The Pain Is As Silent As The Dervish Ocean

دردخاموش ہے درویش سمندرکی طرح

:Share

پاکستان میں جاری سیاسی تماشے دیکھ کرآج اپنے ایوانِ اقتدارمیں بیٹھے قومی رہنماؤں اورسیاست دانوں کے احوال دیکھ کربنو امیہ،بنوعباس اورمغل بادشاہوں کے اختتامی دورکے رنگین مزاج حکمرانوں کی سیاہ تاریخ یاد آتی ہے۔بنوامیہ کی حکومت عیاش و ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی سیاہ کاریوں کی بدولت روبہ زوال تھی۔ معاشرتی انحطاط وانتشارسے عاجزعوام سراپااحتجاج تھے، قبائل کی بغاوت اورعباسی دعوت کے آغازسے اموی اقتدارکابیڑاسنگین بحرانوں کاشکارتھا۔مگراپنے عظیم پیشروعمربن عبدالعزیز کے چہلم سے پہلے ان کی نافذ کردہ اصلاحات منسوخ کرنے والاعیاش خلیفہ یزیدبن عبدالملک، ان تمام باتوں سے بے نیاز “بس عشق زندہ باد” کاخاموش نعرہ لگاکراپنی حسن پریوں حبابہ اورسلامہ کی قربتوں میں مدہوش تھا۔

خلیفہ سے بات کرنے کے منتظرامراءمحل میں بیٹھے تھے اوروہ کمبخت شاہی باغ کے جھولے میں اپنی محبوبہ کے ہونٹوں سے ہونٹ ملاکراسے انگورکھلارہاتھا کہ اچانک انگورکاایک دانہ سیدھاحبابہ کی سانس کی نالی میں جاپھنسااوروہ چند لمحوں میں اس کی بانہوں میں دم توڑگئی اورپھرسب لوگ اسے ملک میں بہنے والے خون اورتاج وتخت کودرپیش خطرات یاددلاکر،رب ذوالجلال کے واسطے دیتے رہے لیکن وہ اپنی محبوبہ کی لاش سے لپٹ کرزاروقطارروتارہا۔ شاید یہ لکھتے ہوئے تاریخ دان نے بھی اپناسر پیٹاہوگاکہ اس بدبخت خلیفہ نے تین دن تک اس محبوبہ کی لاش کودفنانے نہ دیا۔آخرکارجب لاش سخت تعفن کا شکارہوئی،تولوگوں نے اسے بہلاپھسلاکرلاش سے الگ کیااورخاموشی سے دفنادیا۔وہ حبابہ کی جدائی میں پاگل ہوااورچوتھے ہی روز”بس عشق زندہ باد” کاخاموش نعرہ لگاکرہمیشہ کیلئے خاموش ومردہ بادہوگیا۔شباب وشراب کارسیاایک اوراموی خلیفہ ولیدثانی ہم جنس پرستی اور فسق وفجرکی ساری حدیں عبور کرگیاتواسے لوگوں نے محل میں گھس کرقتل کرڈالا۔

پاکستان کی75سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی وحال کے اکثروبیشترخدادادپاکستان کےحکمران،جن میں ایسے رنگیلے حکمراں بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی ایک نازنیں “ترانہ کوقومی ترانہ”اوردوسرااپنے ہاں گانے بجانے کی محفلوں میں کبھی اپنے سرپرجام رکھ کررقص کرتا تھااورکبھی بھانڈوں کی بھری محفل میں گلوکاری کے جوہر دکھاکردادِ عیش وصول کرتاتھااوراسی محفل میں ملک کے سب سے بڑے ادارے ایف بی آرکاسربراہ حیاکاجنازہ نکالتے ہوئے رقص کرکے سب کادل بہلارہا تھا۔پھرچشم فلک نے یہ بھی دیکھاکہ نئے اور پرانے پاکستان کے انقلابی لیڈراوردیسی بدیسی لیڈر،عیاں یادرپردہ اس عیاش اموی خلیفہ یزیدبن عبدالملک کی تصویر اور“زن عشق زندہ باد”کے خاموش نعرے رہے ہیں۔ہمارے اکثروبیشترجوان وبڈھے سیاستدان بغل میں حسن کے”ایٹم بم” لئے،قوم کے مصائب و آلام بے نیازرنگ برنگی عیاشیوں میں مست ومدہوش رہے ہیں۔

لاکھوں افرادکی قربانی دینے کے بعدآزادی جیسی نعمت حاصل کرنے والے اس ملک میں ہمارے ایک حکمران کی آغوش میں صرف”تازہ جوان خون”ہی نہیں ہواکرتاتھابلکہ وہ سینے سے ڈالروں کابریف کیس لگائے،دولت کی مقدس دیوی کے جنون میں “زرعشق زندہ باد”کاخاموش نعرہ لگانے میں سب کوپیچھے چھوڑگئے ۔ اس کی تصدیق تب ہوئی جب ملک کی خوبصورت 21سالہ ماڈل”ایان علی”کواسلام آباداائیرپورٹ میں ڈالروں کی اسمگلنگ میں دھر لیاگیا،حکومتی کارندوں کی دوڑیں لگ گئیں،بڑے بڑے نام اس کی رہائی کیلئے موقع پرپہنچ گئے اوراس وقت کاوزیرداخلہ بھی اس کوچھڑانے کیلئے لرزاں وترساں تھاکہ ان لاکھوں ڈالروں کے بارے میں پاکستانی میڈیامیں مختلف چہ میگوئیاں کی جارہی تھیں کہ پچھلے دوسالوں سے جاری اس سلسلے کاتعلق(پی پی پی)کی ایک اعلیٰ شخصیت کے ساتھ جڑا ہواہے۔ماڈل ایان علی کوفوری طورپراڈیالہ جیل میں وہ تمام شاہانہ سہولتیں فراہم کردی گئیں اوران کی وکالت کیلئے پی پی پی کے ایک سرکردہ رہنمااورسابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ کواس ماڈل کے کیس کی پیروی سونپ دی گئی اوراس قابل ترین وکیل نے اپنی تمام صلاحتیں اس کی بریت کیلئے استعمال کرتے ہوئے اس وقت تک سکھ کاسانس نہیں لیاجب تک اس ماڈل کواڈیالہ جیل سے نکال کردبئی کے محل تک نہیں پہنچادیا۔یہ الگ داستان ہے کہ اس کیس کی تحقیقات کرنے والے ایماندارافسرکوبڑی بیدردی سے راستے سے ہٹادیاگیااوراس کی بیوہ اوریتیم بچے اس ملک میں انصاف کی دیوی کی آنکھوں پربندھی پٹی کوہٹانے میں ناکام رہے۔

اس قوم کویہ روزبدبھی دیکھناپڑاکہ قوم بدترین سیلاب کی طوفانی موجوں میں ڈوب رہی تھی لیکن انقلاب خان اورغریب دوست قادری صاحب انہیں بچاناحکومتی فریضہ قراردیکران رنگ رنگیلے دھرنوں میں مدہوش بہ رقص ونغمہ تھے،جہاں مابعد شائع ہونے والی پریس تصویروں کے مطابق ان کی اس وقت تک کی”خفیہ محبوبہ “ریحام خان کی موجودگی ہی شایدخان صاحب کیلئے کل سرمایہء ہستی تھی۔اورآہ کہ جب سانحہ پشاورسے افسردہ قوم حالتِ صدمہ میں تھی،قبلہ خان صاحب”بس عشق زندہ باد”کا خاموش نعرہ لگاکراپنی دیومالائی محبوبہ کے جشن قربت کارنگین وسادہ اہتمام کررہے تھے لیکن یادرہے کہ ہمارے سیاسی کلچر میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کااحتجاج بھی اسی میوزیکل شوزاوررقص ونغمات کی محافل سجاکرکیاجاتارہالیکن ایک مرتبہ بھی ہزاروں افرادکے دلوں کی دھڑکن اورمرشدقادری صاحب اوران کے مریدان بھی ان مجالس کوتقویت فراہم کررہے تھے۔

انہی دنوں قوم لوڈشیڈنگ کے عذابی اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی مگرایک دیندارگھرانے کانون لیگی وزیرضعیم قادری چکاچوند روشنیوں کے سیلاب میں برپاہونے والی شراب وشباب کی محافل میں مدہوش میڈیاکی نظروں میں آگیا۔یہاں عوام پٹرول اورگیس کی بندش اورقاتل مہنگائی پرسراپااحتجاج تھے لیکن عائلہ ملک اور سمیراملک کے اپنے اپنے محبوب راہنماؤں کے ساتھ رنگین فوٹو سیشن پورے سوشل میڈیا پر آوارہ گرد گھوم رہے تھے۔صحرائے تھر میں مفلسان قوم بھوک اور پیاس سے دم توڑرہے تھے،کرپشن کنگ زرداری کابے بی بوائے اورآج کاوزیرخارجہ بلاول زرداری اوران کے ساتھی جیالے وڈیرے،جشن سندھ کے نام پرسندھ کلچرکے نام پرمجرے سجاکرشرمیلافاروقی او سسی پلیجو جیسی روح پرورمٹیاروں کے سنگ محورقص نظرآتے ہیں۔

بدنصیب آنکھوں کویہ بھی دیکھنے کوملاکہ کراچی کی سڑکوں پربے گناہ معصوموں کاخون چیختارہامگرگورنرہاؤس میں ثقافتی شوزکے نام پراکٹھی ہونے والی “نامعلوم” ہستیوں کی سدابہارمحافل شراب وشباب جاری تھا۔بلوچستان میں گیس پائپ لائنیں اڑرہی ہوں یاکوئٹہ میں عوام الناس کالہوبہے،بلوچی وڈیروں کی داشتائیں اوربلوچ باغیوں کوافغان سرحد کے اس پارسے آنے والے بھارتی اسلحہ کے ساتھ ساتھ ممبئی وچنائی برانڈ حسن پریوں کی گرماگرم کمک بھی ہمہ وقت پہنچ رہی ہے۔آئے دن ارضِ وطن کے سپوت اپناخون دیکراس دھرتی کاقرض اتارہے ہیں لیکن سوشل میڈیامیں ان کی قربانیوں کوپش پشت ڈال کراپنے اقتدارکیلئے ان کورگیداجا رہاہے۔کیاکوئی جرنلسٹ یامیڈیائی دانشوراس حقیقت سے انکارکرسکتاہے کہ اسلام آبادمیں دھرنوں کے خون رنگ ہنگامہءسیاست کے دوران بھی اسلام آبادپارلیمنٹ لاجزمیں ممبران پارلیمنٹ اورایوان اقتدارکے خواص خوبصورت ماڈلوں کی نغماتی آغوشوں میں میڈیائی مناظرسے محظوظ ہوتے رہے۔

ابھی کل کی بات ہے کہ صاحبان اقتدارکے سرکاری اورذاتی محلات میں بھارت ماتاکے برخودارسیفما کے وہ پتلے اوربھارتی کٹھ پتلیاں نئے تماشہ سجائے بیٹھے تھے جوماضی میں سیاسی قیادتوں اورعسکری اداروں میں ٹکراؤکی محرک رہیں۔ سرکار پربھارت سے والہانہ محبت اورامن کی آشاکا بھوت اس حدتک سوار تھا کہ ان کیلئے بھارت کاپوترنام لینابھی اک پاپ ٹھہرتاتھا۔اب بھی بعض اوقات گمان ہوتاہے کہ سب سیاسی کبوتروں نے انگنت بلیاں دیکھ کرسداکیلئے آنکھیں بند کر رکھی ہیں مگرعسکری اداروں کی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتاہے کہ انہیں حکومت کے تلوں میں تیل نہ ہونے کاپیشگی ادراک ہوچکاہے،اسی لئے شاید حکومت کی “قومی غیرت”سے دل برداشتہ عسکری اورحساس اداروں نے بھارتی دہشتگردی کی مذمت اورہندوتواکی غنڈہ گردی کاسد باب خود ہی سے کرنے کی ٹھان رکھی ہے لیکن تعجب تواس بات پرہے کہ جن کی بدولت ہم دن کومحفوظ اوررات کوچین کی نیندسوتے ہیں، دشمن کوتقویت پہنچانے کیلئے انہی کے خلاف محاذپروپیگنڈہ کامحاذگرم کررکھاہے۔

آج حکومت کی انتظامی وخارجی کارکردگی اورمسلم لیگیوں کانظریہءپاکستان کی علمبرداری کا”کھسروانہ مظاہرہ”گواہ ہے کہ جب پوری دنیا سے جرات مندانہ ٹکرلیکرایٹمی دھماکے کرنے والے جمہوری وزیراعظم میں مودی کومنہ توڑجواب دینے اوربھارتی جارحیت کی مذمت اورملکی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے جاسوس کلبھوشن کے خلاف بیان دینے تک کاحوصلہ نہ رہاتو مجبوراً یہ”مردانہ شعبہ”بھی عسکری اداروں کوسنبھالناپڑالیکن اس کوکیاکہا جائے کہ ہمارے خان صاحب نے قومی اسمبلی میں اس کی رہائی کیلئے قانون سازی کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرناشروع کردیں اورآج مسئلہ کشمیرپرہماری بزدلی کایہ عالم ہے کہ مودی کھلے عام کشمیری آبادی کاتناسب تبدیل کرنے میں شب وروزمصروف ہے۔

ادھرآل شریف اورزرداری کالوٹاہوادھن لانے کے انتخابی وعدے فریب عاشقی ثابت ہونے پرعوام کوممکنہ ریلیف ملنے کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں کہ موجودہ حکمرانوں نے حکومت سنبھالتے ہی جس طرح نیب کادھڑن تختہ کیاہے اس کے بعدنیب کوبندکرنازیادہ بہترہوگاتاکہ اس فیدہاتھی کے اخراجات سے قوم کونجات مل جائے کیونکہ بڑھتے ہوئے قرضوں اورسودکے بوجھ تلے سسکتی قوم ناامیدی کے کفرپرمجبورہے۔دشتِ کرب وبلاجیسی دھرتی کی قوم منتظرہے کہ شاید یہ فریضہ بھی کوئی جرنیل صاحب ہی اداکریں گے۔

دہشتگردی کے سدباب کی دعویدارحکومت نےاپنے رائیونڈ محل کیلئے حفاظتی دیوارتوتعمیرکرلی ہےلیکن مساجد وامام بارگاہوں سے سکولوں اور پبلک مقامات سے تھانوں تک کی حفاظت میں جب کلی ناکام ثابت ہوگئی تھی تو”ضرب عضب اوردالفساد”میں ہمارے سینکڑوں نوجوانوں نے اپنی جانون کی قربانیاں دیکراس ارضِ وطن کوآئے دن دہماکوں سے محفوط کیاکیونکہ پولیس اور سول انتظامیہ کاکردارصرف ان حکمرانوں کے پروٹوکول اورحفاطت پرہی رہ گیاہے اور”ڈنگ ٹپاؤاورمال بناؤ” کے سوااورکچھ نہیں۔ اشیائے صرف کی قیمتوں پرملٹی نیشنل کمپنیوں اورذخیرہ اندوزمافیوں کاراج ہے۔ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کوجس طرح بدحال کردیا گیاہے،اس کے پیچھے چھپی سازشوں کابھی انکشاف ہورہاہےاوراگرانہیں کنٹرول کرنے کاذمہ داربیورو کریٹ مافیہ بھی جیب میں پرس اوربی ایم ڈبلیومیں تازہ مٹیارلئے مست ہے،توکیاافسرشاہی کے مونہہ زورگھوڑے کیخلاف کسی غضب ناک اپریشن کی ذمہ داری بھی کسی جنرل کواٹھانی ہوگی؟

قوم اعلیٰ عدلیہ سے مایوس ہوکراب یہ پوچھنے پرمجبورہےکیاسانحہ بلدیہ ٹاؤن اورماڈل ٹاؤن کی تحقیقیات میں ثابت شدہ”نامعلوم” بھتہ خورقاتلوں کوبھی کوئی جنرل صاحب ہی پھانسی گھاٹ تک پہنچائیں گے؟لیکن افسوس کہ اس ساری صورت حال میں ریاست کاچوتھاستون یعنی میڈیابھی،حالات کی اصل تصویردکھانے کی بجائے اشتہارات کے اندھے حصول کیلئے یاتوبھارتی سٹارزکے معاشقوں اورامن کی آشامیں”زرعشق زندہ باد”کانعرہ بن چکاہے یاپھر کسی ایک مقبول سیاسی جماعت کی ڈیوڑھی کادربان بن کراپنی ریٹنگ بڑھانے میں مصروف ہے۔جمہویت کے مداحین سے بصدمعذرت میرادعویٰ ہے کہ بس”عشق زندہ بادیازرعشق زندہ باد “کی”غریب نواز”سلطانیءجمہورسے عاجزومظلوم لوگ،جلدہی کسی”تیسری قوت”سے امیدِمسیحائی پرمجبورہو جائیں گے اور تیسری قوت جس نے خودکومکمل طورپرنیوٹرل کرلیاہے،اس کوبارباراپنے ہرخطاب اورپریس کانفرنسزمیں برملااپنی مددکیلئے جو پکاراجارہا ہے،اس نے بڑی ہمت اورحوصلہ کے ساتھ اس بھاری پتھرکوچوم کر سیاستدانوں کے حوالے کرچھوڑاہے جب تک قوم کوجاری جعلی جمہوریت کے اس زہریلے دودھ سے زہربادہوکر ابکائیاں آناشروع نہیں ہوجاتی۔

قومی امید کانشان سمجھاجانے والے خان صاحب صرف مادرپدرآزادتہذیب کے علمبرداراورسیاسی سوجھ بوجھ سے مکمل نابلد ہیں، وہ جہاں ہراہم مقام پر راہ بدلتے ہوئے مسٹریوٹرن اورہرلحاظ سے اخلاقی کرپٹ ثابت ہوئے ہیں وہاں اپنے زورخطابت میں ریاست کے اہم اداروں اورافرادکودہمکیاں دیکر اپنے ہاتھوں کنواں کھودکراس میں چھلانگ لگاچکے ہیں جس کی بناءپراب پیمراکی پابندیوں کی زدمیں آگئے ہیں۔افسوس کہ وہ جن پیشہ ورسیاستدانوں اور کرپشن کنگزکیخلاف جہادکرنے کانعرہ لگاکرعملی سیاست میں آئے تھے،اب وہی بیشترکرپشن کنگزان کے ساتھ ہیں اورالیکشن کمیشن کےفیصلہ کے بعد تاحیات نااہلی کامگرمچھ بھی اپنامنہ کھولے ان کی سیاست کونگلنے کیلئے تیاربیٹھاہے۔ممکن ہے کہ کل مجبورومایوس عوام یہ نعرہ لگانے کاگناہِ کبیرہ کربیٹھیں کہ ایسی دردناک “کھسرا جمہوریت”سے لاکھ بہترہے کہ پاکستانی قوم کوایوب ویحیٰ یاضیاومشرف جیسانہیں،صلاح الدین ایوبی جیساایک ایساجرنیل مل جائے جوحلقہءیارانِ امن کیلئے بریشم کی طرح نرم اوربھارت جیسی دہشتگردقوتوں کیلئے فولادی مومن ہو۔تماشہءمحشرِمفلساں جاری رہاتووہ وقت دورنہیں کہ جب درودیوارپہ لکھاجائے گا…..خداراکوئی مارشل لالگادو…لیکن ہاں اگر خدانخواستہ پھرکوئی مشرف جیساہی آن ٹپکا تو؟؟
دردخاموش ہے درویش سمندرکی طرح
خامشی بن کے فغاں حشرفشاں ٹھہرے گی

اپنا تبصرہ بھیجیں