ایک وقت ایسابھی تھا کہ جب مغرب سے آنے والی خام سائنسی معلومات سے مرعوب ہوکربعض لوگوں نے قرآن مجید کی واضح اور صریح تعلیمات کو ایسی ایسی تاویلات کی خرادپرچڑھایاکہ اللہ کی پناہ،چنانچہ جس زمانے میں نیوٹن کے”میکانکی نظریہ کائنات” کاغلغلہ عام ہواجس کے مطابق پوری کائنات علت ومعلول کے قانون میں اس طرح جکڑی ہوئی ہے کہ اس سے سرموتجاوزنہیں کرسکتی تولوگوں نے مافوق الفطرت حقائق کامذاق اڑاناشروع کردیا۔اب بعض مسلمان مفکرین کویہ فکرلاحق ہوئی کہ قرآن میں بیان کردہ معجزات مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام پرآگ کااثرنہ کرنا،آپ ﷺکابحالت بیداری آناًفاناًمعراج کاسفر کرنا وغیرہ]تواس سائنسی نظرئیے سے میل نہیں کھاتےلہذا انہوں نے اسلام کی عافیت اسی میں جانی کہ کلام اللہ کے الفاظ میں کسی طرح کھینچاتانی کرکے یہ ثابت کردیاجائے ان معجزات کی کوئی مافوق الفطرت حقیقت نہیں بلکہ یہ عادی اسباب کے تحت ہی رونماہوئے تھے پھربات صرف معجزات پرہی ختم نہیں ہوئی بلکہ جب آدم علیہ السلا م کی پیدائش، شیطان کاانہیں سجدہ نہ کرنا،فرشتوں کاوجوداوران کاآدم علیہ السلام کوسجدہ کرنا،جنت دوزخ کاوجودوغیرہ حقائق بھی سائنسی نظریات سے ٹکراتے نظرآئے توانہیں بھی تمثیلات کہہ کران کی الٹی سیدھی تاویلات کردی گئیں۔
اگرکوئی ان تاویلات فاسدہ کی تفصیلات جانناچاہتاہوتوصرف(سرسیداحمدخان) کی تفسیرالقرآن دیکھ لے کہ جس میںفرشتوں کو انسان کی مثبت صلاحتیں،جن اورشیاطین کومنفی جذبات،آدم علیہ السلام کوفردکی بجائے نوع انسانی،جنت اور جہنم کو مقامات کے بجائے راحت وخوشی اورتکلیف ومصیبت کی انسانی کیفیات سے تعبیرکرکے ان اسلامی تصورات کی سائنسی نظریات سے مطابقت پیداکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔الغر ض یہ کہ سائنسی علم کومعیار بناکرقرآنی تعلیمات کواس پرپرکھنا قرآن کے واضح اورصریح احکامات وتعلیمات کے انکارکاراستہ کھولتاہے۔خطبات اقبال میں جنت وجہنم کومقامات کی بجائے کیفیات قراردیاگیاہے یہی نقطۂ نظرغلام احمدپرویزنے اختیارکیایہ نقطہ نظرنیانہیں،مسلم فلاسفہ کی تاریخ میں مل جاتا ہے۔
آج کے دورمیں اس رویے کی جھلک دیکھناہوتوقلب کی حقیقت پرمختلف مفکرین کی آراءپرغورکرلیجئے،قرآن میں کئی مقامات پر یہ بات دہرائی گئی ہے کہ بدکردارلوگوں کے قلوب پرمہرلگادی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتےچونکہ موجودہ سائنس یہ دعویٰ کرتی ہے کہ سوچنےکاعمل توذہن سرانجام دیتاہےجبکہ دل تومحض خون کی روانی برقرار رکھنے کی ایک مشین ہےلہذااب سوال یہ پیداہوتاہے کہ سائنسی تحقیقات کی روشنی میں قرآن کی ان آیات کا مطلب کیاہوگاجن میں دلوں پرمہرلگانے کی بات کہی گئی ہے؟
جب لوگوں سے اس بات کاکوئی سائنسی جواب نہ بن پایاتوانہوں نے اس اعتراض کاحل نکالنے کی راہ یہ نکالی کہ عر بی زبان میں قلب کاترجمہ صرف دل ہی نہیں بلکہ”ذہانت”بھی ہوتاہےلہذاقرآن کی آیا ت کامطلب یہ نہیں کہ ان کے دلوں پرمہرلگا دی جاتی ہےبلکہ یہ ہے کہ ان کی ذہانت پرمہرلگادی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت کے بارے میں سوچ نہیں سکتے ۔ اس انوکھی تفسیرپرایک اشکال یہ پیداہواکہ قرآن میں توکہاگیاہے کہ قلب صدرمیں ہے [حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں]اورصدرکامعنی سینہ یاچھاتی ہوتاہےتواگرقلب سے مرادذہانت ہے[جس کامنبع ذہن ہوتاہے] اورذہن سینے میں نہیں ہوتاتوپھرقلب کے صدرمیں ہونےکے کیامعنی ہوں گے؟اس کے جواب میں یہ کہہ دیاگیاکہ صدرکا معنی سینہ ہی نہیں ہوتابلکہ اس کامطلب “وسط” بھی ہوتاہےلہذااب آیت کے معنی یہ ہوئے کہ تمہاری ذہانت[قلب]جوتمہارے وسط[صدر]میں ہے۔
اگرتفسیرکامعیارعربی لغت ہی ٹھہرےپھرتوہرباطل سے باطل نظریہ بھی لوگوں نے اسی قرآن سے ثابت کردکھایاہے۔اہل علم پراس آیت میں صدرکے معنی وسط لینے کی معنوی بے ڈھنگی عین واضح ہے لیکن سوال تویہ ہے کہ ہمیں قرآن کی ایسی تاویل کرنے کی ضرورت ہی کیاہے جواحادیث،پوری اسلامی تاریخ،اسلامی علمیت اورروایت کوردکرتی ہو؟یہ تاویل اس قدرلغوہے کہ اس پرکلام کرنابھی تضیع اوقات ہےالبتہ چنداصولی باتیں ذیل میں بیان کردی گئی ہیں:
1۔کیاسائنس کے پاس اس بات کاکوئی حتمی ثبوت ہے کہ سوچنے کاکام صرف ذہن ہی کرتاہے؟اگرکوئی کہے ہاں،تواس کا مطلب یہ ہواکہ اسے سائنس کاکچھ علم ہی نہیں،وہ اس لیے کہ ہم نے پچھلے مضمون میں اس بات پرتفصیل سے روشنی ڈالی تھی کہ سائنس کے پاس علم حاصل کرنے کاایسا کوئی طریقہ ہے ہی نہیں جس کے ذریعہ انسان کسی بات کوثابت کرسکے۔
2۔یہ دعوی بھی اپنی جگہ غلط ہے کہ دل کاسوچنے کےعمل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں،وہ اس لیے کہ علم نفسیات اورحیاتیات کی جدیدتحقیقات کے مطابق دماغ اوردل میں ایک خاص نوعیت کاتعلق بہرحال موجودہے۔فرض کریں کل کویہ تحقیقات مزیدآگے بڑھ کریہ ثابت کردیں کہ سوچنے کےعمل میں دل کابھی کچھ عمل دخل ہےتوہمارے مفکرین کیاکریں گے؟کیاپھر قرآنی الفاظ کی نئی تفسیرکریں گے؟کیااس سے لوگوں کاایمان قرآن پرسے متزلزل نہیں ہوگا؟
3۔اگرتفسیر کیلئےسائنس ہی معیارومنہاج ہوتوپھردل ہی کیا،سائنس توروح کابھی انکارکرتی ہےجبکہ قرآن واحادیث تواس کے اثبات سے بھرے پڑے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اب اس روح کے بارے میں ہمارے مفکرین کیاکہیں گے؟انہیں چاہئے کہ یاتواس کا انکارکردیں یاپھراس کی بھی کوئی نئی سائنسی توجیہہ کردیں[جیسےایک صاحب نے فرمایا ہوسکتاہے روح سے مرادوہی شے ہوجسے سائنس توانائی کہتی ہے،اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ]۔حق بات یہی ہے کہ جولوگ سائنس کوبنیادبناکرقرآن کی تفسیر کرتے ہیں وہ اسی قسم کی عجیب وغریب باتیں کرتے ہیں جن کااسلامی علمیت اورعقل وخردسے دوردورتک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
4۔لفظ قلب کی تعبیرذہانت اورصدرکی وسط کرنے والوں نے یہ نہ سوچاکہ اس تعبیرکے بعدان احادیث نبوی ﷺ کاکیابنےگاجن میں قلب کودل ہی کہاگیاہے؟مثلاًایک مشہورحدیث میں آپ ﷺ کاارشادان الفاظ میں روایت ہواہے: بے شک جسم میں ایک گوشت کالوتھڑاہےاگروہ اصلاح یافتہ ہوتوساراجسم صالح ہوتا ہے،اگرگوشت کے اس لوتھڑے میں فسادپیداہوجائے توساراجسم مفسدہوجا تاہے۔جان لووہ قلب ہے۔
غورطلب بات یہ ہے کہ اس حدیث میں قلب کیلئےلفظ”مضغضۃ”استعمال کیاگیاہے جس کامعنی قریب قریب”گوشت کالوتھڑا “ہے۔ظاہرسی بات ہے کہ ذہانت کو”مضغۃ”یعنی گوشت کالوتھڑاکہناکوئی معنی نہیں رکھتابلکہ”مضغۃ”تو دل ہی ہوسکتاہے۔ نیزیہ بات بھی سب کومعلوم ہےکہ یہ دل ہی ہے جوگوشت کے لوتھڑے کی مانندہوتاہے نہ کہ ذہن،جس سے صاف معلوم ہواکہ اس حدیث میں قلب دل ہی کوکہاگیاہے۔ایک اورحدیث میں آپﷺنے تقوے کے مقام کے بارے میں اپنے سینہ مبارک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشادفرمایاکہ”التقوی ھھنا”،تقوی یہاں ہوتا ہے [یعنی دل میں]۔ایسے ہی ایک اورروایت میں بیان ہوا کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے آپﷺسے فرمایاکہ مجھے اپنی جان آپﷺسے زیادہ عزیزمحسوس ہوتی ہےتو آپ ﷺ نےان کے سینہ مبارک پرہلکاساہاتھ سے جھٹکادیاجس کےبعدحضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اب یہ کیفیت بدل گئی ہے اورآپﷺ کی محبت اپنی جان سے بھی بڑھ گئی ہے۔سوچنےکی بات یہ ہے کہ سینے پرہاتھ کیوں مارا؟اگرقلب سے مرادذہانت ہوتی توسرپرہاتھ مارناچاہئے تھا۔اسی طرح ایک حدیث میں بیان ہواہے کہ جب کوئی مومن ایک گناہ کرتاہےتواس کےقلب پرایک سیاہ نشان ڈال دیاجاتاہے۔اگرتووہ توبہ کرلے تووہ سیاہ نشان مٹادیاجاتاہےاوراگروہ مزیدگناہ کرتاہی چلاجائےتووہ سیاہ نشان بھی بڑھتاچلاجاتاہےیہاں تک کہ اس کاپوراقلب سیاہ ہوجاتاہےاور پھر اس سے توبہ کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ اگرقلب سے مرادذہن ہے تواس پرسیاہ نشان کے کیامعنی ہوئے؟
کیاسائنس اس بات کومانتی ہےکہ گناہ کے کام کرنے سے کسی شخص کی ذہانت یاسوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے؟ ہم تویہ دیکھتےہیں کہ کافر،گناہ گار اور فاسق وفاجرقسم کےلوگوں کی ذہانت کے چرچے بھی چہاردنگ عالم میں عام ہیں مثلاً آئن سٹائن مشہورسائنسدان ہے جس کی ذہانت بھرے سائنسی نظریات نے فزکس کی دنیامیں تہلکہ مچاکررکھ دیاہےلیکن اس کاکردار اورزندگی کس قدر غیر اخلاقی تھی اسکا اندازہ اس کے ان خطوط سے لگایا جاسکتا ہے جواس کی پوتی نے شائع کیے[انہیں پڑھ کرایسامحسوس ہوتاہےگویاوہ اپنی بیوی کے سواتمام عورتوں سے تعلقات رکھتاتھا]اسی طرح کانٹ اتناذہین آدمی تھاکہ پچھلے تین سوسال میں پورے مغربی فکروفلسفے میں اس پائےکافلسفی آج تک پیدانہیں ہوالیکن وہ اغلام بازتھا۔ اسی طرح بیسویں صدی کا مشہورترین فلسفی فوکوایڈزکی بیماری میں مبتلاہوکرہلاک ہوا۔یہ محض چند مثالیں ہیں،ورنہ اگرآپ دنیاکے اکثروبیشتر”ذہین”ترین سائنسدانوں وغیرہ کی زندگی کامطالعہ کرکے دیکھیں گےتواکثروبیشترکی زندگیاں اخلاق رزیلہ نجاست اورتعفن سے بھری ہوئی دکھائی دے گی۔سوال یہ ہے کہ ایسے گناہ گارلوگ پھر اتنے ذہین کیوں ہیں؟
یہ چنداحادیث توبرجستہ ہی بیان کردی گئی ہیں ورنہ اگرکتب احادیث کوبغورپڑھاجائے تواس موضوع پردسیوں احادیث پیش کی جاسکتی ہیں۔اب ایک طرف یہ احادیث ہیں جودرحقیقت قرآن مجید کی اصل شارح ہیں،دوسری طرف وہ الل ٹپ لغوی تاویلات ہیں جوہمارے مفکرین حضرات بیان کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ ان میں سے کس کی بات مانی جائے؟ظاہربات ہے کہ احادیث کے سامنے ایسی لغوی بحثوں اورظنی(قیاس آرائیوں)سائنسی اصولوں کی حیثیت مکھی کے پرجتنی بھی نہیں۔
5۔فرض کریں کہ ہم ایک لمحے کیلئےیہ دعوی مان لیتے ہیں کہ سوچنے کاکام ذہن ہی کرتاہے دل نہیں کرتا،تب بھی قرآنی اصطلاح{قلب}کی کوئی نئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں۔وہ اس لیے کہ حقیقت کاادراک عقل کے بس کی بات ہی نہیں[اس بات کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں]۔عقل کی پروازتو صرف وہاں تک ہے جہاں تک حواس خمسہ سے حاصل ہونے والے مشاہدات وتجربات اسے لے جاسکتے ہیں اوراس دنیامیں مابعد الطبعیاتی حقائق [مثلاً ذات باری تعالی،مقصد انسانی، زندگی بعد الموت وغیرہ]پرکوئی مشاہدہ ممکن ہی نہیں کہ جس کے ذریعے ان حقائق کے حوالے سے عقل کوئی رائے قائم کر سکےلہذا حقیقت کاادراک سرے سے عقل کے ذریعے ممکن ہی نہیں بلکہ اس کاذریعہ توقلب ہے۔قرآن وحدیث نے حقیقت کے ادراک کیلئےاسی قلب کی پاکیزگی اورتطہیرکی جانب اصل توجہ دلائی ہے اوراگرکسی کوقلب کی دنیاکے حالات جاننے کا شوق ہوتو حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ کی کتاب احیاءالعلوم الدین کی تیسری اورچوتھی جلدپڑھ لے۔
پس جانناچاہئے کہ درست طریقہ تفسیریہی ہے کہ ہم قرآن مجیدکو ہی بنیادبناکرباقی نظریات کے حق یاباطل ہونے کافیصلہ کریں کیونکہ قرآن ہی اصل معیاراورعلمیت ہے اوراس حقیقت کوقرآن نے اپنے لیے فرقان[حق وباطل میں فرق کرنے کامعیار و میزان]اورالحق[واحداوراصل حقیقت]کے الفاظ کے ساتھ تعبیرفرمایاہے۔یعنی قرآن خودآخری اورحتمی معیاراورمیزان علم ہے جس میں تول کرہرنظرئیے کی حقانیت کوجانچا جاناچاہیے۔بھلا ہو ہمارے ان درجنوں علمائے اورمفسرین کرام کااوربالخصوص استادمحترم جناب میجرامین صاحب کاجنہوں نے زمانے کے عام چلن سے مرعوب نہ ہو کر حق کی وہی تعبیراختیارکیے رکھی جوصحیح روایات کے ساتھ اسلاف سے ثابت ہے۔ اگریہ حضرات بھی زمانے کے عام چلن کے مطابق خام سائنس سے مرعوب ہوکر قرآن کی غلط سلط تاویلات عوام میں عام کردیتے توسائنس کی دنیامیں نیوٹن کے نظرئیے کے ابطال کے بعدعوام الناس کاکلام اللہ کی حقانیت سے ایمان جاتارہتا۔اسی لئے قرآن کاہم سے مطالبہ ہےبھلایہ قرآن میں غورکیوں نہیں کرتے؟اگریہ اللہ کے سوا کسی اورکا(کلام)ہوتاتواس میں(بہت سا)اختلاف پاتے۔(النساء:82)