن چکی ہیں۔جن بازاروں کوحضوراکرمﷺنے شیطان کی گزرگاہیں قراردیاتھا،وہ بازاراب نمائش کی گیلریاں بن گئے ہیں۔جن اخباروں میں کبھی مسلمان عورت کی تصویرنہیں دیکھی تھی اب نہ صرف اخبارات بلکہ الیکٹرانک میڈیامیں ہرچندمنٹ بعدان میں حیافروش تاجروں کی تیارکردہ کریموں کے اشتہارات چندٹکوں کی خاطران الفاظ میں شائع اورنشرہوتے ہیں کہ”برقعہ پہنناکالے پن کوچھپانے کی علامت ہے”۔

ثقافت کے لفظ کوعریانی،مے خواری،بے حیائی اورناچ رنگ کے مفہوم میں لیاجارہاہے اورحکومت خدادادپاکستان ثقافت کے نام پربڑی بڑی آرٹ کونسلوں پراس غریب اورمظلوم قوم کالاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپیہ صرف کررہی ہے بلکہ حکومت پاکستان کے کئی عہدیدارترنگ میں آکراعلان کرتے ہیں کہ یہ اسلامی مملکت کی آرٹس کونسلیں اپنے پروگرامزکے ذریعے ملک میں(قہرخداوندی)سے جوزلزلے اورسیلاب سے متاثرین کی لاجواب امدادکررہی ہیں۔الاامان الحفیظ! خداکے غضب کومزید بھڑکانے کی کھلے عام دعوت دے رہے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ بچپن میں اسلامی مدرسے میں جب صبح سویرے اسمبلی ہوتی تھی توتمام امت مسلمہ کیلئے بالعموم اورپاکستان کیلئے بالخصوص دعائے خیربھی ہوتی تھی اورہرروزکوئی نہ کوئی استادکسی اسلامی موضوع پرخطاب بھی کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ اس اسکول کے فارغ التحصیل طلبامیں دوسرے اسکولوں کے طلبا کی نسبت اسلامی محبت واخوت کچھ زیادہ ہوتی تھی اوراپنے مافی الضمیرکی ادائیگی میں بے خوفی اوربیباکی حدسے زیادہ ہوتی تھی۔اس کاعملی تجربہ کویت میں ہوا جب میں اور آپ ایران کے انقلاب سے متاثر ہو کر ان کی پہلی انقلابی سالگرہ میں شمولیت کیلئے دوستوں کی شدیدمخالفت کے باوجودروانہ ہوگئے تھے ۔واپسی پر کویت کے ائر پورٹ پرہی دھرلئے گئے تھے۔یہ توکبھی سوچانہ تھاکہ کویت کے جس جدید ہوائی اڈے کی تعمیرکی نگرانی میرے ذمہ تھی،چندسال بعداس کے ایک حصے حوالات میں مجھے آپ کی معیت میں چندگھنٹے بھی گزارنے ہوں گے۔ کچھ گھنٹے سلاخوں کے پیچھے جانے کی سنت یوسفی اوراسوہ حنبلی کی ادائیگی کابھی بھرپورموقع ملا۔ بالآخر ہماری بے گناہی ہماراجرم قرارپائی اوریہ قیدوبندکے چند گھنٹے ازراہِ لطف ہمارے کھاتے میں محض اس لئے ڈال دیئے گئے کہ افسرمجاز دوپہر کے کھانے کے بعداپنی ڈیوٹی کے دوران ہی قیلولہ فرمارہے تھے۔ہم حیران تھے کہ کیوں بند کردیئے گئے؟اربابِ اقتدارخوش کہ طاقت کانشہ ابھی ہمیں ان کے پا ؤ ں پکڑنے پر مجبور کر دے گا ۔

بات اگریہاں تک ہی موقوف ہوتی کہ پھولوں سے محروم کردیتے لیکن جب کانٹوں پرسے بھی حق چھین لیاگیاتوغیرتِ ایمانی کاتقاضہ یہی تھاکہ اس رزق سے منہ موڑلیا جائے جو پروازمیں کوتاہی پیداکررہا ہے۔ایک غیرمسلم اوروہ بھی ہندوجوکل تک میراماتحت تھااس کوفوری طورپرمجھ پرترقی دیکراس کے ماتحت کام کرنے کاحکم صادرکردیاگیا۔گویامجھ پریہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ گویاتذلیل وتکذیب کا دوراب شروع ہواچاہتاہے اورمیرے احتجاج اوربیباکی نے جومجھے بچپن میں اسکول میں ملاتھا،عجب تماشہ کھڑاکردیا۔مجھے انتہائی معذرت اورافسوس کے ساتھ یہ تاثردیاگیاکہ”اوپروالوں”کامنشایہی ہے کہ کچھ ہفتوں تک اس سلسلے کو برداشت کرناپڑے گا حالانکہ میں تو”بہت اوپروالے”ہی کی بندگی کا حق اداکررہاتھا۔الزامات کے بارے میں دریافت کیا،ان کے سامنے ماضی کے واقعات جن میں ٹھیکیداروں کے انعامات کوٹھکرانے کاسب کوعلم تھا،سالوں کی کمائی دنوں میں حقارت سے ٹھکرادینے سے سبھی آگاہ تھے لیکن انہوں نے شائدیہ فیصلہ کرلیا تھاکہ یہ میرے بچوں کومحض اس لئے محرومی وافلاس کاشکاربناناچاہتے ہیں کہ میں اس مملکت کی خدمت کوبھی عبادت سمجھتاہوں۔اسی لئے یہ خطہ میرے نزدیک ایک مسجد کی مانندمقدس ہے لیکن”اوپروالوں”نے کچھ نہ سنااور مجھے جبراًاسی عہدے پرکام کرنے کوکہاگیااورمیرے انکار پر مجھ کوالگ کرنے کی دھمکی سنادی گئی۔اس سے پیشتر کہ ان کے چہروں پرباطل کی مسکراہٹ آتی میں نے اپنااستعفی خودتحریر کرکے ان کے منہ پردے مارااوراس میں صاف لکھ دیا:

میرارزق اوپروالوں سے نہیں بلکہ بہت اوپرسے آتاہے اورکوئی اسے راستے میں کاٹنے کی ہمت نہیں رکھتا۔جس کی بندگی میں کرتاہوں وہی میرارازق ہے اورجو کوئی مجھے رزق کی دھونس دیکراپنی بندگی پرمجبورکرناچاہتاہے میں اس کی خدائی کونمرودکی خدائی سمجھ کرٹھکراتاہوں”۔میرے اس استعفے کے بعد مجھے دوسری کئی کمپنیوں میں سے بلاوہ آیالیکن دل اب اس قدر پریشان ہوچکاتھاکہ ایک عشرہ سے زائد جس ملک میں گزارتھا وہاں کل کا سورج دیکھنے کی تمنابھی باقی نہیں رہی تھی۔پاکستان کے بارے میں جوحسین تانے بانے بنے ہوئے تھے وہ بھی سراب نظرآرہے تھے۔سوچاکہ اب مغرب کی طرف منہ کرکے رب کی بندگی کاجوعہددن میں کم ازکم پانچ مرتبہ کرتاہوں کیوں نہ دنیاکے مغرب میں جاکراس کااظہارکروں۔آپ میرے استعفیٰ پرمنہ پھلائے بیٹھے تھے ،آپ سے مشورہ کرنے کیلئے ابھی منہ کھولاہی تھا کہ گویاآپ پھٹ پڑے لیکن جب اصولوں کی بات ہوئی تو آپ مات کھاگئے۔آپ نے اپنا تبادلہ بہ امرمجبوری اورمصلحت کے تحت قبول کرلیا لیکن مجھے آپ سے ”ضدی”اورنجانے اورکیاکیاالقاب سننے کوملے حالانکہ ارفع مقاصد کیلئے بہت کچھ قربان کرناپڑتا ہے۔

مرحوم قائداعظم کے نام سے کون واقف نہیں جوہندؤں اورانگریزوں کے مجموعی دباؤ اورلالچ کے مقابلے میں پہاڑ کی طرح ڈتے رہے، اپنامقصد کسی قیمت پربیچنے کو تیار نہ ہوئے ۔ مسلمان کوچھوڑیئے یہ توتاریخ کے اندربڑاجانبازکردارلے کرآیاہے ۔یہ توعلم دین شہید بن کر رسول اکرمﷺکے نام کی آبروپردیوانہ وار قربان ہوجاتاہے۔مردِ مجاہدسیدعلی گیلانی کوہی دیکھ لیں کہ باوجودضعیف العمری اورساری عمرمصائب میں مبتلاہونے کے ان کے عزائم قابل رشک حدتک جواں رہے اوروہ اپنی ساری زندگی میں اپنے ملک وقوم کی آزادی کیلئے ایک لمحہ غافل نہیں رہے اورآخری سانسوں میں اپنے رب کواپناخالق،آقااورمالک اوررسول اکرم ﷺکومحسن انسانیت کی گواہی کے بعد”پاکستان کی سلامتی”کا اعلان کرتے ہوئے اپنی جاں جانِ آفریں کے سپردکردی۔ہے کوئی ایسی وفاکی مثال توسامنے لائیں۔ خودہماراضمیرتنہائی میں ہمیں نہ صرف ملامت کرتاہے بلکہ ہمارے قول وفعل کاتضادہمیں شرمندہ کردیتاہے۔آپ کافروں کوہی لے لیں،بھگت سنگھ جوآزادی کی خاطر اپنی جان نچھاورکرگیا۔ ہزاروں کیمونسٹوں کودیکھ لیں جوزارِ روس کی بدترین سزائیں بھگتے رہے۔چینی اشتراکیوں کودیکھ لیں جوخاقان چین کی بیس سال تک بدترین اذیتیں سہہ کربالآخر اسے پچھاڑگئے۔

انسان کوتواللہ تعالی نے بڑی ایٹمی قوت دی ہے۔وہ توجس چیز سے محبت کرتاہے اس کیلئے سب کچھ کرڈالتاہے۔فرہادبنتاہے توجوئے شیرنکال لاتاہے،رانجھابنتاہے تو تاریک جنگلوں میں بھینسوں کے گلے چراتاہے،ایک نازک اندام لڑکی کے روپ میں اپنے مقصد کی خاطر چناب کی تندوتیزلہروں سے لڑجاتاہے،میں نے توابھی صرف مغرب کارخ کیاتھا۔سعی مسلسل اورپیہم کوشش کاراستہ اختیار کرکے اس فرنگی ملک میں جوکہ ڈھائی صدیاں حکمرانی کرکے اب تک غلامی کے وہ اثرات چھوڑ کرآیاہے جس سے ہم ابھی تک نکل نہیں پائے لیکن کشمیر تومیرے دل ونگاہ سے کبھی ایک لمحے کیلئے اوجھل نہیں ہوا۔ کشمیری قوم پچھلی سات دہائیوں سے کیسی لازوال قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں کہ دشمن ظلم کرنے کے باوجودبے بس ہوتاجارہا ہے۔

مجھے یادہے مجھے رخصت کرتے وقت بہت سے دوستوں کی موجودگی میں آپ اپنے جذبات پرقابونہ رکھ سکے تھے جبکہ میرے ذہنی وقلبی دکھ دردکونظرشناس بھانپ گئے تھے لیکن ایک انگارہ تھاجسے برف کی دبیزتہوں میں ڈھانپ کررکھ دیاگیاتھالیکن اس کی حدت پھر بھی محسوس ہورہی تھی لیکن میں تواس وقت بھی پریشان نہیں تھاکیونکہ”کرم شب کی قدروقیمت رات کی تاریکی سے ہی ہوتی ہے اور تاروں کے حسن کاجھومرظلمتِ شب کی سیاہ پیشانی پر ہی کھلتاہے۔چاندکاکنگن رات کی دلہن کوہی میسرآتاہے اوربارش کے قطرے کیلئے تپتی ہوئی زمین کاپیاسا دامن ہی سمندرکے لبریزپیمانے سے زیادہ مستحق طالب اورشائق ہوتاہے”۔اپنی کمیابی اور اجنبیت پرمیں کبھی بھی پریشان نہیں ہوا،ہرقیمتی شئے کمیاب اور نادر ہوتی ہے اورپھر یہ حدیث توآپ نے کئی مرتبہ پڑھی اورسنی ہوگی کہ”ایک وقت مومن کا ایمان بچانااپنی مٹھی میں انگارہ تھامنے کے مترادف ہوگا”۔

اس لئے میں سمجھتاہوں کہ عالمِ اسباب میں سانس کاایک تموج اورذرے کاایک حقیروجودبھی تخلیقِ اسباب اورترتیبِ نتائج میں اپناحصہ اداکرتاہے۔جس طرح عمل بد کی ایک خراش آئینہ ہستی کودھندلاجاتی ہے اسی طرح کلمہ خیر کاایک بول بھی عالم کے اجتماعی خیر کے ذخیرے میں اضافہ کردیتاہے اورلوحِ زمانہ میں ریکارڈ ہوکر کبھی نہ کبھی ضرورگونجتا اور میزانِ نتائج میں اپناوزن دکھاتاہے۔بس ذرابدی کاشکنجہ ڈھیلاپڑنے کی دیرہے کہ خیرکی کھیتی لہلہااٹھے گی،نیکی کااگرایک ذرہ بھی معاشرے کے اجتماعی ضمیر میں موجودہوگاتو وقت آنے پرضرورگلستانِ رعنابن کرنمودارہوگا۔بس اک آرزوبدلنے کی دیرہے!

میری شدیدخواہش ہے کہ میں بھی کشمیرکے ان لالہ زار کو اپنی آنکھوں سے بوسے دوں جہاں میرے آباؤاجدادکئی مختلف قبرستانوں میں آسودہ خاک ہیں بلکہ میری ہردم یہ دعااور آرزوہے کہ سیدعلی گیلانی کی قبرپریہ پیغام لیکرجاؤں کہ آپ نے جوکشمیرکی آزادی کاراستہ چناتھا،آپ کے سپاہیوں نے اللہ کی نصرت سے کشمیرکو آزاد کرا لیاہے۔اب دیکھیں یہ آرزوکب پوری ہوتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں