Sample Cold War

نئی سردجنگ اوراس کے خوفناک نتائج

:Share

چین اورروس بہت تیزی سے ابھرکرایک بڑے خطرے کی شکل اختیارکرتے جارہے ہیں۔مغرب کی جمہوریتوں کویہ فکرلاحق ہے کہ ان دونوں مملکتوں کوایک خاص حدتک محدودکرنے میں کیونکرکامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مغرب کی الجھن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔چین اورروس جیسے ممالک سے نپٹنے کیلئے بہترین حکمتِ عملی کیاہوسکتی ہے؟انہیں چیلنج کرنا، ان سے ٹکرانا،انہیں ایک خاص حد تک رکھنے کی کوشش کرنا؟کیاصرف معاشی معاملات میں کوئی بڑا قدم اٹھاکران دونوں طاقتوں کودبایاجاسکتاہے،اپنی مرضی کے حجم کاحامل بنایاجاسکتا ہے؟ اس وقت چین اورروس جوکچھ کررہے ہیں،کیاویساہی کچھ کرکے اُن سے بہترطور پرنمٹاجاسکتا ہے؟یہ تمام سوالات غورطلب ہیں کیونکہ اِن کے درست جواب کی شکل ہی میں مغرب کیلئےاپنی طاقت کوبرقراررکھنے کی کوئی راہ مل سکتی ہے جس کیلئے ان دنوں وہ سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں اوروہ اس بات سے واقف ہیں کہ کرونانے جہاں ساری دنیا کی معیشت کومتاثرکیاہے،روس اورچین نے بروقت اس کا تدارک کرکے اپنی اکانومی کومحفوظ رکھاہے بلکہ چین نے اس وباکے دفاعی نظام میں اپنے کاروبارکوخوب ترقی دی ہے۔

امریکا،یورپی یونین اوربرطانیہ نے چین کودبوچنے کی کوشش میں جوتجارتی پابندیاں عائدکی تھیں انہیں چینی قیادت نے بیک جنبشِ قلم مستردکر دیاہے۔برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن چین کے معاملے میں کچھ زیادہ جذباتی دکھائی دیتے ہیں۔چینی قیادت بھی محسوس کرتی ہے کہ اگروہ مطلوب حدتک جذباتی نہ ہوئی اورکسی بھی اقدام کافوری جواب نہ دیاتواُس کیلئےآگے بڑھناانتہائی دشوارہوجائے گا۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی مغربی اقدام کافوری جواب دینے میں تساہل کامظاہرہ کیاجارہاہے نہ بخل کا۔

چین کے صوبے سنکیانگ کے مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی بنیاد پراب تک کمیونسٹ پارٹی کے چار نچلے درجے کے عہدیداروں کونامزد کرکے انہیں مغربی دنیاکے دوروں سے روکاگیاہے اورمغرب میں اثاثے رکھنے پربھی پابندی عائدکی گئی ہے۔اس کے جواب میں چین نے بھی مغربی دنیاکے قانون سازوں کواپنے ہاں آنے سے روک دیاہے۔ان میں برطانیہ کے دارالعوام خارجہ امورکی کمیٹی کے سربراہ ٹام ٹیوگنڈیٹ ،جرمن پارلیمان کے رکن رائنہارڈ بوٹیفکوفر اورفرانس کے سوشلسٹ رکن پارلیمان رافیل گکلسمین شامل ہیں۔ ان اقدامات کے جواب میں فرانس میں چینی سفیرکواحتجاجاًدفترخارجہ طلب کیاگیاتاکہ اُن سے مختلف امورپروضاحت طلب کی جاسکے۔

جوکچھ چین اورمغربی دنیاکے درمیان ہورہاہے اُس سے چین اوریورپی یونین کے درمیان سرمایہ کاری کے معاہدے کی یورپی یونین اور یورپی ممالک سے الگ الگ باضابطہ توثیق کے امکانات محدود ہوتے جارہے ہیں۔2020ءکے آخرتک اس معاہدے کوفریقین کیلئےغیر معمولی کامیابی قراردیاجارہاتھامگراب معاملہ بگڑچلا ہے ۔چین نےاب تک یورپی ممالک کے حوالے سے جواقدامات کیے ہیں وہ کارگرثابت ہوئے ہیں کیونکہ برطانیہ،فرانس اورجرمنی کومحسوس ہواہے کہ اُنہیں خطرناک حالات وواقعات کاسامناہوسکتاہے۔دوسری طرف امریکانے اب تک یہی ثابت کیاہے کہ وہ چین کے معاملے میں واضح اپروچ اپناناچاہتاہے۔امریکی صدرجوبائیڈن چین اورروس دونوں کے حوالے سے کوئی بھی بات چھپ کراوردب کرنہیں کررہے ہیں۔ انہوں نے ٹی وی پرروسی صدرپیوٹن کوقاتل کہاہے اورصدارتی مہم کے ایک مباحثے میں انہوں نے چینی صدرشی جن پنگ کودھوکے بازبھی قراردیاتھااورحال ہی میں چین کویہ کہہ کرمتنبہ کیاہے کہ”امریکاچین کومکمل عالمی معاشی کیک کھانے کی اجازت ہرگزنہیں دے گا”جس کے جواب میں چین نے ہمیشہ کی طرح مکمل خاموشی اختیارکررکھی ہے اوراپنی پالیسسیوں پرگامزن ہے۔

امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل کے حوالے سے سوچنے والوں کے پلیٹ فارم’’دی اٹلانٹک کاؤنسل‘‘نے اب’’دی لانگرٹیلی گرام‘‘میں کہاہے کہ اگرامریکاکی قیادت میں فعال مغربی لبرل نظام کے تحت کام کرناہے توچین کواپنی قیادت میں تبدیلی لاناہوگی۔ دی اٹلانٹک کونسل کے تحت شائع کیے جانے والے’’دی لانگر ٹیلی گرام‘‘کے مصنف کانام منظرِعام پرنہیں لایاگیاہے۔اس میں امریکی قیادت سے کہاگیاہے کہ اگرچین اورروس سے بہترطورپرنپٹناہے توجاپان، آسٹریلیا اور بھارت سے تعلقات کووسعت دیناہوگی۔ساتھ ہی ساتھ اس بات پربھی زوردیاگیا ہے کہ جاپان اورجنوبی کوریاکے درمیان اختلافات گھٹانے اورتعلقات خوشگوار بنانے پربھی توجہ دی جانی چاہیے تاکہ یہ دونوں ممالک مل کرمغربی دنیاکاعمومی طورپر اورواشنگٹن کاخصوصی طورپرساتھ دیں۔علاوہ ازیں،دی اٹلانٹک کونسل کے اِسی مضمون میں امریکاپربھی زوردیاگیاہے کہ وہ روس سے معاملات درست کرنے پرتوجہ دے۔یہ سب کچھ اصلاًاس لیے ہے کہ چین اور روس میں حکومت ہی نہیں بلکہ حکومتی نظام کوبھی تبدیل کردیاجائے۔یہ جنگ کے باضابطہ اعلان سے کچھ زیادہ دورکامعاملہ نہیں کیونکہ گھیراتنگ توکیاہی جارہا ہے۔یادرہے کہ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں روس کے دودرجن سے زائدسفارتی افرادکوامریکابدکیاگیاتھااورامریکاکے اتحادیوں برطانیہ، فرانس اورچنددیگرممالک نے بھی روسی ڈپلومیٹ کوملک سے نکال کر امریکاویورپ کے ساتھ اپنی یکجہتی کااظہارکیاتھا۔

یورپ کیلئےالجھنیں ہی الجھنیں ہیں۔برطانیہ،فرانس،جرمنی اوردیگریورپی طاقتیں مخمصے کاشکارہیں۔حقیقت یہ ہے کہ چین اب اُن کیلئے امریکا سے بڑی منڈی ہے ۔اکیسویں صدی میں جرمنی کے دوچانسلرگیرہارڈشروڈراوراینگلامرکل نے جمہوریت کوفروغ دینے کے لبرل نظام کے بڑے آئیڈیل کوچین اورروس کیلئے برآمدات بڑھانے کے آئیڈیل پرقربان کردیاہے۔

پولینڈکے سابق وزیرخارجہ اورسابق وزیردفاع رادیک سکورسکی نے،جواب پارلیمان کے رکن ہیں،حال ہی میں ایک مقالہ شائع کیاہے، جس میں اس بات پر زور دیاگیاہے کہ یورپی یونین کوچین کی جانب سے چلائی جانے والی غلط بیانی کی مہم اورمسلط کیے جانے والے بیانیوں کے خلاف شدید مزاحمت کرنی چاہیے۔رادیک سکورسکی کاشماریورپ کے ان قانون سازوں میں ہوتاہے جوخارجہ پالیسی اورچین سے تعلقات کے حوالے سے غیر معمولی بے باکی پرمبنی خیالات کے حامل ہیں۔ ان کایہ بھی کہناہے کہ یورپی یونین کے کمیشن نے2019ء میں چین کومختلف معاشی مفادات کا حامل ملک ہونے کے باوجودایک ممکنہ اچھاشراکت دارقراردینے سے متعلق جومؤقف اپنایاتھاوہ اب فرسودہ ہوچکاہے اورچین کوایک کٹّرحریف کے طورپرہی لیناچاہیے۔

مغربی طاقتیں چین کی پالیسی میں رونماہونے والی تبدیلیوں پرگہری نظررکھے ہوئے ہیں۔ان کے خیال میں چین دھیرے دھیرے اپنی پالیسیوں میں ایسی تبدیلیاں لارہاہے جنہیں مغرب وامریکاکسی بھی طوربھی قبول کرنے کیلئے تیارنہیں۔وہ کسی بھی معاملے میں پیچھے ہٹنے کوتیارنہیں۔اُن کی بھرپورکوشش ہے کہ کسی نہ کسی طورمعاشی معاملات میں زیادہ سے زیادہ مفادات یقینی بنانے کی راہ اپنائی جائے۔وہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے یورپ اورامریکاکی تنقیدکواب لائقِ توجہ نہیں سمجھتا۔ہانگ کانگ اورتائیوان کے حوالے سے اُس نے جورویہ اختیارکیاہے اُس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہ اب کسی بھی سطح پرباضابطہ لڑائی کا چیلنج قبول کرنے کیلئےبھی تیارہے۔

بہت سے ممالک میں میگنٹسکی قوانین اب چینی باشندوں پراطلاق پذیرہوتے ہیں۔ان قوانین کابنیادی مقصدیہ ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اوردیگرجرائم کی بنیادپرچین اورروس کی ناپسندیدہ شخصیات کومغربی ممالک میں داخل ہونے سے روکاجائے۔ان قوانین ہی کی مددسے روسی صدرپیوٹن کے ایسے ایجنٹس کی امریکا میں آمدروکی گئی،جواہم شخصیات پرقاتلانہ حملے کرناچاہتے تھے لیکن یہ ابھی محض الزام ہے اوراس کاکوئی ثبوت بھی سامنے نہیں آسکا۔یہی معاملہ برطانیہ کابھی تھا۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے مغربی یونین کاکچھ بھلاہوگایاچین کوکچھ نقصان پہنچ سکے گا۔اب تک تویہی ثابت ہوا ہے کہ ایسے اقدامات محض نمائشی نوعیت کے ہیں۔سنکیانگ میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام کی بنیادپرچینی کمیونسٹ پارٹی کے جن چارنچلے درجے کے عہدیداروں پرپابندیاں عائد کی گئی ہیں اُن کے مغرب میں اثاثے ہیں نہ وہ مغربی اداروں سے کسی طرح کاکاروباری لین دین کرتے ہیں۔دوسری طرف برطانوی وزیراعظم نے سنکیانگ کے کمیونسٹ پارٹی چیف چین کوانگو کے خلاف پابندیاں عائدکرنے سے گریزکیاہے جبکہ امریکاچاہتاہے کہ چین کوانگو کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔

کیامغربی اوربالخصوص یورپی جمہوریتیں اتنی ہی بے بس ہوگئی ہیں؟کیااب وہ چین کے خلاف کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں؟ ایک اہم تجویزیہ ہے کہ روس اورچین کے جوسیاستدان غیرمعمولی اثرورسوخ کے حامل ہیں اورپالیسیوں کی تشکیل وتہذیب پراثرانداز ہوتے ہیں، انہیں خاص طورپرنشانہ بنانے کیلئے اُن کے خلاف سوشل میڈیاپرمنظم مہم چلائی جائے۔چین اورروس کے جوسیاستدان مغربی جمہوریت کے خلاف غلط بیانی پرمبنی سوشل میڈیامہم چلانے کے ذمہ دارہیں انہیں خاص طورپرنشانہ بنانے کی تجویزپیش کی گئی ہے۔

چین اورروس نے سیاست کے حوالے سے اب تک چھاپہ ماروں کاسااندازاپنایاہے۔اب مغربی دنیامیں یہی اندازاپنانے کی بات کی جارہی ہے۔ گویایہ لڑائی میڈیا کے محاذپرلڑی جائے گی۔امریکااوریورپ میں یہ خواہش تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے کہ ایسے ماہرین تیارکیے جائیں جوسوشل میڈیا پرچین اورروس کے ناپسندیدہ سیاستدانوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ موادپیش کریں اوراِس مواد کیلئےروسیوں اورچینیوں کوحتمی منزل بنایاجائے۔

مغربی میڈیاکے بعض بااثرافرادکی طرف سے محاذپرلڑائی تیزکرنے کی تجویزکوسراہاجارہاہے۔امریکااورروس کے درمیان یہ لڑائی کچھ مدت سے جاری ہے مگراس میں وہ تیزی نہیں آئی جس کے بارے میں وہ سوچ رہے تھے۔اب ایسالگتاہے کہ امریکی قیادت نے سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ کرنے کی ٹھان لی ہے۔آثاراس بات کے ہیں کہ روسی صدرپیوٹن اوراُن کے رفقائے کارکوبطورخاص نشانے پرلیاجائے گا تاکہ ایسے بیانیے تیارکیے جائیں جن کامقصدروس کوزیادہ سے زیادہ جارح ثابت کرناہو۔یہ سب کچھ اس لیے ضروری سمجھاجارہاہے کہ اب تک پیوٹن نے مغربی میڈیاکے محاذپرغیرمعمولی نوعیت کی کامیابی حاصل کی ہے۔

مغرب میں چینی صدرشی جن پنگ کے خلاف میڈیامہم چلانے کی بات بھی اب زوردے کرکہی جارہی ہے۔عام خیال یہ ہے کہ شی جن پنگ نے خالص آمرانہ انداز اختیارکرکے اپنے ہاں جمہوریت کے پنپنے کی راہ بالکل مسدودکردی ہے۔امریکااوریورپ چاہتے ہیں کہ چین میں بھی لبرل ڈیمو کریسی کوپروان چڑھنے کاموقع دیاجائے۔شی جن پنگ نے غیرمعمولی آمرانہ اندازکے ساتھ معاملات کوچلایاہے۔ایسے میں لازم ہوگیاہے کہ ان کے خلاف بھی سوشل میڈیاپرطاقتوراوروسیع البنیادمہم چلائی جائے۔

اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیایورپی یونین اوربرطانیہ کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ چین اورروس کے خلاف میڈیاپرکوئی طاقتورمہم چلا سکیں ۔اب تک کے تجربے سے یہ ثابت ہواہے کہ ان دونوں کے پاس معاملات کوبگڑتاہوادیکھ کربے بسی سے ہاتھ ملنے کے سواکوئی راستہ نہیں بچا۔اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ جرمنی کوساتھ ملائے بغیرڈھنگ سے کچھ بھی کرناممکن نہیں ہوپارہا۔جرمنی کامعاملہ یہ ہے کہ اس کی تمام اسٹیبلشمنٹ پارٹیزچاہتی ہیں کہ فی الحال چین اورروس کے معاملے میں احتیاط برتی جائے اور کوئی بھی ایساقدم اٹھانے سے گریزکیاجائے جوبراہِ راست تصادم کی طرف لے جاتاہو۔اس کامطلب یہ ہے کہ یورپی یونین اوربرطانیہ کوفی الحال جرمنی سے روس اورچین کے خلاف کچھ خاص مددنہیں مل سکتی۔برطانیہ اورباقی یورپ کی طرح جرمنی کوبھی اپنے معاشی مفادات عزیز ہیں۔وہ چین کے خلاف ایساکچھ بھی نہیں کرناچاہتاجس سے برآمدات متاثرہوں اورسرمایہ کاری کاگراف گرے۔فرانس کوپہلے ہی مسلم ممالک کی طرف سے بائیکاٹ مہم نے خاصاپریشان کررکھاہے اوراس کی اکانومی کاگراف تیزی سے روبہ زوال ہے۔اس وقت جرمن قیادت کی کوشش ہے کہ معاشی معاملات کو سیاست کی چوکھٹ پرقربان نہ کیاجائے۔سیاسی نظام کے آئیڈیلزکومضبوط تربنانے کے نام پرمعاشی معاملات کوبربادی کی طرف دھکیلنے کی کوئی بھی کوشش جرمن قیادت کوگوارانہیں۔

صورتِ حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے یہ اندازالگانازیادہ دشوارنہیں کہ یورپی یونین اوربرطانیہ کواب کچھ اورسوچناپڑے گا۔سب سے بڑھ کرکہ وہ جرمنی کے رحم و کرم پرتوچین اورروس کے خلاف کوئی بڑی میڈیامہم چلانہیں سکتے۔ایسے میں انہیں امریکاکے ساتھ مل کر ہی کچھ کرناہوگا ۔امریکااُن کاساتھ کہاں تک دے سکے گا،یہ سوال بھی اہم ہے۔امریکاکی اپنی بھی مشکلات اورمجبوریاں ہیں۔امریکی پالیسی سازامریکااور یورپ کوبارہایہ مشورہ دے چکے ہیں کہ اس وقت چین اورروس کے خلاف جوکچھ بھی کرناہے اُس میں دانش مندی کادامن بھی تھامے رہنابڑاضروری ہے ۔محض جذباتیت کے ریلے میں بہہ کرکچھ کرنے سے ایسی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں جن پرقابوپاناپھرکسی کے بس میں نہ ہوگااورروس اورچین کا موجودہ عمل اورپالیسیاں مغرب اورامریکاکواکسارہی ہیں کہ ان سے یہ فاش معاشی غلطیاں سرزد ہوں تاکہ ان کے ردِّ عمل میں روس اورچین کھل کرمعاشی میدان عمل میں آکراپناآخری وارکریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں