خواہشات اورتمناؤں کے خون کاماتم

:Share

حالیہ انتخابات کے نتیجے میں عمران خان حلف اٹھاچکے ہیں اورسندھ کے علاوہ باقی تین صوبوں میں بھی اقتداران کی جھولی میں ہی آن گراہے۔ ماضی میں پارلیمنٹ پرلعنت وملامت کے تیروں کی بارش کرنے والوں پرہی یہ بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ اب اس کاتحفظ کریں اوراس کے وقارمیں اضافہ کریں۔قومی اسمبلی میں حلف برداری کے دوران عمران خان کی میل ملاقاتوں اوران کے دائیں بائیں رہنے والے رہنماؤں کی گفتگواور اشاروں سے نتیجہ اخذ کرنامشکل نہیں کہ حکومت نے حزب ِ اختلاف کی قوت کوتوڑنے کیلئے درپردہ زرداری کے ساتھ ہاتھ ملاکرمتحدہ اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ کردیا ہے۔عمران خان جوپچھلے کئی برس ایم کیوایم کوملک کی سب سے بڑی فاشسٹ،بھتہ خوروں اورقاتلوں کی جماعت کہہ کراس کے بانی کے خلاف لندن میں باقاعدہ مقدمہ دائرکرنے کیلئے پہنچ گئے تھے،نے بھی اشارہ ملتے ہی پی ٹی آئی کے ٹوکری میں انڈے دے دیئے ہیں اوربقول عمران خان جوہمیشہ اپنی انتخابی مہم کے علاوہ اپنے جلسوں میں چوہدری پرویزالٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑاڈاکوکہہ کرمخاطب کیاکرتے تھے، ان کوملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کااسپیکرمنتخب کرواچکے ہیں۔اپنے نظریے کاپہرہ دینے کااعلان کرنے والے جوآزادامیدواروں کوبکاؤ مال کہہ کر پکارتے رہے لیکن انتخاب کے نتائج آنے کے فوری بعد جہانگیرترین کے جہازکوان کے تعاقب میں بھیج دیااوران سب کوساتھ ملاکرحکومت تشکیل دے ڈالی جبکہ انتخابی مہم میں یہ برملااعلان کیاکرتے تھے کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھنازیادہ پسندکریں گے لیکن اس کے باوجودسندھ میں ایم کیوایم کو اپنے پروں تلے پناہ دینے کے باوجودسندھ میں پیپلز پارٹی97سیٹوں کی بدولت مضبوط حکومت بناے میں کامیاب توہوگئی ہے لیکن ایک بڑی اپوزیشن کاسامنابہرحال انہیں کرناپڑے گااورمرکزی حکومت کی طرف سے مسلسل اسے دباؤ کاسامنابھی رہے گا۔پیپلزپارٹی کے داخلی معاملات سے بھی پورا فائدہ اٹھانے کی کوششیں جاری رہیں گی ۔قومی اسمبلی میں حلف برداری کے موقع پردرگاہ نوح سرورکے گدی نشیں مخدوم جمیل الزماں نے پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری کونظر انداز کیا،اس سے سب اچھانظرنہیں آتا اوراس سے بھی سندھ کے مستقبل کاسیاسی اشارہ واضح ہوگیاہے۔
قومی اسمبلی اورچاروں اسمبلیاں وجودمیں آچکی اورقائدایوان اوراپوزیشن لیڈربھی مقررہوچکے جو بڑی خوش آئندبات ہے مگرافسوسناک پہلویہ ہے کہ پس پردہ قوتوں کے مخصوص اہداف کیلئے سرگرم ہونے اوراعلیٰ عدلیہ کے کردارکے حوالے سے مختلف حلقوں میں جوسوالات سراٹھاتے جارہے ہیں،انتخابی نتائج نے ان کومزیدتقویت پہنچائی ہے۔ روایت سے ہٹ کرپولنگ کے عمل کے شفاف ہونے کے باوجودجس طرح پولنگ ایجنٹوں کے سامنے ووٹوں کی گنتی نہ کرنے،آرٹی ایس سسٹم بیٹھنے یابٹھانے، فارم45بروقت نہ دینے ،نتائج میں غیرمعمولی تاخیر،کراچی پشاورسمیت دیگر علاقوں میں استعمال شدہ بیلٹ پیپرزکچرہ کنڈی میں جلے ہوئے اورگندے نالوں سے ملنے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ میں فارم 45اور 47نامکمل اورایجنٹوں اورپرزیزائیڈنگ افسران کے دستخطوں کے بغیرموجودہونے،سیکورٹی اداروں کی گنتی کے عمل میں مداخلت کے شواہد سامنے آنے سے عام انتخابات پربڑے بڑے سوالیہ نشانات لگ گئے ہیں۔ہارنے والے تودھاندلی کی بدترین شکائت کاالزام لگاہی رہے ہیں،جیتنے والے بھی بے یقینی کی کیفیت میں ہیں ۔اس طرح نئے منتخب اداروں پردھاندلی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں جس پربڑے پیمانے پراحتجاج بھی ہواہے اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے احتجاج جاری رکھنے کابھی عندیہ دیاہے عمران خان نے اپنی فاتحانہ تقریرمیں واضح اعلان کیاتھاکہ جس کو اعتراض ہے جوچاہے حلقے کھلوالے ،ہم تعاون کریں گے۔جونہی تین حلقوں میں گنتی کے بعد سعدرفیق کے ووٹوں میں اضافہ ہوناشروع ہواتوفوری طور پرلاہور کے اپنے حلقہ انتخاب میں مکمل دوبارہ گنتی رکوانے کیلئے بابراعوان کوالیکشن کمیشن اورلاہورہائی کورٹ میں لے جاکر کھڑا کیا ۔ ہائی کورٹ نے بھی دوبارہ گنتی کاحکم دے دیاتھاتواس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکردی گئی اورچیف جسٹس پاکستان نے حلقے کھولنے پررضامندی ظاہرنہیں کی۔ عمران خان کی تقریرکو سیاسی قراردیکرہائی کورٹ کافیصلہ منسوخ کردیا۔یوں دھاندلی کے الزامات کوتقویت ملی۔
اس سارے عمل میں بدقسمتی سے سیکورٹی اداروں اوراعلیٰ عدلیہ کے وقارکوبھی سخت نقصان پہنچاہے اورالیکشن کمیشن پاکستان کی ناکامی کا تو باربارذکر آرہاہے۔حزبِ اختلاف نے ایوانوں میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاج جاری رکھنے اورتحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا۔بظاہرتوتحریک انصاف کی قیادت نے پارلیمانی کمیٹی کے قیام پرغیررسمی آمادگی ظاہر کی ہے لیکن جن دنوں میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے باقاعدہ اجلاس ہوں گے توہی اصل صورت کاپتہ چلے گا۔دعاہے کہ اس منتخب نظام کی خامیاں دور ہوں اوریہ بہترطورپرآگے بڑے اور آئینی قانون کی حدودمیں رہتے ہوئے تمام ادارے اپناکام کریں اورتمام حکومتیں اپنی کارکردگی کوبہتر بنائیں اورعوام کوکچھ ریلیف مل سکے۔ پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرلینااورچائے والے،تھرکی ہاری عورت،لیاری کی غریب شیدی عورت کومنتخب ایوان تک پہنچانے کاپروپیگنڈہ کرکے سیاسی جماعتیں اپنا امیج بہترنہیں بناسکتیں،مجموعی طورپرسرداروں،جاگیرداروں،سرمایہ داروں،وڈیروں، دولت مندوں،سیاسی خاندانوں کاجہاں قبضہ ہووہاں چندعام غریب شہریوں کوکسی مصلحت کے تحت سینیٹ ،قومی اسمبلی یاکسی صوبائی اسمبلی کاممبربنادینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ایسے ارکان پارٹی پالیسی کے تحت دولت مندوں کے مفادات کیلئے ہی استعمال ہوں گے۔کبھی ایم کیوایم بھی دعویدارتھی کہ اس نے غریب اورمحنت کش افرادکواسمبلیوں اوروزارتوں تک پہنچادیاہے لیکن جس طرح ففٹی موٹرسائیکل پرچلنے والاالطاف حسین ارب پتی بن گیا،اس طرح یہ غریب ممبران بھی کرپشن بھتے جمع کرکے الطاف حسین کوپہنچانے کے ساتھ ساتھ خودبھی کروڑپتی بن گئے۔
تحریک انصاف خصوصاً عمران خان نے مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف پوائنٹ اسکورنگ کیلئے بلندبانگ دعوے کیے ۔مخالفین کے خلاف سنگین الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رکھااورانہیں کرپٹ اورناکام ثابت کرنے کی کوشش کی۔اس نے عوام کی توقعات بہت بڑھادی ہیں ۔ عمران خان کایہ اصول کہ الزام لگانامیراکام ہے اورثبوت تلاش کرنااداروں کاکام ہے،اب دوسروں کے کام بھی آسکتاہے۔اب وزیراعظم کی حیثیت سے عمران خان کوالزام نہیں لگانے بلکہ اپنی کارکردگی سے مخالفین کاناکام ثابت کرناہے اور اپنی برتری کاثبوت دیناہے۔دیکھنایہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں کتنی تیزی سے کتنی پیش رفت کرتے ہیں اوراپنی کابینہ اورتحریک انصاف اسمبلیوں کے ارکان سے انہیں کتنا تعاون ملتا ہے جن کی کافی تعداد پیپلزپارٹی،ن لیگ،مسلم لیگ ق اوردیگر پارٹیوں سے ہی تعلق رکھتی ہے اورجنہیں ماضی میں عمران خان بدترین کرپٹ اورلٹیرے قرار دیتے رہے ہیں۔آزاد امیدواروں کوبکاؤ مال اوردیگرچھوٹے چھوٹے گروپس اب ان کے اتحادی ہیں اورانہیں وفاداراورساتھ رکھنابھی کارداردہے۔
حلف برداری کی تقریب میں نہ صرف آصف زرداری اورعمران خان بڑے پرتپاک اندازمیں ملے بلکہ تصاویربھی بنوائیں،نیزبلاول زرداری جب اسمبلی میں دیگراراکین اسمبلی سے مل رہے تھے توعمران خان کھڑے بلاول کے منتظررہے اورنہ صرف خوشدلی سے مصافحہ کیابلکہ اس کے ساتھ بھی تصاویربنوائیں جوبعدازاں میڈیامیں بھی دکھائی گئیں۔اسی طرح عمران خان نے شہباز شریف سے بھی مصافحہ کیالیکن اس طرح تصاویرتو نہیں بنوائیں اورنہ ہی حال احوال دریافت کیا گیااورعمران خان اسی اسمبلی میں بڑے خوش وخرم نظرآرہے تھے جس کوانہوں نے پچھلے پانچ برس تک مسلسل نہ کوئی وقعت دی بلکہ ملامت اورشدیدتنقیدکانشانہ بنائے رکھا۔اس میں شک نہیں کہ اپنے شدیدناپسندیدہ مخالفین سے ملنا مثبت ہے لیکن یہاں پیپلزپارٹی کی طرف ان کاصاف جھکاؤ نظرآیااورمسلم لیگ ن سے بے رخی بھی صاف دکھائی دی ۔عمران خان ہمیشہ اپنے مخالفین کے خلاف انتہائی سخت زبان کا استعمال کرتے تھے اوربالخصوص زرداری کوملک کی سب سے بڑی بیماری کہہ کر مخاطب کرتے رہے لیکن بلاول کے بارے میں اپناروّیہ اورزبان ہمیشہ سے محتاط رکھی۔
بلاول نے حلف برداری کی تقریب میں بھی اپنے روّیے سے یہ واضح فرق محسوس کرانے کی پوری کوشش کی جب رجسٹرمیں دستخط کرنے کے بعد جہاں ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں کرتے رہے وہاں اپنے والدآصف زرداری کے پاس پہنچ کران کے منہ کے دونوں طرف بوسے دیکر عمران خان کو یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی کہ پیپلزپارٹی سے اگرتعاون درکارہے تویہ راستہ آصف زرداری سے ہوکرگزرتاہے۔یہ شائداس لئے ضروری سمجھا گیاکہ تحریک انصاف کے ایک وفدنے قبل ازیں سیدخورشیدشاہ سے ملاقات کرکے ان سے درخواست کی وہ متحدہ اپوزیشن کے اسپیکرکے امیدوار کے طورپرمقابلہ نہ کریں بلکہ تحریک انصا ف کے امیدواراسدقیصرکی حمائت کریں جبکہ عمران خان کویہ بخوبی علم تھاکہ خورشیدشاہ زرداری کی مرضی کے بغیرکوئی فیصلہ ہی نہیں کرسکتے۔اگرچہ پس پردہ قوتوں کے تعاون سے تحریک انصاف آزادامیدواروں اورچھوٹے کئی گروپس سے سودے بازی کرکے اقتدارمیں حصہ داربنانے کے وعدے کرکے الیکشن میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن اسے پھربھی خوف تھاکہ چونکہ اسپیکرکے انتخاب میں خفیہ رائے دہی کا طریقہ اپنایاجاتاہے اس لئے دوتین ممبران بھی اِدھراُدھرہوگئے تواکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اس لئے اپنی سرپرست قوتوں سے سے بھی کمک طلب کی اورپیپلزپارٹی کو رابطوں میں واضح یقین دہانی کروائی گئی کہ حکومت پورے ایوان کوساتھ لیکر چلناچاہتی ہے اس لئے اسپیکرمتفقہ طورپرمنتخب کیاجاناچاہئے۔اسدقیصرکے پی کے اسمبلی کے اسپیکررہے ہیں جنہیں عمران خان نے خدامات کے صلے میں اب اسپیکرقومی اسمبلی کاامیدوارنامزدکیاہے جن کے خلاف مبینہ طورپرنیب بھی تحقیقات کررہی ہے۔وہ اسلام آبادمیں 35 کنال پرپھیلے ہوئے بنگلے کے مالک ہیں جوکروڑوں روپے مالیت کاہے۔آئندہ اس تحقیقات کاکیاہوگا،کچھ نہیں کہاجاسکتا،یہ تو چیئرمین نیب ہی بتاسکتے ہیں جنہوں نے میڈیاکے سامنے کئی مرتبہ برملایہ اعلان کررکھاہے کہ ان کے سامنے سب برابرہیں اورنیب کی تحقیقات میں کسی سے کوئی رورعائت نہیں برتی جائے گی۔
2016ء میں آصف زرداری کے فوج کے ساتھ تعلقات اس وقت انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے جب انہوں نےفوج کے سپہ سالارجنرل راحیل کو اپنی ایک تقریرمیں دہمکی دیتے ہوئے اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا دعویٰ کیاتھاتاہم یہ الگ بات ہے کہ اس دہمکی کے بعد اس کمبل سے جان چھڑانے کیلئے کافی جتن کئے گئے،یہاں تک کہ پاکستان چھوڑ کردبئی میں جاکرڈیرے لگالئے جہاں بیٹھ کر سندھ حکومت کوبھی کنٹرول کرتے رہے اورکراچی میں امن قائم کرنے کیلئے مرکزی حکومت کے حکم پر رینجرز کی تعیناتی میں توسیع دیتے ہوئے بھی درپردہ معاملات سلجھانے کیلئے بھی کوششیں جاری رکھی گئیں اورپس پردہ بات چیت کاسلسلہ بھی جاری رکھااوربالآخرنومہینے دبئی میں رکنے کے بعدایک نئے این آراوکے تحت انہیں صادق وامین کا سرٹیفکیٹ مل گیا۔ان کے خلاف نیب نے تمام مقدمات میں کلین چٹ جاری کردی جس کے عوض بلوچستان اسمبلی میں انقلاب لانے اورمسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت ختم کرنے کیلئے ان کی خدمات پہلے حاصل کی گئیں پھرسینیٹ کے انتخابات میں خصوصاًچیئرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے عمران خان کوان کاپارٹنربناکراستعمال کیا اورپس پردہ قوتوں نے اپنے ہدف کے مطابق پہلی بڑی کامیابی حاصل کرلی۔
سینیٹ میں حزب اختلاف نے اکثریت حاصل کرکے مسلم لیگ ن کی نوازشریف اورشاہدخاقان عباسی حکومتوں کوقانون سازی کے سلسلے میں بے بس کردیا۔حالیہ انتخابات کے بعد ہی انقلاب الٹ ہوگیاہے ۔اب اپوزیشن خصوصاًمسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کوعمران خان کی حکومت کے خلاف سینیٹ میں واضح اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔اسپیکرقومی اسمبلی میں اپنااسپیکربنانے میں تو کامیاب ہوگئی ہے لیکن سینیٹ میں اس کوبھی شدید مشکلات کاسامناہوگا۔وزیراعظم کاانتخاب توایوان میں ارکان کی ڈویژن سے ہوتاہے اس لیے جوممبربھی سودے بازی کے دائرے میں آچکا ہووہ اس سے انحراف کی جرأت نہیں کرسکتالیکن خفیہ بیلٹ میں دوتین ارکان کے اِدھراُدھرہوجانے کاخطرہ رہتاہے۔اس سے دونوں اطراف متاثر ہو سکتے ہیں۔1985ء کی اسمبلی میں غیرجماعتی بنیادپرتمام ارکان منتخب ہوکرآتے تھے،جب اسپیکرکاانتخاب ہوا توصدرضیاء الحق کاامیدوار شکست کھاگیا تھا اوراس کے مقابلے میں فخرامام جیت گئے تھے جس کاخاندان مسلم لیگ ق،مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی سے ہوتاہوااب تحریک انصاف تک پہنچاہے۔ اگرسرکاری امیدواراب ہارجائے تواس سے عمران خان کی اکثریت کااندرکاحال بے نقاب ہوجائے گا،اس لئے پس پردہ ہرطرح کی سودے بازی کی کامیاب کوشش کے بعدہی ایوان میں اسپیکرکاانتخاب عمل میں آیا۔
آصف علی زرداری کوجن کی سندھ حکومت کوہرسطح پر کرپٹ ترین ناکام اورعوام دشمن قرار دیا جاتاتھاانہیں عام انتخابات میں2013ء کی66 نشستیں دلانے کاانتظام کردیاگیالیکن اب اومنی گروپ کے ذریعے 40 ارب کی منی لانڈرنگ میں آصف علی زرداری اوران کی بہن فریال تالپور کوبھی ایف آئی اے نے ملوث کردیاہے۔اومنی گروپ کے انور مجیدکی کرپشن اورآصف علی زرداری کی طرف سے ان کی سرپرستی کے حوالے سے پہلے نیب اورایف آئی اے کہاں تھے؟شوگرمل مافیاکے طور پر اومنی گروپ کی لوٹ مار،سرکاری زمینوں پرقبضے،سوئی سدرن اوروفاقی حکومت کو بلیک میل کرکے نوری آباد پاورجنریشن پلانٹ کیلئے سوئی گیس کنکشن میں ایک ارب روپے کی رعائت حاصل کرنے سمیت درجنوں معاملات ریکارڈپرہیں لیکن کوئی کاروائی بھی نہیں کی گئی بلکہ آصف زرداری کوامین وصادق کاسرٹیفکیٹ جاری کردیاگیا۔ اومنی گروپ یازرداری گروپ کے حوالے سے منی لانڈرنگ کیس کی بھی گزشتہ دوسال سے تحقیقات جاری تھیں۔یقیناًیہ کیس حقائق پرمبنی ہوگا مگراس کے حوالے سے کبھی کوئی قانونی اقدام نہیں اٹھایاگیا۔ سپریم کورٹ نے انتخابات کے دوران ایف آئی اے اورنیب کوحکم دیاکہ آصف زرداری اورفریال تالپوراس وقت انتخابات میں مصروف ہیں ،اس لئے ابھی انہیں طلب نہ کیاجائے مگراب سپریم کورٹ میں اس سماعت کے دوران بڑے سخت اورتلخ ریمارکس آرہے ہیں اور بڑی تیزی سے معاملات آگے بڑھائے جارہے ہیں جبکہ دوسری طرف نیب کے چیئرمین نے رپورٹ پیش کی ہے کہ این آراوکے تحت آصف زرداری کے خلاف ختم ہونے والے اوردیگرمقدمات جن کی تحقیقات بندکردی گئیں تھیں اب دوبارہ نہیں کھولے جاسکتے خصوصاً سوئس اکاؤنٹس تو ہرگز نہیں کھولے جاسکتے۔ ان کیسزکے معاملات کے حوالے سے وقت کی بڑی اہمیت ہے۔
شائدیہ اسی طرح کامعاملہ ہے کہ گزشتہ اپریل میں اچانک نیب نے پریس ریلیزجاری کرکے طوفان برپاکردیاتھاکہ نوازشریف خاندان بھارت 4.90 ارب ڈالرزرمبادلہ منتقل کرنے میں ملوث ہے،اس نے غداری کی۔نیب نے اس سے پہلے کبھی ایسانہیں کیاتھاکہ کسی کیس کی مناسب تحقیقات کرکے شواہدجمع کیے بغیرمنظرعام پرلایاگیاہو۔ایک کالم نگار کاگزشتہ یکم فروری 18ء کواس بارے میں ایک کالم شائع ہواتھامگردوماہ اس بارے میں مکمل خاموشی رہی۔پاکستان سے یہ رقم دبئی بھیجے جانے کاشبہ2015-16ء میں سامنے آیا تھامگرنیب،ایف آئی اے تمام ادارے چپ سادھے رہے لیکن عام انتخابات نگراں حکومت کے قیام اورکیس کاشریف خاندان کے خلاف فیصلہ سنائے جانے سے پہلے اس معاملے کودانستہ بڑے پیمانے پر میڈیاکے ذریعہ ہوادی گئی جس پرنوازشریف نے خود تحقیقات کرانے کابھی مطالبہ کیالیکن جب نوازشریف،مریم نواز،کیپٹن صفدرکو سزا سنادی گئی تو اس کے بعدمعلوم نہیں یہ بھارت کویہ خطیررقم بھیجنے والاسنگین غداری کامقدمہ کہاں دفن ہوگیا جبکہ ماہرین نے پہلے دن ہی کہاتھاکہ ایک سال کے دوران اتنی خطیررقم منتقل کرنے کاالزام ناقابل فہم ہے کیونکہ ایساہوناممکن نہیں ہے لیکن مخصوص اہداف کیلئے اس کوچندٹی وی چینلز سے خوب اچھالاگیا،پھربھی یہ واضح ہوگیاکہ مقدمے میں سزاکاجوازتھایانہیں لیکن عام انتخابات کے دوران نوازشریف اورمریم نوازکوہر صورت جیل میں رکھنے کافیصلہ کیاگیاتھااوراس پرنہ صرف عمل کیاگیابلکہ اس کاانتظام بھی کیاگیاکہ انتخابات کے دوران ان کی ضمانت کی درخواست بھی نہ سنی جائے اور25جولائی کے بعدسماعت کیلئے لگایاجائے۔ہدف تھاکہ کسی طرح بھی مسلم لیگ ن کوانتخابات کے بعدکہیں بھی حکومت نہیں بنانے دیناجو ہرطرح کی قوت اورہتھکنڈے استعمال کرکے حاصل کرلیاگیا۔
نامساعدحالات میں بھی مسلم لیگ ن تحریک انصاف کے مقابلے میں پنجاب اسمبلی میں زیادہ سیٹیں لینے میں کامیاب ہوگئی توبھی دھونس دہمکی ضمیر خریدنے کے تمام حربے کھلے عام اختیارکیے گئے ،شہبازشریف،حمزہ شریف خاندان کے دیگرافراد،شریف خاندان کے قریبی اعلیٰ افسران سب کو نیب اورعدالتوں میں قطارباندھ کرکھڑاکردیاگیا۔انتخابی اخراجات اورضابطہ اخلاق پرعمل کے سلسلے میں حساس سپریم کورٹ اورپاکستان الیکشن کمیشن کوپتاہی نہیں چلاکہ سپریم کورٹ سے بددیانتی اورنااہل قرارپانے والاتحریک انصاف کاسیکرٹری جنرل جہانگیرترین اپنے ہوائی جہاز کے ذریعے جال پھیلاکران تمام آزادممبران جن کوعمران خان بکاؤمال کہہ کران کوووٹ نہ دینے کاکہاکرتے تھے،بنی گالہ پہنچادیااوران سب کی وفاداریاں عمران خان کے جھولی میں ڈال دی گئیں۔
عمومی یہی تاثرہے کہ آصف زرداری اورفریال تالپورکے خلاف سرعت رفتاری سے عدالتی کاروائیاں نیب اورایف آئی اے کے ذریعے دباؤڈالنے کاحصہ ہے تاکہ انہیں مسلم لیگ ن کے ساتھ اپوزیشن میں مؤثرکرداراپنانے سے روکاجاسکے۔پیپلزپارٹی یاتووفاق میں عمران خان کاحصہ بن جائے تاکہ مستقبل میں مستقل طورپروفاقی حکومت کیلئے خطرات ٹل جائیں یاکم ازکم وہ فرینڈلی اپوزیشن کاروّیہ اپنائے ۔اس بارے میں یہ پیغام بھی دیاگیا کہ اگرپی پی وفاقی حکومت کیلئے مشکلات پیدانہ کرے توڈاکٹرعاصم،شرجیل انعام میمن اورپی پی قیادت کے دیگرمقدمات میں ملوث افرادکوبھی ریلیف دیاجاسکتاہے اورسندھ حکومت کیلئے بھی آسانیاں فراہم کی جاسکتی ہیں اور تحریک انصاف کے سندھ اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے اراکین بھی تعاون کریں گے۔سب سے پہلے پس پردہ قوتیں اورعمران خان کی حکومت مسلم لیگ ن کوتنہاکرناچاہتی ہیں تاکہ انہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ایسی حیثیت حاصل نہ رہے کہ وہ عمران خان کی حکومت کیلئے رکاوٹیں پیداکر سکیں یانوازشریف خاندان کی ریلیف کیلئے دباؤ ڈال سکیں کیونکہ بعض سنیئرجج صاحبان کی طرف سے پس پردہ قوتوں کے دباؤ اورنوازشریف ،مریم نوازاورکیپٹن صفدرکوسنائی گئی سزاؤں کے بارے میں جوریمارکس آئے ہیں ،اس پرمقتدرحلقے مطمئن نہیں ہیں ،ہوسکتاہے کہ شریف خاندان کے افرادکوجیل میں رکھنے اورمزیدکوبھجوانے کیلئے نئے مقدمات بنوانے پڑیں اوریہ تب ہی ممکن ہوگاجب قومی اسمبلی ،سینیٹ اورپنجاب اسمبلی میں ن لیگ کے زیادہ سے زیادہ ارکان کی وفاداریاں تبدیل کرائی جاسکیں،اگرمسلم لیگ ن کے ارکان دباؤ کے باوجوداپنی جگہ برقراررہے توعمران خان کی حکومت کیلئے بھی مشکلات پیداہوسکتی ہیں اورشریف خاندان کوریلیف دینا بھی مجبوری ہوگی،بہرحال کھیل جاری ہے۔
آئندہ چندماہ میں پتہ چل جائے گاکہ یہ کیارخ اختیارکرتاہے ۔ان دنوں آصف زرداری اورفریال تالپورجس طرح زدمیں ہیں ،دیکھنایہ ہے کہ آیا آصف زرداری اوربلاول زرداری عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یاپس پردہ حمائت کی کوئی حکمت عملی اپناتے ہیں۔اسپیکرکے انتخاب میں توخفیہ رائے دہی کانظام تو تحریک انصاف کیلئے سودمند رہا لیکن وزیراعظم کے انتخاب کیلئے کھلے عام رائے دہی کاطریقہ اختیارکیاجاتاہے جس کیلئے اپوزیشن میں تقسیم نے سارابھانڈہ کھول دیا۔اچانک آصف زرداری کے فیصلے نے اپوزیشن کوتقسیم کردیااورشہبازشریف کی حمائت سے ہاتھ اٹھالیا جبکہ اپوزیشن نے اپنے متفقہ فیصلے میں خودپیپلزپارٹی نے شہبازشریف کی حمائت کاعندیہ دیاتھاگویاسیاسی تجزیہ نگاروں نے اسی دن اندازہ لگالیاکہ آصف زرداری اپنی ذاتی مشکلات سے نکلنے کیلئے پس پردہ قوتوں کے سامنے بے بس نظرآتے ہیں اوریہی ڈرامہ ایک مرتبہ پھر صدارتی انتخاب میں بھی دہرانے کاعمل اس لئے ضروری ہوگیاکہ سینیٹ میں پی پی کی اکثریت ہے اوراپوزیشن کی تقسیم سے تحریک انصاف کے صدارتی امیدوارکی کامیابی یقینی بنادی گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے اس سیاسی اشتراکِ عمل کے بعدعمران خان کی نظریاتی سیاست کاجنازہ توخودان کے اپنے ہاتھوں سے ہی نکل گیااوراب ان کازرداری کی کرپشن کااحتساب کانعرہ اپنے اقتداراورمفادات کے ہاتھوں شرمندۂ تعبیرہونے سے قبل ہی اپنی موت مرگیاکیونکہ عمران خان نے سندھ میں پی پی کی کرپشن ،ڈاکہ زنی،ملکی خزانے اوروسائل کو لوٹنے کے الزامات،ایم کیوایم کی دہشتگردی،بھتہ خوری کوچیلنج کرنے کے نام پرووٹ حاصل کئے تھے،اب سندھ اوربالخصوص کراچی کے وہ عوام جنہوں نے عمران خان کایقین کرتے ہوئے ووٹ دیئے تھے،ان کوریلیف کون دے گا؟ایم کیوایم اورپی ایس پی کے وہ افرادجنہوں نے اپنی جماعتوں کوچھوڑکرتحریک انصاف میں شمولیت اختیارکی تھی اورعمران خان کے امیدواروں بالخصوص سب سے متنازعہ عامرلیاقت جیسے امیدوارکوکامیاب بھی کروایا،وہ اب روپوشی کی زندگی اختیار کرنے پر مجبورکردیئے گئے ہیں بلکہ حال ہی میں تحریک انصاف کے صوبائی اسمبلی کے کامیاب امیدوارعمران شاہ کے کراچی کے ایک بزرگ سرکاری ملازم پرسرعام تشددسے تویہ لگتاہے کہ تحریک انصاف والوں میں بھی ایم کیوایم کے جرائم پیشہ افرادکی روح حلول کررہی ہے اورشہری یہ سوچ رہے ہیں کہ ایسے میں کراچی،حیدرآباداوردیگرشہروں کے امن کاکیابنے گاجہاں گزشتہ سال سے لوگوں نے ایم کیوایم اوردیگرجرائم پیشہ عناصر دہشتگردوں سے نجات حاصل کرکے کچھ سکون کاسانس لیاہے۔
تحریک انصاف کے نظریاتی اورجذباتی کارکن توعمران خان کی طرح ایم کیوایم کی حمائت حاصل کرنے اورپی پی سے مفاہمت کی پالیسی بنانے پر یوٹرن لینے کی کوششیں کررہے ہیں لیکن ان سے کوئی دلیل نہیں بن پارہی تووہ اپنے متعارف کرائے گئے آپے سے باہرہونے کے کلچرکاسہارالے رہے ہیں ،اب اصل امتحان توتحریک انصاف کے ووٹرزکاہوگاکہ وہ تحریک انصاف کے منشور اورعمران خان کے بلندبانگ دعوؤں اوروعدؤں کے محل کی بنیادوں کے نیچے سے مٹی سرکنے پربھی وہیں کھڑے رہتے ہیں یااِدھراُدھرہوکراپنی خواہشات اورتمناؤں کے خون کاماتم کرتے ہیں۔ بہرحال فی الحال انتظارکیاجاناچاہئے شایدابھی یہ مرحلہ آنے میں کچھ وقت لگے گا۔
ایم کیوایم کسی بھی نام سے ہو،وہ پتنگ کے نشان پرمتحدہے اورپتنگ الطاف حسین کانشان ہے باقی سب دھوکہ ہے،انتخابات کے دوران بھی یہ ثابت ہوگیاہے۔پی ایس پی کے چیئرمین مصطفی کمال اورصدرانیس خانی الگ کھڑے کئے گئے تھے مگرانہیں زیروکردیاگیا۔کچھ مذہبی گروپوں کوبھی ساتھ ہی میدان میں اتاراگیا اوران سے بھی اپناکام لیکرفارغ کر دیاگیاکیونکہ سیاسی ضروریات پوری کرنے کیلئے کچھ اورتقاضے تھے۔ایم کیوایم کوقابومیں رکھنے کیلئے 12مئی2007ء کاسانحہ بھی یادآگیا ہے اوراسے بھی سندھ ہائی کورٹ میں زندہ کیاگیاہے،اس طرح بلدیہ فیکٹری کراچی میں 20 کروڑکابھتہ نہ دینے پرتالے لگاکر260سے زائدمحنت کشوں کوزندہ جلانے کے مقدمات تودرج ہیں ،وہ بھی سامنے آسکتے ہیں ،اوربھی سینکڑوں مقدمات ہیں اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایم کیوایم کی قیادت اورارکان اسمبلی پس پردہ قوتوں کی مرضی کے خلاف جاسکیں،شائدایم کیوایم کی قیادت کو یقین دلایاگیاہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی بھی ان کیلئے کوئی مسائل پیدانہیں کرے گی اور اگرکوئی مسئلہ پیداہواتوان سے نمٹ لیا جائے گا۔اس لئے ایم کیوایم یکسوہوکرتحریک انصاف کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہے اورایم کیوایم کامنہ بندکرنے کیلئے دواہم وزارتیں بھی ان کے حوالے کر دی گئیں ہیں بہرحال وقت جلدبہت سے ابہام دورکردے گا۔
پیپلزپارٹی اپنی سابقہ شناخت کے ساتھ ہی سندھ میں حکومت بناچکی ہے۔پی پی کی قیادت کے اندر سے ناصرشاہ کوآگے لانے کی تجویزآصف زرداری نہیں منواسکے حالانکہ پہلی مرتبہ آصف زرداری اپنے خاندان کے سات افرادکو سندھ اسمبلی میں ایم پی اے بنوانے میں کامیاب ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجودمرادعلی شاہ کودوبارہ اسی تنخواہ پرکام کرنے کاموقع فراہم کیاگیاہے۔آغاسراج درانی جواپنے حلقہ انتخاب پی ایس 9ضلع شکار پورمیں اپنے ووٹروں کے سوال کے جواب میں کہتے تھے کہ میں تمہارے ووٹ پرپیشاب بھی نہیں کرتاہوں ،وہی سندھ اسمبلی کے اسپیکرکے عہدے پربراجمان ہوگئے ہیں۔وزیروں کے کچھ چہرے ضروربدلیں ہیں لیکن سندھ میں دوردورتک کوئی ایسی تبدیلی نظرنہیں آسکی۔ نگراں حکومت عوامی بہبودکے سلسلے میں کوئی خاص قدم آگے نہیں بڑھاسکی ۔خصوصاً کرپشن کاعفریت بدستوراسی سطح پرہے۔نگران وزیراطلاعات جمیل یوسف نے دوٹوک کہا تھاکہ 80فیصداشتہارات بھاری کمیشن لیکرڈمی اخبارات اورمیڈیاکے دیگر ذرائع کودیئے جاتے ہیں۔سندھ اسمبلی کی تاریخی بلڈنگ کے مقابلے میں 4.65ارب روپے کی لاگت سے جونئی بلڈنگ بنائی گئی ہے،وہ سیمنٹ سریے کاپہاڑہے،اس میں بڑی کرپشن ہوئی ہے مگراب تک کوئی تحقیقات سامنے نہیں آئی کہ کرپٹ عناصرکوبے نقاب کیاجاسکے۔کیاعمران خان کی کرپشن،لاقانونیت اوراختیارات کے ناجائزاستعمال کے خاتمے کے دعوے کرنے کی بنیادپربننے والی حکومت عوام کوکچھ ریلیف دے سکے گی؟رہاآصف زرداری کامعاملہ توان کیلئےیکے بعد دیگرے عزیر بلوچ جیسے کئی اورخوفناک اموران کے داغداردامن کوتارتارکرنے کیلئے موجودہیں جن کاریموٹ کنٹرول کسی اورکے ہاتھ میں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں