جنگ کاخطرہ ٹلانہیں

:Share

بھارت میں عام انتخابات شروع ہوچکے ہیں۔مودی نے صورتِ حال کواپنے حق میں کرنے کیلئےاس خطے کے امن کو بھی داؤپر لگادیاتھالیکن منہ کی کھاکر واپس پلٹے ہیں۔پاکستان کے خلاف جاکرووٹ بینک کواپنے حق میں کرنے کیلئے جنگی جنون کو پھیلانے کیلئے بھرپورکوشش کررہے ہیں۔بہتر آپشن تو یہ تھاکہ پاکستان سے تعلقات بہتربنانے اورامن کی بات کرکے پورے بھارت میں فضا اپنے حق میں کرتے کیونکہ پاکستان اوربھارت دونوں ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں ۔دونوں کے درمیان جنگ کاخطرہ ابھی ٹلانہیں ہے۔بھارت کواس بحران سے بہت کچھ سیکھناہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کودیکھنا ہو گاکہ صورتِحال کوکس طورقابومیں رکھاجاسکتا ہے۔مودی سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے مخاصمت کومزیدہوادیکروہ انتخابی معرکے میں اپنی مرضی کی فتح پائیں گےمگریہ سب کچھ بھارت کے حق میں نہیں جائے گا۔حقیقی دوراندیش قیادت کوملک وقوم کے مفادات ہرحال میں مقدم رکھنے چاہییں۔
بی جے پی کاپروپیگنڈہ ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کی معاونت ہی نہیں تربیت بھی کررہاہے اوریہ کہ پاکستان کواس کی حدود میں سزادیناضروری ہے۔دوسال قبل کنٹرول لائن پرایک ایسی ہی کوشش کی گئی مگرلوگ پوچھتے رہ گئے کہ پاکستانی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعدادکیارہی۔مودی نے انتخابی مہم کے شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان کے خلاف فضا کی تیاری شروع کردی تھی۔ بنیادی مؤقف یہ تھاکہ پاکستان کواس کی حدودمیں گھس کرسبق سکھایاجائے۔اپنے ملک میں جنگی جنون کے خلاف آوازاٹھانے والوں کولتاڑاجارہاہےاوربالا کوٹ حملے کے حوالے سے سوال اٹھانے والوں کوغدار قراردینے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔بی جے پی کامؤقف یہ ہے کہ مخالف جوبھی سوال اٹھائے وہ پوری قوم کاغدارہے۔
بھارتی قیادت نے بہت کچھ کرناچاہا تھا۔14فروری کو پلوامہ میں خودکش حملے کے نتیجے میں کم وبیش چالیس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پورے بھارت میں ہاہاکارمچ گئی اورلازم ہوگیاکہ پاکستان کوکسی نہ کسی طورسزادی جائے۔جوابی کاروائی کے طورپربالا کوٹ میں حملہ کیا گیا۔ پانچ جیٹ طیاروں نے کاروائی کی اوراس کے بعد حکومت نے طرح طرح کے دعوے کیے ۔ کاروائی کے فوراًبعدحکومت اورفوج دونوں نے کریڈٹ بٹورنے کی تیاری شروع کردی مگر یہ تجربہ بری طرح ناکام رہا۔ہوایوں کہ اگلے ہی روزپاکستان نے بھارتی علاقے میں گھس کرفضائی کاروائی کی اوردو طیاروں کومارگرانے کے ساتھ ساتھ ونگ کمانڈد ابھینندن کوگرفتاربھی کرلیا۔پاکستان کی جوابی کاروائی نے بھارت میں جنگی جوش وجنون کوسمندرکے جھاگ کی طرح بٹھادیا۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ رونماہوئی کہ روایتی جنگ میں بھارت کی بالادستی کاتصورخاک میں مل گیا۔اب تک بھارت یہ سمجھ رہاتھاکہ وہ ایک بڑی فوج اوربڑے پیمانے پرسازو سامان کے ساتھ پاکستان کوآسانی سے دبوچ لے گامگراب اندازہ ہوتا ہے کہ ایساممکن نہیں۔
یہ حقیقت بھی کھل کرسامنے آگئی ہے کہ اگربھارتی فورسزپاکستان کی حدودمیں کاروائی کریں گی توجوابی کاروائی میں تاخیرنہیں کی جائے گی۔اگر مودی نے ایسی ہی کسی اورعسکری مہم جوئی کاارادہ کیاتوپاکستان کی طرف سے بھرپورجواب ملے گا۔یہ سلسلہ اگرآگے بڑھاتوخطے میں کشیدگی بڑھے گی۔جوہری ہتھیاروں سے لیس دوپڑوسیوں کے درمیان معاملات مزیدخرابی کی طرف جائیں گے اورحقیقی فل اسکیل جنگ کاخطرہ بڑھ جائے گا۔
اس وقت مسئلہ بھارت کی طاقت کانہیں،کمزوری کاہے۔بھارت میں ایک طرف توسیاسی بنیادپرتقسیم پائی جاتی ہے اور دوسری طرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی بھی نہیں۔سیاسی مخالفین کوملک دشمن قرار دینے کی روش انتہائی خطرناک ہے۔یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں خرابی کا گراف بلند ہونے سے صرف کشمیر ہی کے نہیں بلکہ بھارت بھرکے مسلمان پرشک کی سُوئی ٹھہرتی ہے۔مسلمانوں کوشک کی نظرسے دیکھنے کا نقصان یہ ہے کہ معاشرے میں تقسیم بڑھتی جارہی ہے ۔اس وقت جوصورتِ حال ابھررہی ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ برآمدہوسکتاہے کہ آنے والی حکومت پارلیمنٹ میں بھرپور اکثریت کی حامل نہیں ہوگی۔کمزورمرکزی حکومت فیصلے بھی کمزورہی کرے گی اور اُن پر عملدرآمد کے حوالے سے درکارعزم بھی نہیں ہوگا۔
مودی کویہ احساس ہوناچاہیے کہ کشمیران کے ہاتھ سے نکل چکاہے۔بھارت نےمقبوضہ جموں و کشمیرمیں فوج کواس طور تعینات کیاہے گویاکشمیریوں کوکچلنااوردبوچنامقصودہو۔اس حوالے سے پالیسی پرنظرثانی کرناہوگی۔اگرکشمیرکامعاملہ درست نہ کیا گیاتوعالمی برادری میں بھارت کو مزید سُبکی اورشرمندگی کاسامناکرناپڑے گا۔بھارتی قیادت کومقبوضہ جموں وکشمیرمیں ظلم کےعمل کوترک کرناپڑے گا،ظالم فورسزکے ہاتھوں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی شکایات کا نوٹس لے کرکاروائی کرنی چاہیے اورتمام کشمیری رہنماؤں کوبات چیت میں شریک کیاجائے۔مودی کے پاس ایک اچھاموقع ہے،اپنے لیے بھرپورنیک نامی کمانے کا۔عمران خان نے بھارتی قیادت کوبات چیت کی پیشکش کی ہے۔مودی کواس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بات چیت کوترجیح بناناچاہیے تاکہ خطے میں کشیدگی ختم ہواورامن کے ساتھ ترقی کی راہ ہموارہو۔خطہ مزید عدم استحکام برداشت نہیں کرسکتا۔پاکستان اوربھارت اگرمل کرمعاملات درست کریں توخطے میں حقیقی ترقی کی راہ ہموارہونے میں دیرنہیں لگے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں