The Retreat Of Atheism

الحادکی پسپائی

:Share

الحادکوسمجھنے کی غرض سے ہم اسے کئی قسموں میں بانٹ سکتے ہیں،جیساکہ علمی الحاد،نفسانی الحاد،نفسیاتی الحاد،معاشرتی الحاد، وغیرہ۔علمی الحادبہت ہی نادر ہے کہ جس میں کسی شخص کوعلمی طورپراللہ کے وجودکے بارے میں شکوک وشبہات لاحق ہوجائیں اور یہ لوگ دنیا میں گنے چنے ہیں جیسا کہ فلاسفہ اورنظریاتی سائنسدانوں کی جماعت۔اللہ کے بارے میں علمی وسوسہ پیداہوناتوعام ہے،جیسا کہ روایات میں ملتاہے کہ صحابہؓ کوبھی وسوسہ پیداہوجاتاتھااوراس وسوسے کے پیدا ہونے کواللہ کے رسولﷺ نے عین ایمان قراردیاہے۔ (سنن ابی داؤد،ابواب النوم،باب ردالوسوسۃ،المکتبۃ العصریۃ صیدا،بیروت 4/329)لیکن دل میں شک کاگھر کر جاناتویہ ایمان کے منافی ہے اوریہ عین الحادہے اوریہ بہت کم لوگوں کوہوتاہے کیونکہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔لہٰذااس کاساراشرف اسی کوجاتاہے کہ جواس خلجان آمیزشک کی آگ میں اپنے آپ کوڈالنے کاسبب بنتاہے۔اس کے سبب پرکچھ روشنی ہم آگے چل کرڈالیں گے۔

نفسانی الحادہمارے معاشروں میں بڑے پیمانے پرموجودہے کہ جس میں ایک شخص کواللہ کے وجودکے بارے میں شکوک و شبہات علمی طورپرتولاحق نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنی خواہش نفس کے سبب اللہ کے بارے میں شکوک وشبہات کااظہارکرتاہے۔اس قسم کا ملحدعموماًاپنے آپ کوبھی دھوکادے رہاہوتاہے اوراپنی خواہش کوعلم سمجھ رہاہوتاہے۔دیسی ملحدوں کی بڑی تعدادایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہے۔خواہش پرست انسان کامعاملہ یہ ہوتاہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل میں موجود ہر رکاوٹ کوختم کرناچاہتاہے،لہٰذاجب وہ یہ دیکھتاہے کہ اللہ،مذہب اورآخرت کے تصورات اس کی خواہشات کی تکمیل میں اس طرح رکاوٹ بنتے ہیں کہ اس کاضمیراسے کچوکے لگالگاکرتنگ کرتارہتاہے تووہ ضمیرکی اس ملامت سے بچنے کیلئےاپنے زبانی لعن طعن سے اپنے شعورکواس بات پرقائل کرنے کی ناکام کوشش میں لگ جاتاہے کہ کوئی اللہ،سچامذہب اورآخرت موجودنہیں ہے۔

نفسیاتی الحادوہ ہے کہ جس کاسبب انسان کے نفسیاتی مسائل ہوں۔ہمارے ایک دوست نے الحاداوردہریت کی طرف مائل ہونے والے لوگوں سے یہ جاننے کیلئےانٹرویوز کیے کہ وہ کس وجہ سے دہریت کی طرف مائل ہوئے۔اس سروے کے مطابق الحادکی طرف مائل ہونے کا ایک بڑاسبب مذہبی لوگوں کے غلط رویے بھی ہیں کہ جن کے ردِّعمل میں بعض لوگ ملحدبن جاتے ہیں۔

علمی الحادکاسبب صرف ایک ہے اوروہ ہے فلسفہ،چاہے فلسفہ برائے فلسفہ ہویا “فلاسفی آف سائنس”ہو،قدیم دوراورقرون وسطٰی میں الحاد کاسب سے بڑاسبب فلسفہ و منطق تھا،لہٰذااُس دورمیں فلسفہ ومنطق کاردوقت کی ایک اہم ضرورت تھی۔عصرحاضرمیں الحادکاسب سے بڑا سبب نظریاتی سائنس ہے لہٰذااس دورمیں فلسفے کاردبے معنی اور“فلاسفی آف سائنس”کاردوقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔اسٹیون ہاکنگ، رچرڈڈاکنزاورکارل ساگاں کے دورمیں کانٹ اورنطشے کوجواب دیناعقلمندی کی بات نہیں ہے۔ذرا اس پرغورکریں کہ ہمارے اردگردکتنے ملحدایسے ہیں جوہمیں ارسطو کی منطق یاکانٹ کی عقل محض سے دلیل دیتے نظرآتے ہیں ؟ دوچاربھی نہیں۔آج کے ملحدوہ ہیں جن کی کل دلیل بگ بینگ یاارتقاءوغیرہ کے نظریات ہیں۔آج اگرایک ارب سے زائدکسی کتاب کے نسخے فروخت ہوتے ہیں تووہ اسٹیون ہاکنگ کی کتاب “دی گرینڈڈیزائن”ہے کہ جواپنی آخری کتاب کے مقدمے میں یہ اعلانِ عام کرچکاہے کہ فلسفہ مرچکاہے اوراب ہم سائنس دانوں کے دورمیں سانس لے رہے ہیں۔(دی گرینڈ ڈیزائن:صفحہ10)

الحاد کے ردکے بارے میں ایک بات تویہ ہے کہ الحاداصلاًہماری تہذیب کامسئلہ نہیں ہے بلکہ مغربی تہذیب سے درآمد شدہ ہے،لہٰذاالحادکا رد مسلم تہذیبوں میں کوئی مستقل کام نہیں بلکہ ایک عارضی اوروقتی ضرورت ہے۔آپ کوکوئی دیسی ملحدایسانہیں ملے گاکہ جس پر مغرب کا ٹھپہ نہ ہو۔یہ لوگ اپنی سوچ سے ملحدنہیں
بنے بلکہ الحادان میں باہرسے انڈیلاگیاہے،چاہے فلاسفی آف سائنس کے مباحث کے مطالعے کے راستے،چاہے انگریزی ادب کے مطالعے کے راستے،چاہے ہالی وڈکی فلموں اورموویوں کے راستے،چاہے فلسفہ اورسائنس کی درسی کتابوں کے ذریعے،چاہے معاشرے میں موجودالحادسے متاثرافرادسے میل جول کے راستے وغیرہ۔

ہمیں ذہنی اورنفسانی الحادکانفسیاتی تجزیہ بھی کرناچاہیے۔ذہنی الحادکانفسیاتی جائزہ لیں تواس بات کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ کثرت سے فلسفیانہ مباحث کا مطالعہ ہے۔انسان کی ذہنی ساخت کچھ ایسی ہے کہ اگرسارادن مرغیوں کے بارے میں پڑھے گاتو خواب میں بھی اس کومرغیاں ہی نظرآئیں گی۔تواگرایک شخص تسلسل سے اللہ کے وجودکے بارے میں شکوک وشبہات پرمبنی لٹریچرکامطالعہ کرے گایاٹیلی ویژن سیریزدیکھے گاتواسے بیداری توکیا،خواب میں بھی اعتراضات ہی سوجھیں گے۔توالحادانسان کافطری مسئلہ کبھی بھی نہیں رہاہے،نہ علمی الحاداورنہ نفسانی،سب خارجی اسباب کی وجہ سے ہے۔آپ اس سبب کو تلاش کرکے دورکر دیں ،الحادختم ہوجائے گا۔عموماً یہ کہاجاتاہے کہ وجوداورعلم کے بارے میں سوالات کاسبب انسان کا فطری تجسس ہے۔یہ تجسس بھی بڑاسمجھدارہے کہ انہی کوپیداہواکہ جوفلسفیانہ مباحث کامطالعہ کرچکے اورفلسفیانہ مجالس میں زندگی کاایک حصہ گزارچکے تھے،یہ کسی ڈھورڈنگرچرانے والے دیہاتی کو پیدانہیں ہوا۔ایک خاص فلسفیانہ ماحول میں رہنے کے بعدآپ پرجب اس کے اثرات ظاہرہوں اورآپ کچھ سوالات پرسوچنا شروع کردیں تو آپ اسے فطرت قرا دے دیں،یہ کہاں کاانصاف ہے؟

قرآن الحادکوعلم کے مقابلے میں ظن وتخمین سے زیادہ مقام نہیں دیتااورفلاسفی کل کی کل ظن وتخمین ہی ہے۔کیا”فلاسفی آف سائنس” ظن وتخمین نہیں ہے؟ارشادباری تعالیٰ ہے۔”وَقَالُوامَاھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَاالدُّنیَانَمُوتُ وَنَحیَاوَمَایُھلِکُنَاَاِلَّاالدَّھرُ،وَمَالَھُم بِذٰلِکَ مِن عِلمٍ،اِن ھُم اِلَّا یَظُنُّونَ:”اوران کاکہنایہ ہے کہ زندگی توبس یہی دنیاکی زندگی ہی ہے ،ہم زندہ ہوتے ہیں اورمرتے ہیں اورہمیں توزمانہ ہی مارتاہے، حالانکہ انہیں اس بارے کچھ علم نہیں ہے،وہ صرف ظن وتخمین سے کام لیتے ہیں۔”(الجاثیہ:24)

پھرالحادکے رداوراس کے علاج میں بھی فرق ہے۔الحادکے ردسے لوگ مسلمان نہیں ہوتے ہیں بلکہ ملحدوں کاشرکم ہوجاتاہے۔الحادکے علاج سے مرادیہ ہے کہ ہمارا مقصد ملحدوں کے لاجواب کرنے کی بجائے دین کی طرف راغب کرناہے اورعلاج میں عقلی ومنطقی دلیلیں کم ہی مفید ہوتی ہیں۔الحادکااصل علاج قلبی اور اخلاقی ہے جو نبیوں اوررسولوں کاطریق کارتھا،یعنی صحبت صالحین یاقرآن کی صحبت اختیارکرنا،وغیرہ۔قرآن کی صحبت سے مرادقرآن سے تعلق کاوہ درجہ کہ جس کے اہل کو حدیث میں”صاحبِ قرآن”کہاگیاہے یاملحدوں کواعلیٰ اخلاق سے قائل کرنا،وغیرہ۔

الہامی کتابوں اوررسولوں کی دعوت میں الحادکے علاج کاطریقہ کارعقلی ومنطقی نہیں بلکہ فطری وقلبی ہے۔ہماری رائے میں اصولی بات یہی ہے کہ دل پہلے اپنے رب کی طرف جھکتاہے،ذہن بعدمیں اس سے اطمینان حاصل کرتاہے۔دل کے جھکنے کے بعدآپ کاذہن اللہ کے انکارکی دلیل کواس کے وجودکی دلیل بناکردکھا دے گا۔ذہن کاکیا ہے ،وہ توکرائے کاٹٹوہے،کسی طرف بھی چل پڑے تواس کے دلائل سمجھناتوکجاان کے انبارلگاناشروع کردیتاہے۔اگرمحض عقل ومنطق سے کسی کوخداسمجھ میں آتاتوآدھے سے زیادہ فلسفی مسلمان ہوتے، لیکن نصف توکجاہمیں توپچھلی اڑھائی ہزارسالہ تاریخ فلسفہ میں دوچاربھی نہیں ملتے۔الہامی کتابوں اوررسولوں کااللہ تک پہنچانے کا طریقہ بہت مختلف ہے،اوروہ یہ ہے کہ اللہ باہرسے تمہارے ذہن میں نہیں ڈالاجاسکتابلکہ تمہارے اندرسے اُگلوایاجائے گااوریہ سب صحبت سے ہی نصیب ہوتاہے اور جولوگ معاشرے،مدرسے،مذہبی عناصرکے غلط رویوں کے ردِّعمل میں ملحدبن جاتے ہیں توان کاعلاج اسی صورت ممکن ہے کہ آپ ان سے دوستی کریں،انہیں دلاسہ دیں ،ان کے ساتھ ہمدردی کااظہارکریں،اعلیٰ اخلاقیات کامظاہرہ کریں،اورانہیں یہ واضح کریں کہ اسلام اور مسلمان میں بہت فرق ہے۔اگرکچھ لوگ مذہبی حلیہ اختیار کرکے کسی نارواحرکت کاارتکاب کرتے ہیں تویہ ان کاذاتی فعل ہے اوراس کا سبب ان کامذہب ہرگز نہیں ہے۔

رچرڈ ڈاکنزکی ایک ویڈیو بہت مشہورہوئی جس میں ان سے پوچھاگیاکہ آپ کیاسمجھتے ہیں کہ زمین پرزندگی کیسے شروع ہوئی ہوگی؟ توانہوں نے جواب دیا ’’ایک سیل سے‘‘۔اُن سے مکررپوچھاگیاکہ وہ سیل کہاں سے آیاہوگا؟توانہوں نے جواب دیا’’ممکن ہے کسی اورنظام ِ شمسی کے کسی اورسیارے پرزندگی کی ترقی ہماری ترقی سے لاکھوں سال پہلے ہوئی ہواوروہ ارتقأمیں ہم سے لاکھوں سال آگے ہوں۔ ممکن ہے انہوں نے زندگی کی ایک ایسی شکل ڈیزائن کی ہوجیسی ہمارے سیارے پرہے اورانہوں نے ہی ہمارے سیارے پرسیڈنگ یعنی زندگی کابیج بویاہو‘‘۔

رچرڈڈاکنزکوجدید’’ماڈرن ویسٹرن کیپٹالسٹ ایتھزم‘‘کاباواآدم ماناجاتاہے۔اللہ کاانکاراُن کی زندگی کاسب سے بڑامِشن رہاہے لیکن مذکوربالا انٹرویومیں انہوں نے علی الاعلان تسلیم کیاہے کہ ممکن ہے ہمارے سیارہ زمین پرموجودزندگی کسی ذہین مخلوق کے ذہن کی تخلیق ہو۔اتنا تسلیم کیاتوگویاکمتردرجے کاسہی لیکن ہمارے لیے ایک ذہین خالق تسلیم کرلیا۔ایسے ہی موقع پرکہاجاتاہے’’کم ازکم‘‘سوکم ازکم رچرڈ ڈاکنزیہ تسلیم کرتے ہیں کہ زمین پرموجودزندگی کاساراپروگرام کسی ذہین خالق کابنایاہواہوسکتاہے۔اب پیچھے رہ جاتاہے،وہ اللہ جسے کسی نے نہیں بنایا۔جوخود سے ہے۔جوازل سے ہے اورہمیشہ رہے گا۔جوحی وقیوم ہے۔جو سب سے بڑی عقل کامالک ہے۔سواُس اللہ کے وجود سے ہنوزرچرڈڈاکنزکوانکارہے۔مجھے یونہی خیال آرہاتھاکہ ٹیکنکلی رچرڈڈاکنزکے خیال اور مذہب کے خیال میں چنداں فرق نہیں۔

رچرڈ ڈاکنزاِس کائنات کے بارے میں یہ مانتے ہیں کہ اِسے کسی نے نہیں بنایا۔یہ خودسے ہے اوراسی کائنات نے سیارے پیداکیے اوران میں زندگی اورذہانت پیدا کی ۔سٹرنگ تھیوری کے بعدرچرڈڈاکنزاس امکان کوبھی ردنہیں کرسکتے کائنات(عالمین)ایک نہیں کئی ہیں۔نظریہ اضافیت کے بعدرچرڈڈاکنزاس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ کسی شخص کاایک منٹ کسی اورشخص کے کئی سالوں کے برابربھی ہو سکتاہے۔ڈاکنزخودمائیکروبیالوجسٹ ہیں۔وہ ڈی این اےکے انٹیلیجنٹ لینگوئج ہونے ،اس میں تبدیلیوں کے امکان،میوٹیشن کے مافوق العقل وجوداورنئی نئی مخلوقات کی پیدائش سے کب انکارکرسکتےہیں؟انسان کبھی مکمل طورپرنان وائلنٹ مخلوق بن کرکسی خوشنماباغ میں ایسے رہ رہاہو کہ اُسے ہزاروں سال موت نہ آئے،اس امکان سے بھی ایک مائیکروبیالوجسٹ عہدِحاضرمیں انکارنہیں کر سکتا ۔

اس سب پرمستزادیہ ایک خاصی مشہورتھیوری بھی ہے کہ یہ کائنات سانس لیتاہواایک ذہین فطین جاندارہے جوفورتھ ڈائمینشنل ہے۔علاوہ بریں’’پین سپرمیا‘‘ بھی ایک تھیوری ہے کہ کائنات حیات سے چھلک رہی ہے اورخلا میں اڑتے ہوئے پتھروں میں بھی ڈی این اے یا ابتدائی حیات کے امکانات مضمرہیں۔پھرسوچتاہوں ڈاکنز کااصل مسئلہ اللہ نہیں ہے۔نہ ہی مذہب ہے اورنہ ہی مذہبی ہوناہے۔ڈاکنزاوراس کے ماننے والوں کااصل مسئلہ وہ’’سیٹ آف رُولز‘‘ہے جسے نظامِ حیات کہتے ہیں۔ مذہب بھی ایک سیٹ آف رُولزپیش کرتاہے جسے کمانڈمنٹس کہاجاتاہے۔ڈاکنزاوراس کے ماننے والوں کواُس سیٹ آف رُولزکے ساتھ اختلاف ہے۔مزیدباریک بینی سے جائزہ لیاجائے تویہ اختلاف بنیادی طورپرنظریۂ علم کااختلاف ہے یعنی ایپسٹمالوجی کا۔مذہب کے نزدیک’’وحی‘‘ایک برترسورس آف نالج یعنی ایک ایساذریعۂ علم ہے جوہمارے کمترشعور کیلئےہمیشہ رہنمأکاکام دے سکتاہے۔دہریت کویہ خیال مکمل طورپرنان اکیڈمک لگتاہے۔یہ بات بھی غلط نہیں کہ یہ ساراخیال حسی علوم کی ترقی کے بعداکیڈمک محسوس ہونے لگا،یہی کوئی سترھویں صدی عیسویں سے لے کراب تک۔ اس سے قبل چونکہ حسی علوم کونفرت کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا تو دنیا کاٹوٹل وِژن ہی مختلف تھا۔
غرض یہ مذہب نہیں جس کے پاس بھاگ نکلنے کاکوئی راستہ نہیں بچابلکہ یہ دہریت ہے جس کے پاس بھاگ نکلنے کاکوئی راستہ نہیں بچا کیونکہ اب اس تھیوریزکے رَش کے دورمیں کہ جب’’لازآف سائنس‘‘کی پیدائش کازمانہ گزرچکاہے اور’’تھیوریزآف سائنس‘‘کی شدت کا زمانہ چل رہاہے کون انکارکرسکتاہے کہ حسی سائنس چند دہائیاں بھی مزیداپنے پیروں پرکھڑی رہ سکتی ہے۔سائنس پرعقلیت(ریشنلزم) پوری طرح غلبہ پانے کے قریب ہے اوروہ دن دُورنہیں جب حسیّت(امپرسزم)کے مقابلے میں دوبارہ عقلیت دنیاپرراج کرنے لگے۔تب پھر سےایک باردنیابدل جائے گی۔دہریت کانام ونشان تک نظرنہ آئے گااوروحی کی مابعدالطبیعات کوایک بارپھرریاضیاتی عقیدت کادرجہ حاصل ہوجائے گا۔یہ الگ بات ہے کہ تب وحی کس شئے کوسمجھاجائے گا،کچھ کہانہیں جاسکتا۔ممکن ہے بولتی ہوئی فطرت کوہی کُل وحی سمجھ کرایک دہریت زدہ نیامذہب سامنے آجائے۔

اگرسوچیں توبرکلے،ہیگل،کانٹ جیسے لوگ آئن سٹائن سے کم دماغ نہ تھے۔خودآئن سٹائن کے ہی دورمیں نیلزبوھرجیسے سائنسدانوں کا اعتقادحسیت سے اُٹھ چکا تھا ۔اقبال نے تشکیل کے دیباچے میں لکھاہے کہ’’وہ دن دُورنہیں جب مذہب اورجدید سائنس میں ایسی ایسی مفاہمتیں دریافت ہونے لگیں گی کہ جوہماری سوچ سے بھی ماروأہیں،کیونکہ جدیدفزکس نے اپنی ہی بنیادوں کی تدوین شروع کردی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں