The New Wave Of Islamophobia

اسلامی فوبیاکی نئی لہر

:Share

حالیہ واقعات نے دنیاکے مسلمانوں میں اب یہ احساس ایک مرتبہ پھرتازہ کردیاہے جس کی بنیادنائن الیون میں رکھی گئی تھی اوراب اسلاموفوبیامیں یوں اضافہ ہو چکاہے کہ یہ ایک متعصب ونسل پرست اقلیت کاہی مسلہ نہیں بلکہ سماج میں اب ایک عام اور قابل قبول حقیقت بن چکاہے۔برطانیہ اور یورپ میں مسلمانوں کو درپیش مسائل پرتوجہ رکھنے والے آن لائن پبلشنگ ادارے ہائفن نے یہ سروے پولنگ کمپنی”ساوانٹا کومرس”کے ذریعے کروایا ہے۔1503برطانوی مسلمانوں سے ان کے روزمرہ کے تجربات کے متعلق سوالات کئے گئے جس میں ہر10افرادمیں سے7برطانوی مسلمان اپنے پیشہ ورانہ کام کے مقامات پراسلامو فوبیا کا شکارہیں۔نتائج میں سامنے آیاہے کہ برطانیہ میں ملازمت کرنے والے تقریباً 69 فیصدمسلمان پیشہ ورانہ مصروفیات کے دوران کسی نہ کسی شکل میں اسلامو فوبیایعنی مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے نفرت کاسامنا کررہے ہیں۔اورسیاہ فام مسلمانوں کو دیگر کے مقابلے میں زیادہ اسلامو فوبیاکا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ سروے میں شامل37فیصد افرادکو بھرتیوں کے مرحلے پرامتیازی سلوک کاسامنا کرناپڑاجبکہ اسی معاملے میں سیاہ فام مسلمانوں کی تعداد58فیصدہے۔برطانوی مسلمانوں کایہ بھی کہناہے کہ یہاں زندگی گزارنا پانچ سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ بڑاچیلنج بن چکاہے۔

گیارہ ستمبرکے حملوں کے بعدصحیح معنوں میں مغربی معاشروں میں اسلاموفوبیا اب عروج پرہے۔گیارہ ستمبرکے بعد کے عرصے میں یہ سوچ توبڑھتی جارہی تھی کہ مسلمان مغربی معاشروں کیلئے ایک مسئلہ ہیں اوران کی سوچ اورمذہب مغربی ماشرے کے اقدارسے متضادہے لیکن اس کومین سٹریم میں لانے سے حالات اوربہت بگڑگئے ہیں۔پچھلےچندبرسوں کے سیاسی واقعات نے اس میں سب میں بڑاکرداراداکیاہے۔سابق امریکی صدرڈونلڈٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں قدم رکھتے ہی جواسلام مخالف باتیں اوراقدامات کئے اس کے اثرات ابھی تک ختم نہیں ہوسکے جس کے بعدبرطانیہ کی سیاست میں یہ صورتحال بتدریج کئی سالوں سے بگاڑی جارہی ہے۔اگرآپ مجھے اجازت دیں تومیں دنیامیں جمہوریت کی ماں کہنے والوں کے ایک واقعہ کاتذکرہ کر دوں تاکہ معاملہ کی حقیقت سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوجائے۔

لندن کے مئیرکے الیکشن میں مسلمان(لیبر پارٹی کے) امیدوارکے خلاف جس طرح سے اس وقت کے برطانوی وزیراعظم تک نے “اسلامو فوبیا”کا استعمال کیا ،اس کی شایدہی کوئی اورمثال ملے۔انتخابی مہم کے دوران اس وقت کےوزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایوان میں صادق خان کاشدت پسندعناصر سے تعلق جوڑا، کہاکہ”لیبر پارٹی کے امیدوارشدت پسندوں کے ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر بیٹھ چکے ہیں اورمجھے ان کے بارے میں بہت خدشات ہیں” ۔ یہ الفاظ کسی انتہائی دائیں بازویاانتہا پسند تحریک کے رہنماکے نہیں، ملک کے وزیراعظم کے تھےاوران ہی کی پارٹی کے امیدوارزیک گولڈسمتھ نے اسی اسلامو فوبیاکواپنی انتخابی تحریک کامحور بنایا۔باربارمسلمان امیدوارکاتعلق اسلامی شدت پسندوں سےجوڑکرووٹروں کوڈرایا،ہندواورسکھ ووٹروں کوخاص طورپرڈراتے رہے کہ مسلمان کامئیرہوناان کیلئےاچھا نہیں ہوگالیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اس تمام پروپیگنڈے کے باوجودمحمدصادق مئیرمنتخب ہوگئے اورمیں اسے مسلمانوں کی فتح نہیں بلکہ اسلاموفوبیاکی شکست قراردیتاہوں۔

پھر آیاریفرنڈم کامرحلہ۔اس میں مسلمان مخالف جذبات فرنگی(امیگرنٹ) مخالف جذبات کے ساتھ گھل مل گئے اور”باہروالوں”یا امیگرنٹ افرادکو “مین سٹریم” سیاست میں”کوسنا”یاان کوبُرابھلاکہناایک طرح سے قابلِ قبول ہوگیا۔اس میں بھی سیاستدانوں اور حکمراں جماعت کے اہلکاروں کا ایک بڑااوربُراکردارتھا۔یورپ کی طرح برطانیہ میں بھی انتہاپسندجماعتیں،جن کوکم ہی منتخب کیاجاتاہے،برسوں سے ایسی باتیں کررہی ہیں لیکن برطانیہ میں ریفرنڈم کے موقع پراس بیانیے کو”مین سٹریم”کردیاگیااوریہ ایسا جِن ہے جوبوتل سے نکلنے کے بعدآپ واپس قابونہیں آرہا۔ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق برسوں کے بعدپھر”پاکی”کو بطور تضحیک استعمال کیاجارہاہےاورحجاب پہنے والی خواتین کوبھی مختلف واقعات میں نشانہ بنایاگیا۔

2011 میں(یعنی12 سال پہلے) برطانیہ میں حکمراں جماعت کنزروویٹیو پارٹی کی چئرمین اور کابینہ کی پہلی مسلمان خاتون بیرنِس سعیدہ وارثی نے یہ کہہ کرتہلکہ مچادیاتھا کہ”برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب سماج میں کافی حد تک قابلِ قبول بن چکاہے اوریہ رویہ”ڈنر ٹیبل ٹیسٹ پاس کر چکاہے”۔ انہوں نےاس بات کی نشاندہی کی کہ مسلمانوں کوصرف یاتوانتہا پسندوقدامت پسندیاپھر “انتہائی ماڈرن”اورمذہب سے دوررہنے والوں کے طورپردیکھا جاتاہےاوران دونوں انتہاوں کے درمیان کی سوچ رکھنے والے برطانوی مسلمانوں کومصلحت کے طورپرنظرانداز کیاجاتاہے۔بالآخراسی سیاسی گھٹن کی وجہ سے 2014 میں سعیدہ وارثی کابینہ سے مستعفی ہوگئی تھیں۔

اس وقت دنیامیں تعدادکے لحاظ سے دوبڑے مذاہب عیسائی اورمسلمان ہیں،اس کے بعدہندواورسکھ کے علاوہ دیگرمذاہب کے ماننے والے بھی ہیں۔ کیاوجہ ہے کہ پہلے ہمارے آقانبیﷺکے خاکے بناکرمسلمانوں میں اشتعال پیداکیاگیااوراب صرف مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کوجلانے کی ناپاک حرکتیں دیکھنے کومل رہی ہیں؟جبکہ اورمذاہب کے مننے والوں کی مقدس کتب کے بارے میں ایسارویہ دیکھنے کونہیں ملتا۔اگراسلام سے اس قدر نفرت ہے توکیامغرب میں اسلام قبول کرنے والوں کی بڑھتی تعدادکسی جبر کی وجہ سے ہے؟یقیناًاسلاموفوبیاکے ردّعمل میں یہاں کے لوگوں کوجب قرآن پڑھنے کاموقع ملاتوانہوں نے اسلام قبل کرناشروع کردیاہے اوریہی وجہ ہے کہ یہاں بعض شرپسنداورمتعصب یہاں کی آبادی کویہ کہہ کرخوفزدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگلے پچاس سالوں میں یورپ میں مسلمانوں کی اکثریت یہاں کے حکمران بن جائیں گے۔اس لئے اب وقت آگیاہے کہ ایک ایسی مضبوط اورتواناپالیسی اختیارکرکے خبردارکیاجائے کہ اس واضح اورڈیزائن شدہ اسلامو فوبیا کوآزادی اظہارکے جھوٹے نقاب کے پیچھے نہیں چھپایا جاسکتاکہ کہیں ردّعمل میں پرامن دنیاکاخواب چکناچورنہ ہوجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں